بکریوں اور بھیڑوں کا ریوڑ

عید الاضحیٰ : قربانی کے احکام اور مسائل

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

حمیرا علیم 

قربانی ایک عظیم شعائر اللہ ہے۔اس کے ذریعے ہم اللہ تعالٰی کی وحدانیت، اس کی ہم پر رحمت اور ابراہیم علیہ السلام کی اللہ تعالٰی کے لیے فرمانبرداری کو یاد کرتے ہیں۔ادھیہ اس جانور کو کہا جاتا ہے جسے ہم اللہ کی راہ میں ذی الحج کے ایام تشریق یعنی عید الاضحٰی سے تیرہ ذی الحج تک اس لیے  ذبح کرتے ہیں کیونکہ یہ حکم ربی ہے۔

“اس لیے اپنے رب کے لیے نماز پڑھیے اور قربانی کیجئے۔ ” الکوثر 2

“کہہ دو کہ بے شک میری نماز اور میری قربانی اور میرا جینا اور میرا مرنا اللہ ہی کے لیے ہے جو سارے جہان کا پالنے والا ہے۔”

سورہ الانعام 162

“اور ہر امت کے لیے ہم نے قربانی مقرر کر دی تھی تاکہ اللہ نے جو چارپائے انہیں دیے ہیں ان پر اللہ کا نام یاد کیا کریں، پھر تم سب کا معبود تو ایک اللہ ہی ہے پس اس کے فرمانبردار رہو، اور عاجزی کرنے والوں کو خوشخبری سنا دو۔”

الحج 34

امام ابو حنیفہ،  امام احمد اور ابن تیمیہ کی رائے میں سورہ الکوثر کی آیت اور حدیث کی رو سے ادھیہ واجب ہے۔ 

” جو کوئی قربانی کی استطاعت رکھتا ہو مگر قربانی نہ کرے تو اسے ہماری مسجد میں نہیں آنا چاہیے۔” ابن ماجہ

” ہر گھر کے لوگوں کو چاہیے کہ ہر سال ایک قربانی کریں۔” احمد 20207

ابی داؤد 2788

امام مالک اور امام شافعی کے مطابق یہ سنت موکدہ ہے۔وہ دلیل کے طور پر یہ حدیث پیش کرتے ہیں۔

” جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:” میں نے عیدالاضحٰی کی نماز نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے ساتھ ادا کی ۔ نماز کی ادائیگی کے بعد دو مینڈھے  لائے گئے اور آپ نے انہیں ذبح کیا۔ انہوں نے فرمایا :” اللہ کے نام پر اللہ اکبر ۔ یہ میری طرف سے اور میری امت کے ان لوگوں کی طرف سے جنہوں نے قربانی نہیں کی۔” سنن ابو داؤد 48

” جس نے نماز سے پہلے ذبح کر لیا، وہ اپنے لئے ذبح کرتا ہے اور جس نے نماز کے بعد کیا ، اس کی قربانی مکمل ہو گئی۔ اور وہ مسلمانوں کے طریقے کو پہنچا ہے۔”

دونوں آراء ہی درست ہیں۔لیکن بہتر یہی ہے کہ جو استطاعت رکھتا ہو وہ ادھیہ ضرور کرے۔اور یہ حکم مردوں دونوں کے لیے ہے۔

جواہر العقلی شرح المختصر خلیل میں لکھا ہے:

” اگر کسی ملک کے لوگ ادھیہ کے انکاری ہوں تو ان سے جنگ کی جائے کیونکہ یہ ایک اسلامی رسم ہے۔” شیخ ابن عثیمین 

قربانی کی کچھ شرائط ہیں۔

1: بکری کا بچہ چھ ماہ کا، بکری ایک سال کی اور گائے دو سال کی اور اونٹ پانچ سال کا ہو ۔ ایک بھیڑ یا بکری ایک شخص کی طرف سے کافی ہے۔

ترمذی میں ایک  روایت میں اس بات کا ذکر ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانے میں ایک شخص اپنی طرف سے اور اپنے گھر والوں کی طرف سے ایک بکری کی قربانی کرتا تھا اور اسی بکری سے خود بھی کھاتا اور دوسروں کو بھی کھلاتا تھا۔”

