ڈاکٹر خولہ علوی
فطر کا لفظی معنی ہے”روزہ کھولنا یا روزہ ترک کرنا۔” یہ صدقہ رمضان المبارک کے روزے مکمل کرنے کے بعد ان کے ترک کرنے پر دیا جاتا ہے، لہٰذا “صدقہ فطر”یا فطرانہ کہلاتا ہے۔
جمہور علماء کے نزدیک یہ فرض ہے جسے عید الفطر کی ادائیگی سے پہلے ادا کرنا ہر مسلمان کے لیے ضروری ہے۔ یہ روزوں میں ہونے والی کمی کوتاہی کی تلافی کے لیے ادا کیا جاتا ہے۔ اس کا دوسرا مقصد غریبوں کو عید کی خوشیوں میں شریک کرنا ہے۔ بلاشبہ اسلام وہ خوبصورت نظامِ حیات ہے جس نے کسی بھی موقع پر غریبوں اور مسکینوں کو نظر انداز نہیں کیا۔
حضرت عبداللہ ابنِ عباس سے روایت ہے کہ:
“رسول کریم ﷺ نے فطرانہ روزہ دار کی لغویات اور فحش گوئی سے روزہ کو پاک کرنے کے لیے اور مساکین کو کھانا کھلانے کے لیے فرض کیا ہے۔ جو اسے نمازِ عید سے پہلے ادا کردے، اس کی طرف سے قبول ہوگا اور جو نماز عید کے بعد ادا کرے گا، وہ عام صدقات میں سے ایک عام صدقہ ہے۔”
(سنن ابی داؤد: 1609؛ سنن ابن ماجہ: 1827)
وسندہ حسن)
بہتر یہ ہے کہ فطرانہ عید سے ایک دو دن پہلے ادا کر دیا جائے تاکہ غریب لوگ بھی عید کی خوشیوں میں شامل ہو سکیں۔
اگر عید کی نماز کے بعد اس کی ادائیگی کی گئی تو اس کا شمار عام روٹین کے صدقہ میں ہوگا نہ کہ فطرانہ میں۔
حضرت عبد اللہ ابن عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ:
فَرَضَ رَسُولُ اللَّهِ ﷺ زَكَاةَ الْفِطْرِ صَاعًا مِنْ تَمْرٍ أَوْ صَاعًا مِنْ شَعِيرٍ عَلَى الْعَبْدِ، وَالْحُرِّ، وَالذَّكَرِ، وَالْأُنْثَى، وَالصَّغِيرِ، وَالْكَبِيرِ مِنَ الْمُسْلِمِينَ، وَأَمَرَ بِهَا أَنْ تُؤَدَّى قَبْلَ خُرُوجِ النَّاسِ إِلَى الصَّلَاةِ۔
ترجمہ: “رسول اللہ ﷺ نے مسلمانوں کے ہر آزاد و غلام، مرد وعورت اور بچے و بوڑھے پر، کھجوروں، یا، جو، میں سے ایک صاع صدقہ فطر دینا فرض کیا ہے۔ آپ ﷺ کا حکم تھا کہ نماز ( عید) کے لیے جانے سے پہلے یہ صدقہ ادا کر دیا جائے۔”
(صحیح بخاری: 1503)
اس کا مطلب یہ نہیں کہ جو روزہ نہ رکھے وہ فطرانہ بھی نہیں دے گا بلکہ اس پر بھی فطرانہ کی ادائیگی فرض ہوگی۔ کیونکہ صدقہ فطر مسلمانوں میں سے ہر چھوٹے بڑے، حتیٰ کہ نو مولود اور غلام پر بھی فرض ہے۔ اب چونکہ بچے یا مسافر ، مریض اور بزرگ روزے نہیں رکھتے مگر صدقہ فطر وہ سب بھی ادا کریں گے۔
گھر کے سربراہ کو گھر میں موجود ہر فرد کا فطرانہ ادا کرنا ہو گا خواہ وہ ایک دن کا بھی نومولود بچہ ہو یا انتہائی بزرگ ہو۔ غلام کا فطرانہ اس کا مالک ادا کرے گا۔ اگر مشترکہ خاندانی نظام ہو تو ہر فیملی کے سربراہ کے لیے اپنے اہل خانہ کے فطرانہ کی ادائیگی کرنا ضروری ہے۔ اور اگر یہاں حساب کتاب اور مالی معاملات اکٹھے ہوں تو بڑے سربراہ پر ان کی ادائیگی ضروری ہے۔ لیکن ہر خاندان کے سربراہ کی اس کی طرف انفرادی توجہ رہنی چاہیے کہ ہمارے تمام اہل خانہ کا فطرانہ ادا کیا جا چکا ہے۔
