سر سید احمد خان

”خطبات احمدیہ “ اور سرسید کا نوکِ قلم

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر امتیازعبد القادر، بارہمولہ

رسول اکرم کی سیرت مبارکہ پر کچھ لکھنے کا جذبہ علوم اسلامی پر لکھنے والوں کے شعور اور تحت الشعور میں ضرور موجود ہوتا ہے ۔ اس میں مسلم یا غیرمسلم کی تخصیص نہیں۔ ان کے محرکات و عوامل کی تخصیص ضرور ہے ۔ مسلم اہل قلم میں محبت و عقیدت دونوں کارفرما ہوتے ہیں جبکہ غیر مسلم سیرت نگار صاحب سیرت کی شخصی عظمت اورتاریخی وجاہت سے مرعوب ومتاثر ہوتے ہیں۔ یہی محرکات ان کا طرز ادا اور اسلوبِ بیان بھی متعین کرتے ہیں اور ان کی تحریروں کا مقصد و منہاج بھی ؛ اپنی ذہنی ساخت و پرداخت اور علمی تعلیم و تربیت کے مطابق ؛ بقول ابن خلدون:

”…..یاتو یہ مورخین وسیرت نگار بچکانہ روش والے کند ذہن ہوتے ہیں کہ عقل و دانش ، تنقید و تبصرہ اور تجزیہ و تحلیل کی صلاحیتوں سے محروم ہوتے ہیں اور وہ جو کچھ لکھتے ہیں وہ محض نقل واقعات تک محدود ہوتا ہے ۔ ان میں سے اکثر قدیم مولفین کی تحریروں سے اخذ و استفادہ کرکے واقعات نقل کرتے چلے جاتے ہیں ۔

کچھ تلخیص نگار اوراصحابِ اختصار ہوتے ہیں ۔ جو محدود تر پیمانے پر واقعات کی کھتونی کا کام کرتے ہیں ۔ البتہ ان میں کچھ ایسے صاحبانِ بصیرت اوربہرہ مندانِ شعور بھی ہوتے ہیں جو تجزیہ و تحلیل اور تنقید و تبصرہ کی صلاحیتوں سے مالامال ہوتے ہیں اوروہ واقعات کو ان کے صحیح تاریخی تناظر اور شخصیت کو اس کے ماحول و پس نظر میں دیکھتے اور پرکھتے ہیں ، یہی طبقہ اصل میں ائمہ فحول ( امامانِ فن ) کا ہے……“

جدید تاریخی اصطلاح میں یہی تاریخ داں نگار عہد گزشتہ کی باز آفرینی اور شخصیت کی تصویر کشی کا کام انجام دیتے ہیں ، جو ان کے فرض منصبی کے تقاضوں اور مطالبوں کے عین مطابق ہوتا ہے ۔ سرسید اگرچہ خالص اصطلاحی معنوں میں سیرت نگارنہیں تھے تاہم ان کی مشہورزمانہ اورمعرکہ الآراء تصنیف ” خطبات احمدیہ“ اس فن کی ایک اہم کتاب ہے اوراردو زبان میں تنقیدی اور تحقیقی نگارش کی اولین کوشش ہے ۔

اس کتاب کامحرک ایک تو رسول اکرم ﷺ سے بے پناہ عقیدت و محبت ، علمی و تجزیاتی روش کے علاوہ جو سب سے اہم خارجی اور فوری محرک ہوا تھا؛ وہ ولیم میور کی کتاب ”Life of Mohammad“کی طباعت اورہندوستان میں اس کی اشاعت تھی ۔ ولیم میور کی کتاب4 جلدوں میں شائع ہو کرآئی ؛ جس کے بارے میں عیسائیوں میں مشہورتھا کہ اس نے اسلام کے استیصال کا ’ فریضہ ‘ انجام دیا ہے۔

دوسرے اہل علم کی مانند سرسید کے دل ودماغ پربھی انگریز مولف کے تعصب اورسیرتِ طیبہ کو مسخ کرنے کی مکروہ سازش نے بڑا اثرڈالا ۔ دوسرے صرف تڑپ کر رہ گئے مگرسرسید مولف کے ہفوات و الزامات کا جواب جلد ازجلد لکھ دیناچاہتے تھے ۔ ہندوستان میں مواد کی کمی کے باعث انگلستان کارُخ کیا ۔ لاطینی انگریزی اوردوسری زبانوں سے ترجمے کروا کے پڑھے ۔ برٹش میوزیم ،انڈین لائبریری، ترکی اور مصرکے کتب خانوں سے مواد جمع کیا۔ اپنے رفیق کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں:

” ان دنوں ذرا قدرے دل کو شورش ہے ۔ ولیم میور صاحب کی کتاب کو میں دیکھ رہا ہوں ، اس نے دل جو جلا دیا اور اس کی نا انصافیاں اور تعصبات دیکھ کر دل کباب ہو گیا اور مصمم ارادہ کیا کہ آنحضرت ﷺ کی سیرت میں جیسا کہ پہلے سے ارادہ تھا ؛ کتاب لکھ دی جائے اگر تمام روپیہ خرچ ہو جائے اورمیں فقیر بھیک مانگنے کے لائق ہو جائوں تو بلاسے ۔“(بحوالہ ’خطبات احمدیہ‘؛ص16 )

ایک اور خط میں رقم طراز ہیں:
”میںشب و روز تحریر کتاب میں مصروف ہوں ۔ سب کام چھوڑ دیا ہے۔ لکھتے لکھتے کمر درد کرنے لگتی ہے اور کسی شخص کے مددگار نہ ہونے سے یہ کام اور بھی سخت ہوگیا ہے…..“(ایضََا)

’خطباتِ احمدیہ‘ بارہ طویل خطبوں پر مشتمل اردو زبان میں سیرت النبیﷺکے موضوع پر لکھی جانے والی پہلی باقاعدہ تصنیف ہے ؛ جو علمی و عقلی منہج کے مطابق مستندتاریخ اور وحی کی روشنی میں رقم کی گئی ہے ۔ بقول مولانا ابو الحسن علی ندویؒ ’ خطباتِ احمدیہ کو پہلے تحقیقی شاہکار کی حیثیت حاصل ہے۔‘

اس کے ساتھ ساتھ یہ بھی محسوس کیا جاتا ہے کہ سیرت نگاری کے نقطہ نظر سے ’ خطبات احمدیہ ‘ معذرت خواہانہ طریق نگارش کی نمائندگی کرتے ہیں ۔ دراصل ان کا فوری محرک اور مقصود ہی ان کی فطری ماہیت کو متعین کرنے کا عامل بنا ہے۔ چونکہ سرسید ، ولیم میور کے ان الزامات و اتہام کاجواب دینا چاہتے تھے ، جو انھوں نے اپنی کتاب میں لگائے تھے ؛ اس لئے عذر خواہانہ طریق تالیف لازمی تھا ، ڈاکٹرمحمد یٰسین مظہرصدیقی لکھتے ہیں:

” اگر سرسید چاہتے بھی تو اس طریق نگارش سے نہیں بچ سکتے تھے۔ اس سے بچنے کی واحد صورت یہ تھی کہ سرسید سیرت پر اپنی جامع ، مستند اور صحیح کتاب لکھنے کا اولین ارادہ پورا کرتے اور اس میں متعلقہ مقامات پر ولیم میور یا دوسرے مولفین و مصنّفین کی غلط بیانیوں ، بے بنیاد تعبیروں اور متعصبانہ نتیجوں کی تردید بھی کرتے رہتے لیکن وہ ایک مشکل اور وقت طلب کام تھا جس کی اجازت ان کے دل کی سوزش ، روح کی بے چینی اورذہنی اضطراب نہیں دے سکے۔“

’خطبات احمدیہ‘ اس اعتبار سے اولیت کا درجہ رکھتی ہے کہ انیسویں صدی میں استشراق Orientalism))کے حملے کو روکنے اور رسول اللہ ﷺکی شبیہ کو داغ دار کرنے کی مذموم کوششوں کا پہلا مدلل جواب ہے ۔ کتاب کی ایک اور اہم خصوصیت ہے کہ اس نے ولیم میور اور اس کے حوالہ سے دوسرے مستشرقین اور مخالفین اسلام کے الزامات و اتہامات پرمبنی نگارشات کی قلعی کھول دی اوربہت سے نوجوان مسلمانوں کو گمراہی سے بچایا۔

اس سے زیادہ اہم کارنامہ یہ ہے کہ سرسید نے یورپی مولفین و مصنّفین کی علمی برتری کا رعب و داب ختم کرنے کی کامیاب کوشش کی ۔ یورپ کی تصنیفات کی بظاہر علمی وقعت اور تحقیقی منزلت سے جدید تعلیم یافتہ اذہان متاثر ہوکر نہ صرف مرعوب ہوتے بلکہ اپنے دین و ایمان اور رسول ﷺ و تاریخ کے بارے میں احساس کمتری کاشکار بھی ہوتے۔سرسید نے نہ صرف ان کی مرعوبیت دور کی بلکہ انھیں اپنے پیغمبر اور تاریخ اسلام پر افتخار و انبساط کا احساس و جذبہ بھی بخشا ۔ سرسیدکہتے ہیں:

”1870ءمیںجبکہ ’خطباتِ ا حمدیہ‘ چھپ کر لندن میں شائع ہوئی تو لندن کے ایک اخبار میں ایک انگریز نے لکھا تھا کہ عیسائیوں کو ہوشیار ہونا چاہئے ۔ ہندوستان کے ایک مسلمان نے انھی کے ملک میں بیٹھ کر ایک کتاب لکھی ہے جس میں اس نے دکھایا ہے کہ اسلام ان تمام داغوں اور دھبوں سے پاک ہے جو عیسائی اس کے خوش نما چہرے پر لگاتے ہیں۔“ (بحوالہ ’خطبات احمدیہ‘؛ص19)

آرنلڈلکھتے ہیں:
”ایسی مثالیں توپائی جاتی ہیں کہ کسی مسلمان نے بمقابلہ عیسائیوں کے اپنی زبان میں اپنے ہی ملک میں بیٹھ کر اسلام کی حمایت میں کوئی کتاب لکھی اور اس کا ترجمہ کسی یورپی زبان مین ہوگیا لیکن مجھے کوئی ایسی مثال معلوم نہیں کہ کسی مسلمان نے یورپ جاکریورپ ہی کی کسی زبان میں اس مضمون میں کتاب لکھ کرشائع کی ہو۔“(بحوالہ ’خطبات احمدیہ‘؛ص11)

خطبات احمدیہ کاایک اہم لسانی امتیازیہ ہے کہ انہوں نے اردو زبان میں اعلیٰ علمی اور تحقیقی نگارش کا عمومی طریقہ فراہم کرنے کے علاوہ سیرت نگاری کے باب میں علمی ، تحقیقی اور معقول و مدلل اندازبیان اور اسلوب پیدا کیا۔ مجموعی طور پر سرسیّد کی سیرت نگاری نے اپنی بعض قابل گرفت کمزوریوں کے باوجود اپنے معاصرین اورجانشینوں خاص کرسیرت نگاروں کو ایک نیا اور معقول علمی اسلوب بھی دیا اورسیرت نگاری کے میدان میں ان کی کثیرجہتی رہنمائی بھی کی۔ الطاف حسین حالی کتاب کے حوالے سے اپنی رائے یوں پیش کرتے ہیں:

” سرسیدنے اس کتاب میںمناظرہ کے اس مخاصمانہ طریقہ کی جگہ جو مسلمانوں میں عمومََا دائر و سائر ہے اور جس سے فریق مخالف کے دل میں بجائے رغبت کے نفرت اور بجائے آشتی کے ضد پیدا ہوتی ہے ؛ ایک ایسادوستانہ اور بے تعصّبانہ طریقہ اختیار کیا ہے جو کسی کو ناگوار معلوم نہیں ہوتا۔“ (تعارف ؛ خطباتِ احمدیہ ۔ ص19)

سرسیدکے اس مدلل اسلوب و مبنی برخلوص کاوش نے اپنا اثر کر دکھایا اور یورپ کے غیر متعصب اہلِ علم و نکتہ سنج مفکرین نے ولیم میورکے خلاف فیصلہ دینے میں کنجوسی نہیں برتی ۔ کرنل گریہم اپنی کتاب’حیاتِ سرسید‘ میں سرسید کی غیر معمولی تعمق نظری و بے تعصبی کاذکر کرتے ہوئے ابنائے قوم کو مخاطب کرتے ہوئے کہتے ہیں کہ ’ جو لوگ مذہب سے دلچسپی رکھتے ہیں انہیں چاہئے کہ سرسیداحمدخان کی سیرت پر لکھی ہوئی کتاب کا بغور مطالعہ کریں ۔

دینِ محمدﷺ فی زمانہ انگریزوں کے نزدیک ایک غیر معقول و سخت دین رہا ہے ۔ اسلام عمومََا ایک تلوار کا مذہب خیال کیا جاتا ہے اور ہر ایک چیز تعصب ؛ مغائرت اور تنگ دلی کی اس میں خیال کی جاتی ہے لیکن میں وثوق سے کہتا ہوں کہ جب سرسید احمد خان کی اس کتاب کو غور سے پڑھیں گے تو میں کہہ سکتاہوں کہ وہ بالکل مختلف خیالات لے کر اٹھیں گے۔‘

” خطبات احمدیہ ” از سر سید احمد خان

جیسا کہ بتایاگیاکہ ’خطباتِ احمدیہ ‘بارہ ابواب پرمشتمل کتاب ہے ۔ ان ابواب میں مصنف نے تفصیل سے تاریخ عرب سے لے کربعثتِ شمعِ رسالت کا مدلل احاطہ کیا ہے ۔ پہلے باب میں انہوں نے عرب کا نہایت ہی مفصل تاریخی جغرافیہ پیش کیاہے ۔ ولیم میور نے اپنی کتاب میں مسلمانوں کے بعض مسلمات کی نفی کی ہے ؛ اس کے جواب میں سرسید نے یہ باب باندھا ۔

دوسرا باب عرب جاہلیت کے رسوم وعادات اور خیالات و عقائد کی عکاسی کرتا ہے ۔ اس باب میں مصنف کا مقصد یہ واضح کرنا ہے کہ اسلام اہل عرب کے اخلاق ، عقائد و روایات میں کیسے صالح انقلاب لایا ۔

تیسراباب ؛ ان ادیان کے تفصیلی تذکرہ پر مشتمل ہے ؛ جو قبل اسلام عرب میں رائج تھے ۔ چوتھے باب کو سرسید نے چار ذیلی حصوں میں منقسم کیا ہے ۔ مشہور عیسائی دانش وروں کے اقوال نقل کرکے سرسید نے یہ ثابت کیا ہے کہ اسلام ہی نے انسانی معاشرت کو فوائد پہنچائے ہیں ۔ ایورڈ گبن ، جان ڈیون پورٹ ، ٹامس کارلائل وغیرہ کے اقوال اس باب میںدرج ہیں ۔

پانچواں باب ؛ مسلمانوں کی مذہبی کتب جیسے کتبِ حدیث ، کتب سیر ، تفاسیر اور فقہ کی تصنیف کا منشا واضح کرنے کے لئے رقم کیا ہے ۔ مقصد درپیش یہ تھا کہ نکتہ چیں جو اسلام کے خلاف لکھنا چاہیں ، انہیں ہماری کتابوں کی طرز تصنیف سے آگاہی اور بصیرت حاصل ہو ۔ چھٹاباب طویل ہے ۔ اس میں اسلام کی روایات کو رقم کیا گیا ہے ۔ روایت کی تاریخ ، اس کی اصلیت اور دین کن روایتوں پر منحصر ہے ؛ اس کاتفصیلی جائزہ لیاگیا ہے ۔

ساتواں باب ؛ اس میں قرآن مجید اور اس کانزول ؛ سورتوں اور آیتوں کی ترتیب ، مختلف قراتوں ، ناسخ و منسوخ کی بحث ، جمع قرآن کا زمانہ ، اس کی نقلوں کی اشاعت وغیرہ کابیان ہوا ہے ۔ مزید ولیم میور و دیگر متعصب عیسائی مصنفین کے قرآن کے حوالے سے اعتراضات کانہایت شافی تحقیقی جوابات دئے گئے ہیں ۔

آٹھواں باب ؛ خانہ کعبہ کی تاریخی اور جغرافیائی تحقیقات پر مشتمل ہے ۔ اس باب کی اہمیت اس وجہ سے ہے کہ ولیم میور نے اپنی کتاب میں ایک دروغ گوئی یہ کی کہ حضرت اسماعیلؑ کامکہ میں آباد ہونا ؛ خانہ کعبہ کی تعمیر اور اس کی تمام مراسم کا حضرت ابراہیمؑ و اسماعیلؑ سے تعلق ہونا ؛ یہ سب اُس کے نزدیک بناوٹ اور افسانہ ہے۔

سرسیدمرحوم نے اس باب میں نہ صرف مسلمانوں کی تاریخوں سے بلکہ اہل یورپ کے عیسائی محققوں اور جغرافیہ دانوں کی تحقیقات سے حضرت اسماعیلؑ اور ان کی ذریت کاعرب میں ہونا ثابت کیا ہے ۔ بعض بے بنیاد اعتراضات کا تورات و انجیل سے دلائل پیش کرکے ڈنکے کی چوٹ پر جوابات پیش کئے ہیں ۔

نواںباب ؛ رسول اللہ ﷺکے نسب کی تحقیقات پر ہے ۔ ولیم میورنے اپنی کتاب میں رسالت مآبﷺ کے بنی اسماعیل ہونے سے انکار کیا ہے ۔ اس بے جادعوے پر سرسید نے نہایت عمدہ تمہید باندھ کر مفصل شواہد پیش کرکے مدلل جواب دیاہے ۔ اس باب میں بھی سرسید نے کچھ دانشوارانِ یورپ کی شہادتیں نقل کرکے علم و تحقیق کاحق ادا کیا ۔

گبن کانقطہ نظر وہ یوں نقل کرتے ہیں ؛ ’محمدﷺ کو حقیر اور متبذل نسل سے کہنا ؛ عیسائیوں کا ایک احمقانہ افترا ہے ۔۔۔ اسماعیلؑ سے ان کی نسل کا ہونا ایک قوی تسلیم کی ہوئی بات اور ملکی روایت سے ثابت شدہ امر ہے ۔ دسواں باب ؛ ان بشارتوں کے بارے میں ہے جو تورات اور انجیل میں حضور ﷺ کے نبی ہونے کی بابت مذکور ہیں ۔

گیارہواں باب ؛ معراج اور شقِ صدر کی حقیقت ، جیسا کہ سرسیدکی تحقیق ہے ، پر مشتمل ہے ۔ قرآن میں معراج کی نسبت جو بیان ہوا ہے ؛ اسی پر انحصار کیا گیا ہے ۔ عیسائیوں کے طعن و تشنیع کاجواب الزامی وتحقیقی دونوں طرح سے دیا گیا ہے ۔

بارہواں باب ؛ رسول اللہ ﷺکی ولادت سے بارہ برس کی عمرتک کا حال معتبر روایتوں کی بنیاد پر رقم کیا گیا ہے ۔ ولیم میور نے حضور کی حیات مبارکہ کے ابتدائی دور پر جو اعتراضات وارد کئے اور جن روایات کا انہوں نے سہارا لیا تھا ، ان پر سرسید نے تنقیدی نگاہ ڈالی ہے ۔ اس باب میں ولیم میور کی تعریضات کے اور بھی کچھ لطیف مباحث ہیں ؛جنہیں کتاب میں دیکھا جا سکتا ہے۔

سرسید احمد خان کا ارادہ ولیم میور کی چاروں جلدوں کا جواب لکھنے کا تھا لیکن لندن میں ان کا طویل قیام ممکن نہ ہوسکا ۔ لندن میں تحقیق کے لئے جو کتب میسر تھیں ؛ وہ ہندوستان میں دستیاب نہیں ہوسکتی تھیں ۔ مگر جو مباحث ولیم میور کی کتاب میں زیادہ اہم تھے ، ان میں سے اکثر مباحث کامدلل وتفصیلی جواب سرسید نے ایک ہی جلد میں دیا ۔ اس کتاب کی خوبی و حقیقت مطالعہ کے بعد ہی سامنے آتی ہے۔

واضح رہے کہ دریدہ دہنوں کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنی کہ اس دعوتِ توحید کی ۔ رسول اللہ ﷺ حرا سے پیغام ہدایت لے کر نکلے تو ظلمات کے علمبردار تضحیک و تنقیص کے سامان سے مسلح ہوکر میدان میں اترے۔ ابولہب سے لے کر چارلی ہیبڈو(Charlie Hebdo) تک بد تہذیب ا قوام اور افراد اسلام کی بڑھتی ہوئی روشنی سے بوکھلاہٹ کاشکار ہوکر چاند و سورج کو تھوکتے رہے ہیں ، نتیجہ صاف ہے ، وہ واپس اُن کے منہ پر آ گرتا ہے۔

استہزا و تمسخر تب اسلام کے لئے کوئی رکاوٹ بنا جب فاراں کی وادیوں میں چندگنے چنے افراد رسالت مآب ﷺ پرایمان لائے اور نہ اب اسلام کو اس سے کوئی خطرہ ہے جبکہ ہماری آبادی ان شریر قوموں اور فاسد ذہنوں کی خباثت کے علی الرغم دو ارب کے قریب ہے ۔ نئی پود اسلام کے دامنِ رحمت میں پناہ لے رہی ہے اور وہ اقلیت کی طرف بڑھ رہے ہیں ۔ ان کی تہذیب ، اُن کا تمدّن ، آخری ہچکی لے رہا ہے ۔ اس لئے اپنی بقاء کے لئے وہ ایسے اوچھے ہتھکنڈے اور انسانیت سے گرے ہوئے مکروہ حرکات کرتے رہتے ہیں۔

ضرورت اس بات کی ہے کہ امت مسلمہ اتحاد و اتفاق کا مظاہرہ کرے ۔ علمائے کرام کی ذمہ داری ہے کہ آپسی رسہ کشی کو ترک کرکے عوام کو متحد کریں ۔ مسلک کی تشہیر سے اجتناب کرکے دین کی تبلیغ کافریضہ انجام دیں ۔ منبر رسول ﷺ سے نفرت اور بغض نہیں بلکہ پیار و محبت کے موتی بکھیریں۔ امت مسلمہ کا دین کی بنیادوں پر کھڑا ہونا ہی سب سے بڑا احتجاج ہوگا۔ تہذیب و شائستگی ہمارا زیور ہے اور کسی فرد یا قوم کی دشمنی ہمیں اتنامشتعل نہ کرلیں کہ ہم اس زیور سے محروم ہوکر بدتہذیبوں کی صف میں کھڑے ہوں۔

مکہ کے نامساعد و سنگین حالات میں اللہ تعالیٰ نے اپنے حبیب ﷺ کارفعِ ذکر کیا اور تاقیامت یہ نام بلند و بالا ہی رہے گا ، چاہے تہذیب سے ناآشنا اقوام کویہ کتنا ہی برا لگے۔
٭٭٭


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں