وزیراعظم عمران خان نے وزرا کو خبردار کیا کہ تمام وزیرروزانہ اور وقت پر آفس آیا کریں، شام تک بیٹھیں، پھر کوئی یہ نہ کہے کہ مجھے وزارت سے کیوں ہٹایا ۔
ان کا کہنا تھا کہ صوبے میں پہلے فارورڈ بلاک بننے کا ڈرلگے رہتا تھا، اب تو یہ ڈر بھی نہیں، مینڈیٹ کو لینے کے لیےکوئی روایتی حربہ استعمال نہیں کیا۔
عمران خان نے کہا ہے کہ آج امریکا اور طالبان کی بات چیت ہو رہی ہے جو پاکستان نے ہی کرائی ہے۔ پشاور میں صوبائی حکومت کی 100 روزہ کارکردگی کی تقریب سے خطاب میں عمران خان نے کہا کہ ڈومور کہنے والا امریکا ہم سے مدد مانگ رہا ہے،کہتا ہے افغانستان میں طالبان سے بات چیت کراو۔ انہوں نے مزید کہا کہ جب میں کہتا تھاکہ یہ مسئلہ بات چیت کے بغیر حل نہیں ہوسکتا تو مجھے طالبان خان بنادیا گیا۔
وزیراعظم نے یہ بھی کہا کہ اگر کوئی بھی حلقہ کھلوانا چاہے تو ہم تیار ہیں،خیبر پختونخوا کےلوگوں کی زندگیوں میں تبدیلی آئی اس لیے دوسرا مینڈیٹ ملا۔
وزیراعظم ایک بار پھر وزیراعلیٰ پنجاب عثمان بزدار کی تعریفیں کیں اور کہا کہ پنجاب میں وزیراعلیٰ بادشاہ بنا ہوا تھا، عثمان کو وزیراعلیٰ بنایا تو مذاق اڑایا گیا، وہ ایماندار،دلیر اور سادہ آدمی ہیں ،نہ ان کا کوئی کیمپ آفس ہے نہ پروٹوکول،وہ ساری مافیا کے خلاف کھڑے ہو گئے ہیں۔
انہوں نےکہا کہ پنجاب کے سابق وزیراعلیٰ اور اُن کے بھائی نے اشتہاروں میں 40 ارب روپے خرچ کیے، اُنہوں نے 35 کروڑ روپے انٹرٹینمنٹ پر اور 35 ارب روپے وزیراعظم کے جہاز پر خرچ کر ڈالے۔
عمران خان کا کہنا تھا کہ خیبرپختونخوا کا وزیراعلیٰ سادہ ،سچا اور ایماندار انسان ہے، پشاور میں 5 مہمان خانے بنائے گئے ہیں، اس پر وزیراعلیٰ کو مبارک باد دیتا ہوں۔
ان کا کہنا تھا کہ قبائلی علاقے کا خیبر پختونخوا میں انضمام آسان کام نہیں، ہم قبائلی علاقوں کی ترقی کے لیے ایک روڈمیپ دے رہے ہیں،وہاں کے لوگوں کو صحت کارڈ دیں گے،قبائلی علاقوں میں بھی مقامی حکومتوں کا نظام لائیں گے،ہمارے 2 سیکریٹری صحت تھے جو ہماری اس شعبے میں اصلاحات کے خلاف کام کر رہے تھے۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ کسی حکومت نے پاکستان کو اسلامی فلاحی ریاست بنانے کی کوشش نہیں کی، جہاں امیر کو مزید امیر اور غریب کو مزید غریب کرنے کی پالیسی ہو وہ اسلامی فلاحی ریاست نہیں بن سکتا۔
انہوں نے یہ بھی کہا کہ مدینے کی ریاست کا مطلب سنت پر چلنا ہے، مدینے کی ریاست اصولوں پر کھڑی تھی، خلفاء راشدین نے سادگی سے زندگی گزاری، پیسا کمزوروں، غریبوں پر خرچ کیا، پاکستان کا مقصد بھی انھی اصولوں پر چلنا تھا۔
عمران خان نے کہا کہ وزیراعظم کو جو تنخواہ ملتی ہے اس سے میرا بنی گالہ کا خرچہ بھی نہیں نکل سکتا،میرے والد 1 مہینے کی تنخواہ میں گاڑی لے سکتے تھے، لیکن آج ایسے حالات نہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ کاروبار میں آسانیاں پیدا کر دیں تو ملک میں اتنا پیسا آئے گا کہ کوئی یہ نہیں کہے گا کہ کام کے لیے پیسے نہیں۔
وزیراعظم نے کہا کہ گورنر ہاؤس کی دیواریں توڑ کر جنگلے لگانے کا اس لیے حکم دیا تھا کہ لوگ سڑک سے اس کی خوب صورتی دیکھ سکیں،اگر حکومت نے عوام کو اپنا سمجھنا ہے تو اسے عوام کے پیسوں کا درست حساب رکھنا ہو گا ۔
عمران خان نے خطاب میں یہ بھی کہا کہ پشاور کے مہمان خانے میں ایک نوجوان آیا اور اس نے کہا کہ میں سب کے کھانے کا بندوبست کروں گا،وہ نوجوان امیر نہیں تھا، سڑک پر لوگوں کو کھانا کھلاتا تھا، اسے دیکھ کر دیگر لوگوں نے پیسا دیا اور اس نے ایک کامیاب این جی او بنائی۔
انہوں نے کہا کہ نجی اسپتالوں کا مافیا اُن کے ساتھ ملا ہوا تھا، کوئی بیوروکریٹ کام نہ کرے تو اسے نکا دیں،اگر ہم یہ کہیں کہ بیورو کریسی کام نہیں کر رہی تو لوگ ہمیں ڈنڈے ماریں گے، کیوں کہ ذمے داری ہماری ہے ،سول پروسیجرل ایکٹ پاس ہو چکا ہے، اس کے تحت ایک سال میں مقدمات کے فیصلے ہونے چاہئیں، اس پر عمل درآمد کروائیں ۔
وزیراعظم نے مزید کہا کہ ایک ارب درخت لگانے کے عمل کو کوئی اپوزیشن والا ماننے کے لیے تیار نہیں تھا، جا کر گوگل کر لیں، پتا لگ جائے گا۔