عید کے موقع پر پارک میں بچے ، ایک روپیہ کا پرانا نوٹ

عید میرے بچپن کی

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

قانتہ رابعہ

لفظ عید کے ساتھ ہی نئے کپڑے نئے جوتے ،عیدی کے نام پر ملنے والی معقول رقم (جو بہت شرافت کے ساتھ امی کو دے دی جاتی تھی۔ اور ان کی مرضی پوری دیں یا آدھی)، امی کے ہاتھ کا بنا سوجی اور میدے کا اصلی گھی والا حلوہ، شیر خرمہ اور زمانے بھر کی آوارہ گردی ہی یاد آتی ہے۔

ہاں عمر مبارک کے چند سال کیلینڈر آگے لے گیا تو عید منانے کا انداز قدرے بدل گیا۔ پہلے امی تازہ تازہ پسی ہوئی مہندی بھگو کر رات گئے لگاتی تھیں اور ساتھ میں کپڑے کی تھیلیاں دونوں ہاتھوں پر باندھ کر تاکید کی جاتی کہ دونوں بند مٹھیوں کو ٹیڑھا رکھنا، سیدھا بالکل نہیں کرنا . وجہ یہ بتائی جاتی کہ ٹیڑھی مٹھی پر عید کی صبح جب کپڑے کی تھیلیاں کھولی جائیں گی (ابھی شاپنگ بیگز کا زمانہ نہیں آیا تھا) تو دونوں ہاتھوں پر سرخ رنگ کی بطخیں بن چکی ہوں گی۔

یہ اور بات ہے کہ مجھے مہندی کی خوشبو سے ابکائیاں آنا شروع ہو جاتیں اور بیچاری بطخیں دو تین گھنٹوں میں ہی تھیلیاں کھلنے کی وجہ سے یا تو چونچ کے بغیر ہوتیں یا ان کی پیدائشی دم غائب ہوتی۔ خیر تب ساری رات اٹھ اٹھ کر چوڑیاں چیک کی جاتیں، سرہانے رکھے کپڑے دیکھے جاتے، جوتوں کو پاؤں میں بار بار ڈال کر چیک کیا جاتا کہیں راتوں رات پاؤں کا سائز تو چھوٹا بڑا نہیں ہو گیا۔

اس کے علاوہ میرے مرحوم بھائی اویس جو عمر میں مجھ سے دو سوا دو سال بڑے تھے کی تیاری دیکھنے کے قابل ہوتی تھی۔ شلوار قمیض کے اوپر نئی جیکٹ یا واسکٹ پہن کر پلاسٹک کا کالا چشمہ لگا کر، جناح کیپ پہن کر بالکل قائد اعظم کے انداز میں چلتے تھے۔

بالعموم ہم دونوں ہی ہاتھوں میں ہاتھ ڈال کر بڑے مزے سے امی کے ہاتھ کا بنا دو رنگا حلوہ، سویاں عزیز واقارب میں دینے جاتے۔ اس کے بعد جوابی کاروائی ظاہر ہے یہی ہوتی ہے کہ ہم اس دور کے حساب سے عیدی سے نوازے جاتے جو بہت شرافت سے امی کی مٹھی میں دے دیتے۔

عید کی نماز سے قبل ہمارے ہاں ایک ہنگامِ محشر برپا ہوتا تھا۔ باجی جلدی جلدی بستر کی پرانی چادریں تبدیل کر کے نئی بچھاتیں، میں پستہ بادام کی ہوائیاں کاٹتی جو مجھ بے ڈھنگی سے کبھی ڈھنگ کی نہ کٹیں۔ پھر بڑے بھائی جو چھٹی پر آئے ہوتے باریک سی چھری سے کاٹ کر سکھاتے یوں کاٹو کہ درمیان سے بس چھلکے جیسی باریک ہوتیں۔ کئی کئی کلو دودھ ابالنے کے بعد چولہے پر ہلکی آنچ پر دھرا ہوتا کہ شیر خرمہ میں دودھ گاڑھا چاہئیے ہوتا۔

