ڈاکٹر خولہ علوی
روزہ اسلام کا تیسرا رکن عربی میں "صوم” کہلاتا ہے۔ یہ پہلی تمام امتوں پر بھی فرض رہا ہے اور امت مسلمہ کے تمام عاقل و بالغ مردو زن پر بھی اس کی فرضیت دائمی اور تا قیامت ہے۔ اور اسلامی کیلنڈر کے نویں مہینے رمضان کے مکمل 29 یا تیس روزے رکھنا فرض ہیں، اور ان کے لیے اس کا "اہتمام” کرنا ضروری ہے۔
اللہ تعالیٰ فرماتے ہیں کہ:
یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا كُتِبَ عَلَیْكُمُ الصِّیَامُ كَمَا كُتِبَ عَلَى الَّذِیْنَ مِنْ قَبْلِكُمْ لَعَلَّكُمْ تَتَّقُوْنَۙ. (البقرہ: 183)
ترجمہ:”اے ایمان والو! تم پر روزے فرض کیے گئے ہیں جیسے تم سے پہلے لوگوں پر فرض کیے گئے تھے۔” (سورۃ البقرہ: 183)
اور رسول اکرم ﷺ نے فرمایا
بُنِيَ الإِسْلَامُ عَلٰی خَمْسٍ : شَهَادَةِ أنْ لَّا إِلٰهَ إِلَّا ﷲُ وَأنَّ مُحَمَّدًا رَسُوْلُ ﷲِ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيْتَاءِ الزَّکَاةِ، وَالْحَجِّ، وَصَوْمِ رَمَضَانَ.(صحیح بخاری: 8)
ترجمہ:”اسلام کی بنیاد پانچ چیزوں پر ہے : یہ گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود نہیں اور یہ کہ محمد (ﷺ ) اللہ کے رسول ہیں، اور نماز قائم کرنا اور زکوٰۃ ادا کرنا اور (بیت اللہ کا) حج کرنا اور رمضان المبارک کے روزے رکھنا۔”
عصر حاضر کے فتنوں میں سے یہ ایک عظیم فتنہ بتدریج رونما ہو رہا ہے کہ وقت کے ساتھ روزہ کی عظمت و فضیلت کا احساس کرنے اور روزہ رکھنے والے لوگوں کی تعداد میں کمی ہورہی ہے۔ خصوصاً عصری تعلیمی اداروں سکولوں، کالجوں اور یونیورسٹیوں میں پڑھنے والے طلبہ و طالبات مشکل پڑھائی، ٹیسٹوں اور امتحانات کے دوران روزے چھوڑ دیتے ہیں۔
بلوغت کے بعد روزہ فرض ہو جانے والی بچیوں اور بچوں کے روزہ رکھنے کی شرح بھی نسبتاً کم ہورہی ہے۔ بہت زیادہ جسمانی محنت و مشقت کرنے والے دیہاڑی دار لوگ اور کسان و زمیندار وغیرہ بھی اس میں شامل ہیں۔
شریعت کا حکم ہے کہ جب بچے بچیاں بالغ ہو جائیں تو انہیں لازمی رمضان کے فرضی روزے رکھوانا شروع کر دیں اور جو نابالغ بچیاں ہوں انہیں بھی روزہ رکھنے کی عادت ڈالنے کی کوشش کی جائے۔
ہر بچے یا بچی پر بالغ ہونے کے بعد ہی روزے فرض ہوتے ہیں۔ لیکن تربیت کے لیے بچوں کو بلوغت سے پہلے تقریباً دس برس کی عمر میں روزے رکھنے کی عادت ڈالنی چاہیے تاکہ روزے فرض ہونے کے بعد انہیں مشکل نہ ہو۔
اگر اس طرف سے کوتاہی کی جائے تو بلوغت کے بعد بچوں کے لیے مشکل ہوتی ہے۔ لیکن اس کا مطلب یہ نہیں کہ وہ بعد میں صحت کی کمزوری ، یا سکول کالج جانے، پڑھائی اور امتحان کی مصروفیات وغیرہ کی وجہ سے روزے چھوڑ دیں۔
بعض بچیوں کو بلوغت کے بعد معلوم ہی نہیں ہوتا کہ اب ان پر روزے فرض ہو چکے ہیں۔
چنانچہ وہ اپنے آپ کو کم عمر سمجھ کر روزہ نہیں رکھتیں اور نہ ہی ان کے گھر والے خصوصاً مائیں سمجھاتی اور روزہ رکھنے کا حکم دیتی ہیں حالانکہ بلا شرعی عذر روزہ چھوڑنا کبیرہ گناہ ہے۔ تعلیمی اداروں میں خواتین اساتذہ کو بھی بالغ طالبات کو سمجھانا اور روزے رکھنے کا حکم دینا چاہیے تاکہ ایسی کسی صورت میں ماؤں کی شرعی کوتاہی کا ازالہ ہو سکے اور بچیوں کو شرعی احکامات معلوم ہوں۔
اگر کسی سے ابتدائے بلوغت میں اس قسم کی کوتاہی ہوئی ہو تو اس پر ان تمام چھوڑے ہوئے روزوں کی قضاء ضروری ہے۔ خواہ ایک طویل عرصہ گزر گیا ہو کیونکہ یہ تمام روزے اس کے ذمہ اللہ تعالیٰ کے قرض کے طور پر باقی ہیں۔
بعض علماء نے روزہ کے لیے بچوں اور بچیوں کی مناسب عمر دس سال بیان کی ہے کیونکہ حدیث میں دس سال پہ ترک نماز پر مارنے کا حکم ہے۔
رمضان المبارک کے روزوں سے متعلق عورتوں کے کچھ خاص مسائل درج ذیل ہیں۔
1) قرآن مجید میں ارشاد ہے کہ
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے: "اور تم میں سے جو مریض یا مسافر ہو تو وہ دوسرے دنوں میں گنتی پوری کرے۔” (البقرۃ: 184)
حیض ونفاس والی خواتین اور لڑکیاں مریضہ کے حکم میں شامل ہیں۔ لہٰذا رمضان میں عورتوں اور لڑکیوں کے لیے”مخصوص ایام”میں روزہ رکھنا جائز نہیں ہے، البتہ بعد میں اُن روزوں کی قضا دینی فرض ہے۔
جب تک وہ قضاء نہ دے لیں، وہ روزے ان کے ذمے باقی رہیں گے، یہ ان پر اللہ تعالیٰ کا قرض ہوگا۔ اور صرف توبہ واستغفار سے معاف نہیں ہوں گے۔
مریض کی دو قسمیں ہوتی ہیں :
1) عارضی بیمار
2) مستقل بیمار / دائم المریض
1) وہ بیمار عورت جو روزہ کی وجہ سے مشقت یا جسمانی تکلیف محسوس کرے یا دن میں دوا کھانے پہ مجبور ہو تو وہ روزہ چھوڑ سکتی ہے۔ لیکن بعد میں اتنے روزوں کی قضا دینی ہوگی۔ حیض ونفاس والی خواتین اور لڑکیاں بھی اس میں شامل ہیں۔
قابل افسوس بات ہے کہ ان روزوں کی قضاء میں عورتوں میں بہت لاپرواہی نظر آتی ہے۔ ان کی ادائیگی کی بہت زیادہ فکر ہونی چاہیے۔ موت سے قبل ہی اس کی فکر کرنا اور ترتیب بنانا اور ان کی ادائیگی ضروری ہے۔
2) وہ خواتین جو مستقل یا زیادہ بیمار ہوں اور جن کی شفا یابی کی امید نہ ہو، اور وہ بوڑھے مرد و زن جو روزہ رکھنے کی طاقت نہ رکھتے ہوں، ان دونوں کے لیے روزہ چھوڑنا جائز ہے لیکن کفارہ میں ہر روزے کے بدلے روزانہ ایک مسکین کو دو وقت کا کھانا کھلانا ہوگا۔
اللہ تعالیٰ کا فرمان ہے:
"اور اس کی مشکل سے طاقت رکھنے والے فدیہ میں ایک مسکین کو کھانا کھلائیں۔”
(البقرۃ: 184)
معمولی بیماری مثلاً نزلہ زکام، سردرد وغیرہ کی وجہ سے روزہ توڑنا جائز نہیں۔
2) اگر کسی عورت کو روزے میں دن میں کسی وقت بھی حیض (menstruation) شروع ہو جائے تو اس کا روزہ ٹوٹ جائے گا خواہ افطاری سے دو منٹ پہلے ہو۔ اور اس روزے کی قضاء دینا بعد میں فرض ہوگی۔
اس کے بعد کھانے پینے کی شرعی طور پر ممانعت نہیں۔ البتہ روزہ داروں کے سامنے مت کھائیں پئیں۔
3) اگر دن میں کسی بھی وقت عورت حیض سے پاک ہوگئی تو اس دن کے روزے کی قضاء بھی لازم ہوگی۔
اور پاک ہونے کے بعد کے اوقات کی نمازیں بروقت ادا کرنا ضروری ہیں۔
4) اگر فجر کی اذان سے پہلے عورت کو پاکیزگی حاصل ہوچکی ہو لیکن ابھی نہانے کا وقت نہ ملے تو سحری کھا کر، روزہ رکھ کر اذان کے فوراً بعد نہانا اور پھر فجر کی نماز پڑھنا ضروری ہوتا ہے۔
5) فقہاء کے نزدیک ماہواری کی کم ازکم مدت تین دن، اور زیادہ سے زیادہ مدت دس دن ہے۔ تو ان دنوں کے علاوہ خواتین کے لیے روزہ رکھنا لازم ہے۔
6) حاملہ اور مرضعہ (بچے کو دودھ پلانے والی) خواتین کو بحالت مجبوری روزوں کی رخصت ہے لیکن بعد میں انہیں ان کی قضا دینی ہوگی۔ یہ روزے معاف نہیں ہوں گے۔
7) اگر حاملہ عورت کو غالب گمان ہو کہ روزہ رکھنے سے خود اسے یا بچے کی جان کو نقصان پہنچ سکتا ہے تو پھر اسے رخصت ہے۔
لیکن بعد میں قضا دینی ہوگی۔
8) حاملہ عورت کے لیے ایسی بیماری یا کمزوری کی حالت میں روزہ توڑ دینا جائز ہے جس سے اسے اپنی یا بچے کی جان کو نقصان پہنچنے کا غالب اندیشہ ہو۔ بعد میں صرف قضا دینی لازم ہوگی۔
9) اگر کسی خاتون کا دودھ پیتا بچہ ہو اور اسے دودھ پلانے میں بہت زیادہ مشقت یا کمزوری محسوس ہوتی ہو اور اس کے لیے روزہ رکھنا ناممکن یا دشوار ہو تو اسے بھی رخصت ہے۔ بعد میں قضا دینی لازمی ہوگی۔
10) مسافر مرد و زن کو بھی سفر کے دوران روزے کی رخصت ہے لیکن بعد میں قضا دینی فرض ہوگی۔
11) بعض خواتین رمضان کے مکمل روزے رکھنے کے لیے "مانع حیض” ادویات استعمال کرتی ہیں جن سے ماہواری نہیں آتی اور رک جاتی ہے۔ ان دوائیوں کے کافی سائیڈ افیکٹس ہوسکتے ہیں۔ اس لیے ان کا استعمال نہ کرنا زیادہ بہتر ہے۔ لیکن اگر کوئی عورت یا لڑکی وہ ادویات استعمال کرلے اور اسے ماہواری نہ آئے اور وہ روزے رکھ لے تو یہ روزے درست ہیں۔
12) کسی عورت کے لیے مجبوری میں سالن وغیرہ پکاتے ہوئے نمک مرچ چکھ کر تھوک دینا درست ہے، اس سے روزہ فاسد نہیں ہو گا۔
13) اگر کوئی عورت چھوٹے بچے کے لیے خوراک نرم کرنے کے لیے اسےکوئی چیز چبا کر دے تو مجبوری میں ایسا کرنا جائز ہے، البتہ یہ خیال رہے کہ خوراک کا ایک ذرہ بھی عورت کے حلق سے نیچے نہ اترے، ورنہ روزہ ٹوٹ جائے گا۔
14) روزے میں کُلّی کرنے، نہانے دھونے، خوشبو سونگھنے یا لگانے، تیل یا سرمہ لگانے، سرخی پاؤڈر لگانے، گوشت میں انجکشن یا ڈرپ لگوانے سے روزہ نہیں ٹوٹتا۔ اسی طرح آنکھ یا کان میں دوائی ڈالی جا سکتی ہے۔
15) خواتین کے لیے فرض ہے کہ وہ روزے میں گھریلو کاموں کے ساتھ نیکی و تقویٰ کے مختلف کام کرتی رہیں مثلاً نماز روزے کی پابندی کریں، سحری بنانے سے پہلے حسب توفیق چند نوافل پڑھ لیں، دعا مانگ لیں، قرآن مجید کا کچھ حصہ تلاوت کرلیں، حسب توفیق صدقہ و خیرات کریں، پھر کھانا پکاتے اور دیگر گھریلو امور سر انجام دیتے ہوئے زبان سے ذکر الٰہی میں مشغول رہیں۔ اگر کوئی گھریلو ملازمہ ہے تو اس کے لیے کاموں میں آسانی کریں۔
دن بھر میں فرض نمازوں کے ساتھ نوافل کا اہتمام کریں، قرآن مجید کی تلاوت کرلیں، یا کام کاج کے دوران ریکارڈنگ پر سن لیں۔ دعا مانگیں، افطاری میں کسی ضرورت مند کے گھر کچھ کھانا بھجوادیں، افطاری میں اذان سے کم از کم پانچ دس منٹ قبل فارغ ہو کر دعا کرلیں۔
افطاری کے بعد بروقت کاموں سے فارغ ہو کر نماز تراویح ادا کریں، پھر رات کو بروقت سوجائیں تاکہ صبح سحری میں جلد اٹھنا اور کچھ عبادت کرنا ممکن ہو سکے۔
بلاشبہ دین میں نیکی اور تقویٰ کے کاموں میں مرد اور عورت کے اجر و ثواب میں کوئی فرق نہیں!
**********