ام محمد عبداللہ
پہلے یہ پڑھیے :
امی جان کی رمضان ڈائری ( پہلا ورق )
امی جان کی رمضان ڈائری ( دوسرا ورق )
امی جان کی رمضان ڈائری ( تیسرا ورق )
امی جان کی رمضان ڈائری ( چوتھا ورق )
امی جان کی رمضان ڈائری ( پانچواں ورق )
”ہائے ہائے ہائے، ہائے مجھے بہت درد ہو رہا ہے۔“ صہیب تیزی سے سیڑھیاں اترتے ہوئے گر گیا تھا۔ باقی تو خیریت رہی بس پاؤں مڑ جانے کی وجہ سے درد کر رہا تھا اور اس نے ہائے وائے کر کے آسمان سر پر اٹھا لیا تھا۔ ابھی بھی امی جان اسے پاؤں پر مالش کر کے دے رہی تھیں اور ساتھ ہی تسلی بھی کہ ان شاء اللہ جلد ہی آرام آ جائے گا مگر وہ صہیب ہی کیا جو خاموش ہو جاتا۔
سعد بھائی جو قریب ہی لیٹے سونے کی کوشش کر رہے تھے صہیب کے شور سے تنگ آ کر اٹھے اور غصے میں چلانے لگے۔”اف توبہ، ایک تو دھیان سے سیڑھیاں اتر نہیں سکتا بدتمیز کہیں کا، دوسرا شور تو دیکھو سارے محلے کو جگا رہا ہے۔ ابھی تلاوت کر کے لیٹا ہوں، سونے کی کوشش کر رہا ہوں۔ مسلسل اس کو نظر انداز کر رہا ہوں مگر جاہل کہیں کا دماغ کھا گیا ہے۔ اب آواز نکالی تو ماروں گا۔“
سعد بھائی کی ڈانٹ سن کر صہیب نے ” بھائی آپ گندے ہیں۔ بھائی آپ گندے ہیں“ کہتے ہوئے رونا شروع کر دیا تھا ۔ امی جان جو پہلے ہی صہیب کے شور مچانے سے تنگ ہو رہی تھیں سعد بھائی کے غصے نے انہیں مزید پریشان کر دیا تھا۔
”سعد! یہ کون سا انداز ہے؟ کیا روزہ رکھ کر ایسے بولتے ہیں؟صہیب اللہ پاک آپ کی تکلیف دور کریں گے کچھ تو صبر کرو۔ سو جائیں آپ دونوں۔“امی جان نے سخت لہجے میں دونوں بچوں کو ڈانٹا اور جانے کے لیے اٹھنے لگیں تو صہیب نے ان کا دوپٹہ پکڑ لیا۔
” بھائی مجھے ماریں گے ۔ مجھے درد بھی ہو رہا ہے ۔ پلیز! آپ میرے ہی پاس بیٹھیں، کہیں نہ جائیں ۔“
”اچھا ٹھیک ہے۔“ امی جان اس کے پاس ہی بیٹھ گئیں ۔ اسے نیند آ رہی تھی وہ جلد ہی سو گیا۔جب اس کی آنکھ کھلی تو امی جان اس کے قریب بیٹھی اپنی رمضان ڈائری میں کچھ لکھ رہی تھیں۔ اس نے سرہانے پر سر ذرا سا اونچا کیا تو اسے ڈائری میں لکھے جانے والے جملے نظر آنے لگے۔ امی جان لکھ رہی تھیں۔
”آج طبیعت بہت پریشان ہے ۔ صبح صہیب سیڑھیوں سے گرا تو اس کا پاؤں مڑ گیا۔ اسے بہت تکلیف ہو رہی تھی۔ وہ زور شور سے دیر تک اپنی تکلیف کا اظہار کرتا رہا ۔ آج کل سعد کی نیند بھی پوری نہیں ہو رہی اسی وجہ سے وہ چڑچڑا ہو کر ہر بات پر غصہ کرنے لگا ہے ۔ میں سوچ رہی ہوں رمضان المبارک تو صبر کا مہینہ ہے۔ روزہ ہمیں ہماری پسندیدہ چیزوں سے روک کر صبر ہی کی تو تربیت دیتا ہے۔ یہ صبر ہی ہے جو زندگی کے ناخوشگوار واقعات اور لوگوں کے برے رویوں کا اچھے طریقے سے سامنا کرنا سکھاتا ہے۔
ناخوشگوار باتوں پر شور مچانے، غصہ اور بدتمیزی کرنے سے تو کچھ حاصل نہیں ہوتا ہاں اگر ان سب پر صبر کر لیا جائے تو دنیا میں بھی عزت و کامیابی ملتی ہے اور آخرت میں بھی بےحساب اجر ہے۔ میں بہت دکھی ہوں میرے بچوں میں سے آج کسی نے بھی صبر سے کام نہیں لیا حالانکہ دونوں کا روزہ بھی تھا۔ ہم رمضان المبارک میں بھی صبر کرنا نہیں سیکھیں گے تو کب سیکھیں گے؟ بس میں نے پکا ارادہ کر لیا ہے کہ ہر مشکل پر صبر کروں گی۔اپنی زبان کی حفاظت کروں گی منہ سے کوٸی غلط بات نہیں نکالوں گی۔ غصے کو قابو میں رکھنے کی کوشش کروں گی۔ ان شاء اللہ میرے بچے میرے رویے سے صبر کرنا سیکھیں گے ۔
میں انہیں بتاؤں گی کہ سورۃ الدھر میں اللہ تعالی فرماتے ہیں
”اور ان کے صبر کی وجہ سے ان کا بدلہ جنت اور حریر ہو گا۔“میں اپنے اور اپنے بچوں کے صابر ہونے کے لیے دعائیں بھی مانگوں گی۔ امی جان نے ڈائری بند کر کے ایک جانب رکھی مڑ کر صہیب کی جانب دیکھا تو اس نے جلدی سے آنکھیں بند کر لیں۔ وہ لیٹا بہت دیر تک اپنی تکلیف پر صبر اور روزے کے بارے میں سوچتا رہا۔
”اگر میں روزے کی حالت میں پیاس اور بھوک برداشت کر سکتا ہوں تو پھر میں اللہ تعالی سے اجر کی امید رکھتے ہوٸے اپنی کوٸی بھی تکلیف برداشت کر سکتا ہوں۔ صبر کر سکتا ہوں۔“ وہ کام کی بات سمجھ گیا تھا۔
”سعد بھائی! مجھے آپ سے معافی مانگنی ہے۔ صبح میرے شور کرنے پر آپ کی نیند خراب ہوئی ۔“ صہیب افطار کے بعد سعد بھائی کے قریب آ بیٹھا تھا۔
”ارے نہیں، صبح تمہیں اتنا درد ہو رہا تھا اور میں نے بھی تمہیں ڈانٹنا شروع کر دیا۔ پلیز تم اس بات کو جانے دینا۔“ سعد بھائی نے شرمندہ ہو کر جواب دیا۔
”سعد بھائی مجھے پتا چلا ہے کہ اگر کوئی تکلیف آ جائے تو شور نہیں مچانا، بدتمیزی نہیں کرنی بلکہ صبر کرنا ہے اور اس صبر کے بدلے دنیا میں بھی عزت اور کامیابی ہے اور آخرت میں اللہ تعالی کی جانب سے جنت کا وعدہ ہے۔“
”اچھا میرے پروفیسر بھائی پھر۔۔۔۔“سعد بھائی صہیب کے سمجھانے کے انداز پر مسکرانے لگے تھے۔
”پھر یہ کہ میں تو ہر تکلیف پر اب صبر کیا کروں گا۔“ صہیب نے جوش سے کہا تو سعد بھائی شرارت سے اس کی جانب لپکے ”پھر تو تمہارا امتحان ہونا چاہیے آؤ میں تمہیں سیڑھیوں سے دھکا دوں۔“
صہیب ”نہیں“ کہتے ہوئے بھاگتا ہوا امی جان سے جا کر لپٹ گیا تھا اور سب ہی ان کی شرارت پر ہنس رہے تھے۔ ( جاری ہے )