بادبان / عبید اللہ عابد
پہلے یہ پڑھیے :
ڈی جی ISPR کی نیوز کانفرنس : 70 سالہ عمران خان اب کیا بیچیں گے ؟(1)
دوسری بات : عمران خان اور ان کے ساتھیوں نے قوم کو بتایا کہ تحریک انصاف کی حکومت اور متحدہ اپوزیشن کے درمیان تحریک عدم اعتماد کے تناظر میں کشیدگی شدید تر ہوئی تو اسٹیبلشمنٹ نے عمران خان سے رابطہ کیا اور تین آپشنز دیے ، جن میں سے کسی ایک کو اختیار کرکے بحران ختم کیا جاسکتا ہے۔
3 اپریل کو اسمبلی تحلیل کرنے کی تجویز دینے سے پہلے سابق وزیراعظم عمران خان نے ایک انٹرویو میں کہا تھا کہ اسٹیبلشمینٹ نے اُنھیں اپوزیشن کی طرف سے تین آفرز دیں:
عدم اعتماد کا سامنا کریں ، استعفیٰ دیں یا پھر اپوزیشن عدم اعتماد واپس لے گی اور وزیراعظم انتخابات کروائیں۔ اپنے سامنے موجود آپشنز کے حوالے سے انھوں نے کہا کہ ( قبل از وقت ) انتخابات سب سے بہترین طریقہ تھا اور وہ آخری لمحے تک تحریکِ عدم اعتماد کا مقابلہ کریں گے۔
تاہم گزشتہ روز ڈی جی آئی ایس پی آر نے واضح طور پر کہا کہ اسٹیبلشمنٹ نے آپشنز نہیں دیے تھے بلکہ جب سیاسی ڈیڈ لاک برقرار تھا تو سابق وزیر اعظم کے آفس کی جانب سے آرمی چیف کو مدد کے لیے رجوع کیا گیا کہ ‘اس میں کوئی بیچ بچاؤ’ کی بات کریں۔
انھوں نے بتایا کہ تین آپشنز یہ تھیں کہ عدم اعتماد پر کارروائی ہو، دوسرا یہ کہ وزیر اعظم استعفیٰ دے دیں اور تیسرا یہ کہ اپوزشین تحریک واپس لے اور وزیراعظم اسمبلی تحلیل کر کے نئے الیکشن کی طرف چلے جائیں۔ انھوں نے بتایا کہ ‘ اس وقت وزیراعطم نے کہا کہ یہ تیسری آپشن قابل قبول ہے’ اور کہا کہ آرمی چیف جا کر اپوزیشن سے بات کریں جس کے بعد آرمی چیف اس وقت کی اپوزیشن کے پاس گئے۔
یوں عمران خان کی غلط بیانی کا پول کھل گیا۔ پاک فوج کے ترجمان کی طرف سے اس حوالے سے بھی معاملہ صاف کرنا ضروری تھا۔ بصورت دیگر پاکستانی فوج کے بارے میں یہ تاثر پیدا ہوتا کہ وہ سیاست سے ابھی تک لاتعلق نہیں ہوئی اور کسی نہ کسی مرحلے پر اس میدان میں کود ہی پڑتی ہے۔ افسوس ناک امر یہ ہے کہ عمران خان نے اپنی انانیت کی خاطر پاکستانی فوج کے وقار اور تشخص کو نقصان پہنچانے سے بھی دریغ نہیں کیا۔انھوں نے ثابت کیا کہ اپنے ذاتی اور سیاسی مفاد کی خاطر انھیں جو کچھ بھی کرنا پڑے ، وہ کرتے ہیں۔
اسی طرح تحریک انصاف کی طرف سے پراپیگنڈا کیا گیا کہ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نیوٹرل ہوکر دراصل اپوزیشن کا ساتھ دے رہے ہیں ، وہ اس کے بدلے میں اپنی مدت ملازمت میں توسیع چاہتے ہیں۔ یاد رہے کہ خود اس وقت کے وزیراعظم عمران خان نے بھی آرمی چیف کو توسیع دینے کی پیشکش کی تھی۔رواں سال کے شروع میں عمران خان نے ایک نجی ٹی وی چینل کو انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ” آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی مدت ملازمت میں توسیع سے متعلق تاحال کوئی فیصلہ نہیں کیا ہے، ابھی نومبر بہت دور ہے”۔
بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ عمران خان نے یہ پیشکش رشوت کے طور پر کی تھی ۔ان کا خیال تھا کہ ممکن ہے کہ جنرل باجوہ اس پیشکش کے بدلے نیوٹرل ہونے کا فیصلہ واپس لے لیں۔ تاہم آرمی چیف نے ایسی کسی پیشکش کی طرف توجہ دینا بھی گوارا نہیں کیا۔ گزشتہ روز پاک فوج کے ترجمان نے اس حوالے سے بھی جو بات کہی ، وہ یقینا عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کو شرمندہ کرگئی ہے۔
سہیل وڑائچ کہتے ہیں کہ جمعرات کے اعلان سے فوج نے ایک طرح سے یہ وضاحت کر دی ہے کہ حالیہ عرصے کا پورا معاملہ مدتِ ملازمت میں توسیع کا نہیں تھا۔
