ڈاکٹر خولہ علوی
رمضان نیکیوں کا موسم بہار ہے اور خدمت خلق کا اہم ترین مہینہ ہے۔ اس ماہ کو خود رسول اکرم ﷺ نےشَھْرُ الْمُوَاسَاۃِ قرار دیا ہے یعنی غم خواری کا مہینہ۔
یہ دوسروں سے ہمدردی اور مروت و محبت کو فروغ دینے کا مہینہ ہے، اس میں جتنا ہوسکے، اپنی ذاتی عبادات کے ساتھ ساتھ دوسروں سے ہمدردی اور عملی تعاون کرنا چاہیے اور خدمت خلق کرنی چاہیے۔
انسان کی انفرادی نیکیوں اور تقوی کے علاوہ اجتماعی طور پر بھی ایک دوسرے کے ساتھ تعاون اور دوسروں کی مدد کا ماحول پیدا کرنا پڑا اہم ہے۔ اس میں دوسروں سے تعاون، ہمدردی، مساوات، اخوت، رواداری وغیرہ شامل ہیں۔
حضرت ابن عباس رضی اللہ تعالیٰ عنہ روایت کرتے ہیں کہ
“نبی جود و سخا ﷺ سب سے زیادہ سخی و فیاض تھے اور خاص طور پر رمضان میں، جب جبرائیل آپ ﷺ سے ملتے تو آپ ﷺ سب لوگوں سے زیادہ سخی ہوتے تھے اور جبرائیل آپ سے رمضان کی ہر رات میں ملتے اور قرآن مجید کا دور کرتے۔ آپ ﷺ بھلائی پہنچانے میں ٹھنڈی ہوا سے بھی زیادہ سخی تھے۔” (صحیح بخاری: 5)
نبی اکرم ﷺ کی سخاوت اور فیاضی اس مہینے میں تیز رفتار آندھی سے بھی بڑھ جاتی تھی۔ وہ کسی سائل کو خالی ہاتھ نہیں لوٹاتے تھے۔ اور غریبوں کی تمام ضروریات پوری کرتے تھے۔
آپ ﷺ نے فرمایا
“بہترین انسان وہ ہے جو دوسروں کے لئے فائدہ مند ہو۔”
ماہ رمضان کو “شھر المواساۃ”قرار دیے جانے کا مطلب یہ ہے کہ روزہ صرف بھوک پیاس برداشت کرنے کا نام نہیں بلکہ خدمت خلق کی سالانہ ٹریننگ ہے۔
ایک حدیث میں رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: “میں اور یتیم کی کفالت کرنے والا، وہ یتیم چاہے اس کا رشتہ دار ہو یا نہ ہو، جنت میں اس طرح قریب ہوں گے جیسے میری یہ دو انگلیاں۔”
ایک دوسری حدیث میں ارشاد ہوتا ہے کہ:
“اللہ تعالیٰ بندے کی مدد میں اس وقت تک لگا رہتا ہے جب تک بندہ اپنے بھائی کی مدد میں لگا رہتا ہے۔”
حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
“جب آدمی فوت ہو جاتا ہے تو اس کا عمل موقوف ہو جاتا ہے مگر تین چیزوں کا ثواب جاری رہتا ہے: ایک صدقہ جاریہ کا، دوسرے اس علم کا جس سے لوگ فائدہ اٹھائیں اور تیسرے نیک بخت اولاد کا جو اس کے لیے دعا کرے۔” (صحیح مسلم)
حضرت انس بن مالک سے روایت ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا:
“کوئی بھی مسلمان جو ایک درخت کا پودا لگائے یا کھیت میں بیچ بوئے پھر اس میں سے پرندہ یا انسان یا جانور جو بھی کھاتے ہیں وہ اس کی طرف سے صدقہ ہے۔”
(صحیح بخاری)
درد دل کے واسطے پیدا کیا انسان کو
ورنہ طاعت کے لیے کچھ کم نہ تھے کرّ و بیاں
ازواج مطہرات اور صحابہ کرام بھی آپ ﷺ کے اس اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہونے کی کوشش کرتے تھے اور رمضان المبارک میں خصوصاً دوسروں سے ہمدردی کرتے ہوئے ان کی ضروریات پوری کرنے کی کوشش کرتے تھے۔
یہ مہینہ انفرادی و اجتماعی عبادت کے ساتھ ساتھ انسانیت کی خدمت خلق اور مسکینوں کی مدد و معاونت کا مہینہ ہے۔ مسلمان کثرت سے صدقہ و خیرات کرتے، زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں، سحری و افطاری کے لیے راشن یا پکے ہوئے کھانے کا انتظام و انصرام کرتے ہیں۔ عید الفطر کے لیے کپڑوں اور جوتوں وغیرہ کا اہتمام بھی کیا جاتا ہے۔
