سلیم انورعباسی………
ہمارے ہاں عام طور پر یہ سمجھا جاتا ہے کہ دس بارہ گھنٹے مسلسل کام کرنے سے پیداوار بڑھتی ہے مگر یہ ہماری غلط فہمی ہے۔ اس وقت ٹیکنالوجی کی دنیا میں سربراہی کرنے والے سافٹ ویئر کے بانی بل گیٹس،آن لائن شاپنگ پورٹل علی بابا کےشریک بانی جیک ما، اسپیس ایکس کے بانی ایلن مسک یا پھر دنیا کو بےشمار ایجادات و اختراعات کا تحفہ دینے والے تھامس ایڈیسن اور بنجمن فرینکلن، یہ سب دن رات کام میں غرق نہیں رہتے تھے بلکہ اپنا معیاری وقت نت نئی ایجادات پر سوچنے اور انھیں بنانے میں صرف کرتے تھے۔’اپنی مدد آپ‘(سیلف میڈ) کے تحت کامیابی کے جھنڈے گاڑنے والےکروڑ پتی انٹرپرینوئرز کے شب و روز ملاحظہ کریں تو ان سب میں ایک مشترک عادت یہی رہی کہ انہوں نے مسلسل سیکھنے کے عمل کو کبھی ترک نہیں کیا۔
بِل گیٹس اپنی زندگی کا ایک گھنٹہ سائنسی اور ذات میں بہتری لانےوالی کتابوں کے مطالعے پر صرف کرتے ہیں۔یہی عادت ایلن مسک کی ہے،جنہوں نے راکٹ سائنس کا پُر غور مطالعہ کرکے مریخ پر لے جانے والا راکٹ بنایا۔ یہی اندازجیک ما کا بھی ہے،جن کا کہنا ہے کہ مطالعہ آپ کو اچھی ابتدا دیتا ہے اور اپنے پیش روؤں کے تجربات اور مارکیٹ حکمت عملی سے روشناس کراتا ہے۔ یہ تمام کامیاب لوگ مطالعہ برائے تفریح نہیں کرتے بلکہ ان کا مکمل دھیان ان سے سیکھنے پر ہوتا ہے۔وہ نئی باتوں کی جستجو میں رہتے ہیں ۔ اس لیے سیلف موٹیویشنل، سائنسی کتب اور عظیم سائنس دانوں کی سوانح عمری اور آپ بیتیاں ان کے مطالعے کی خاص توجہ کا مرکز ہوتی ہیں۔ اپنے کام میں ان تجربات کو استعمال کرتے ہوئے وہ دلچسپی اور توجہ سے متحرک انداز میں تیزی سے کام کو نمٹانے کی سعی کرتے ہیں۔ یہ سب کام کو محبت ،شوق اور جنون کے ساتھ کرتے ہیں اور کام کو بوجھ نہیں سمجھتے، اس کے علاوہ کام کوگھنٹوں میں نہیں تولتے بلکہ معیار کو ترجیح دیتے ہیں۔ ان افراد کا مائنڈ سیٹ مثبت ہے اس لیے وہ 20 فیصد کوشش سے 80فیصد پیداوار دیتے ہیں۔ وہ ٹائم کی پابندی کو سر پر اس طرح طاری نہیں کرتے جیسے عام طور پر آٹھ گھنٹے کام کےاصول کےضمن میں کیا جاتا ہے۔
دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں کامیاب کمپنیاں ٹاسک اورینٹڈ ہیں۔ وہ ملازمین پر وقت کی پابندی یا دیر تک کام کرنے کے حوالے سے سختی نہیں کرتیں بلکہ ملازمین کو پروڈکٹ کی تیاری میں 5فیصد منافع جیسی نت نئی ترغیبات اور پکنک کے مواقع فراہم کرتی ہیں، جس سے دفتر کا ماحول دوستانہ ہوجاتا ہے۔ ملازم اور باس کے مابین اجنبیت ختم ہوکر کام میں لگن اور دلچسپی سے پیداواری لاگت اور وقت میں کمی آتی ہے۔
معیاری کام کا دورانیہ پانچ گھنٹے
اگر ہم صبح 9 سےشام 5بجے کے مکمل 8گھنٹے کے دورانیے کا جائزہ لیں تو ہمارے کام کے معیاری اوقات 5گھنٹے ہی ہوتے ہیں۔ دفتر، کمپنی یا فیکٹری میں آتے ہی ایک گھنٹہ سلام دعا اور چائے ناشتے میں نکل جاتاہے۔ 10بجے معیاری کام شروع ہوتاہے تو 1بجے وہ کام ادھورا چھوڑ چھاڑ کر کھانا کھانے کے لیے سیٹ کو چھوڑا جاتا ہے۔2بجے آکردوبارہ نشست سنبھالی جاتی ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے 5بج جاتے ہیں۔ کچھ دیگر وجوہات کی وجہ سے سارا دن بار بار اپنی سیٹ سے اُٹھنے کی وجہ سےبھی دن کا کام مکمل نہیں ہوپاتااور اس وجہ سے آفس میں دیر تک بیٹھنا پڑتا ہے۔ اس عرصے میں کام کو جیسے تیسے مکمل کیا جاتا ہےجس سے اس میں وہ نفاست نظر نہیں آتی۔ یہ تو تھا پاکستان میں کام کرنے کا انداز،
اب آئیے مغرب اور ایشیا میں واقع ترقی یافتہ ممالک کی اقوام کے کام کرنے کے اسٹائل پر ایک نظر ڈالتے ہیں۔ یہ لوگ صبح 9 بجے دفتر آتے ہیں۔ دلفریب مسکراہٹ سے سب کو ’’ہائے ایوری باڈی‘‘ کہتے ہیں اور سیدھے آکر اپنی نشست سنبھالتے ہیں۔ سب سے پہلے دن بھر کے کاموں کی فہرست بناتے ہیں اور ترجیحات مقرر کرتے ہیں کہ پہلے کون سا کام اہم ہے۔ پھر کام کو عبادت کی طرح کرتے ہوئے فعال اور متحرک انداز میں تیز رفتاری سے اہم کاموں کو پایۂ تکمیل تک پہنچاتے ہیں۔ اگر ملٹی ٹاسک ہیں تو ان میں بھی ٹائم مینجمنٹ کا خیال کرتے ہوئے گھڑی کی سوئی کی طرح ہاتھ چلاتے ہیں۔ 1بجے اپنی سیٹ سے اٹھ کر کھانا کھاتے ہیں اور پھر آدھا گھنٹہ قیلولہ کرتے ہیں۔ ہاتھ منہ دھوکر نئے عزم کے ساتھ 3بجے کام کرنے بیٹھتے ہیں اور پانچ بجے تک دل جمعی سے کا کرتے ہوئے تمام ٹاسک پوراکرتے ہیں۔ اس طرح وہ عموماً پانچ گھنٹے ہی کام کرتے ہیں، جس کے دوران انھیں فرصت نہیں ہوتی کہ اپنے ساتھیوں سے خیر خبر لیں۔
کامیاب لوگوں کی سب سے بہترین تفریح مطالعہ ہے۔ان کے لیے ٹیکنالوجی فنکشنز میں شرکت اور گھر آکر نئے تصورات کے بارے میں معلومات حاصل کرنا اہم ہوتا ہے۔ اتنا ہی نہیں وہ زائد آمدنی کے ذرائع کو بھی نہیں بھولتے۔ دو گھنٹے آن لائن جاب کرتے ہیں ،پھر اگلے دن کی کامیابی کا نیا خواب سجاکرجلدی سوتے اور پرندوں کی چہچہاہٹ کے ساتھ اٹھ کھڑے ہوتے ہیں، جس کے بعد ٹریک سوٹ اور جاگرپہن کر قریبی پارک میں چہل قدمی کرنے چلے جاتے ہیں۔ اپنے ذہن کو توانائی سے بھر پور رکھنے کے لیے سپر فوڈ تناول فرماتے ہیں۔ دوپہر کو ہلکے پھلکے انداز میں پھل کھا تے ہیں تاکہ طبیعت بوجھل نہ ہو۔
مطالعے اور سیکھنے کے عمل کو عادت بنائیے
مطالعہ اور سیکھنے کا عمل عادت بن جائے تو طرزِ زندگی بدل جاتی ہے۔ کام کو بہتر انداز میں کرنے کا اہم اصول یہ بھی ہے کہ ہر دن کو آخری جان کرہر روز کچھ نیا سیکھنے کی لگن رکھی جائے۔آپ پانچ گھنٹے کے دورانیے میں نہ صرف اپنے کام مکمل کرلیں گے بلکہ کامیابی کی اس شاہراہ سے نکلنے والی کئی پگڈنڈیوں پر آپ کو ایسے کئی کام یاب کاروباری خواتین و حضرات ملیں گے، جنہوں نے کام کو عادت بنا کر خود کو کامرانی سے سرفراز کیا۔