فطرانہ ہر اس مسلمان پر فرض ہے جس کے پاس دو وقت کا کھانا میسر ہو۔ جس پر بھی شوال کا مہینہ شروع ہوا اور اس کے پاس ایک دن کی اپنی اور اپنے اہل و عیال کی خوراک اور فطرانہ ادا کرنے جتنی غذا موجود ہو تو اسے فطرانہ ادا کرنا ہوگا۔ لہٰذا اس کے لیے صاحب نصاب یا صاحب حیثیت ہونا ضروری نہیں، بلکہ یہ ہر مسلمان پر فرض ہے، خواہ وہ امیر ہو یا غریب۔ اس سے کوئی شخص مستثنیٰ نہیں ہے۔
نومولود بچے کے علاوہ جس نے رمضان کے آخری دن بھی شادی کی ہو تو اس بیوی کا فطرانہ ادا کرنا بھی واجب ہے۔
پاگل یا بے عقل شخص اور بچے کی جانب سے ان کا ولی اور مالک فطرانہ ادا کرے گا۔ اس کے علاوہ ولی دیگر زیر کفالت لوگوں کا بھی فطرانہ ادا کرے گا۔
اگر گھر میں آئے ہوئے مہمان نے اپنے فطرانہ کی ادائیگی نہ کی ہو تو میزبان کو اس کا فطرانہ بھی ادا کرنا ہو گا۔ بنیادی طور پر مہمان کے اپنے گھر کے سربراہ پر صدقہ فطر کی ادائیگی فرض ہوتی ہے ۔
فطرانے کے لیے شرعی مصرف فقراء اور مساکین ہیں۔ حضرت عبد اللہ ابن عباس روایت کرتے ہیں کہ:
“نبی اکرم ﷺ نے فطرانہ روزوں داروں کے لیے (دوران روزہ) لغو، اور بیہودہ امور سے پاکیزگی، اور مساکین کیلئے کھانے کا ذریعہ بنایا ہے۔” (“مجموع الفتاوى” (14/202))
فطرانہ فقراء اور مساکین کو خصوصی طور پر تلاش کرکے دینا چاہیے۔ صرف آسانی کے لیے عادی اور پیشہ ور قسم کے گداگروں کو صدقہ دینا مناسب نہیں۔ بعض علماء کے نزدیک اس کے مصارف وہی ہیں جو زكاة کے ہیں۔ تاہم افضل یہ ہے کہ انسان اسے غرباء و مساکین میں تقسیم کرے۔ اور صلہ رحمی کرتے ہوئے اپنے عزیز و اقارب سے پہل کرے۔
فطرانے کی شرعی مقدار “ایک صاع نبوی” غلہ ہے۔ صاع وزن کرنے کا ایک عرب پیمانہ ہے اور یہ عصر حاضر کے تقریباً اڑھائی کلو کے برابر ہوتا ہے۔
فطرانہ کھانے والی کسی جنس مثلاً گندم کا آٹا، چاول، جو، کھجور، منقی وغیرہ سے ہی ادا کیا جا سکتا ہے۔ اور سہولت کے لیے اجازت ہے کہ اس کے برابر رقم سے بھی ادا کیا جا سکتا ہے۔
خواتین کو چاہیے کہ اپنے مردوں کو بروقت فطرانہ کی ادائیگی کی طرف توجہ دلائیں اور خصوصی طور پر قریبی ضرورت مند رشتہ داروں کو دینے کے لیے مائل کریں۔
اگر کسی کا باپ فوت ہو چکا ہو یا اتنا غریب ہو کہ بچوں کے اخراجات برداشت نہ کر سکتا ہو لیکن ماں صاحب حیثیت ہو تو پھر ضرورت مند بچوں کا خرچہ ماں کے ذمہ ہوگا۔ اس بنا پر اگر ماں اپنے چھوٹے بچوں پر خرچ کرتی ہے تو پھر ان کا فطرانہ ادا کرنا بھی ماں کے لیے ضروری ہوگا۔
زکوٰۃ الفطر کی حکمتوں اور مصلحتوں پر غور وفکر کریں تو معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے دین میں ہر موقع پر غربا ومساکین اور صلہ رحمی کا کتنا خیال رکھا گیا ہے!
**********