ان دنوں سخت گرمیوں میں روزے آتے اور عید کی صبح میں روح افزاء کی پوری بوتل بیس کلو والے واٹر کولر میں انڈیل کر دو کلو چینی جھونک دیتی، ساتھ ہی ایک کلو لیموں لے کر ان کا رس نچوڑ کر ڈالتی جاتی۔ جب یہ کام مکمل ہوجاتا تو فریج سے برف کے چھے سات پیالے نکال کر شامل کرتی۔ پانی کے نام پر دو تین پانچ کلو والی بالٹیاں بھی اوندھا دیتی۔ اس کے بعد شیشے کے نئے گلاس قریب رکھی تپائی پر ٹرے میں رکھ کر مسجد چلی جاتی۔ جہاں سینکڑوں خواتین عید کی نماز کے لیے جمع ہوتیں۔

جونہی امی اور میں داخل ہوتے امی پہلی صف میں چلی جاتیں اور میں ان کے قریب جگہ پر قبضہ کر لیتی۔ امی عید کی نماز کے لیے مسنون طریقہ بتاتیں . روزوں کو الوداع کہتے ہوئے ان کی آواز بھرا جاتی، پھر عید کی نماز کی تکبیروں کا از سر نو یاد کروا کے عید کی نماز پڑھاتیں۔ میں پیچھے مڑ کر دیکھتی تو حقانی مسجد پوری کی پوری عورتوں سے بھر چکی ہوتی۔ عید کی نماز کے بعد امی سے ہر عورت گلے مل کر عید کی مبارک باد دیتیں۔ فارغ ہوتے ہی دو چار قدم کے فاصلے پر واقع گھر میں داخل ہوتے۔

مردوں کی نماز تب کمیٹی باغ میں ہوا کرتی تھی اور تمام گھروں میں سب سے پہلا گھر ہمارا ہی راستے میں پڑتا تھا۔ سب مرد عید کی نماز کے بعد ہمارے ہاں آتے۔ گھر کے دروازے دو گلیوں میں کھلتے تھے۔ ہمارے گھر کا بڑا دروازہ کمیٹی باغ کے قریب تھا۔ یوں ایک تو ابا جی بھائیوں میں سب سے بڑے اور امی بہنوں میں سب سے بڑی ہونے کی تکریم کے طور پر پہلا گھر ہمارا ہوتا . پکی اینٹوں کا صحن سارا بھر جاتا۔ برآمدے میں چارپائی اور کرسیاں رکھی ہوتیں سب کو چنا چاٹ شیر خرمہ اور اس وقت تک برف گھل کر ٹھنڈے یخ پانی میں تبدیل ہو جاتی تو ٹھنڈا ٹھار روح افزاء گلاسوں میں ڈال کر دیا جاتا۔

یہ لمحے آج بھی دل و دماغ پر نقش ہیں وہ ہنستے مسکراتے ایک دوسرے سے گلے مل کر مبارکباد دیتے ہوئے۔ موبائل فون اگر تھے بھی تو ہر کسی کی پہنچ میں نہیں تھے۔ کیا وہ وقت پھر سے نہیں آسکتا؟؟ اور آج کی طرح برگر پیزا کی بجائے ٹافیاں بسکٹ ہی پر قناعت کرنا پڑتی۔

ایسی ہی عیدوں میں سے ایک عید تھی کہ ایک لڑکی جس کا نام رضیہ تھا اور امی سے قرآن پڑھنے آتی تھی , مجھے بارہا دعوت دے چکی تھی کہ کسی دن میری طرف ضرور آنا۔ بقول اس کے کہ ان کے گھر میں پیلو کا پودا ہے اور پیلی پیلی پکی پیلو درخت پر ہمہ وقت کھانے کی دعوت دیتی ہیں۔

