محمد اویس
خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ محمود خان نے چند روز قبل وفاق اور پنجاب کو دھمکی لگائی کہ تحریک انصاف کے اگلے لانگ مارچ میں خیبرپختونخوا کی پولیس بھی شریک ہو گی اور اگر کوئی رکاوٹ پیدا کی گئی تو اس کا جواب صوبہ کی پولیس کی جانب سے دیا جائے گا۔ اس کا واضح مطلب تھا کہ خیبرپختونخوا کی پولیس پنجاب اور وفاق پر حملہ آور ہو جائے گی۔
ملک پاکستان کی کسی اکائی نے آج تک کسی دوسری اکائی پر حملہ کی بات نہیں کی اور اگر کبھی صوبوں میں الگ الگ سیاسی پارٹیوں کی حکومت بن بھی جائے تو صبر و تحمل کا دامن ہاتھ سے نہیں جانے دیا جاتا۔ بہرحال یہ دھمکی آمیز بات خیبر پختونخوا کے وزیر اعلیٰ نے تحریک انصاف کی پارٹی کی پالیسی کے مطابق دیا کیونکہ لانگ مارچ کی ناکامی کے بعد تحریک انصاف کی قیادت کی طرف سے اشتعال انگیز بیانات ہی سامنے آ رہے ہیں۔
دوسری طرف پنجاب کے نواجوان وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز ہیں جنھیں پہلی مرتبہ اس اہم منصب پر بیٹھنے کا موقع ملا اور وہ بھی شدید ترین آئینی بحران اور مسائل کی موجودگی میں جس میں اعصاب کی جنگ اور صبر کا امتحان شامل ہیں۔
سابق گورنر عمر سرفراز چیمہ کے اشتعال انگیز بیانات اور کھلی دھمکیوں کے جواب میں نوجوان وزیر اعلیٰ حمزہ شہباز نے صبر کا دامن ہاتھ سے نہیں چھوڑا۔ عمر سرفراز چیمہ نے حمزہ شہباز کو گرفتار کرنے کے نازیبا بیانات دیئے مگر حمزہ نے خاموشی سے سب کچھ برداشت کیا اور عمر سرفراز چیمہ ملکی تاریخ میں اپنے غلط رویوں کی مثال بن کر محفوظ ہو گئے۔
مگر کمال یہ ہوا ہے کہ وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے اشتعال انگیز بیانات کا جواب حمزہ شہباز نے نہ صرف صبر و تحمل بلکہ حکمت اور تدبر کے ساتھ دیا ہے۔ اور یہ سلسلہ مذید آگے بڑھا ہے اور وزیر اعلیٰ خیبر پختونخوا محمود خان کے وفاق اور پنجاب پر حملہ کے مترادف بیانات کے جواب میں اپنی کابینہ کے پہلے اجلاس میں وزیر اعلیٰ پنجاب حمزہ شہباز نے خیبرپختونخوا کو گندم کی فراہمی کی اجازت دی ہے ۔ پنجاب کی طرف سے خیبرپختونخوا کو یہ گندم بین الصوبائی ہم آہنگی کے جذبہ کے تحت دی جا رہی ہے۔
محمود خان عرصہ چار سال سے خیبرپختونخوا کے وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہیں اور ان کی پارٹی اس صوبہ میں اپنی مدت کے نو مسلسل سال مکمل کر چکی ہے مگر اب اسی پارٹی کی قیادت وفاق اور پنجاب کے خلاف مسلح حملوں کی نامعقول اور اشتعال انگیز باتیں کر رہی ہے۔ مگر پنجاب میں وزیر اعلیٰ کے منصب پر فائز ہونے والے حمزہ شہباز کو ابھی یہ عہدہ سنبھالے ہوئے جمعہ جمعہ آٹھ دن ہوئے ہیں مگر وہ انتہائی دانش مندی ، حکمت اور تدبر سے تمام اشتعال انگیزیوں کے جواب دے رہے ہیں۔
اگر ہر اینٹ کا جواب پتھر سے دیا جائے تو یہ ملک مزید زخم زخم ہو جائے ۔ پہلے ہی اس ملک کو تکلیف دینے والے زیادہ ہیں اور مرہم رکھنے والے کم ۔ اور یہ اعزاز کی بات ہے کہ حمزہ شہباز اس ملک کے رستے زخموں پر اپنے صبر کا مرہم رکھنے والوں میں شامل ہیں۔
محمود خان اور حمزہ شہباز کے بیانات میں یہ فرق دراصل دو سیاسی جماعتوں کے بنیادی نظریہ کی وجہ سے ہے ۔ مسلم لیگ ( ن ) ایک طویل عرصہ کے بعد مختلف سیاسی تجربات سے گزرنے کے بعد ہم آہنگی کے نظریہ کی طرف گامزن ہے ۔ اور یہی وتیرہ پاکستان پیپلز پارٹی اور جمیعت علمائے اسلام کا یے ۔ سیاسی مخاصمت اور ایک دوسرے پر کیچڑ اچھالنے کا لا محالہ نقصان عوام کو اور ملک کو ہی ہوتا ہے۔ اور ملک ویسے بھی اس نہج پر پہنچ چکا ہے کہ ہمیں اتفاق اور اتحاد کی ضرورت ہے تاکہ مہنگائی سمیت مسائل کا سامنا کیا جا سکے۔
سیاسی جماعتوں کو آپس میں دست و گریباں ہونے کی بجائے ملک کیلئے اکھٹا ہونے کی ضرورت ہے۔ مگر بعض سیاسی قوتوں کی جانب سے کرسی کی خاطر عوام کو انتشار اور تشدد پر اکسایا جا رہا ہے۔ ایسے نعرے لگائے جا رہے ہیں جو سیاسی کارکنان کو مشتعل کر رہے ہیں ۔ عوام اور نوجوانوں کے جذبات سے کھیلا جا رہا ہے ۔ حتیٰ کہ حقیقی آزادی کے غیر حقیقی نعرے لگائے جا رہے ہیں ۔ ساڑھے تین سال تک دھڑلے سے حکومت کرنے کے بعد جب کرسی چھن گئی تو تحریک انصاف کی قیادت پر یک دم انکشاف ہوا کہ ہمارا ملک آزاد نہیں۔ اور ملک کو حقیقی آزادی کی طرف بڑھنے کی ضرورت ہے۔
حیرت ہے کہ غلامی کا یہ احساس حکومت میں رہتے ہوئے نہیں ہوا۔ حالانکہ امور مملکت چلاتے ہوئے تحریک انصاف کو اس بات کا زیادہ تجربہ ہونا چاہیے تھے کہ ملک میں غیر ملکی مداخلت حد سے تجاوز کر چکی ہے۔ یہ کیسی غلامی کی زنجیریں ہیں جن کا احساس تحریک انصاف کی حکومت میں رہتے ہوئے خارجہ پالیسی بناتے ہوئے، معاشی و اقتصادی فیصلے کرتے ہوئے اور ملک کی مذہبی اور نظریاتی سرحدوں کی حفاظت کرتے ہوئے احساس نہیں ہوا۔
عدم اعتماد کسی بھی حکومت کو ہٹانے کا جمہوری طریقہ ہے۔ جیسے ہی تحریک انصاف کی حکومت کے خلاف یہ جمہوری راستہ اختیار کیا گیا تو شکست ماننے کی بجائے بیرونی سازش ، غداری اور نیوٹرل کے طعنے اور الزامات تھوپ دیئے۔ کسی الزام کا کیا ثبوت ہے اور کیا دلیل ہے اس کی کوئی ضرورت نہیں۔ توڑ مروڑ کر اور قوت گفتار سے سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا رہے ہیں۔
بہرحال یہ طرز سیاست ہے جس سے ملک سنبھلنے کی بجائے بگڑ رہا ہے۔ اس ماحول میں اگر کوئی سلجھی ہوئی بات کرتا ہے وہی ہیرو لگتا ہے۔ فلموں میں ہیرو کیلئے خوش شکل اور مضبوط جسم کا مالک ہونا ضروری ہوتا ہے ۔ فلمی ہیرو سے ڈائیلاگ کی ادائیگی میں فقروں کی غلطی ہو تو وہ ویڈیو ایڈیٹنگ میں درست ہو جاتی ہے۔ مگر قوم کے ہیرو کیلئے مضبوط دماغ، بالغ النظر اور تول کر بولنے والا ہونا ضروری ہوتا ہے۔ کیونکہ قوم کے ہیرو کیلئے کوئی کیمرہ کے کرتب اور ویڈیو ایڈیٹنگ کی سہولت موجود نہیں ہوتی۔
غلط بولا ہوا ایک لفظ نفرتوں کو جنم دے سکتا ہے اور ملک کو بحرانوں میں ڈبو سکتا ہے۔ ہمیں بھی ایسے ہی قومی ہیرو کی ضرورت ہے۔