کچھ علماء کے نزدیک بہترین قربانی اونٹ کی پھر گائے کی اور پھر بھیڑ کی ہے اور پھر اونٹ اور گائے میں حصہ ہے ۔دلیل میں وہ یہ حدیث پیش کرتے ہیں :” جمعہ کے لیے سب سے پہلے آنے والا ایک اونٹ کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے ، پھر اس کے بعد والا ایک گائے کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے ، پھر اس کے بعد والا ایک بکری کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے ، پھر اس کے بعد والا ایک بطخ کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے ، پھر اس کے بعد والا ایک مرغی کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے ، پھر اس کے بعد والا ایک انڈے کی قربانی کرنے والے کی طرح ہے“ بخاری 929

مسلم 850

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے مینڈھے ، اونٹ اور گائے سب کی قربانی کی لہٰذا جو شخص آسانی سے جس جانور کی قربانی کر سکے اسے وہی لینا چاہیے ۔ کیونکہ اسلام آسانی چاہتا ہے سختی نہیں۔

ایک گائے یا اونٹ میں سات لوگ بھی حصہ ڈال سکتے ہیں۔

جابر بن عبد اللہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے انھوں نے کہا حدیبیہ کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کی معیت میں ہم نے سات افراد کی طرف سے ایک اونٹ اور ایک گا ئے سات کی طرف سے قربانی دیں ۔” مسلم 1318

2: اس میں کوئی خامی نہ ہو۔

” نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا: ” چار قسم کے جانوروں کی قربانی جائز نہیں ہے:

1.ایسا کانا جانور جس کا کانا پن ظاہر ہو ۔

2.ایسا بیمار جس کی بیماری واضح ہو ۔

3.ایسا لنگڑا جانور جس کا لنگڑاپن ظاہر ہو۔

4.انتہائی کمزور اور لاغر جانور جس کی ہڈیوں میں گودا نہ ہو۔”

سنن ابوداود2806

،سنن نسائی4374

3: قربانی کے جانور کو بیچنا منع ہے ۔ ہاں اسے بہتر جانور کے ساتھ تبدیل ضرور کیا جا سکتا ہے ۔ اگر قربانی کا جانور بچہ دے تو اسے بھی اس جانور کے ساتھ ہی ذبح کرنا چاہیے ۔ بوقت ضرورت اس پہ سواری کی جا سکتی ہے۔

” نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک شخص کو اونٹ ساتھ چلتےدیکھا تو فرمایا : ” اس پہ سوار ہو جائو ۔” اس نے جواب دیا : ” یہ قربانی کے لیے ہے ۔” نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : “سوار ہو جا ” آپ نے دو بار یہ دوہرایا۔” 

4: قربانی عید کی نماز کے بعد سے لے کر تیرہ ذی الحج کی شام تک کی جا سکتی ہے۔حدیث نبوی صلعم ہے۔

” جو کوئی نمازعید سے پہلے قربانی کرے۔اسے دوبارہ قربانی کرنی چاہیے۔”بخاری و مسلم 

” نحر کے تین دن ہیں ۔ عیدالاضحٰی اور اس کے بعد کے تین دن۔” یعنی چار دن تک قربانی کی جا سکتی ہے۔

قربانی کے گوشت کے ساتھ کیا کیاجا سکتا ہے؟

1: قربانی کرنے والے کے لیے مستحب ہے کہ اگر ممکن ہو تووہ قربانی کا گوشت ہی کھائے اور اس سے پہلے کچھ نہ کھائے۔

” ہر شخص کو قربانی کا گوشت کھانا چاہیے۔” الجامی 5349

ایک اور روایت کے مطابق:” نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم عیدالاضحٰی کے دن کچھ نہیں کھاتے تھے جب تک کہ وہ قربانی نہ کر لیتے۔” المشکوہ 452

“نبی کریم صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے آخری حج کے موقع پر سو اونٹ قربان کیے ۔ آپ نےاپنے ہاتھوں سے تریسٹھ اونٹ قربان کئے پھر علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کو برچھا عطا فرمایا اور انہوں نے باقی قربانیاں ذبح کیں پھر قربانی کے ہر جانور میں سے ایک ایک بوٹی کٹوا کر ہانڈی میں پکوائی۔ آپ نے  اور علی رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اس گوشت میں سے کچھ کھایا اور شوربہ بھی پیا۔” مسلم 1218

2: قربانی کرنے والے کے لیے بہتر ہے کہ وہ اپنے ہاتھ سے ذبح کرے ۔ لیکن اگر وہ ایسا نہیں کر سکتا تو قربانی کے وقت موجود ضرور ہو۔

3: قربانی کے تین حصے کرنا مستحب ہیں ۔ ایک تہائی اپنے کھانے کے لیے ،  ایک تہائی تحفہ دینے کے لیے اور ایک تہائی صدقے کے لیے ۔ گوشت یا کھال بیچنا جائز نہیں۔

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : ” جو کوئی اپنے قربانی کے جانور کی کھال بیچتا ہے اس کی قربانی نہیں۔” صحیح الجامی 6118

نہ ہی قصاب کو اس کا گوشت، کھال یا کوئی بھی حصہ بطور اجرت یا تحفتادینا جائز ہے ۔ نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا : “ہم اسے اپنے پاس سے کچھ دے دیں گے۔” مطلب اسے اپنے ہاں آنے والے گوشت میں سے کچھ دیا جا سکتا ہے مگر اپنی قربانی کے جانور میں سے نہیں ۔ کیونکہ وہ اپنے کام کی اجرت لے چکا ہوتا ہے۔

قربانی کرنے والے کے لیے کچھ احکام ہیں۔

1: حدیث رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم ہے۔

: ” جب تم میں سے کوئی قربانی کا ارادہ رکھتا ہو اور ذوالحجہ کا چاند دیکھا تو اسے چاہیے کہ اپنے بال اور ناخن اس وقت تک نہ کاٹے جب تک کہ قربانی نہ کر لے۔”

ایک اور روایت میں ہے:” اسے اپنے بالوں اور ناخنوں کو نہیں چھوڑنا چاہیے۔” مسلم 146

اگر کسی وجہ سے کوئی شخص بال یا ناخن کاٹ لے تو اسے اللہ تعالٰی سے معافی مانگنے چاہیے ۔ لیکن اسے کوئی فدیہ نہیں دینا اور اس کی قربانی بھی ہو جائے گی ۔ اس کی مصلحت یہ ہے کہ قربانی کرنے والا بھی محرم کی طرح ہوتا ہے ۔ جیسے حالت احرام میں کچھ چیزیں ممنوع ہیں ویسے ہی قربانی کرنے والے کے لیے کچھ کام ممنوع ہیں ۔ اگر کوئی کسی دوسرے شخص کو اپنی قربانی کے لیے مقرر کرتا ہے ۔ جیسے کہ بیرون ملک رہنے والے کچھ لوگ اپنے ملک میں کسی رشتےدار کو قربانی کے لیے کہتے ہیں تو مقرر کردہ شخص پر یہ پابندی نہیں ہے۔  

حضرت عائشہؓ سے روایت ہے :’’ بیشک رسول اللہ صعلم نے سینگوں والا ایک مینڈھا لانے کا حکم دیا جس کے ہاتھ پاؤں ، پیٹ اور آنکھیں سیاہ ہوں چنانچہ وہ آپ ؐکے سامنے لایا گیا تاکہ آپ  اس کی قربانی کریں ۔ پھر آپ  نے ان سے فرمایا : اے عائشہ ! چھری لاؤ ۔ پھر آپ نے فرمایا : اس کو پتھر پر تیز کرو ۔ انہوں نے حکم کی تعمیل کی ۔ آپ نے چھری کو تھاما اور مینڈھے کوذبح کرنے کے لیے لٹا دیا اور فرمایا : اللہ تعالیٰ کے نام کے ساتھ ! اے اللہ ! محمد ، آل محمد اور امت محمد کی طرف سے قبول فرما ۔ اورجانور کو ذبح کیا۔‘‘صحیح مسلم۔

کسی مرے ہوئے شخص کی طرف سے بھی قربانی کی جا سکتی ہے ۔ اور یہ بھی اس کے لیے صدقہ ہو گا۔

ذبیح کا طریقہ 

چاہے قربانی ہو یا ویسے ہی ذَبْح کرنا ہوسنّت یہ چلی آ رہی ہے کہ ذَبْح کرنے والا اور جانور دونوں قبلہ رُو ہوں۔ اور ذَبْح کرنے والا اپنا دایاں (یعنی سیدھا ) پاؤں جانور کی گردن کے دائیں ( یعنی سیدھے ) حصّے ( یعنی گردن کے قریب پہلو ) پر رکھے اور ذَبْح کرے اور خود اپنا یا جانور کا مُنہ قبلے کی طرف کرنا ترک کیا تو مکروہ ہے۔

قربانی کا جانور ذبح کرنے سے پہلے یہ دعا پڑھی جائے 

اِنِّیْ وَجَّهْتُ وَجْهِیَ لِلَّذِیْ فَطَرَ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضَ حَنِیْفًا وَّ مَاۤ اَنَا مِنَ الْمُشْرِكِیْنَۚ اِنَّ صَلَاتِیْ وَ نُسُكِیْ وَ مَحْیَایَ وَ مَمَاتِیْ لِلّٰهِ رَبِّ الْعٰلَمِیْنَۙ۔لَاشَرِیْکَ لَہٗ وَبِذٰ لِکَ اُمِرْتُ وَاَنَامِنَ الْمُسْلِمِیْنَ۔

اور جانور کی گردن کے قریب پہلو پر اپنا سیدھا پاؤں رکھ کر اَللّٰھُمَّ لَکَ وَمِنْکَ بِسْمِ اللّٰہِ اَللّٰہُ اَکْبَر۔ پڑھ کر تیز چُھری سے جلد ذَبْح کردیجئے ۔ قربانی اپنی طرف سے ہو توذَبح کے بعد یہ دعا پڑھئے: 

اَللّٰھُمَّ تَقَبَّلْ مِنِّیْ کَمَا تَقَبَّلْتَ مِنْ خَلِیْلِکَ اِبْرَاھِیْمَ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُوَ السَّلَامُ وَحَبِیْبِکَ مُحَمَّدٍ صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم۔

اگردوسرے کی طرف سے قربانی کریں تو مِنِّی کے بجائے مِنْ کہہ کر اُس کا نام لیجئے ۔ بوقتِ ذَبح پیٹ پر گھٹنا یا پاؤں نہ رکھئے کہ اس طرح بعض اوقات خون کے علاوہ غذا بھی نکلنے لگتی ہے۔

  گائے وغیرہ کو گرانے سے پہلے ہی قبلے کا تَعَیُّن کر لیا جائے ، لِٹانے کے بعد بِالخصوص پتھریلی زمین پر گھسیٹ کر قبلہ رُخ کرنا بے زَبا ن جانور کیلئے سخت اذیَّت کا باعث ہے ۔ ذَبْح کرنے میں اتنا نہ کاٹیں کہ چھری گردن کے مُہرے ( ہڈی) تک پہنچ جائے ۔ جب تک جانور مکمَّل طور پر ٹھنڈا نہ ہو جائے نہ اس کے پاؤں کاٹیں نہ کھال اُتاریں ، ذَبْح کر لینے کے بعد جب تک رُوح نہ نکل جائے چھری کٹے ہوئے گلے پر  مَس کریں نہ ہی ہاتھ۔

بعض قصّاب جلد ’’ ٹھنڈی ‘‘ کرنے کیلئے ذَبْح کے بعد تڑپتی گائے کی گردن کی زندہ کھال اُدھیڑ کر چُھری گھونپ کر دل کی رگیں کاٹتے ہیں ، اِسی طرح بکرے کوذَبْح کرنے کے فوراً بعد بے چارے کی گردن چٹخا دیتے ہیں ، بے زبانوں  پر اِس طرح کے مظالم نہ کئے جائیں۔

“جب تم ذَبح کرو تو اَحسن طریقے سے ذَبح کرو اور تم اپنی چُھری کو اچّھی طرح تیز کرلیا کرو اور ذَبیحہ کو آرام دیا کرو۔ “صَحیح مُسلِم 1955

نبی صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا:”کیا تم اسے کئی موتیں مارنا چاہتے ہو؟ اسے لٹانے سے پہلے اپنی چُھری تیز کیوں نہ کر لی؟‘‘اَلْمُستَدرَک لِلحاکم 327

اللہ تعالٰی ہماری عبادات اور قربانی کو قبول فرمائے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں