ایف بی آر پاکستان پوائنٹ آف سیل

پاکستان میں براہ راست ٹیکسیشن کیوں ضروری ہے ؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

محمد اعجاز تنویر

ہمارے ہاں اب تک ٹیکس اکٹھا کرنے کا صدیوں پرانا بالواسطہ طریقہ کار ہی رائج ہے حالانکہ ایک دنیا کہہ رہی ہے کہ ایکسائز ڈیوٹی ، کسسٹم ڈیوٹی اور ویلیو ایڈڈ ٹیکس کے ذریعے معیشت کا بھلا نہیں کیا جا سکتا ۔ دنیا میں زور دیا جارہا ہے کہ براہ راست ٹیکسیشن ہی میں اقوام کا بھلا ہے ۔

ڈائریکٹ ٹیکسیشن کیا ہے؟ آئیے ! ہم اس سوال کا جواب جاننے کی کوشش کرتے ہیں اور ڈائریکٹ اور ان ڈائریکٹ ٹیکسیشن کے درمیان فرق بھی معلوم کرتے ہیں۔

یہ مضمون پالیسی سازوں کو مدنظر رکھتے ہوئے بھی لکھا جارہا ہے تاہم ایک عام قاری کو عام فہم انداز میں کچھ اہم باتیں بتانا بھی مقصود ہیں تاکہ ریاستی معاملات بالخصوص ٹیکسیشن کے شعبے میں وہ بھی صاحب الرائے ہو۔

ان ڈائریکٹ یعنی بلواسطہ ٹیکس کو ایسے ٹیکس سے تعبیر کیا جاتا ہے جو سامان اور خدمات ( سروسز ) استعمال کرنے والے پر عائد ہوتا ہے اور وہ براہ راست حکومت کے خزانے میں جانے کے بجائے ادھر ادھر سے ہوکر ریوینیو میں شامل ہوتا ہے۔ مثلاً سنٹرل سیلز ٹیکس، VAT (ویلیو ایڈڈ ٹیکس) ، سروس ٹیکس ، ایس ٹی ٹی (سیکیورٹی ٹرانزیکشن ٹیکس) ، ایکسائز ڈیوٹی ، کسٹم ڈیوٹی۔ یہ سب ان ڈائریکٹ ٹیکسز ہیں۔

ڈائریکٹ ٹیکس ایسے ٹیکس کے طور پر جانا جاتا ہے، جو ہر شہری کی آمدنی اور دولت پر عائد ہوتا ہے اور حکومت کو براہ راست وصول ہوتا ہے ۔ مثلاً ویلتھ ٹیکس ، انکم ٹیکس ، پراپرٹی ٹیکس ، کارپوریٹ ٹیکس ، امپورٹ اور ایکسپورٹ ڈیوٹی، یہ سب ڈائریکٹ یعنی براہ راست ٹیکسز ہیں۔

٭ ڈائریکٹ ٹیکسیشن کے فوائد

ڈائریکٹ ٹیکسیشن ایک منصفانہ نظام ہے۔ اس میں ہر فرد اپنی استطاعت کے مطابق ہی ٹیکس ادا کرتا ہے۔ کسی فرد کی جتنی تنخواہ ہوگی، جتنی دولت ہوگی ، جس قدر کاروبار ہوگا ، اسی کے مطابق اسے ٹیکس ادا کرنا ہوگا ۔ امیر اور دولت مند لوگ زیادہ ٹیکس ادا کرتے ہیں جبکہ کمزور مالی حیثیت کے حاملین کم ٹیکس ادا کرتے ہیں۔

دنیا بھر میں یہ ٹیکس مرکزی حکومت یا ریاستی حکومت یا بلدیاتی اداروں کے ذریعہ عائد اور جمع کیا جاتا ہے۔ اس میں کوئی ٹیکس گزار اپنا ٹیکس کسی دوسرے فرد پر منتقل نہیں کرسکتا، جیسے حکومت دکان داروں پر سیلز ٹیکس عائد کرتی تھی لیکن وہ پورے کا پورا سیلز ٹیکس کسٹمر سے وصول کرتے تھے۔

دوسری طرف ’ اِن ڈائریکٹ ‘ یعنی بالواسطہ ٹیکسیشن میں ایک فرد اپنا ٹیکس کسی دوسرے پر بہ آسانی منتقل کرسکتا ہے۔ یہ ایک غیر منصفانہ نظام متعارف کراتا اور اسے مضبوط کرتا ہے۔ حکومت ایک ٹیکس ایک کاروباری فرد پر عائد کرتی ہے، وہ اپنی پراڈکٹس کے ذریعے وہی ٹیکس اپنے صارفین سے وصول کرتا ہے اور خود ٹیکس سے محفوظ رہتا ہے۔