گزشتہ دنوں عمران خان نے اداروں سے سوال کیا کہ کیا یہ ڈاکو تمہارے نیوکلیئرپروگرام کی حفاظت کرسکتے ہیں؟ چنانچہ گزشتہ روز پاک فوج کے ترجمان نے اس بات کا بھی جواب دیا کہ پاکستان کےنیو کلیئر پروگرام کو کوئی خطرہ نہیں ، اس پربات کرتے ہوئے احتیاط کریں ، جب سے نیو کلیئر پروگرام شروع ہوا تمام حکومتوں نے ایمانداری اسے آگے بڑھایا ۔
پاکستانی فوج کے ترجمان کا یہ جملہ ایک شٹ اپ کال تھی عمران خان کے لئے جو ایک حساس شعبے کو اپنے مخصوص سیاسی مقاصد کے لئے عجب بچگانہ انداز میں استعمال کر رہے تھے ۔
پاک فوج نے یہ کہہ کر کہ امریکا نے اڈے مانگے ہی نہیں تھے ، عمران خان کے ایک اور جھوٹ کا پول کھول دیا۔ وہ دعویٰ کرتے تھے کہ امریکا نے اڈے مانگے تھے لیکن میں نے انھیں ایبسولیوٹلی ناٹ کہا۔ گزشتہ شب ٹی وی پروگرامات میں تحریک انصاف کے لوگ اس پوائنٹ پر نہیں آ رہے تھے ، جب ان سے سوال پوچھا جاتا تھا تو وہ ادھر ادھر کی باتیں کرنا شروع کردیتے تھے ۔ اینکر حضرات و خواتین کو بار بار اپنا سوال دوہرانا پڑتا تھا لیکن تحریک انصاف والے جواب دینے کی طرف نہیں آتے تھے۔
عمران خان کے پاس تماشہ لگانے کے لئے چند ایک غبارے تھے ، ان میں سے کم از کم چھ غبارے ڈی جی آئی ایس پی آر نے چھوٹی سی نوکیلی پن چبھو کر پھاڑ دیے۔ نیوز کانفرنس سے پہلے قوم ایک ڈپریشن میں مبتلا تھی ، کسی کو کچھ سمجھ نہیں آرہی تھی کہ کیا ہونے والا ہے ۔ تاہم اب قوم نسبتا سکون میں ہے ۔
بلاشبہ فوجی ترجمان کی طرف سے سابق وزیراعظم کے بیانیوں کی تردید سے عمران خان کو غیرمعمولی طور پر نقصان ہوا ہے۔ ان کے حامیوں میں بہت بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جن کی سب سے پہلی محبت پاک فوج ہے۔ اس محبت پر وہ کوئی بھی سمجھوتہ نہیں کرتے۔
جب مولانا فضل الرحمن نے پہلا دھرنا سری نگر ہائی وے اسلام آباد پر دیا ، تب پہلی بار اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کے مابین رابطوں نے ایک ایسی صورت اختیار کی جو جناب عمران خان کو پسند نہ آئی۔ انھوں نے اس پر ناک بھوں چڑھائے اور اشاروں ہی اشاروں میں اسٹیبلشمنٹ کو اپنے تحفظات بتائے۔ میں اس دھرنے کی بات کر رہا ہوں جس کا اختتام چودھری صاحبان کی ضمانت پر ہوا تھا۔
اس کے بعد اسٹیبلشمنٹ اور اپوزیشن کے مابین رابطوں میں ایک تسلسل پایا گیا حتیٰ کہ نومبر دوہزار اکیس آگیا اور ڈی جی آئی ایس آئی کے نوٹیفکیشن کا نزاع پیدا ہوگیا۔ یہ بات کسی سے مخفی نہیں کہ اس نزاع کے پیچھے عمران خان کا وہ منصوبہ تھا جس کے مطابق وہ اپنے پسندیدہ جرنیل کو آرمی چیف بناکر اگلے عام انتخابات جیتنا چاہتے تھے۔
بعدازاں اسٹیبلشمنٹ اور عمران خان کے مابین دوریاں بڑھتی چلی گئیں۔ حتیٰ کہ تحریک عدم اعتماد کا واقعہ پیش آگیا۔ اس سارے عرصہ میں عمران خان کے وہ سپورٹرز جن کی سب سے پہلی محبت پاک فوج ہے ، مصلے بچھا کر دعائیں مانگتے رہے کہ ان کی پہلی محبت اور دوسری محبت ( عمران خان ) دوبارہ ایک صفحہ پر آ جائے تاہم دعائیں مقبول نہ ہوئیں حتیٰ کہ ڈی جی آئی ایس پی آر کی نیوز کانفرنس ہوگئی۔
اب عمران خان کے مذکورہ بالا حامی ( جو پی ٹی آئی میں اکثریتی گروہ ہیں ) ایک دو راہے پر آن کھڑے ہوئے ہیں۔ انھیں پہلی اور دوسری محبت میں سے ایک کا انتخاب کرنا ہی ہوگا۔ فطری امر ہے کہ وہ پہلی محبت ہی کو ترجیح دیں گے۔ یوں بخوبی اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ عمران خان کو کس قدر خسارہ ہوگا۔ اب یہ خسارہ بڑھتا ہی چلا جائے گا ، کم ہونے کا کوئی امکان نہیں۔ حتیٰ کہ اگلے عام انتخابات آ جائیں گے ۔ جب ان کے نتائج آئیں گے تو تحریک انصاف ایک بار پھر دوہزار اٹھارہ سے پہلے کی پوزیشن پر پہنچ چکی ہوگی جب تحریک انصاف کے پاس پینتیس سیٹیں ہوا کرتی تھی۔