بادبان / عبید اللہ عابد
کہیں ہم ضرورت سے زیادہ سیاسی تو نہیں ہوچکے ؟ کم از کم میرا تو یہی خیال ہے کہ ہاں ! ایسا ہی ہے ۔ مجھے یہ خیال کیوں گزرا ؟ گزشتہ یا اس سے پیوستہ برسوں میں رمضان المبارک کے دوران میں ٹوئٹر پر رمضان المبارک کے حوالے سے طرح طرح کے ٹرینڈز ٹاپ ٹرینڈز میں شامل ہوتے تھے ۔ تاہم امسال پورے رمضان المبارک میں ایسا کوئی ٹرینڈ اوپر نہیں آسکا۔ جب بھی نظر پڑتی پاکستان کے حکمران گروہ یا اپوزیشن گروہوں کے ٹرینڈز ہی چھائے رہتے تھے۔ پورا مہینہ یہی کچھ ہوتا رہا ۔
گزرے برسوں میں عیدالفطر کے موقع پر بھی عید کی مناسبت سے اردو ، انگریزی زبان کے ٹرینڈز کم از کم ایک دو دن چھائے رہتے تھے لیکن امسال صرف ایک ٹرینڈ عید الفطر کا اور باقی سب پاکستانی سیاست سے متعلقہ۔ جب یہ سطور تحریر کر رہا ہوں ، یہی صورت حال ہے۔
ہم ضرورت سے زیادہ سیاسی ہوئے ، اس کا نقصان کچھ یوں ہو رہا ہے کہ دوست دوست نہ رہا ، رشتے ناتے سب کچھ ٹوٹ پھوٹ گئے ۔ چند روز پہلے کی بات ہے ، حطار کے انڈسٹریل زون میں ایک فیکٹری میں دو پکے دوست کام کرتے تھے ، ایک مسلم لیگ ن کا تھا ، دوسرا تحریک انصاف کا ۔ افطار کے بعد دونوں گپ شپ میں مصروف تھے ، اچانک گپ شپ سیاسی ہوگئی۔ پھر تلخی آگئی ، اور دونوں گتھم گتھا ہوگئے ، ایک نے لوہے کا سریا پکڑا اور دوسرے کے سر میں دے مارا ۔ مضروب گرا اور بے ہوش ہوگیا۔ بعدازاں ہسپتال میں دم توڑ گیا۔
ابھی دو روز پہلے کی بات ہے۔ پشاور میں جمعیت علمائے اسلام اور تحریک انصاف کے دو کارکن بھی اسی طرح بات کرتے کرتے گتھم گتھا ہوئے، ایک نے تیز دھار آلہ پکڑا ، دوسرے کو گھونپ دیا۔ حطار میں مرنے والا مسلم لیگ ن کا تھا اور پشاور میں تحریک انصاف کا۔
ایسے ہی مزید کئی واقعات بھی رونما ہوچکے ہیں۔ ممکن ہے کہ آپ کے علم میں بھی ہوں اور ہوسکتا ہے کہ آپ نے بھی لوگوں کو ضرورت سے زیادہ سیاسی ہوتے دیکھا ہو۔
میرے بچپن کے ایک دوست نے مجھے فیس بک پر محض اس بات پر بلاک کردیا کہ میں عمران خان پر تنقید کرتا ہوں۔ اسی طرح ایک ماموں زاد کو بھی یہی شکایت تھی ، اس نے بھی مجھے بلاک کردیا ۔ ہوسکتا ہے کہ ایسے ضرورت سے زیادہ سیاسی لوگوں کے پاس دلائل کے پہاڑ موجود ہوں، وہ اپنے ضرورت سے زیادہ سیاسی ہونے کو درست قرار دیتے ہوں ، اسے ملک و ملت کے مفاد میں سمجھتے ہوں تاہم میرا خیال ہے کہ ضرورت سے زیادہ سیاسی ہرگز نہیں ہونا چاہیے۔
سیاست ہماری مجموعی زندگی کا ایک شعبہ ہے۔ ہماری زندگی پر غالب اثر دین حق کا ہونا چاہئیے نہ کہ سیاست کا۔ دنیا میں جن اقوام نے ترقی کی ہے ، وہاں سیاست کی بنیاد خدمت ہوتی ہے۔ ہر سیاسی گروہ دعویٰ کرتا ہے کہ وہ دوسرے سیاسی گروہوں سے زیادہ قوم کی خدمت کرسکتا ہے ، اسی بنیاد پر وہ قوم کا اعتماد جیتنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہمارے ہاں سیاست کی بنیاد کی بنیاد کیا ہے ، کسی کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی ، کم از کم خدمت نہیں ہے۔ لوگوں کی آنکھوں میں دھول جھونکی جاتی ہے، جھوٹے وعدے کئے جاتے ہیں ۔ یہاں سیاست دان اپنا الو سیدھا کرتے ہیں اور بس ! اس کے لئے وہ اپنے کارکنان کو دوسرے کارکنان سے لڑنا اور مرنا سکھاتے ہیں۔ اور خود اپنی اپنی پناہ گاہوں میں بیٹھ کو ان لڑائیوں کے مزے لیتے ہیں۔
تحریک انصاف کے سربراہ عمران خان نے تو حد ہی کردی ، اپنے کارکنان کو مدینہ منورہ میں مسجد نبوی تک بھیج دیا کہ جائو ! سیاسی مخالفین کا گھیرائو کرو۔ اپنے کارکنان سے کہا کہ نماز عید کے بعد گلے ملو تو ( عید مبارک کے بجائے ) ایک دوسرے کے کان میں کہنا : حقیقی آزادی کے لئے نکلنا ہے۔
عمران خان اپنے کارکنان کو دوسرے سیاسی کارکنان سے نفرت کا سبق دیتے ہیں لیکن خود اپنے سیاسی مخالفین کے ساتھ بوقت ضرورت مل بیٹھتے ہیں۔ ابھی ایک دو ماہ پہلے تک عمران خان شہباز شریف کے ساتھ بیٹھ کر بات کرنے سے انکاری تھے کہ میں چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا ۔ اسمبلیوں سے استعفے دیتے ہوئے بھی عمران خان نے یہی بات کہی تھی کہ چوروں کے ساتھ نہیں بیٹھ سکتا۔ تاہم اب وہی عمران خان اپنے ساتھی شیخ رشید کے ذریعے شہباز شریف کو پیغام دے رہے ہیں کہ آئیں ! مل بیٹھ کر اگلے عام انتخابات کے لئے بات چیت کریں۔
یہی عمران خان بوقت ضرورت مسلم لیگ ن سمیت اپنے سیاسی مخالفین سے اتحاد بھی کر لیتے ہیں۔ ذرا دو ہزار پندرہ کے سینیٹ انتخابات میں صوبہ خیبر پختونخوا میں مسلم لیگ ن اور تحریک انصاف کا باہمی تعاون ملاحظہ فرمائیں ، اسی طرح تحریک انصاف نے صادق سنجرانی کو چئیرمین سینیٹ بنوانے کے لئے پیپلزپارٹی کا تعاون حاصل کیا۔ اس کے لئے فلور کراسنگ بھی کروائی جسے عمران خان نے اس وقت ضمیر کی آواز قرار دیا تھا ۔ اپنے خلاف تحریک عدم اعتماد کے وقت جب کچھ ارکان اسمبلی نے فلور کراسنگ کرنے کا ارادہ کیا تو انھیں غدار قرار دیا گیا ، ان کا گھیرائو کرنے کے منصوبے بنائے گئے ۔
مقامی انتخابات میں خیبرپختونخوا سے سندھ تک بعض مقامات پر تحریک انصاف کا جمعیت علمائے اسلام سمیت مخالف جماعتوں سے اتحاد بھی دیکھنے کو ملا۔
جب آپ خود سیاسی مخالفین کے ساتھ مل بیٹھنا اور ان کے ساتھ اتحاد کرنا جائز سمجھتے ہیں تو اپنے کارکنان کو سیاسی مخالفین سے نفرت کرنا کیوں سکھاتے ہیں؟ گالم گلوچ سے تشدد تک کے سبق کیوں دیتے ہیں؟ انھیں سیاسی مخالفین سے قطع تعلق کرنے کی طرف کیوں دھکیلتے ہیں؟
یہی بات تحریک انصاف کے کارکنان کو بھی سوچنا ہوگی ، وہ اپنے سیاسی قائد کی خاطر اپنے معاشرتی تعلقات کو کیوں تباہ کرنے پر تلے ہوئے ہیں ؟ ان سیاسی کارکنوں کی آنکھوں پر ایسی کالی پٹی بندھ چکی ہے کہ وہ کچھ بھی سوچنے ، سمجھنے سے قاصر ہیں۔ انھیں اپنے لیڈر کے ہر کام کا دفاع ہی کرنا ہے ، چاہے وہ مسلم لیگ ن ، پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام سے تعاون کا ہو یا عدم تعاون کا ۔
تحریک انصاف کے کارکنان کو سمجھنا ہوگا کہ پاکستانی سیاست میں کچھ بھی حرف آخر نہیں ہوتا۔ آج کے سیاسی مخالف ، کل کے اتحادی ہوسکتے ہیں اور پھر یہی اتحادی ، سیاسی مخالف بھی ہوسکتے ہیں۔ کوئی وقت تھا کہ عمران خان ایم کیوایم کے بارے میں سخت زبان استعمال کیا کرتے تھے ، پھر وہی ایم کیو ایم ان کی اتحادی بن گئی اور ایم کیوایم سے تعلق رکھنے والے وزیروں کے بارے میں عمران خان نے سرٹیفکیٹ جاری کیا کہ ایم کیو ایم کے وزیروں جیسے نفیس لوگ میری کابینہ میں نہیں ۔ پھر یہ بھی کہا : ” ایم کیو ایم کے کارکنان کو زندہ لاشیں کہنا میری غلطی تھی” ۔ پھر یہ بھی کہا : ” ایم کیو ایم کا نظریہ تحریک انصاف کے نظریے جیسا ہی ہے” ۔
جس ایم کیو ایم کی تعریف میں عمران خان اس قدر رطب اللسان تھے ، آج کل وہی ایم کیو ایم ایک بار پھر غدار وطن قرار پا رہی ہے کیونکہ اس نے تحریک عدم اعتماد میں عمران خان کے خلاف ووٹ دیا تھا ۔ یہ بات کہیں لکھ کر رکھ لیجئے ، آنے والے دنوں میں کہیں نہ کہیں پیپلزپارٹی ، جمعیت علمائے اسلام سے اتحاد ہوگا اور پھر عمران خان اپنے سیاسی مخالفین کے بارے میں آج کے خیالات کو غلطی قرار دے رہے ہوں گے ۔
حاصل کلام یہی ہے کہ تحریک انصاف کے کارکنان اپنے مخالف سیاسی کارکنان سے نفرت سے گریز کریں ، گالم گلوچ سے پرہیز کریں، ذاتی تعلقات کو مزید خوشگوار اور مضبوط بنائیں ، ان کے ساتھ مل بیٹھا کریں، یہی معاشرتی حسن ہوتا ہے۔ آنے والے دنوں میں آپ کو ان کے ساتھ کہیں نہ کہیں چلنا پڑے گا۔ نفرت کریں گے اور تشدد کو فروغ دیں گے تو ممکن ہے کہ زیادہ نقصان آپ ہی کو ہو ۔ کیا آپ ہی کو نفرت کرنا آتی ہے ؟ کیا آپ ہی تشدد کرسکتے ہیں ؟ کیا آپ ہی اپنے سیاسی مخالفین کا گھیرائو کرسکتے ہیں ؟ کیا آپ ہی اپنے سیاسی مخالفین پر جوتا اچھال سکتے ہیں؟ کیا آپ کے سیاسی مخالفین کو یہ سارے کام کرنے نہیں آتے؟ ان سوالات پر غور کیجئے ، امید ہے کہ آپ اپنے رویوں پر نظر ثانی کریں گے۔