بادبان / عبید اللہ عابد
گزشتہ روز نیشنل پریس کلب کے سامنے دلچسپ صورت حال پیدا ہوئی ۔ پاک آرمی کے ریٹائرڈ جرنیلوں کی ایک تنظیم ویٹرنز آف پاکستان نے نیوز کانفرنس کرنا تھی جو عین وقت پر نیشنل پریس کلب کے باہر والے پارک میں منتقل کر دی گئی ۔ سابق فوجیوں کی تنظیم کا موقف ہے کہ نیشنل پریس کلب کی انتظامیہ نے انھیں کلب کے کانفرنس روم میں پریس کانفرنس کرنے کی اجازت نہیں دی تاہم نیشنل پریس کلب انتظامیہ اس موقف کو جھوٹ پر مبنی قرار دیتی ہے ۔ اس کا کہنا ہے کہ منتظمین نے خود ہی کانفرنس باہر منتقل کی۔
پاک آرمی کے ریٹائرڈ جرنیل تنظیم ” ویٹرنز آف پاکستان ” نامی تنظیم کے نام سے ریاست پاکستان کی پالیسی اور معاملات پر اثرانداز ہونے کی کوشش کرتے ہیں ۔ وہ چاہتے ہیں کہ پاکستانی سیاست کی بساط بھی انہی کی مرضی اور خواہشات کے عین مطابق بچھائی اور سجائی جائے۔ انھوں نے کافی محنت کرکے ایک بساط بچھائی تھی لیکن وہ نو ، دس اپریل دو ہزار بائیس کو الٹ گئی۔
اب یہ ریٹائرڈ جرنیل اسی طرح فرسٹریشن کے شکار ہیں جس طرح سابق وزیراعظم عمران خان ۔ شاید ان سے بھی زیادہ ۔ کیونکہ گزشتہ روز کی نیوز کانفرنس میں ریٹائرڈ افسران پاکستانی فوج کی موجودہ قیادت سے ایسے مطالبات کر رہے تھے جن کی آئین پاکستان میں ایک لفظی گنجائش بھی نہیں ۔ ان کا کہنا تھا : جب بیرونی سازش کے ذریعے حکومت تبدیل ہوئی تو ہم ریٹائرڈ افسران نے جنرل باجوہ سے ملاقات کی۔ جنرل باجوہ نے ہم سے وعدہ کیا تھا کہ 90 دن میں الیکشن کروا دیں گے، جنرل باجوہ آپکا وعدہ کہاں گیا؟
کسی نے ان ریٹائرڈ جرنیلوں کے بارے میں کہا تھا کہ یہ پیدا ہوئے ، جوان ہوئے ، ایک طویل عرصہ فوج میں گزارا ۔ بھاری بھرکم تنخواہیں ، مراعات لیں ، لیکن یہ پاکستان کا علاقہ جموں و کشمیر بھارت کے قبضے سے نہ چھڑا سکے ۔ستمبر انیس سو پینسٹھ کی جنگ یہ بھارت سے جیت نہ سکے ، اکہتر کی جنگ بھی ہار گئے ۔ کارگل میں بھی انھوں نے پاکستانی فوج کی سخت سبکی کروائی ۔ اور پھر اسی طرح ریٹائر ہوگئے ، اور پھر بڑے بڑے رقبے اپنے نام الاٹ کروا کے ، پاکستان بھر کے مختلف اداروں میں پرکشش ملازمتیں حاصل کرکے ، اب پاکستانی سیاست کو اپنے کنٹرول میں رکھنا چاہتے ہیں ۔
یہ ریٹائرڈ فوجی افسران اپنے آپ کو اس قدر طاقت ور خیال کرتے ہیں کہ اب بھی پاکستانی فوج پر مسلط رہنا چاہتے ہیں، ان کی خواہش ہے کہ پاکستانی فوج کی موجودہ قیادت ان کی خواہشات اور ان کے منصوبوں کے مطابق کام کرے۔
گزشتہ روز ان سابق فوجی افسران کی نیوز کانفرنس کے نیشنل پریس کلب میں تمام تر انتظامات ہوچکے تھے کہ اچانک اس نیوز کانفرنس کو کلب کے باہر گرائونڈ میں منتقل کردیا گیا۔ اسلام آباد نیشنل پریس کلب کے صدر انور رضا کا کہنا ہے کہ کلب میں سابق فوجیوں کی پریس کانفرنس پریس کلب انتظامیہ نے نہیں جنرل علی قلی خان کے سٹاف میجر شہباز نے باہر گراونڈ میں منتقل کی کلب انتظامیہ نے تو ڈائس اور کرسیاں بھی فراہم کیں ۔ کلب انتظامیہ نے سابق فوجیوں کو نہیں روکا۔
انور رضا کے مطابق ” ویٹرنز آف پاکستان ” کی پریس کانفرنس پریس کلب ہی کے زیر انتظام ہوئی ۔ اس کی بکنگ ‘ بول ‘ ٹی وی کے سمیع ابراہیم نے کروا کر فیس دے کر باقاعدہ رسید لی ۔ ان کا کہنا تھا کہ جنرل علی قلی خان کے سٹاف افسر نے رش زیادہ ہونے کی وجہ سے خود باہر پریس کانفرنس منتقل کی ۔
انور رضا کے بقول کسی پریشر کے باعث پریس کانفرنس روکی ہوتی تو منظور پشتین کی پریس کانفرنس کیسے پریس کلب میں ہوتی۔ ان کے بقول پہلے پریس کانفرنس کا اندر انتظام کیا گیا اور انہیں بتایا گیا کہ پانچ افراد پریس کانفرنس کرتے ہیں آپ 30 لوگ اندر آ سکتے ہیں مگر ان کا کہنا تھا لوگ زیادہ ہیں ۔
تاہم میرا خیال ہے کہ نیوز کانفرنس باہر گرائونڈ میں منتقل کرنے کی وجہ یہ تھی کہ یہ فوجی ” ویٹرنز ” صحافیوں کے سوالات کا سامنا نہیں کرسکتے تھے ۔ یہ بات بعدازاں سچ ثابت ہوئی۔ ویٹرنز آف پاکستان کے نامی گرامی جرنیلز جو بادل نخواستہ اپنے نام کے ساتھ ریٹائرڈ ” لکھتے ہیں ، کو معروف رپورٹر مطیع اللہ جان اور جنگ ، جیو کے معروف رپورٹر اعزاز سید کا سامنا کرنا پڑا ۔
جب ویٹرنز آف پاکستان کی قیادت اپنا خطاب فرما چکی ، تب سوالات کی باری تھی۔ پہلا سوال معروف رپورٹر مطیع اللہ جان نے کرنے کی کوشش کی لیکن ریٹائرڈ فوجی افسران نے سوالات کےے جواب دینے کی بجائے وہاں سے چلے جانے ہی میں عافیت سمجھی۔ حالانکہ انہی کے ساتھی انھیں مشورہ دے رہے تھے کہ آپ جس سوال کا جواب نہ دینا چاہیں ، نو کمنٹس کہہ دیجئے گا لیکن وہ سوالات سننے کو تیار نہ تھے۔
اس موقع پر ان کے ساتھیوں جن میں چند ایک خواتین بھی تھیں ، نے مطیع اللہ جان کے خلاف نعرے لگانا شروع کردیے۔جواب میں صحافیوں نے بھی نعرے بازی شروع کردی کہ مطیع اللہ جان کے سوالات سے ڈر کر جرنیل بھاگ گئے۔ راہ فرار اختیار کرتے ہوئے ریٹائرڈ جرنیلوں سے بھی بعض صحافیوں نے سوالات کرنا چاہے لیکن وہ کسی بھی صحافی کا سامنا کرنے کو تیار نہ تھے۔
یہ جرنیل اعزاز سید سے دور ، بہت دور بھاگنے کی کوشش کرتے ہیں ، حالانکہ وہ بے چارہ سوال ہی کرتا ہے ان سے۔ مثلا اس نے ایک سوال کیا کہ اسامہ بن لادن والا واقعہ آپ کے دور میں ہوا تب استعفیٰ کیوں نہ دیا ؟ریٹائرڈ جرنیل آگے آگے ، اعزاز سید اپنے سوالات لے کر پیچھے پیچھے ۔
اس صورت حال پر ایکسپریس کے رپورٹر ثاقب بشیر کا کہنا ہے :” پریس کلب کے باہر ریٹائرڈ فوجیوں کی پریس کانفرنس اور اس کے بعد کے مناظر دیکھنے کے بعد سبق آموز بات یہ نکلی ہے کہ "حاضر رہتے ہوئے ایسے کام نہ کریں کہ کل ریٹائرڈ ہونے کے بعد کسی پریس کانفرنس میں ڈر کی وجہ سے کسی "مطیع اللہ جان” سے سوال نہ لینے کا واویلا کرنا پڑے”
معروف اخبار نویس کامران یوسف نے ٹویٹ لکھی :
ویسے ان ریٹائرڈ افسران کو سمجھ تو آئی ہو گی کہ وردی میں حکم چلانا آسان ہوتا ہے لیکن جب آپ سیاست کریں گے تو پھر سوالوں کے” جواب دینا اتنا آسان نہیں ہوتا! لگتا نہیں یہ اب دوبارہ ہمت کریں گے پریس کانفرنس کرنے کی!
ریٹائرڈ فوجی افسران نے پارلیمنٹ کو تحلیل کر کے فوری الیکشن کا مطالبہ کر دیا۔ شکر ہے ریٹائرڈ افسران نے موجودہ فوجی قیادت سے یہ نہیں کہا کہ عمران خان کو فوری وزیراعظم بنایا جائے ! ان ریٹائرڈ افسران سے کوئی یہ پوچھے کہ وہ آئین کی کون سی شق کے تحت جنرل باجوہ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ انتخابات کروائیں ۔ کیا یہ آرمی چیف کا مینڈیٹ ہے؟ عوام کے ٹیکس سے پینشن اور مراعات لینے والے افسران یہ کہہ رہے ہیں وہ اس ملک کے مالک ہیں؟”
گزشتہ روز راہ فرار اختیار کرتے ہوئے ایک ریٹائرڈ جرنیل آصف یاسین نے اعزاز سید کو دھمکی دی کہ وہ اپنے جنازے کا انتظام کرے ۔اس پر معروف تجزیہ کار سلیم صافی نے کہا : جنرل آصف یاسین جیسے مہذب اور شائستہ انسان کی طرف سے اعزاز سید کو دھمکی دینے سے بڑا صدمہ ہوا۔ لگتا ہے جنرل صاحب بھی پی ٹی آئی کے کلچر سے متاثر ہوئے۔
انھوں نے اپنی ایک ٹویٹ میں لکھا کہ ” براہ مہربانی فوج کا نام استعمال نہ کریں۔ آپ لوگ اب سیاستدان ہیں ۔ کسی اور نام سے تنظیم بنالیں۔ نہیں تو باقاعدہ پی ٹی آئی میں شمولیت کا اعلان کرلیں۔ ہمیں پتہ ہے کہ ان میں بیٹھا ہوا کون اپنے بیٹے کے لئے پی ٹی آئی کا ٹکٹ لینا چاہتا ہے اور کون خود الیکشن لڑنے کا امیدوار ہے۔”
ایک تبصرہ برائے “ریٹائرڈ فوجی افسران کی پریس کانفرنس ، اصل واقعہ کیا ہوا ؟”
بہت معلوماتی تحریر ہے۔