سحری و افطاری اور خواتین

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی

“روزے دارو! اللہ کے پیارو! سحری کا وقت ختم ہونے میں دس منٹ باقی رہ گئے ہیں۔” لاؤڈ سپیکر سے بلند ہوتے اس اعلان نے سحری کھاتے سب اہل خانہ کو جلدی پر مجبور کر دیا۔
“ماما! مجھے جلدی سے کٹوری میں دہی چینی مکس کر کے دے دیں۔”چھوٹے بیٹے نے بے صبری سے کہا۔
“بیگم! مجھے بھی چائے دے دو۔ میں نے ابھی دوائی لینی ہے۔” میاں صاحب بھی کہنے لگے۔
“میں نے ابھی خود بھی دہی کھانی اور لسی پینی ہے۔” ماما نے چائے کا کپ پکڑاتے ہوئے کہا۔ اور جلدی سے کٹوری میں ڈالی ہوئی دہی کھانا شروع کردی۔ پھر لسی کا گلاس منہ سے لگا لیا۔
اسی اثنا میں دس منٹ بیت گئے اور نماز فجر کی اذان شروع ہو گئی اور سب نے کھانا پینا بند کرکے روزہ رکھ لیا۔

سحری کھانے کی تاکید
سحری اس کھانے کو کہتے ہیں جو بوقتِ سحر یعنی فجر سے پہلے کھایا جاتا ہے۔ احادیث میں سحری کھانے کی بہت تاکید کی گئی ہے ۔ یہ بابرکت اور فضیلت والا کھانا ہے، اور مسلمانوں کے روزے کا شعار اور پہچان ہے جو انہیں یہود و نصاری سے ممتاز کرتا ہے ۔ کیونکہ ان کے روزے میں سحری نہیں ہوتی تھی۔
حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
”تَسَحَّرُوا ؛ فَإِنَّ فِي السَّحُورِ بَرَكَةً.“
(صحيح مسلم : 1095)
“سحری کھایا کرو ۔ بےشک سحری میں برکت ہوتی ہے۔”
اسی طرح نبی کریم ﷺ کا فرمان ہے:
“سحری کھانا ہمارے اور اہل کتاب کے روزے کے درمیان فرق ہے۔ (صحیح مسلم : 1096)

اس وقت کے علاوہ کھایا جانے والا کھانا سحری شمار نہیں ہو گا اور نہ ہی اس سے سحری کے فضائل حاصل ہوں گے۔

سحری میں بہترین مسنون کھانا کھجور ہے۔ افطاری میں اس کے اہتمام کی طرح سحری میں بھی اسے اہتمام سے کھانا چاہیے کیونکہ یہ مسنون پھل قوت و طاقت کے لحاظ سے بہترین اور صحت بخش غذا ہے۔

ایک اور حدیث میں بیان ہوا ہے کہ:
ترجمہ: “بے شک اللہ تعالیٰ سحری کرنے والوں پر رحمت فرماتا ہے اور اس کے فرشتے ان کے لیے رحمت کی دعا کرتے ہیں۔” (سنن احمد: 11086)
اہلِ علم کہتے ہیں کہ “سحر کا وقت فجرِ کاذب اور فجرِ صادق کے درمیان ہوتا ہے۔”
اس لیے سنت کے مطابق سحری آخری وقت میں کھانی چاہیے لیکن جب فجر کی اذان شروع ہو جائے تو کھانا پینا چھوڑ دینا چاہیے۔اور روزہ رکھ لینا چاہیے۔

اگر کبھی سحری میں آنکھ نہ کھلے تو بغیر سحری کھائے بغیر بھی روزہ رکھنا فرض ہوتا ہے۔ اگر سحری میں آنکھ نہ کھلنے اور سحری نہ کر سکنے کی بنا پر روزہ نہ رکھا تو یہ گناہ ہے۔

پھر سحری کے بعد مردوں کو نماز فجر کی حفاظت کرنی چاہیے اور فوراً دوبارہ سونے کے بجائے یا گھر میں ادا کرنے کے بجائے مسجد میں باجماعت ادائیگی کرنی چاہیے۔ خواتین کو بھی سونے یا گھریلو امور میں لگنے کے بجائے نماز فجر ادا کرنے میں جلدی کرنی چاہیے۔ اور اس نماز کی بھی مکمل حفاظت کرنی چاہیے۔

سحری و افطاری اور خواتین

“امی جان! آج افطاری میں کوئی نئی، لذیذ اور چٹخارے دار سی فرائی ڈش بنائیں کہ کھا کر مزہ آجائے۔” بڑے بیٹے نے افطاری کے لیے ماں سے فرمائش کی۔
“افطاری میں شربت کے علاوہ ملک شیک بھی ضرور بنائیں۔ مجھے روزے میں بہت پیاس لگتی ہے۔ دل چاہتا ہے کہ روزہ کھول کر بس پانی اور شربت پیتے رہیں۔” چھوٹے بیٹے نے بھی اپنی فرمائش ماں کے گوش گزار کی۔
“میرا چکن بریانی کھانے کو دل چاہ رہا ہے۔ آپ نے وہ ضرور بنانی ہے۔ اور ساتھ رائتہ یا دہی بھلے بھی۔” بیٹی کی فرمائش بھی سامنے آگئی۔
“جی بچو! اب اگر آپ میری مدد کروائیں گے تو میں آپ کی فرمائشیں پوری کر سکوں گی ورنہ یہ سب کرنا میرے لیے کافی مشکل ہوگا۔ ابھی میں نے قرآن مجید کا ایک پارہ بھی پڑھنا ہے۔” ماں نے فکر مندی جواب دیا۔

“ٹھیک ہے ۔ آپ ہمیں سارا سودا لکھوا دیں تاکہ بازار سے بروقت سامان آجائے۔” بیٹی نے قلم کھول کر کاغذ پر رکھا اور ماں سے سارا سودا پوچھنے لگی۔
“بریانی بنانے میں کافی وقت لگ جائے گا۔ میں نے آج پکوڑوں کے بجائے چکن نگٹس بنانے کا ارادہ کیا ہے جو سارے بچوں کو بہت پسند ہیں۔ روٹین کا سالن بھی بنانا ہوگا۔ شربت اور ملک شیک میں بھی کچھ وقت لگے گا۔ دسترخوان اور برتن بھی لگانے ہوں گے، چکن بریانی بھی دائیں بائیں دونوں ہمسایوں کے گھروں میں بھجوانی ہوگی۔” ماں نے مینیو بتایا اور پھر سوچ کر سودا لکھوا دیا۔

                               *****

روزہ سحری و افطاری میں خواتین کے لیے صرف رنگارنگ کھانے پکانے اور کھانے کا نام نہیں ہے۔ روزہ رکھ کر اپنے اردگرد کے لوگوں پر بھی توجہ رہنی چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے گھروں میں کھانوں کی فراوانی ہو، طرح طرح کے پکوان بن رہے ہوں اور ان کی خوشبو غریب ہمسایوں کے لیے آزمائش بن جاتی ہو۔ بلکہ راشن یا پکے ہوئے کھانے کے ساتھ ان کی مدد کرنی چاہیے۔

رمضان میں خواتین کی ذمہ داریاں پہلے سے بڑھ جاتی ہیں مثلاً سحری و افطاری کا خاص اہتمام کرنا، سحری کے وقت سب کو بیدار کرنا، بچوں کو نماز اور قرآن مجید کی تلاوت کا پابند بنانا ، افطاری کے وقت کسی کے گھر افطاری بھجوانا، وقتاً فوقتاً عزیز و اقارب یا دوست احباب کے لیے افطار پارٹی کا بندوست کرنا وغیرہ۔ یہ ذمہ داریاں خواتین ہی ہنسی خوشی نبھاتی کرتی ہیں ۔

اکثر خواتین رمضان کے آغاز سے قبل اپنی تیاریاں کافی حد تک مکمل کر لیتی ہیں مثلاً گھر کی تفصیلی صفائی ستھرائی، جائے نمازوں، قالینوں یا نماز والی چٹائیوں کی صفائی دھلائی، پردوں اور صوفہ کورز وغیرہ کی دھلائی، گھریلو سجاوٹ، کچن کی تفصیلی صفائی، رمضان کے راشن کی اکٹھی خریداری، کچھ اشیاء پہلے بنا کر رکھ دینا یا فریز کر دینا، سحری و افطاری میں بنانے والے کھانوں کی منصوبہ بندی وغیرہ

اس کے ساتھ ساتھ خواتین کی یہ کوشش بھی ہوتی ہے کہ اس ماہ میں زیادہ سے زیادہ عبادت کریں۔ کیونکہ رمضان المبارک میں روزے، نماز تراویح، صدقہ و خیرات، زکوٰۃ کی ادائیگی، اذکار، قرآن مجید کی تلاوت، مناجات اور دعائیں، عمرہ اور دیگر اعمال صالحہ جہاں مردوں کے لئے ہیں، وہیں عورتوں کے لیے بھی ہیں۔ اور ساتھ ساتھ گھریلو امور کی ذمہ داریاں بھی ان پر عائد ہوتی ہیں۔
لہٰذا ان کے لیے یہ ساری ذمہ داریاں مینیج کرنا ضروری ہوتا ہے تاکہ وہ اپنے وقت کا صحیح استعمال کر سکیں۔ اور رمضان کی رحمتوں اور برکتوں سے مکمل طور پر مستفید ہو سکیں۔

افطاری میں زیادہ ڈشز بنانے اور دستر خوان پر سجانے کے بجائے سادگی اور ون ڈش کو رواج دیا جائے تو بہت فائدہ رہتا ہے۔ کیونکہ اس میں سہولت بھی ہے، بچت بھی اور صحت بھی۔ ان معاملات میں گھر کے مردوں کو بھی خواتین سے تعاون کرنا چاہیے اور ہر روز نت نئی اور منفرد ڈشز کی ڈیمانڈ کرنے اور ان کی لسٹ جاری کرنے کے بجائے سادہ اور صحت بخش کھانے کو ترجیح دینی چاہیے۔ ترجیحات کے تعین سے بھی اہل خانہ کو آسانیاں، خوشیاں اور کامیابیاں ملتی ہیں۔

روزے دار کے لیے دو مسرتیں
ایک موقع پر نبی کریم ﷺ نے فرمایا:
ترجمہ: “روزہ دار کے لیے دو مسرتیں ہیں۔ ایک افطار کے وقت حاصل ہوتی ہے اور دوسری اپنے رب سے ملاقات کے وقت حاصل ہوگی۔اور روزہ دار کے منہ کی بو اللہ عزوجل کے ہاں مشک کی خوشبو سے زیادہ پاکیزہ (خوشبودار) ہے۔” (صحیح مسلم: 213)

افطاری کی مسنون دعا
حضرت عمر رضي اللہ عنہ فرماتے ہيں کہ رسول اکرم ﷺ جب افطار کرتے تو یہ دعا پڑھا کرتے تھے :
ذهب الظمأ وابتلت العروق وثبت الأجر إن شاء اللہ
ترجمہ: “پیاس جاتی رہی ، اور رگیں تر ہو گئيں، اور اجر ثابت ہوگيا ان شاءاللہ۔”
(سنن ابوداؤد: 2357)

روزے دار کو افطار کروانے کا اجر و ثواب
ایک حدیث کے مطابق:
“جس شخص نے کسی روزہ دار کو روزہ افطار کروایا تو اسے روزے دار جتنا ہی اجر و ثواب ملے گا بغیر اس کے کہ روزے دار کے اپنے اجر میں کوئی کمی واقع ہو۔” (سنن ترمذی)

امام ابن الجوزي رحمه الله فرماتے ہیں :
“من فطَّر صائماً فله أجر صائم، ‏فاجتهد أن تصوم رمضان ستين يوماً.“
ترجمہ:”(حدیث کے مطابق) جو شخص کسی روزے دار کو روزہ افطار کرواتا ہے، اُسے اس روزے دار جتنا ثواب ملتا ہے۔ لہذا کوشش کریں کہ اس رمضان میں آپ ساٹھ دن کے روزوں کا اجر و ثواب پائیں!”
(التبصرة : 478/2)
؎ روزے رکھواؤ، کھلواؤ، جنت پاؤ
بندہ تو دو وقت کا کھانا ڈھونڈ رہا ہے

افطاری کروانے والے کو کون سی دعا دینی چاہیے؟
أَفطَر عِنْدَكُم الصائِمونَ وأكل طعامَكُمُ الأبْرارُ، وصَلّتْ عليكُم الملائكَةُ” .
ترجمہ: “تمہارے یہاں روزہ دار افطار کریں، تمہارا کھانا نیک لوگ کھائیں، اور فرشتے تمہارے لئے دعائے مغفرت کریں”
(سنن ابوداﺆد ، سنن ابن ماجہ، صحیح الجامع)

رمضان احساس و شعور کا مہینہ
روزہ سحری و افطاری میں صرف رنگارنگ کھانے پکانے اور کھانے کا نام نہیں ہے۔ روزہ رکھ کر اپنے اردگرد کے لوگوں پر بھی توجہ رہنی چاہیے کہ کہیں ایسا نہ ہو کہ ہمارے گھروں میں کھانوں کی فراوانی ہو، طرح طرح کے پکوان بن رہے ہوں اور ان کی خوشبو غریب ہمسایوں کے لیے آزمائش بن جاتی ہو۔ بلکہ راشن یا پکے ہوئے کھانے کے ساتھ ان کی مدد کرنی چاہیے۔
اگر الله نے آپ کو مالی کشادگی عطا کی ہے تو اپنے اردگرد موجود کسی نیک روزہ دار ضرورت مند کو اپنی سحری و افطاری میں مستقل شامل کرکے دوہرا ثواب حاصل کرنے کی کوشش کریں۔ وہ شخص رمضان کے روزے رکھے گا تو آپ اس کے ثواب میں شریک رہیں گے۔

؎کہیں روزے پہ روزے صرف پانی پی کے کھلتے ہیں
کہیں بس نام پہ روزوں کے، افطاری کی باتیں ہیں

افطاری کی وجہ سے نماز مغرب میں کوتاہی کرنا گناہ ہے

بعض لوگ جب افطاری کے لیے بیٹھتے ہیں تو مغرب کی نماز قضا کر دیتے ہیں اور کافی تاخیر سے اٹھتے ہیں۔
معروف پاکستانی عالم دین شیخ عبد الله ناصر رحمانی حفظہ اللہ فرماتے ہیں کہ :
“کچھ لوگ افطار کے دسترخوان پر مسلسل کھاتے رہتے ہیں حتی کہ رات کا کھانا بھی کھا لیتے ہیں، اور مسجد میں مغرب کی باجماعت نماز تک چھوڑ دیتے ہیں، یہ بہت بڑی غلطی کے مرتکب ہیں، چنانچہ مسجد اور جماعت کی نماز کو چھوڑ کر ثوابِ عظیم سے محرومی اور مختلف سزاؤں اور وعیدوں کا نشانہ بن جاتے ہیں۔ امرِ مشروع یہ ہے کہ پہلے روزہ افطار کر لیا جائے، پھر نمازِ مغرب ادا کی جائے، پھر رات کا کھانا تناول کیا جائے۔” (خطباتِ رحمانی : 390)

اس لیے افطاری کے وقت نماز مغرب کی حفاظت کرنی چاہیے اور اس میں تاخیر کرنے یا قضا کرنے کے بجائے بروقت ادائیگی کرنی چاہیے۔ خواتین کو بھی نماز مغرب ادا کرنے میں سستی اور تاخیر کرنے کے بجائے بروقت ادا کرنی چاہیے۔ اور اس نماز کی بھی مکمل حفاظت کرنی چاہیے۔

                   **********

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں