میجر جنرل بابر افتخار ، عمران خان

ڈی جی ISPR کی نیوز کانفرنس : 70 سالہ عمران خان اب کیا بیچیں گے ؟(1)

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بادبان / عبید اللہ عابد

ڈی جی آئی ایس پی آر میجر جنرل بابر افتخار کی نیوز کانفرنس کے سبب سابق وزیر اعظم عمران خان اور ان کی جماعت پاکستان تحریک انصاف کو کافی خفت کا سامنا کرنا پڑا ہے ۔ میجر جنرل بابر افتخار نے چھ ایسی باتیں کہیں جنھوں نے تحریک انصاف کے تین بیانیوں یا دعووں کے غباروں سے ہوا نکال دی ہے۔ اور 70 سالہ عمران خان کو بہت زیادہ نقصان پہنچایا ہے۔کیسے ؟ آئیے ! جائزہ لیتے ہیں ۔ اور یہ بھی دیکھتے ہیں کہ کیا خان صاحب کے پاس تماشہ لگانے کو کچھ باقی بچا ہے؟

سب سے پہلے جانتے ہیں کہ پاک فوج کے ترجمان نے وہ کیا باتیں کہیں جنھوں نے عمران خان کے بیانیوں سے ساری کی ساری ہوا نکال دی۔

اول : ” نیشنل سیکیورٹی کمیٹی کے اعلامیے میں سازش کا لفظ نہیں ہے ۔ ڈی جی آئی ایس پی آر نے یہ بھی کہا کہ ڈی مارش صرف سازش پر نہیں دیا جاتا، اس کی بہت سی وجوہات ہوتی ہیں۔”

دوم : ” عمران خان کو اسٹیبلشمنٹ نے کوئی آپشن نہیں دیا تھا، ڈیڈ لاک کے دوران وزیرِ اعظم آفس سے آرمی چیف سے رابطہ کیا گیا کہ بیچ بچاؤ کی بات کریں ۔ انہوں نے بتایا ہماری سیاسی جماعتوں کی قیادت آپس میں بات کرنے پر تیار نہیں تھی جس پر آرمی چیف اور ڈی جی آئی ایس آئی وہاں گئے، مختلف رفقاء سے بیٹھ کر 3 چیزیں ڈسکس ہوئیں کہ کیا کیا ہوسکتا ہے، ان میں وزیرِ اعظم کا استعفیٰ ، تحریکِ عدم اعتماد واپس لینا اور وزیرِ اعظم عمران خان کی طرف سے اسمبلیاں تحلیل کرنے کا آپشن تھا۔”

ڈی جی آئی ایس پی آر نے بتایا کہ ” تیسرے آپشن پر سابق وزیرِ اعظم عمران خان نے کہا کہ یہ قابلِ قبول ہے ، ہماری طرف سے اپوزیشن سے بات کریں . جس پر آرمی چیف نے پی ڈی ایم رہنماؤں کے سامنے یہ گزارش رکھی جس پر سیر حاصل بحث ہوئی لیکن اپوزیشن نے اس پر کہا کہ ہم ایسا قدم نہیں اٹھائیں گے۔”

سوم : ” آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نہ تو مدتِ ملازمت میں توسیع طلب کر رہے ہیں اور نہ ہی قبول کریں گے، آرمی چیف اپنی مدت پوری کر کے اس سال 29 نومبر کو ریٹائر ہو جائیں گے۔”

"چہارم : ” ایٹمی ہتھیاروں سے متعلق بات کرتے ہوئے محتاط رہنا چاہیے،

"پنجم : ” فوجی اڈوں کا کسی سطح پر مطالبہ نہیں کیا گیا۔

ششم : ڈی جی آئی ایس پی آر نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ کی وزیرِ اعظم شہباز شریف کی تقریبِ حلف برداری میں شرکت نہ کرنے کے حوالے سے بتایا کہ اس دن آرمی چیف کی طبیعت ٹھیک نہیں تھی اور وہ اس دن آفس بھی نہیں آئے تھے۔

یہ وہ چھ باتیں ہیں جن پر تحریک انصاف نے حکمران اتحاد ( جو پہلے متحدہ اپوزیشن تھی ) کے خلاف مختلف بیانیے تشکیل دئیے۔ جن میں سب سے بڑا بیانیہ امریکی سازش کا تھا ۔ عمران خان کا یہ بیانیہ اب ہر پاکستانی کو حفظ ہوچکا ہے کہ ان کے خلاف تحریک عدم اعتماد دراصل امریکی سازش ہے۔ اس کا منصوبہ امریکا میں تیار ہوا اور امریکا نے ڈالرز بھی فراہم کئے جن سے ایم این ایز خریدے گئے ہیں۔

عمران خان نے بار بار سازش کا لفظ استعمال کیا کہ امریکا میں متعین پاکستانی سفیر نے جو مراسلہ بھیجا ، اس میں باقاعدہ سازش کا لفظ تھا۔ جناب عمران خان کا سارا بیانیہ اسی لفظ پر تھا ۔ اسی بنیاد پر شہباز شریف حکومت کو امپورٹیڈ کہا جا رہا ہے۔

یاد رہے کہ ڈپٹی سپیکر کی 3 اپریل کی رولنگ سے پہلے سابق وزیراعظم عمران خان نے یہ دعویٰ کیا تھا کہ امریکہ میں تیار ہونے والی یہ ‘سازش’ قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں’بے نقاب’ کی گئی جہاں فوجی سربراہوں کی موجودگی میں اس سازش کی تفصیل بتائی گئی۔ انھوں نے کہا تھا کہ ‘نیشنل سکیورٹی کمیٹی کی میٹنگ کے مِنٹس میں یہ بات لکھی گئی کہ یہ جو عدم اعتماد آئی ہے اس کی سازش باہر تیار ہوئی۔’

تاہم پاک فوج کے ترجمان کی نیوز کانفرنس سے ثابت ہوا کہ سابق وزیراعظم کا یہ پورا بیانیہ مکمل طور پر جھوٹ پر مبنی تھا ۔ کوئی ایسی سازش یا مداخلت نہیں ہوئی جو تحریک عدم اعتماد کی بنیاد بنی ہو۔ اور یہ کہ ڈی مارش کرنے کی بات جو ہوئی تھی ، اس کا سبب کچھ اور ہی تھا۔ ڈی جی آئی ایس پی آر کے مطابق سبب کم از کم کوئی سازش یا مداخلت نہیں تھی۔

جب یہ سطور لکھی جارہی ہیں ، ڈی جی آئی ایس پی آر کی نیوز کانفرنس کو بیس گھنٹے ہو چکے ہیں۔ سوائے ایک سینیٹر اعجاز چودھری کے ، عمران خان یا ان کے کسی ساتھی نے باقاعدہ اپنا موقف پیش نہیں کیا۔ مکمل خاموشی سی خاموشی ہے۔ پاکستان تحریک انصاف کے مرکزی نائب صدر سینیٹر اعجاز چوہدری نے سوال کیا کہ ’ایک آزاد خود مختار ملک کے معاملات میں مداخلت اور سازش میں کیا فرق ہے؟‘انھوں نے اپنی ٹویٹ میں کہا کہ ’جب ’مداخلت‘ کی تحقیقات ہوں گی سازش سامنے آجائے گی۔‘مزید یہ کہ تحریک انصاف کے لوگوں کی طرف سے سوشل میڈیا پر ایک ٹرینڈ چل رہا ہے کہ سازش نہیں کہا تھا ، مداخلت کی بات کی تھی۔

