اعتکاف اور خواتین

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی

"میم! یہ میری درخواست ہے۔ مجھے اکیسویں روزے سے چھٹیاں چاہئیں۔ میں نے اعتکاف بیٹھنا ہے۔” انیسویں روزے کو کلاس میں داخل ہوتے ساتھ میم فرخندہ کو تین طالبات نے علیحدہ علیحدہ اپنی درخواستیں پکڑا دیں۔ اور ساتھ مدعا بھی بیان کیا۔

"ارے! ابھی تو آپ کی ٹیسٹ سیریز چل رہی ہیں اور عید کے بعد آپ کے بورڈ کے امتحانات بھی شروع ہو جانے ہیں۔ آپ نے یہ باتیں کیوں
نہیں سوچیں؟ اس وقت تو آپ کو چھٹی نہیں مل سکتی۔”میم فرخندہ نے فکر مندی سے کہا۔
تینوں طالبات وہ تھیں جو پڑھائی کے معاملے میں سنجیدہ اور مخلص تھیں۔

"میرے والدین نے تو اجازت دے دی ہے۔ ہم پڑھائی بعد میںcover کر لیں گے۔”ایک طالبہ بولی تو دوسروں نے اس کی ہاں میں ہاں ملائی۔
"نہیں بچو! آپ کو اندازہ نہیں ہے۔ یہ وقت آپ کے لیے امتحانات کے حوالے سے بڑا قیمتی ہے۔ آپ لوگ اگلے سال اعتکاف بیٹھ جائیں۔ ابھی عبادات کے ساتھ ساتھ سکول کی پڑھائی پر بھی توجہ دیں۔”میم فرخندہ نے خلوص اور فکرمندی سے کلاس کو سمجھایا۔

"میں خود اعتکاف بیٹھنا چاہتی ہوں اور گزشتہ کئی سالوں سے یہ میری خواہش اور کوشش ہوتی ہے مگر جاب اور گھریلو ذمہ داریوں کی وجہ سے بیٹھ نہیں سکتی۔” میم فرخندہ نے تمام طالبات کے چہرے پڑھتے ہوئے کہا۔

"اگر بالفرض مجھے جاب سے چھٹی مل بھی جائے تو گھر میں بچے بڑے ہونے کے باوجود تینوں بیٹیوں میں سے کوئی بیٹی بھی تعلیمی ذمہ داریوں کی وجہ سے مکمل طور پر گھر سنبھال نہیں سکتی، سحری و افطاری کا پورا اہتمام نہیں کر سکتی، عید کی صفائیاں اور تیاریاں نہیں کر سکتی بلکہ تینوں بیٹیاں مل جل کر بھی سارا بندوبست (manage) نہیں کر سکتیں۔ لہٰذا مجھے اعتکاف بیٹھنے کا موقع نہیں ملتا۔” میم نے افسردگی سے کہا۔

"لیکن مجھے امید ہے کہ میری نیت اور کوشش کی وجہ سے مجھے ان شاءاللہ کچھ نہ کچھ اجر و ثواب ضرور ملے گا۔
میں منتظر ہوں کہ جب اللہ تعالٰی کا حکم ہوگا تو میں اعتکاف بیٹھ سکوں گی۔ اور میری دلی خواہش پوری ہوگی۔” میم فرخندہ نے مسکراتے ہوئے بات مکمل کی تو طالبات کے چہروں پر بھی مسکراہٹ آگئی اور وہ مطمئن ہوگئیں۔

                                       *****

اعتکاف ایک نفلی عبادت ہے اور رمضان میں اعتکاف کرنا مسنون ہے۔ نبی کریم ﷺ ہر سال رمضان کا آخری عشرہ مسجد نبوی میں اعتکاف بیٹھتے تھے۔ اور ازواجِ مطہرات بھی اعتکاف بیٹھا کرتی تھیں :
"ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی ﷲ عنہا سے روایت ہے کہ نبی اکرم ﷺ رمضان کے آخری دس دنوں میں اعتکاف کیا کرتے تھے۔ یہاں تک کہ ﷲ تعالیٰ کے حکم سے آپ ﷺ کا وصال ہوگیا۔ پھر آپﷺ کے بعد آپ ﷺ کی ازواجِ مطہرات نے بھی اعتکاف کیا ہے۔” (صحیح بخاری :1922)

بعض خواتین اور لڑکیاں اعتکاف کرنے کی بہت خواہش مند ہوتی ہیں لیکن ان کے حالات اجازت نہیں دیتے۔ بعض اوقات گھریلو مسائل کی وجہ سے، تو کبھی مقامی مساجد میں خواتین کا بندوست نہ ہونے کی وجہ سے۔ لہذا جو خواتین عمومی حالات میں اعتکاف بیٹھا کرتی ہیں، یا بیٹھنے کا ارادہ باندھتی ہیں، تو اعتکاف کا بندوبست نہ ہونے کی صورت میں نیت اور ارادہ رکھنے پر اللہ تعالی انہیں اجر وثواب سے نوازے گا۔

اعتکاف عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لفظی معنی ہے "ٹھہر جانا اور خود کو روک لینا”
اور اس کا اصطلاحی مفہوم ہے کہ "رمضان کے آخری عشرے میں اللہ تعالیٰ کی رضا کی خاطر مسجد میں مستقل ٹھہرنا اور دنیاوی کاموں کو چھوڑ کر صرف اللہ کی عبادت کرنا۔”

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے کہ
وَإِذْ جَعَلْنَا الْبَيْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَأَمْناً وَاتَّخِذُواْ مِن مَّقَامِ إِبْرَاهِيمَ مُصَلًّى وَعَهِدْنَا إِلَى إِبْرَاهِيمَ وَإِسْمَاعِيلَ أَن طَهِّرَا بَيْتِيَ لِلطَّائِفِينَ وَالْعَاكِفِينَ وَالرُّكَّعِ السُّجُودِ۔ (البقرہ: 125 )
ترجمہ: "اور یاد کرو! جب ہم نے بیت اللہ کو لوگوں کے جمع ہونے کا مرکز اور جائے امن بنایا اور بنالو مقام ابراہیم کو جائے نماز اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل کو تاکید کی کہ میرا گھر پاک رکھو طواف کرنے والوں، اعتکاف کرنے والوں، رکوع کرنے والوں اور سجدہ کرنے والوں کے لیے۔”
ایک اور جگہ ارشاد ہوتا ہے کہ
وَلاَ تُبَاشِرُوهُنَّ وَأَنتُمْ عَاكِفُونَ فِي الْمَسَاجِدِ.(البقره: 187)
ترجمہ: "اور تم ان (بیویوں) کے قریب قربت کے لیے مت جاؤ جب تم مسجدوں میں اعتکاف بیٹھے ہو۔”

لہٰذا مرد و زن کا اعتکاف صرف مسجد میں ہوتا ہے۔ اگر خواتین کے لیے ممکن ہو تو اعتکاف کریں کیونکہ یہ نفلی عبادت ہے ، فرض نہیں۔ اگر کسی سبب کی وجہ سے ممکن نہ ہو تو اعتکاف نہ کریں۔ بعد میں کسی مہینے میں کرلیں، یا ترک کر دیں۔ لیکن گھروں میں اعتکاف نہیں ہو سکتا کیونکہ شریعت میں اس کی کوئی دلیل موجود نہیں!

اعتکاف کی فضیلت میں کئی احادیث وارد ہوئی ہیں۔ اِن میں سے چند ایک درج ذیل ہیں :
1۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا کہ:
"وہ (یعنی معتکف) گناہوں سے کنارہ کش ہو جاتا ہے اور اُسے عملاً نیک اعمال کرنے والے کی مثل پوری نیکیاں عطا کی جاتی ہیں۔”
(سنن ابن ماجه: 21781)

حضرت عبداللہ ابن عباس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی اکرم ﷺ نے فرمایا کہ :
مَنِ اعْتَکَفَ يَوْمًا ابْتغَاءَ وَجْهِ اﷲ جَعَلَ اﷲُ بَيْنَهُ وَ بَيْنَ النَّارِ ثَلَاثَ خَنَادِقَ، کُلُّ خَنْدَقٍ أَبْعَدُ مِمَّا بَيْنَ الْخَافِقَيْنِ. (طبرانی: 7326)
ترجمہ: "جو شخص ﷲ کی رضا کے لئے ایک دن اعتکاف کرتا ہے، ﷲ تعالیٰ اس کے اور دوزخ کے درمیان تین خندقوں کا فاصلہ کر دیتا ہے۔ ہر خندق مشرق سے مغرب کے درمیانی فاصلے سے زیادہ لمبی ہے۔”

حَدَّثَنَا وَهْبُ بْنُ بَقِيَّةَ، ‏‏‏‏‏‏أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ يَعْنِي ابْنَ إِسْحَاقَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ الزُّهْرِيِّ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عُرْوَةَ، ‏‏‏‏‏‏عَنْ عَائِشَةَ، ‏‏‏‏‏‏أَنَّهَا قَالَتْ:‏‏‏‏ السُّنَّةُ عَلَى الْمُعْتَكِفِ أَنْ لَا يَعُودَ مَرِيضًا وَلَا يَشْهَدَ جَنَازَةً وَلَا يَمَسَّ امْرَأَةً وَلَا يُبَاشِرَهَا وَلَا يَخْرُجَ لِحَاجَةٍ إِلَّا لِمَا لَا بُدَّ مِنْهُ. (سنن ابوداؤد: 2473)
ترجمہ: حضرت عائشہ‬ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ "معتکف کے لیے سنت یہ ہے کہ مریض کی عیادت کو نہ جائے، جنازے میں شریک نہ ہو، عورت سے مس نہ کرے اور نہ اس سے مباشرت ( صحبت ) کرے اور کسی انتہائی ضروری کام کے بغیر مسجد سے نہ نکلے۔”

خواتین کے لیے بھی اعتکاف بیٹھنا جائز ہے لیکن مسجد میں۔ اگر مسجد میں ان کے لیے پردے کی پابندی اور عزت و عصمت کی حفاظت کا مکمل انتظام ہو تو وہ اعتکاف بیٹھ سکتی ہیں۔

حضرت عبداللہ ابن عباس (رضي اللہ عنہما) سے جب عورت کا اپنے گھر کی مسجد میں اعتکاف کے بارے میں سوال کیا گيا تو وہ کہنے لگے:
"گھر میں عورت کا اعتکاف کرنا بدعت ہے، اور اللہ تعالی کے ہاں مبغوض ترین اعمال بدعات ہیں۔ اس لیے نماز باجماعت والی مسجد کےعلاوہ کہیں بھی اعتکاف صحیح نہیں۔ اس لیے کہ گھر میں نماز والی جگہ نہ تو حقیقتاً مسجد ہے اور نہ ہی حکماً اس کا بدلنا اور اس میں جنبی شخص کا سونا بھی جائز ہے۔ اور اگر یہ جائز ہوتا تو سب سے پہلے امہات المؤمنین (رضی اللہ عنہن) اس پر عمل پیرا ہوتیں، اس کے جواز کے لیے اگرچہ وہ ایک بار ہی عمل کرتیں۔“
(الموسوعۃ الفقہیۃ 5/212)

بیوی کا شوہر کی اجازت کے بغیر اعتکاف بیٹھنا جائز نہیں۔ اسی طرح عزت و عصمت اور شرم و حیا کی حفاظت، پردے کی پابندی اور ہر طرح حفاظت کی صورت میں
خواتین کے لیے مسجد میں اعتکاف بیٹھنا جائز ہے۔
اگر یہ ممکن نہ ہو تو پھر عورت کو گھر میں اعتکاف کرنے کی ضرورت نہیں کیونکہ اعتکاف نفلی عبادت ہے۔ جس عورت کے لیے سنت طریقہ کے مطابق اعتکاف کرنا ممکن ہو تو وہ کرلے۔ اور جہاں مسجد میں خواتین کا انتظام نہیں، وہاں وہ رہنے دیں۔ کیونکہ ہر مسجد میں خواتین کے اعتکاف کا انتظام نہیں ہوتا۔ نہ باپردہ الگ تھلگ با عزت طور پر محفوظ جائے اعتکاف کا اہتمام ہوتا ہے۔

مگر جس مسجد میں وسعت ہو، مردوں اور عورتوں کے لئے الگ الگ باپردہ محفوظ جائے اعتکاف ہو، تمام حاضرین کی نظام الاوقات کی پابندی سے تعلیم و تربیت کی جاتی ہو، فرائض کے ساتھ ساتھ سنتوں اور نوافل کی طرف بھی توجہ دلائی جائے، درود و سلام، ذکر و اذکار کی پابندی ہو، طہارت و پاکیزگی اور صفائی ستھرائی اور دیگر مختلف موضوعات پر وعظ و نصیحت کی جائے تو وہاں خواتین کو اعتکاف بیٹھنے کا بہت زیادہ فائدہ ہوتا ہے۔ اور ان کی کافی تربیت ہوتی ہے ۔

رمضان المبارک میں معتکف یا معتکفہ (مرد یا عورت) کا کسی عذر کی وجہ سے مسنون اعتکاف ٹوٹ جائے مثلًا ضرورت سے زائد اعتکاف گاہ سے باہر رہے یا معتکفہ (عورت) کو حیض آجائے یا نفاس (بچے کی پیدائش) ہو جائے یا کوئی اور بیماری یا تکلیف لاحق ہو جائے تو جتنے دن کا اعتکاف رہ جائے، تو بعد میں اعتکاف کی قضا دینا ضروری ہوتا ہے۔

                  **********

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں