مسلمان امریکی لڑکی دیگر لڑکیوں کے ساتھ گفتگو کرتے ہوئے

امریکا : دور کے ڈھول سہانے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مدثر محمود سالار

امریکا میں چند ماہ پہلے میری شفٹ میں چاکلیٹ کمپنی کی نمائندہ خاتون ماہانہ وزٹ پر آئی۔ ان دنوں پٹرول کی قیمت بڑھنے کی وجہ سے تقریبا ہر ہفتے اشیاء کی قیمتوں میں اضافہ ہورہا تھا ۔ میں نے ازراہ مذاق کہا:

” مار دو بیچارے چاکلیٹ کے شوقین لوگوں کو۔ ہر ہفتے قیمت بڑھے گی تو کون چاکلیٹ اور چپس خریدے گا۔ لوگ روزمرہ کا کھانا پینا ہی اگر نہیں خرید سکیں گے تو یہ زبان کے چسکے تو بھول ہی جاﺅ“۔

وہ خاتون افسردگی کا اظہار کرتے ہوئے کہنے لگی:” کچھ سمجھ نہیں آرہی ! مہنگائی کا سیلاب ہم سب کو تباہ کردے گا۔“

بہرحال باتوں باتوں میں اسے میں نے کہہ دیا کہ ”میں تو چند ماہ بعد سمجھو ، امریکا سے بھاگ کر اپنے وطن پاکستان چلا جاﺅں گا ، آپ لوگ کیا کرو گے ؟ آپ کا تو جینا مرنا اسی ملک میں ہے۔ “ دور کے ڈھول سہانے ہوتے ہیں، امریکا میں بھی دن بدن بڑھتی مہنگائی نے عوام کا پیس دیا ہے۔

آپ کو امریکا کی خوش نما اور پرکشش جنت نما زندگی کی کہانیاں سنانے والے پاکستانی بہت ملیں گے۔ میں تصویر کا دوسرا رخ دکھانے پر اس لیے قادر ہوں کیونکہ مجھے امریکا میں ہر طبقے کے لوگوں کے ساتھ رہنے اور ان کا رہن سہن دیکھنے، ان کے مسائل سمجھنے کا تجربہ ہے۔

پاکستانی اکیلے ہوں یا فیملی کے ساتھ ہوں وہ اپنا ایک مخصوص حلقہ احباب رکھتے ہیں اور وہاں کے مقامی لوگوں سے ربط بھی ایک مخصوص اور محدود حد تک رکھتے ہیں۔ میری بات پر امریکا میں رہنے والے پاکستانی خصوصاً فیملی کے ساتھ رہنے والوں کو یقین نہیں آتا کیونکہ وہ اس معاشرے کی اس گہرائی میں جا کر مشاہدہ نہیں کرسکے جس طرح میں نے ہر طرح کے لوگوں کے ساتھ تعلقات بنا کر موجودہ امریکی معاشرے کا مشاہدہ کیا ہے۔

ہفتے میں تقریبا دس، بارہ گھنٹے میری گپ شپ آئی ٹی کے اس گرو سے ہوتی رہی تھی جس کے اپنے گھر میں ایک ملین ڈالر کے کمپیوٹرز کا سیٹ اپ ہے ، دوسری طرف میں آٹھ دس گھنٹے یا کبھی پندرہ سولہ گھنٹے اس بندے سے امریکی معاشرے کو سمجھ رہا ہوتا تھا جو بنک ڈکیتی کے جرم میں پندرہ سال جیل کاٹ کرآیا تھا۔

ایک طرف میرے پاس آرمی کے وہ آفیسرز دنیا جہان کی گپ لگا رہے تھے جو بارہ ، پندرہ سال عراق، شام ، افغانستان اور لیبیا میں جنگ لڑ چکے تھے تو دوسری طرف ڈرگ مافیا کے ڈان گھنٹوں مجھ سے گپ شپ کررہے ہوتے تھے۔ ایک طرف میری گپ شپ شعبہ صحت میں تیس سال تجربہ رکھنے والی ہسپتال انچارج سے تھی تو دوسری طرف معاشرے کے بدنام طبقے سے تعلق رکھنی والی طوائف سے اس کی زندگی کی کہانی سن رہا ہوتا تھا۔

مجھے اس بات کا احساس پہلے دن سا تھا کہ مجھے یہاں صرف ٹائم پاس نہیں کرنا بلکہ اس معاشرے اور تہذیب کو اس کی جڑوں تک جا کر سمجھنا ہے۔ مجھے پاکستان میں بسنے والے لوگوں کو مغرب کا وہ پہلو بھی دکھانا ہے جو ان کی نظروں سے اوجھل ہے۔

امریکا جانا، ڈالر کمانا، پاکستان میں اور امریکا میں گھر ، بنگلے، گاڑیاں بنانا اور اچھی پرآسائش زندگی گزارنا یہ سب خواب کس حد تک مناسب ہیں اور ان خوابوں کو پورا کرنے کی کیا کیا قیمت ادا کرنی پڑتی ہے ، یہ آپ نے دیکھا ہے نہ آپ کو کوئی بتائے گا۔ سب ہری ہری گھاس دکھاتے ہیں اور وہاں رہنے والے وہاں کے حقیقی مسائل شرمندگی سے بچنے کے لیے آپ کو نہیں بتا سکتے۔

دنیا میں ہر شے کی کوئی نہ کوئی قیمت ہوتی ہے جو ہمیں ادا کرنا پڑتی ہے۔ امریکا ،گرین کارڈ ، نیشنیلٹی ان سب کی ایک قیمت ہے جو ہر شخص مختلف انداز میں ادا کرتا ہے اور جب ادھیڑ عمری کو پہنچتے ہیں تب احساس ہوتا ہے کہ اس گرین کارڈ والے خواب کو پورا کرتے کرتے زندگی میں کتنے بڑے بڑے خسارے ہوگئے۔ جب اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ کچھ خسارے بالکل بے فائدہ رہے نہ ان سے سبق ملا نہ عبرت تو پشیمانی کا احساس آپ کو اندر ہی اندر دیمک کی طرح چاٹنے لگتا ہے۔

امریکا ایسی دلدل ہے جس سے کوئی بہت ہی خوش قسمت بچ سکا ہوگا ورنہ اس سے نکلنا ناممکنات میں سے ہے۔ میں وقتاً فوقتاً اس دلدل کے متعلق لکھتا رہوں گا۔ ابھی صرف دو نکات پر بات کروں گا۔

امریکا میں آپ اکیلے ہوں یا اہل خانہ کے ساتھ ،لازمی نہیں کہ آپ جہاں رہائش پذیر ہوں وہاں بالکل قریب مسجد بھی موجود ہو۔ مسجد کے قریب رہتے ہوں تو بھی اذان کی آواز سے محروم ہوں گے۔ امریکا میں ، میرے علم کے مطابق ، تین مساجد میں لائوڈ سپیکر پر ظہر، عصر اور مغرب کی اذان کی اجازت ہے۔ شاید چند مزید بھی ہوں۔ اذان مسلسل نہ سننے کی وجہ سے نمازوں میں کوتاہی آنا لازمی ہے۔

اس سے بھی بڑا نقصان اہل خانہ کے ساتھ رہنے والوں کا ہوتا ہے۔ سکول، کالج ، گیم وغیرہ کے گھن چکر میں بچے دین سے اس طرح نہیں جڑ سکتے جیسے پاکستان میں مواقع ہیں۔ ویک اینڈ پہ اسلامی سکول یا آن لائن قرآن پڑھنے سے آپ کے بچے کی وہ تربیت ناممکن ہے جو باقاعدہ مسلم کمیونٹی میں رہ کر ، پاکستان میں ہوتی ہے۔ جب بچے بچیاں دین کے بنیادی عقائد سے ہی ناآشنا رہیں گے تو وہ بچے کل کو عملی زندگی میں اپنی آنے والی نسلوں کو کیا سکھائیں گے؟

شکاگو میں ایک انڈین مسلمان خاندان ہے۔ سب بھائی کٹر تبلیغی، حلال حرام سے بخوبی آگاہ ، ان کے کاروبار بھی مکمل حلال ، شک والے کاموں سے بھی حتی الوسع دور رہنے والے لوگ ہیں۔ 80 ءکی دہائی میں امریکا گئے تھے اب وہ پریشان ہیں کہ جوان بیٹیاں کسی مسلمان سے شادی کے لیے نہیں مان رہی ہیں۔ ان لڑکیوں کے نزدیک مذہب ثانوی شے ہے۔ باپ پریشان ہے کہ بیٹیاں گھر میں کل کلاں کوئی کالا ،گورا لے آئیں تو کیا بنے گا۔ حلال حرام بتادینا اور شے ہے اور دین کا مکمل علم اور فہم دینا اور شے ہے۔ بچے اسلامی تہذیب سے دور رہے جس کا نتیجہ ہزاروں والدین اب بھگت رہے ہیں۔

ایک انڈین دوست شکاگو کا اچھا مشہور سنگر ہے ، اسے دین کی اتنی سمجھ ہے کہ اپنے پہلے البم کا نام بسم اللہ رکھ دیا۔ اس البم کے گانے وہی امریکی موسیقی اور خالص امریکی گیتوں پر مشتمل ہے۔ موصوف نے ایک بار مجھ سے یہ سوال بھی پوچھا تھا کہ بھائی آپ تو دین کی بات زیادہ کرتے ہو تو یہ بتائو اسلام میں ڈائنو سار حلال ہے یا حرام؟

جس بندے کو اتنا فہم نہیں کہ اسے ڈائنو سار کے متعلق سوال کیسے کرنا ہے اس سے آپ کیا توقع رکھیں گے کہ وہ اپنی اولاد کو کیا سکھائے گا؟ ممکنہ سوال یہ ہوسکتا تھا کہ اسلامی تاریخ ڈائنو سار کے دنیا میں کبھی وجود میں ہونے پر کیا کہتی ہے؟ مگر یہ کیسا سوال ہے کہ ڈائنو سار حلال ہے یا حرام؟

آپ کے بچوں کو زیادہ سے زیادہ اسلام کا اتنا فہم ہی ملے گا کہ اسلام میں صدقہ خیرات اور فلاحی کاموں کو بہترین اخلاق میں شمار کیا جاتا ہے۔ امریکا میں موجود نامور اسلامی سکالرز کے کاموں پر علیحدہ مضمون میں بات کریں گے۔ کیا وجہ ہے کہ اسلام کا اعلیٰ فہم اور علم رکھنے والے سکالرز بھی بچوں کی تعلیم و تربیت کے حوالے سے ناکام نظر آتے ہیں۔

دوسرا نکتہ جس پر میں توجہ دلانا چاہوں گا وہ بدنظری ہے۔ عورت مرد کا اختلاط پاکستان میں بھی عام ہے مگر لباس کی پابندیوں کی وجہ سے بدنظری کا وہ حال نہیں جو امریکا میں ہے۔ وہاں اچھا مسلمان ہونے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے ۔ جب ہم مسلسل بدنظری کر رہے ہوتے ہیں۔ اور ممکن ہی نہیں کہ آپ اس سے بچ سکیں۔ کیا آپ سمجھتے ہیں کہ حافظ مدثر محمود سالار ہر وقت آنکھیں نیچے کیے امریکی خواتین کو نہیں دیکھتا ہوگا؟

پہلی غیر ارادی نظر والا فلسفہ کتابوں میں رہ جاتا ہے۔ چند مثالیں دیکھ لیں کہ سیر و تفریح کے لیے مشہور مقامات پر خواتین کے بے ہودہ لباس کی وجہ سے آپ کب تک آنکھ چرائیں گے؟ جاب کی نوعیت کیسی ہی ہو ساتھ کام کرنے والی خواتین کے ساتھ بات چیت اور بار بار ان کے عریاں جسم کی طرف نگاہ کرنے سے کون بچتا ہے؟ یہ بدنظری والا گناہ ہی عام سا لگتا ہے۔ دل کو یہ کہہ کر تسلی دینا کہ اس ماحول میں کام کرنا مجبوری ہے اللہ معاف کرے گا ۔

اللہ تو معاف کرے گا مگر مسلسل ایک ہی نافرمانی کو کب تک نظر انداز کرے گا خدا؟ میں اپنے ٹوٹے پھوٹے ایمان کو جتنا مرضی تھپکیاں دے کر سلاتا رہوں اور کہتا رہوں کہ اللہ غفور الرحیم ہے مگر میرے کہنے سے کسی گناہ کی حیثیت ختم نہیں ہوجاتی ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں