عبید اللہ عابد
روس اور یوکرائن نے بائیس جولائی کو اناج کی برآمدات کے لیے بحیرہ اسود کی یوکرائنی بندرگاہوں کو دوبارہ کھولنے کے لیے ایک تاریخی معاہدے پر دستخط کر دیے ہیں۔ امید ہے کہ اس معاہدے کے نتیجے میں خوراک کے بین الاقوامی بحران کو کم کیا جا سکتا ہے۔ یہ بحران یوکرائن پر روسی حملے کے سبب پیدا ہوا تھا۔ معاہدہ اقوام متحدہ اور ترکیہ کی ثالثی کا نتیجہ ہے۔
اس معاہدے کے مطابق ماسکو سخت مغربی پابندیوں کے باوجود روسی اناج اور کھاد کی ترسیل میں نرمی کرتے ہوئے یوکرائن اناج کی برآمدات کو بحال کر دے گا۔ اس معاہدے کا روس کی اناج کی برآمدات کو بھی فائدہ ہوگا۔
یہ معاہدہ فی الحال 120 دنوں کے لیے ہے۔ اب اوڈیسا ، چرنومورسک اور پِوڈینیی کی بندرگاہیں گندم کی ترسیل کرنے کے لیے کھولنے کے لیے استعمال ہو سکیں گی۔
فنانشل ٹائمز نے کہا ہے کہ یہ معاہدہ اندازے کے مطابق دو کروڑ بیس لاکھ ٹن گندم، مکئی اور دیگر فصلوں کو یوکرائن کے ساحل سے کارگو جہازوں کے ذریعے اکٹھا کر کے پوری دنیا میں منتقل کرنے کی اجازت دے گا، جس سے خوراک کے عالمی بحران کے خدشات کو ٹالا جا سکے گا۔
یوکرائن کے کسانوں کے پاس اس وقت دو کروڑ ٹن اجناس ذخیرہ ہیں ، جو جنگ کے باعث بین الاقوامی منڈیوں میں نہیں بھیجی جاسکیں۔ یوکرائن پرجوش انداز میں زیادہ سے زیادہ اجناس برآمد کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ اس وقت دنیا میں سورج مکھی کے تیل کی برآمدات میں یوکرائن کا حصہ 42 فیصد ہے جبکہ مکئی میں 16 فیصد اور گندم میں نو فیصد ۔
دنیا میں بہت سے ممالک کا انحصار یوکرائن پر ہے۔ لبنان اپنی گندم کا 80 فیصد یوکرائن سے درآمد کرتا ہے۔ انڈیا خوردنی تیل کا 76 فیصد ۔ پاکستان میں درآمد ہونے والی گندم کا 48 فیصد بھی یوکرائن سے آتا ہے۔ اقوام متحدہ کا پروگرام برائے خوراک جو بھوک سے متاثرہ ملکوں مثال کے طور پر ایتھوپیا، یمن اور افغانستان کو خوراک مہیا کرنے کے لیے 40 فیصد گندم یوکرائن سے لیتی ہے۔
معاہدے کی تقریب میں ترکیہ کے صدر طیب اردوان نے اپنے خطاب میں کہا : ” ہمیں ایک ایسے اقدام میں اہم کردار ادا کرنے پر فخر ہے جو خوراک کے عالمی بحران کو حل کرنے میں اہم کردار ادا کرے گا جو ایک طویل عرصے سے ایجنڈے پر ہے ۔ آج کا معاہدہ خوراک کی حفاظت اور دنیا بھر میں مہنگائی کو کنٹرول کرنے میں مدد کرے گا۔“