انہی عیدوں میں سے ایک دن تھا جب رضیہ ہمارے ہاں آئی اور خوب اصرار کر کے امی سے اجازت لے کر مجھے اپنے پہلو والے گھر میں لے گئی، گھر میں واقعی پیلو کا درخت موجود تھا ، خوب پکی ہوئی پیلو تھیں منی منی سی۔ کچھ دیر کھیل کود میں زور ٹوٹا تو اس کی دادی نے ہمیں ایک روپیہ کا نیا کڑکڑاتا نوٹ دیا . ساتھ میں چار کلومیٹر لمبی ہدایات جو کہ ان کے پوپلے منہ سے سرائیکی زبان میں برآمد ہوئیں، جو ہماری سمجھ میں خاک نہیں آئیں۔

ہم اس نوٹ کو عیدی سمجھ کر قبول کرتے ہوئے گول چوک والے بازار میں پہنچے۔ ( یاد رہے ہم سے مراد ہماری آٹھ نو سال کی منی سی جان ہے ) وہاں پر برف کے گولے والا الہ دین اور ہماری مٹھی میں بند روپیہ، اس کے گولے چھوٹی ڈی گلاسی میں ملتے تھے یا تنکے میں لپٹی ہوئی چھتری کی شکل میں جسے چوس چوس کر ادھ موا کردیا جاتا تھا۔

ہاں جتنے پیسے زیادہ ہوں وہ اسی حساب سے مور چڑیا اور دوسری شکلوں میں بھی دستیاب ہوتے . ہم نے پانچ پیسے دس پیسے سے شروع ہو کر چونی والا گولہ کھایا جب پیسے ختم ہوئے تو کھیلتے کودتے شام ڈھلے گھر پہنچے تو رضیہ کی دادی ہماری منتظر تھیں۔ سرائیکی میں وہ داستان امیر حمزہ شروع کر کے بیٹھی تھیں۔

مجھے دیکھتے ہی امی کا پارہ اونچا پہنچ گیا . دیکھتے ہی غصے سے بولیں : تمہیں انہوں نے ایک روپیہ دیا تھا؟ ظاہر ہے سر جھکانے کے کوئی اور صورت نہ تھی ، بولیں : کہاں ہیں سرخ مرچیں؟ انہوں نے پسی ہوئی سرخ مرچیں لانے کے لیے پیسے دیے تھے۔ اف اس کے بعد مت پوچھیے کیا حال ہوا۔ اس بوڑھی خرانٹ عورت پر کتنا غصہ آیا . اپنی پوتی پوتے کو گھر میں بٹھا کر مہمان بچی وہ بھی پوتی کی استانی کی بیٹی کو بازار میں مرچیں لانے کے لیے بھیج دیا، واہ واہ، کیا چالاک عورت ہے۔

بہرحال عید تو بچوں کی ہی ہوتی ہے۔ لیکن اب کے بچوں اور تب کے بچوں میں بہت فرق ہے۔ تب خوشیاں وافر تھیں، ریاکاری نہیں تھی ، لوگ سوشل میڈیا کے فتنے کا شکار نہیں ہوئے تھے. بلڈ پریشر ، شوگر ہر گھر کے ہر دوسرے فرد کی کہانی نہیں تھا۔ خوشی کے موقع کو دل کی خوشی سے منایا جاتا تھا۔ جب کہ اب بچے ہوں یا جوان بوڑھے ہوں یا کسی بھی عمر کے حصے میں عید موبائل فون ہتھیلی پر رکھ کر شروع ہوتی ہے اور اسی پر ختم ہوجاتی ہے۔

ہائے وہ کیا سہانا دور تھا!!! جو ہمارے بچوں کے تصور میں بھی نہیں آسکتا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “عید میرے بچپن کی”

  1. رخسانہ کوثر وہاڑی Avatar
    رخسانہ کوثر وہاڑی

    بچپن کی یاد دلا دی آج تو یہ سب خواب لگتا ہےاس وقت کا اخلاص ومحبت۔۔۔اور آج منافقت بھرے رویے۔ بہت عمدہ تحریر