ہر فرد یہ ٹیکس اپنی خریدی ہوئی اشیائے ضروریہ پر یا پھر بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹور سے خریداری کے بعد بل پر دیکھ سکتا ہے۔حکومت17 فیصد ’جنرل سیلز ٹیکس‘ عائد کرتی ہے۔ جنرل سیلز ٹیکس کے نام ہی سے اندازہ ہوتا ہے کہ یہ ایک بزنس مین پر عائد کیا گیا ہے کہ وہ کوئی چیز فروخت ( سیل ) کرے گا تو اس پر 17فیصد ٹیکس ادا کرے گا۔ آپ یقیناً دیکھتے ہوںکہ یہ17فیصد ٹیکس کمپنی یا بزنس مین پراڈکٹ کی قیمت میں شامل کرکے صارف سے وصول کرلیتا ہے۔

یوں یہ ٹیکس ہر فرد پر بلاامتیاز عائد ہوتا ہے چاہے وہ امیر ہو یا غریب ۔ ایک مشروب پر امیر آدمی بھی17 فیصد جی ایس ٹی ادا کرے گا اور غریب آدمی بھی۔ حالانکہ دونوں کی استطاعت میں زمین آسمان ہی کا فرق ہوتا ہے۔ دکاندار سارے کا سارا ٹیکس خریدار سے وصول کرکے بڑے مزے سے اپنا کاروبار کرتے رہتے تھے۔

پاکستان میں ٹیکسیشن کے اس غلط نظام کو سیدھا کرنے کے لئے فیڈرل بورڈ آف ریوینیو نے ’ پوائنٹ آف سیل ‘ کا نظام متعارف کرایا۔ یہ براہ راست ٹیکسیشن کا ایک بڑا سیگمنٹ ہے۔ پوائنٹ آف سیل کی انٹیگریشن بڑے ریٹیل سٹورز سے شروع ہوئی۔ پاکستان میں ریٹیل انڈسٹری کا مجموعی حجم جی ڈی پی کا 18.88 فیصد ہے۔ یہ زرعی شعبہ کے بعد روزگار کی فراہمی کا دوسرا سب سے بڑا سیکٹر ہے۔

پہلے ریٹیل انڈسٹری کا ٹیکس دو فیصد سے زیادہ جمع نہیں ہوتا تھا تاہم جب سے پوائنٹ آف سیل انٹیگریشن لگی، ری ٹیل انڈسٹری سے ٹیکس وصولی کا حجم بڑھنا شروع ہوگیا ہے۔ نہ صرف ریٹیل سٹور کا ٹیکس وصول ہوتا ہے بلکہ تمام سپلائی چین بھی ٹیکس نیٹ میں آجاتی ہے۔ اس کے نتیجے میں سب سپلائزرز کا ٹیکس نیٹ میں آنا مجبوری بن جاتا ہے۔ بالفرض ایک سٹور کے دو ہزار سپلائرز ہیں، انھیں بھی اس انداز میں ٹیکس نیٹ میں آنا پڑ رہا ہے۔

اگر ہم اس پر کام کرلیں تو یہ ایک بہت بڑا ذریعہ ہے ٹیکس اکٹھا کرنے کا۔ اگر اس کے ذریعے15فیصد تک ٹیکس جمع ہونا شروع ہوجائے تو اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ کس قدر زیادہ ٹیکس اکٹھا ہوسکتا ہے۔ اس پر مزید کام کرنا چاہے اور اس نظام میں مزید آگے بڑھنا چاہیے۔ واضح رہے کہ اس وقت پاکستان میں ریٹیل آﺅٹ لیٹس کی تعداد 20لاکھ سے زائد ہے۔

جو عام لوگ ’ پوائنٹ آف سیل انٹیگریشن ‘ کے بارے میں نہیں جانتے ، ان کے لئے مزید عرض ہے کہ یہ ہارڈ وئیر اور سافٹ وئیر ، دونوں کا ایسا مشترکہ نظام ہے جو کاروباری مراکز میں فروخت کے نظام میں مدد دیتا ہے ۔ کاروباری مرکز میں آمدن اور خرچ کا ریکارڈ رکھتا ہے۔ اس میں انوینٹری ( تجارتی سامان کی آمد ) کا نظام بھی موجود ہوتا ہے ۔ ملازمین کا ریکارڈ بھی رکھتا ہے ۔ یہ سسٹم ایف بی آر سٹور پر لگاتا ہے اور مذکورہ بالا پہلوﺅں سے سٹور کی مانیٹرنگ کرتا ہے ۔ اس نظام کے ذریعے ٹیکس کی وصولی میں شفافیت آتی ہے جبکہ دکاندار بھی اس نظام سے خوش ہوتے ہیں کہ انھیں ایف بی آرکے اہلکاروں کی بلیک میلنگ اور خوف و ہراس کا سامنا نہیں کرنا پڑتا ۔ پی او ایس کے ذریعے ایک مخصوص شرح کے ساتھ سیلز ٹیکس اکٹھا ہوجاتا ہے۔

ایف بی آر نے ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لئے دکانداروں کو ایک پرکشش پیشکش کی کہ جو دکاندار POS لگوائیں گے، انھیں کم سیلز ٹیکس ادا کرنا پڑے گا۔ یہ اچھی ترغیب ہے، اس کے نتیجے میں یقیناً زیادہ سے زیادہ دکاندار پی او ایس لگوائیں گے۔ واضح رہے کہ فیڈرل بورڈ آف ریوینیو نے یہ POS ایک خاص رقبے سے زیادہ بڑے ریٹیل سٹورز پر نصب کیے ہوئے ہیں ، وہاں سے فروخت ہونے والے سامان کے ہر بل کے ساتھ ہی سیلز ٹیکس کٹ جاتا ہے اور وہ حکومت کے کھاتے میں چلا جاتا ہے۔

اب ہم پوائنٹ آف سیل انٹیگریشن کو مزید جاننے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب دکاندارکسی کو کچھ فروخت کرتے ہیں تو پی او ایس پوچھتا ہے کہ آپ نے یہ چیز کہاں سے لی ؟ دکاندار بتاتا ہے کہ فلاں ڈسٹری بیوشن کمپنی سے لی۔ چنانچہ ڈسٹری بیوشن بھی ٹیکس نیٹ میں آجاتی ہے، اسے بھی انوائس دینا پڑتی ہے۔ یوں دکاندار اور سپلائر دونوں ایک ریکارڈ کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس سارے معاملے کا اہم ترین پہلو یہ ہے کہ دکاندار اب کسی ایسی ڈسٹری بیوشن کمپنی سے مال نہیں لیتا جو ٹیکس نیٹ میں نہ ہو۔

ایک بڑے ڈیپارٹمنٹل سٹورکو پانچ ، چھ ہزار سپلائرز مال دیتے ہیں۔ پی او ایس کی وجہ سے وہ سب کے سب ٹیکس نیٹ میں آگئے ۔ اسی طرح جب ایک سپلائر مال دکاندار کو دے گا تو اسے ( یعنی سپلائر کو ) بھی پی او ایس میں درج کرنا پڑے گا کہ اس نے کس کمپنی سے مال خریدا۔ یوں فیکٹری سے لے کر ڈیپارٹمنٹل سٹور تک ، سب کی انوائسز ایک دوسرے سے مل جائیں گی تو ٹیکس وصولی کا پورا نظام صاف اور شفاف ہوجائے گا۔ مینوفیکچرر ، ڈسٹری بیوٹر اور ریٹیلر کا ایک بزنس ٹری بن جاتا ہے، ان کے ہاں منی ٹریل واضح ہوجاتی ہے۔

جب پی او ایس سسٹم متعارف کرایا گیا تو دو طرح کی مخالفت سامنے آئی۔ اولًا وہ لوگ جو ٹیکس نہیں دینا چاہتے تھے، اس سے بچنے کی کوشش کرتے تھے۔ تب بعض سٹوروں والوں کا اعتراض تھا کہ انھیں مارکیٹ سے پکے بل نہیں ملتے ۔ پھر حکومت اور ان کے درمیان ایک فارمولا طے ہوا ، یوں اس مسئلے کا حل نکل آیا۔

ثانیاً ، چھوٹے دکاندار نے مخالفت کی۔ وہ اب بھی مخالفت کررہا ہے اور اس سسٹم کو برداشت کرنے کو تیار نہیں۔ اس کے پاس پی او ایس سسٹم کے ساتھ چلنے کے لئے وسائل نہیں ہیں۔اس کے پاس کمپیوٹر، اکاﺅنٹنٹ اور چارٹرڈ اکاﺅنٹنٹ فرم رکھنے کی استطاعت نہیں ہے۔ اس کا مطالبہ ہے کہ فکس ٹیکسیشن کے ذریعے مجھ سے ٹیکس وصول کرلیں۔ یہ بھی ڈائریکٹ ٹیکسیشن ہی ہے۔

تاجر طبقہ کہتا ہے کہ چھوٹے دکاندار ، ہول سیلرز کی تعداد لاکھوں میں ہے، انھیں فکس ٹیکسیشن کے ذریعے ٹیکس نیٹ میں لے آئیں۔ فکس ٹیکسیشن کی بنیاد ’ کوورڈ ایریا ‘ بنائی جاسکتی ہے کہ کاروباری مرکز ، دکان وغیرہ کتنے کوورڈ ایریا میں واقع ہے۔ اسی اعتبار سے سلیبز بناکر فکس ٹیکسیشن کا ایک نظام بنایا جائے ۔

ہاں! اس میں مختلف شعبے بنانے ہوں گے۔ بعض کاروباری مراکز زیادہ پھیلاﺅ والی چیزیں فروخت کرتے ہیں مثلاً فرنیچر یا فوم والے۔ ان کے لئے الگ شرح کے ساتھ ٹیکس فکس کرلیا جائے۔ بعض کاروباری مراکز آرٹیفیشل جیولری یا اس طرح کی دیگر اشیائے ضروریہ فروخت کرتے ہیں، ان کے لئے الگ شرح سے فکس ٹیکس ہو۔

فکس ٹیکسیشن میں بجلی کے میٹر کو بھی بنیاد بنایا جاسکتا ہے کہ کس کاروباری مرکز ، دکان کے ہاں کتنے یونٹ بجلی استعمال ہوئی ہے، ان یونٹس کی بنیاد پر ٹیکس فکس کرلیا جائے۔ ایک اندازے کے مطابق پاکستان میں 54لاکھ کمرشل میٹرز ہیں لیکن ان میں سے صرف 20 لاکھ لوگ ٹیکس دیتے ہیں۔ صرف بجلی کے میٹر کو بنیاد بناکر ٹیکس نیٹ میں تقریباً تین گنا اضافہ کیا جاسکتا ہے۔

پاکستان میں اصل مسئلہ ٹیکس بیس بڑھانا ہے۔ کوورڈ ایریا ، بجلی کے بل کی بنیاد پر ایک دفعہ تاجر ٹیکس نیٹ میں آئیں تو سارے مسئلے ختم ہوجائیں گے۔ وہ صرف یہ چاہتے ہیں کہ انھیں ڈاکومنٹیشن سے بچائیں۔ ایف بی آر کے بارے میں طرح طرح کے خدشات ہوتے ہیں۔ ظاہر ہے کہ یہ خدشات دور کیے بغیر ٹیکس نیٹ نہیں بڑھایا جاسکتا۔ اسے بڑھانے کے لئے ایک اور طریقہ بھی اختیار کیا جاسکتا ہے ۔

ایسے تمام افراد جن کے بچے بڑے سکولوں میں زیادہ فیس دے کر تعلیم حاصل کر رہے ہوں، ان کی بنیاد پر ان کے والدین کی بابت معلوم کرنا چاہیے کہ وہ ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں یا نہیں۔ مثلاً ایک بچہ جو20 ہزار روپے ماہانہ فیس ادا کرتا ہو ، اس کی بنیاد پر اس کے والدین کو ٹیکس نیٹ میں لایا جاسکتا ہے۔ اسی طرح ایک فرد ذاتی حیثیت میں ایک سال میں چار ، پانچ مرتبہ ملک سے باہر جائے تو اس کی بنیاد پر معلوم کرلینا چاہیے کہ وہ ٹیکس نیٹ میں شامل ہے یا نہیں۔

ٹیکس نیٹ بڑھانے کے لئے بنیادی ضرورت حکومت اور ٹیکس اکٹھا کرنے والے ادارے کی کمٹمنٹ کی ہے۔ وہ فیصلہ کرے کہ پوری تندہی سے ، ہر فرد سے ٹیکس وصول کرنا ہے ۔ اس کے بعد اسے شہریوں کے اپنے بارے میں خدشات دور کرنا ہوں گے۔ ساتھ ہی ساتھ ایسا صاف اور شفاف نظام لانا ہوگا کہ ہر کوئی بخوشی ٹیکس نیٹ میں آنے کو تیار ہوجائے۔

کم شرح کے ساتھ ٹیکسز کی وصولی بھی اہم ہے ۔ اسکے نتیجے میں زیادہ ٹیکس وصول ہوگا ۔ یہ بات بھی ضروری ہے کہ حکومت ٹیکسیشن کا نظام اسی انداز میں رائج کرے کہ ٹیکس گزار کا ٹیکس براہ راست حکومت کو پہنچے۔ اس کے نتیجے میں ملکی نظام بہت سی خرابیوں سے محفوظ رہ سکتا ہے۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں