عبید اللہ عابد
روس یوکرائن جنگ سے متعلق اس وقت سب سے بڑا سوال ہے کہ پانچ ماہ گزرنے کے باوجود روس اپنے مقاصد کیوں حاصل نہیں کر پایا ؟ کیا وہ اپنے مقاصد حاصل کر پائے گا ؟ عسکری ماہرین کا کہنا ہے کہ روس ( دفاعی بجٹ : سالانہ 60 بلین ڈالر ) نے اپنے سے چھوٹی یوکرائنی فوج (دفاعی بجٹ : سالانہ صرف چار بلین ڈالر)کی مزاحمت کی قوت اور صلاحیت کو سمجھنے میں غلطی کی۔
اس بات کے واضح شواہد موجود ہے کہ روس نے یوکرائن پر حملہ کرنے سے قبل جنگی حکمت عملی پر بھی زیادہ توجہ نہیں دی۔ شاید اس کا بھی خیال تھا کہ وہ تیزی سے اپنے اہداف حاصل کرلے گا لیکن ایسا نہ ہوا۔ نتیجتاً اب روس کے بکتر بند قافلوں کو ایندھن ،خوراک اور گولہ بارود کی کمی کا سامنا ہے۔ رسد لانے والی فوجی گاڑیاں راستے ہی میں خراب ہوگئیں ، چنانچہ انھیں راستے ہی میں چھوڑ دیا گیا، پھر انھیں یوکرائنی ٹریکٹروں کے مدد سے ہٹایا گیا۔
اس کا واضح مطلب ہے کہ یوکرائن پر جنگ مسلط کرنے سے پہلے اچھی منصوبہ بندی ہرگز نہیں کی گئی تھی۔ اب جوں جوں جنگ طول پکڑ رہی ہے ، عام طور پر خیال کیا جارہا ہے کہ صدر پوتن کی افواج جذبہ کھو چکی ہیں ، یوکرائن میں پھنس چکی ہیں اور آہستہ آہستہ مگر یقینی طور پر بھاری جانی نقصان اٹھا رہی ہیں۔
اس کے برعکس یوکرائن کو مغربی ممالک سے گولہ بارود اور ہتھیاروں کی سپلائی حاصل ہے، جو اس کی فوج کے حوصلے بلند رکھے ہوئے ہے۔ امریکہ ٹینک شکن اور طیارہ شکن ہتھیار فراہم کررہا ہے ۔ اس میں سوئچ بلیڈ نامی ہتھیار بھی شامل ہے، جو ایک چھوٹا ، امریکی تیار کردہ ’ کامیکاز ‘ ڈرون ہے جسے زمین پر اہداف پر چھوٹے دھماکہ خیز مواد گرانے کے لیے لانچ کیے جانے سے پہلے ایک بیگ میں لے جایا جا سکتا ہے۔
اس کا یہ بھی مطلب نہیں ہے کہ یوکرائنی فوج کو مشکلات کا سامنا نہیں ہے۔ ہاں ! جوں جوں وقت گزر رہا ہے کہ اس کی مشکلات میں کمی واقع ہو رہی ہے کہ مغرب کی طرف سے رسد میں تیزی آ رہی ہے۔
یوکرائن نے اتحادی ممالک سے کہا ہے کہ وہ ہتھیاروں کی فراہمی تیز کریں اور ماسکو پر پابندیاں بڑھائیں ۔28 اپریل 2022ءکو امریکی صدر جوئی بائیڈن نے کانگریس سے یوکرائن کی مدد کے ضمن میں 33 ارب ڈالر مانگے تھے، ان میں سے 20 ارب ڈالر سے اسلحہ خریدنا تھا۔
پانچ مئی کو یوکرینی وزیراعظم ’ دنیز شمیھال‘ نے بتایا کہ جنگ کے آغاز سے مغربی ممالک سے 12ارب ڈالر کا اسلحہ ملا ہے۔ اکیس مئی 2022ءکو امریکہ نے ایک قانون منظور کیا جس کے نتیجے میں 40 ارب ڈالر کی فوجی اور انسانی امداد یوکرائن کو فراہم کی جا رہی ہے ۔ یہ دنیا میں سب سے بڑی غیر ملکی امداد ہے جو کسی ملک کو دی جائے گی ۔
جولائی کے وسط میں یورپی یونین نے500 ملین یورو (507 ملین ڈالر) کا اسلحہ یوکرائن کو فراہم کرنے کی منظوری دی تھی۔ جنگ شروع ہونے کے بعد اب تک یورپ اپنے تحفظ کے لئے ڈھائی ارب ڈالر کے منصوبے شروع کرچکا ہے۔
امریکی حکام کا کہنا ہے کہ روسی صدر کو ان کے مشیر گمراہ کر رہے ہیں، وہ انھیں بتانے سے ڈرتے ہیں کہ یوکرائن میں جنگ کے برے نتائج سامنے آ رہے ہیں ۔ مشیر انھیں یہ بھی نہیں بتا رہے ہیں کہ جنگ کے آغاز کے بعد سے پابندیوں کی صورت میں روسی معیشت کتنی متاثر ہوئی ہے۔ اس تناظر میں امریکی حکام یہ بھی دعویٰ کر رہے ہیں کہ ’ پوتن اور فوجی قیادت کے درمیان تنائو مسلسل بڑھ رہا ہے۔‘ دوسری طرف برطانوی انٹیلی جنس ایجنسیوں کا بھی دعویٰ ہے کہ یوکرائن میں موجود روسی فوجیوں کے حوصلے ٹوٹ رہے ہیں، ان کے پاس سامان کم پڑ رہا ہے جبکہ وہ اب احکامات پر عمل درآمد سے بھی انکار کر رہے ہیں۔
کیا میدان جنگ ٹھنڈا پڑنے کے کچھ امکانات موجود ہیں ؟
یوکرائن کا کہنا ہے کہ روس نے سفارت کاری مسترد کردی ہے، وہ مذاکرات کے بجائے خون بہانے کے حق میں ہے۔ یادرہے کہ روسی وزیرخارجہ سرگئی لاوروف نے یوکرائن کے ساتھ امن مذاکرات کے خیال کو مسترد کردیا ہے۔ ان کا کہنا ہے : ” موجودہ صورتحال میں امن مذاکرات کا کوئی تصور نہیں ہے۔“