اسد ابن حسن………
مکیش امبانی کی ترقی کا سفر،اثاثوں کی مالیت 500ہزار کروڑ سے زائد،مکیش کے والد دھیرو بھائی نےاوائل میں معالجات کا کاروبار کیاپھرٹیکسٹائل سے منسلک ہوکر ’’ومل‘‘برانڈ متعارف کروایا، اس وقت دنیا کے 11ویں امیر ترین شخص مکیش امبانی کمیونی کیشن،موبائل فونز کی کمپنیوں کے ساتھ ساتھ تیل ریفائنری کے بھی مالک ہیں، آج کل دیا بھر کے اخبارات میں دنیا کی سب سے مہنگی بھارتی شہری ایشا امبانی کی شادی کی خبریں نمایاں شائع کی جارہی ہیں۔
ہم آپ کو یہ بتاتے ہیں کہ ایشا کے والد مکیش دھیرو بھائی امبانی دو کمروں کے فلیٹ سے سیکڑوں ارب روپے کے جہاز نما رہائشی بلڈنگ کے مالک کیسے بنے۔ مکیش کی پیدائش یمن میں ہوئی، لڑکپن میں ان کی فیملی واپس ممبئی آگئی،وہیں سے اُنہوں نے 1970ء میں بی آئی کی ڈگری حاصل کی اور بیرون ملک مزید تعلیم حاصل کرنے کے لیے چلے گئے مگر والدہ کے اصرار پر پڑھائی ادھوری چھوڑ کر واپس آگئے۔
شروع میں دھیرو بھائی نے معالجات کا کاروبار کیا اور کچھ عرصے بعد ٹیکسٹائل کے کاروبار سے منسلک ہوئے اور مشہور برانڈ ’’ومل‘‘ متعارف کروایا۔ 1970ء تک دھیرو بھائی اپنی فیملی، بیوی اور تین بچوں (دو بیٹے ایک بیٹی) کے ساتھ ممبئی کے علاقے بھولیشور میں دو کمروں کے اپارٹمنٹ میں رہائش پذیر رہے، شروع شروع میں مکیش امبانی کو اپنے والد کی طرف سے کوئی پیسے نہیں ملتے تھے اور وہ سفر، سرکاری بسوں میں کرتے تھے، بعد میں دھیرو بھائی نے کولابا کے علاقے میں ’’سی ونڈ‘‘ نامی بلڈنگ میں دو فلور خریدے جہاں ایک فلور پرمکیش امبانی کی فیملی اور دوسرے پر اس کے بھائی انیل امبانی کی فیملی کافی برس تک رہائش پذیر رہی۔
مکیش امبانی نے نوجوانی میں تمام کھیل جس میں ہاکی، کرکٹ اور فٹ بال شامل تھے، کھیلے۔ ان کو بھارتی فلمیں دیکھنے کا بہت شوق تھا اور بڑی مشکل سے پیسے جمع کرکے سینما جاتے تھے، جب مکیش کو اسٹین فورڈ یونیورسٹی سے واپس بلوایا گیا تو اُن کے والد نے موجودہ وقت کی سب سے بڑی کمپنی ریلائنس کی بنیاد رکھی تھی اور وہ چاہتے تھے کہ ان کا بیٹا مکیش ان کے کاروبار کو بڑھانے میں ان کی مدد کرے اور مکیش ان کی توقعات پر پورے اُترے۔ 1980ء میں دھیرو بھائی امبانی نے بڑی مشکل اور تگ و دو کے بعد پی ایف وائی (پولیسٹر فلامنٹ یارن) کا لائسنس لیا اور اس کاروبار میں قدم رکھا اور پھر وہیں سے ان کی قسمت کا ستارہ عروج بام پر پہنچا، اس بزنس کو دھیرو بھائی کے خاص ملازم راسک بھائی میسوانی کے ساتھ نتھی کردیئے گئے جو ان کے احکامات لیتے تھے اور ان ہی کو رپورٹ کرتے تھے اور ایسا ان کے انتقال تک ہوتا رہا۔
پھر جب 1985ء میں دھیرو بھائی بھی انتقال کرگئے تو سارا بزنس دو بھائیوں نے چلانا شروع کیا مگر اختلافات بڑھنے لگے تو ان کی والدہ نے 2004ء میں بٹوارا کردیا اور زیادہ منافع بخش بزنس انیل امبانی کے حصے میں آگیا، 1986ء میں مکیش امبانی نے موجودہ وقت کی ریلائنس کمیونی کیشن لمیٹڈ کی بنیاد رکھی۔ اس کے بعد مکیش پیٹرولیم انڈسٹری کی مصنوعات میں بھی تیزی سے ترقی کرنے لگے، ان کی پٹرولیم کمپنی جو جام نگر میں واقع ہے، 660ہزار بیرل خام تیل کو ریفائن کیا جاتا ہے۔ 2013ء میں بھارتی مشہور ٹیلی کمیونی کیشن کمپنی ایئرٹیل سے شراکت کی اور کہا کہ تین برس میں ایک کھرب 80ارب کی سرمایہ کاری کی جائے گی اور وہ پھر انڈیل میں اُنہوں نے موبائل فون کے 4G کا سب سے بڑا ٹھیکہ لے کر سرمایہ کاری کی اور ساتھ ہی موبائل فون تیار کرنے شروع کردیئے جو دیکھتے ہی دیکھتے اپنی پائداری، سستے ہونے اور بعداز فروخت بھی بہترین سروس کی وجہ سے زیادہ فروخت ہورہے ہیں، ان کے فون ناصرف انڈیا بلکہ دنیا کے 108ممالک میں برآمد کیے جاتے ہیں۔ جیہو برانڈ بینڈ کے ڈیڑھ ارب کسٹمر صرف 170دن میں بنے۔
ریلائنس کے تین ہزار 700ریٹیل اسٹورز پر ہر ماہ ڈیڑھ کروڑ افراد خریداری کرتے ہیں۔ یہ اسٹورز ملک کے 800سے زائد شہروں میں قائم ہیں۔ امبانیز کی ریلائنس فاؤنڈیشن نے اب تک ایک کروڑ سے زائد افراد کی فلاحی کاموں پر 670کروڑ خرچ کیے ہیں۔ اس وقت مکیش دنیا کے 11ویں امیر ترین شخص بن گئے اور ان کی دولت اور پراپرٹی کا تخمینہ 44.3بلین ڈالر (پاکستانی پانچ سو ہزار) کروڑ سے زائد ہیں۔ ان کے چائے کے کپ کا ایک سیٹ تین لاکھ روپے سے زائد کا ہے، ایک مرسیڈیز کار کی مالیت 3 کروڑ سے زائد، ایک دوسری کار اسٹین مارٹن مالیت 4کروڑ، ایک اور کار بی ایم ڈبلیو کی مالیت 9کروڑ، مزید ایک مہنگی رولس رائز کار مالیت 10کروڑ، ایک وینٹی وین مالیت 26کروڑ، ایک فیلکن طیارہ مالیت 370کروڑ، ایک ایئربس طیارہ مالیت 400کروڑ، ایک بوئنگ بزنس جیٹ طیارہ مالیت 600کروڑ، ایک سپر آسائش پاٹ (بحری بڑی کشتی) مالیت 700کروڑ، ان کی رہائش گاہ جو چودہ منزلہ ہے اور جس کی دیکھ بھال 600ملازمین کرتے ہیں۔ اس کی مالیت 15ہزار کروڑ، ریلائنس جیبو کی مالیت 170ہزار کروڑ، اور ریلائنس انڈسٹریز کی مالیت 8.400ٹریلین روپے، جس شخص کے پاس اتنی بے پناہ دولت ہو وہ یقینا اپنی اکلوتی بیٹی کی شادی اور جہیز پر کئی ارب روپے خرچ کرسکتا ہے۔