صلہ رحمی کرتے ہوئے خاندان کے غریبوں اور مسکینوں کا خاص خیال رکھنا ضروری ہوتا ہے۔ اور “الالقرب فالاقرب” کے اصول پر عمل کرتے ہوئے قریبی رشتہ داروں کی پہلے مدد کرنی چاہیے۔ کیونکہ صلہ رحمی کرنے والا دوہرے ثواب کا مستحق قرار دیا گیا ہے۔
احادیث کے مطابق رمضان میں اپنے ملازمین کا بوجھ ہلکا کر دینا چاہیے۔ ان پر غیر ضروری اور غیر انسانی مشقت و تکلیف نہیں ڈالنی چاہیے۔ اگر ان کا کوئی دُشوار کام ہو تو خود بھی اُن کی مدد کرنی چاہیے۔
خدمت خلق (Welfare) کے کاموں کے لئے سب سے پہلے اور ضروری بات یہ ہے کہ انسان اللہ اور آخرت پر ایمان رکھتا ہو کیونکہ اگر اس میں ایمان جیسی خصلت ہو گی تو وہ تب ہی معاشرے کے لیے فائدہ مند ثابت ہو سکتا ہے۔ اس کے برعکس اگر کوئی شخص حقوق اللہ پورے نہ کرے اور صرف حقوق العباد پر زور دے اور کہے کہ قیامت کے دن اللہ تو اپنا حق معاف کردے گا لیکن بندوں کے حق معاف نہ ہوں گے۔” تو یہ اس کا غلط عقیدہ اور نظریہ ہے کیونکہ نہ عقیدہ میں، نہ نماز اور روزے میں کوئی معافی ہوگی اور نہ ہی بندوں کے حقوق میں ۔ حقوق اللہ اور حقوق العباد دونوں کی ادائیگی ضروری ہے۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا دور خلافت اور ان کی خدمات خلق:
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے دور میں ان کی حکومت بائیس لاکھ مربع میل تک پھیلی ہوئی تھی۔ اور تمام لوگوں کو عزت و آبرو اور جان و مال کا مکمل تحفظ حاصل تھا۔ تمام بنیادی ضروریات زندگی بہترین طریقے سے حاصل تھیں۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کا فرمان تھا کہ:
“اگر دریائے فرات کے کنارے ایک کتا بھی بھوکا مر جائے تو اس کا سوال بھی عمر سے ہوگا.”
ان کے دور خلافت میں اتنا امن و سکون تھا کہ شیر اور بکری ایک گھاٹ پر پانی پی سکتے تھے ۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی خدمت خلق کا دائرہ کار بہت وسیع تھا جس میں زندگی کے تمام معاملات اور میدان شامل تھے ۔ وہ راتوں کو شہر کی گلیوں میں گشت کرتے اور رعایا کے حالات سے باخبر رہتے۔ اگر کسی گھر سے بچے کے بھوک کی وجہ سے رونے کی آواز آتی تو خود کمر پر آٹے کی بوری اور دیگر سامان اٹھا کر پہنچ جاتے۔ اگر کسی عورت کا جہاد پر گیا ہوا شوہر گھر زیادہ عرصے تک گھر واپس نہ آتا تو اسے جہاد سے واپس بلواتے۔ انہوں نے بچوں، بیواؤں، یتیموں، مسکینوں اور غیر مسلموں سب کے لیے باقاعدہ وظیفے مقرر کیے تھے ۔
سویڈن ملک میں حضرت عمر کے بنائے ہوئے قوانین عمر کے قوانین (Umar’s law ) کے نام سے معروف ہیں۔ جن میں لوگوں کے لیے تمام فلاحی امور شامل ہیں۔
اسی طرح دیگر کئی ممالک میں بھی حضرت عمر کے قوانین جزوی طور پر رائج ہیں ۔خواہ وہ انہیں اسلامی یا حضرت عمر کے قوانین تسلیم کریں یا نہ کریں۔ لیکن وہ ان کے مطابق عمل کرتے ہیں۔
مشرکین کی خدمت خلق :
مشرکین مکہ حاجیوں اور عمرہ کرنے والوں کو پانی پلانے، ان کی خدمت کرنے اور مسجد حرام کی خدمات سر انجام دینے اور دیکھ بھال کرنے پر بڑا فخر کرتے۔ لیکن اللہ نے سورۃ التوبہ میں واضح کر دیا کہ جو مشرک عمل کرے گا وہ قبول نہیں چاہے وہ ظاہری طور پر خیر و بھلائی کا کام ہی ہو۔
عبداللہ بن جدعان کی خدمات خلق :
عبداللہ بن جدعان مکہ مکرمہ کا مشرک ریئس اور سخی و فیاض انسان تھا جو خدمت خلق کے کام سر انجام دیتا تھا۔ اس کے غلام خانہ روز کعبہ کی چھت پر چڑھ کر اعلان کرتے تھے کہ “جس نے بہترین کھانا کھانا ہے وہ عبداللہ بن جدعان کے دسترخوان پر آجائے۔” ہر طرح کے لوگ اس کے دستر خوان سے کھانا کھاتے۔ کھانا اتنی زیادہ مقدار میں پکتا تھا کہ اس کی دیگ سے سیڑھی لگا کر کھانا نکالا جاتا تھا۔
چونکہ لوگ زمانہ جاہلیت میں بیٹیوں کو زندہ درگور کر دیتے تھے تو عبداللہ بن جدعان ان بچیوں کو ان کے باپوں سے پیسے دے کر خرید لیتا، ان کی پرورش کرتا، انہیں تعلیم و تربیت دیتا اور ان کی شادیاں کرتا۔
صحیح مسلم میں روایت ہے:
عَنْ عَائِشَةَ قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللهِ، ابْنُ جُدْعَانَ كَانَ فِي الْجَاهِلِيَّةِ يَصِلُ الرَّحِمَ، وَيُطْعِمُ الْمِسْكِينَ، فَهَلْ ذَاكَ نَافِعُهُ؟ قَالَ: ” لَا يَنْفَعُهُ، إِنَّهُ لَمْ يَقُلْ يَوْمًا: رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ “
امّ المومنین سیّدہ عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ میں نے رسول اکرم ﷺ سے کہا کہ:
“اے اللہ کے رسول! عبداللہ بن جدعان دور جاہلیت میں تھا (اس لئے اسلام تو نہیں لائے ،تاہم) وہ رشتے ناتے نبھانے والا، غرباء و مساکین کو کھلانے والا تھا ، کیا اس کو اس کے اعمال کا کوئی فائدہ ہوگا؟”
نبی اکرم ﷺ نے فرمایا:
«لَا يَنْفَعُهُ لَمْ يَقُلْ يَوْمًا: رَبِّ اغْفِرْ لِي خَطِيئَتِي يَوْمَ الدِّينِ»
ترجمہ: “نہیں، کیونکہ اس نے کسی بھی دن یہ نہیں کہا کہ :اے میرے رب! قیامت کے روز میرے گناہ کو بخش دینا۔”
ایک مرتبہ حضرت عائشہ نے نبی اکرم ﷺ سے دریافت کیا:
“کیا اللہ عبداللہ بن جدعان کو اس کے نیک کاموں کے بدلے میں جنت میں داخل کریں گے؟” نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
“اس نے کبھی یہ نہیں کہا تھا کہ
“اللھم اغفرلی” یعنی”مجھے بخش دے”
یعنی وہ آخرت پر یقین نہیں رکھتا تھا۔ اور اس نے کبھی بھی اللہ سے بخشش نہیں مانگی تھی۔ تو اس کی بخشش کیسے ہو جائے گی؟
حاتم طائی کی خدمت خلق اور سخاوت
اسلام سے پہلے ایک نیک دل عیسائی انسان حاتم طائی لوگوں کی مہمان نوازی اور خدمت میں کوئی کسر نہیں چھوڑتا تھا۔
اس کی خدمت خلق اور سخاوت تو ضرب المثل ہے ۔ یہ مذہب کے لحاظ سے عیسائی تھا اور اسلام سے پہلے فوت ہو گیا تھا۔ اس کا معاملہ بھی عبداللہ بن جدعان جیسا دکھائی دیتا ہے۔
عبدالستار ایدھی کی خدمت خلق
عصر حاضر میں پاکستان میں خدمت خلق کے پیکر عبدالستار ایدھی مرحوم نے صرف پانچ ہزار روپے کے ساتھ اپنا پہلا فلاح و بہبود کا مرکز قائم کیا تھا ۔ “ایدھی فاؤنڈیشن” کی ایمبولینس دنیا کی سب سے بڑی ایمبولینس سروس گردانی جاتی ہے جو ضرورت پڑنے پر فری خدمات مہیا کرتی ہے۔
ان کی بیوی محترمہ بلقیس ایدھی مرحومہ بھی ان کی دست راست تھیں۔
اس کے علاوہ ایدھی فاؤنڈیشن نے کلینک، زچگی گھر، پاگل خانے، معذوروں کے لیے گھر ،بلڈ بینک،لاوارث بچوں کو گود لینے کے مراکز، پناہ گاہیں، یتیم خانے اور اسکول کھولے ہیں اور کئی ممالک میں بھی یہ دکھی انسانیت کی خدمت سر انجام دے رہی ہے۔
ان کے اعزاز میں اسٹیٹ بینک آف پاکستان نے ان کی وفات کے بعد پچاس روپے مالیت کا سکہ بھی جاری کیا تھا۔
مدر ٹریسا کی خدمت خلق
ایک عیسائی عورت مدر ٹریسا نے اپنی ساری زندگی خدمت خلق کے لئے وقف کر دی اور وہ پوری دنیا میں خدمت خلق کی وجہ سے مشہور تھی۔ اسی وجہ سے اسے مدر (Mother) یعنی ماں کا لقب (title) ملا۔ وہ بھی عیسائی ہوتے ہوئے فوت ہو گئی۔
یہ خدمت خلق کا جذبہ بھی بہت عظیم ہے جو اللہ کسی کسی کو نوازتے ہیں اور یہ بہت بڑی نیکی ہے لیکن ضروری ث کہ انسان اس کے ساتھ اللہ تعالیٰ کے حقوق بھی پورا کرے تاکہ قیامت کے دن سرخرو ہو سکے ۔
اب ذہنوں میں یہ سوال ابھرتا ہے کہ دوسرے مذاہب کے وہ مشرک لوگ جو اللہ کو مانتے ہیں لیکن اللہ تعالیٰ کے ساتھ شریک ٹھہراتے ہیں اور نیک اعمال بھی کرتے ہیں خصوصاً خدمت خلق، تو ان کا کیا انجام ہوگا؟ مثلاً مدر ٹریسا نے خدمت خلق کے اتنے اچھے کام کئے تو کیا اس کے کافر ہونے کی وجہ سے روز قیامت اس کا انجام بھی برا ہوگا ؟
تو اس کا جواب یہ ہے کہ ایسے کفار جو دنیا میں نیک کام کرتے ہیں، تو اللہ تعالیٰ ان کے نیک اعمال کا بدلہ انہیں دنیا ہی میں کسی نہ کسی شکل میں عطا کر دیتے ہیں مثلاً بسا اوقات ان کے نیک کاموں کے صلہ میں انہیں ایمان کی توفیق عطا فرما دیتے ہیں اور کبھی تو دنیا میں ان کے نیک اعمال کے عوض لوگوں میں ان کا ذکر خیر عام کر دیتے ہیں کہ لوگوں میں ان کے حسنِ کارکردگی کا چرچا عام ہو جاتا ہے اور کبھی ان کی روزی میں فراخی اور کشادگی پیدا کرتے ہیں۔
اقامت دین ہو یا اصلاح معاشرہ کا کام اس وقت تک انجام نہیں دیا جاسکتا جب تک خدمت خلق نہ ہو بلکہ ہمارے کاموں میں مستقل طور پر شامل نہ ہو ۔اس میں مسلم اور غیر مسلم دونوں شامل ہیں۔
یہ مہینہ عبادت کے ساتھ ساتھ خدمت خلق اور مسکینوں کی مدد کا مہینہ ہے۔ لوگ کثرت سے صدقہ و خیرات کرتے، زکوٰۃ کی ادائیگی کرتے اور ضرورت مندوں کی مدد کرتے ہیں، سحری و افطاری کے لیے راشن یا پکے ہوئے کھانے کا انتظام و انصرام کرتے ہیں۔
ماہ رمضان میں لوگ غذا، پینے کا صاف پانی اور ادویات کی فراہمی کے لیے پیسے جمع کرتے ہیں، غریبوں اور مسکینوں کی مدد کرتے ہیں۔
بعض تنظیمیں مقامی ہسپتالوں میں مسلمان بہن بھائیوں کی تیمارداری کرتی ہیں، جیل خانوں میں قیدیوں کے لیے ضروریاتِ زندگی اور عید گفٹ پیک تقسیم کرتی ہیں، تھر اور چولستان وغیرہ کے صحراؤں میں کنویں کھدواتے ہیں، ٹیوب ویل لگواتے ہیں اور ضرورت مندوں کی مدد کرنے کے لیے دیگر طریقوں کی تلاش میں رہتے ہیں۔
مہنگائی اور بے روزگاری کے دور میں بہت سے غریب و مفلس گھرانے ایسے ہیں جہاں سحری اور افطار کے لیے راشن نہیں ہوتا۔ انہیں تلاش کرکے ان کی مدد کرنی چاہئے تاکہ وہ بھی روزے رکھ سکیں۔ اسی طرح افطاری مستحق لوگوں تک پہنچانے کا بندوست بھی کرنا چاہیے۔ اور ان کی دیگر ضروریات بھی پوری کرنی چاہیے تاکہ امت مسلمہ کے لوگ اس ماہ میں صحیح طریقے سے روزے رکھ سکیں اور رمضان سے صحیح طرح مستفید ہو سکیں۔
بلاشبہ رمضان اس خوبصورت معاشرے کو دنیا کے سامنے پیش کرنے میں اہم ترین کردار ادا کرتا ہے!!!
**********