رہی بات بیرونی مداخلت کی ، یہ تو ہمیشہ اور ہر دور میں ہوتی رہی ہے ۔ اس لئے اسے ایک عام سی بات سمجھا جاتا ہے جو لوگ عمومی انداز میں کرکے گزر جاتے ہیں۔ لوگ تو غیرملکی سازش کی بات بھی عام سے انداز میں کہہ کر آگے بڑھ جاتے ہیں۔ پاکستان میں اس سے پہلے بھی سینکڑوں بار سیاست دانوں نے ایک دوسرے پر سازش کے الزام عائد کئے ، ایک دوسرے کو امریکی پٹھو قرار دیا۔

تاہم باقاعدہ ایک سازش کی بات کرکے یہ الزام عائد کرنا کہ امریکا نے ڈالرز دیے ہیں ، جن سے ایم این ایز خریدے گئے اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کو یقینی بنایا گیا۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بالکل ایک مختلف مفہوم ہے۔ یہ ایک سنگین الزام ہے ، ورنہ غیر ملکی سازش کی عام سے الزام پر سپیکر قومی اسمبلی آئین کا آرٹیکل فائیو کیوں استعمال کرتا ؟ ان کا کہنا تھا کہ ‘عدم اعتماد کی تحریک آئین، قانون اور رولز کے مطابق ہونا ضروری ہے۔ کسی غیر ملکی طاقت کو حق نہیں کہ سازش کے تحت پاکستان کی منتخب حکومت کو گرائے۔‘

حقیقت تو یہی ہے کہ غیرملکی سازش والا غبارہ پھٹنے سے عمران خان اور ان کی تحریک انصاف کو بہت زیادہ نقصان ہوا ۔ اب تماشہ دیکھنے والوں میں بہت زیادہ کمی واقع ہوجائے گی۔

ممتاز صحافی فہد حسین نے بھی لکھا ہے کہ پاکستانی فوج کے ترجمان نے یہ واضح کر دیا کہ سفارتی کیبل کے ذریعے کوئی سازش ثابت نہیں ہوئی اور حکومت کی تبدیلی عام سیاسی مرحلے کے ذریعے ہوئی ۔ اُنھوں نے لکھا کہ یہ پی ٹی آئی کے بیانیے کے لیے ’بہت بڑا نقصان ہے‘۔

اس مراسلے کے معاملے پر دفاعی امور کی تجزیہ کار و مصنفہ ڈاکٹر عائشہ صدیقہ بھی یہی سمجھتی ہیں کہ یہ پریس کانفرنس بیانیے کا رخ موڑنے کی کوشش ہے۔ تاہم اُنھوں نے کہا کہ اس حوالے سے کچھ تاخیر ہوئی ہے اور فوج کا اس واضح انداز میں مؤقف اسی وقت آنا چاہیے تھا جب عمران خان نے یہ بیانیہ آگے بڑھانا شروع کیا تھا۔

سیاست پر گہری نظر رکھنے والے تجزیہ کار و صحافی سہیل وڑائچ کا کہنا ہے کہ تحریکِ عدم اعتماد آتے وقت یہ واضح نہیں تھا کہ فوج کا مؤقف کیا ہے مگر اب اس حوالے سے فوج کا مؤقف اور عدلیہ کا فیصلہ آ چکا ہے چنانچہ مبینہ امریکی سازش کے بیانیے میں زیادہ وزن نہیں رہا ہے۔

جب ان سے پوچھا گیا کہ کیا یہ بیانیہ ان کی انتخابی کامیابی کا سبب بن سکتا ہے تو اُن کا کہنا تھا کہ جمعرات کی’ پریس کانفرنس کے بعد عمران خان کا بیانیہ کمزور پڑے گا کیونکہ جب دھول بیٹھے گی تو یہ بات دیکھنے والی ہو گی کہ الیکٹیبلز کس جانب کھڑے ہوتے ہیں، کیا وہ اسٹیبلشمنٹ کے مخالف لائن لیں گے؟‘ ( جاری ہے )


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں