محمد بلال اکرم کشمیری
پاکستان میں عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے بعد اس کے اثرات آزاد کشمیر میں بھی محسوس کیے گئے ہیں ،تاہم یہاں صورتحال پاکستان سے بالکل مختلف ثابت ہوئی ،یہاں تحریک اپوزیشن نے نہیں بلکہ تحریک انصاف کے اراکین نے اپنے ہی وزیر اعظم کیخلاف اقربا پروری ، گڈ گورننس کے فقدان ،تحریک آزادی کشمیر میں عدم دلچسپی کے علاوہ دیگرسنگین قسم کے الزامات لگا کر جمع کروائی ہے،تاہم وزیر اعظم کا کہنا تھا کہ ان پر لگائے گےان الزامات میں کوئی حقیقت نہیں ہے ،انہوں نے اسے کشمیر میں پی ٹی آئی کیخلاف سازش قرار دیتے ہوئے پارٹی چیئرمین عمران خان سے نوٹس لینے کا بھی مطالبہ کیا جبکہ پارٹی چیئرمین عمران خان نے سردار عبدالقیوم نیازی کو استعفیٰ دینے سے روکتے ہوئے الزامات کی تحقیقات کے لیے کمیٹی بنانے کا حکم دے دیا ہے۔
یہ تحریک جوکہ پی ٹی آئی کے وزیر خوراک علی شان سونی، وزیر خزانہ عبدالماجد خان اورپارلیمانی سیکرٹری بحالیات اکبر ابراہیم کی جانب سے جمع کرائی گئی ہےاس پر 3 سے 7 دنوں کے اندر رائے شماری کرانا ضروری ہے ،تادم تحریر 15 اپریل کو عدم اعتماد کی تحریک پر رائے شماری کے لیے اجلاس بھی طلب کر لیا گیا ہے ۔ اس تحریک عدم اعتما د کو پیش کرنے کے بعد عبدالماجد خان واحد رکن اسمبلی بن گے ہیں جنہوں نے پہلے بھی تین بار کے وزرااعظم جن میں سردار عتیق احمد خان ،راجہ فاروق حیدر خان اور سرداریعقوب شامل کیخلاف تحریک عدم اعتماد جمع کرائی ۔سیکرٹری آزاد کشمیر قانون ساز اسمبلی چوہدری بشارت حسین نے میڈیا سے گفتگو کرتے ہوئے کہا کہ جمع کرائی گئی عدم اعتماد کی تحریک پر 25 ارکان اسمبلی کے دستخط ہیں۔ جب کہ اسمبلی میں براہ راست اور بلواسطہ منتخب ہونے والے ارکان کی تعداد 53 ہے جن میں سے تحریک انصاف کے 32،پیپلز پارٹی کے 12،ن لیگ کے 7 مسلم کانفرنس اور جموں کشمیر پیپلز پارٹی کا ایک ایک رکن ہے ۔
صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں ،دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کیخلاف منظم حکمت عملی تیار کریں گے:شاہ غلام قادر
سردار عبدالقیوم خاں نیازی نے 2021 کے الیکشن میں عباس پور پونچھ سے 24 ہزار841 ووٹ لے کر کامیابی حاصل کی تھی جبکہ ان کے مقابل مسلم لیگ ن کے امید وار چوہدری یاسین نے 16 ہزار 64 ووٹ حاصل کیے تھے ، قانون ساز اسمبلی میں سردار عبدالقیوم خاں نیازی 33 ووٹ لے کر کامیاب ہوئے تھے جبکہ ان کے مخالف پاکستان پیپلزپارٹی کے لطیف اکبر نے 15 ووٹ حاصل کیے تھے۔سردار عبدالقیوم خاں نیازی نے 4 اگست کو وزارت عظمیٰ کا عہدہ سنبھالا تھا۔
ابتدا میں وزارت عظمیٰ کی دوڑ میں پی ٹی آئی کے تین ارکان شامل تھے جن میں سردار تنویر الیاس،سابق وزیراعظم آزاد کشمیر بیرسٹر سلطان محمود چوہدری اور سردار عبدالقیوم خاں نیازی ،تاہم پارٹی چیئرمین عمران خان کی جانب سے وزارت عظمیٰ کا تاج نیازی صاحب کے سر ہی سجایا گیا ،جبکہ بیرسٹر سلطان محمود چوہدری کو صدر نامزد کردیا گیا ۔موجودہ صورت حال میں سردار عبدالقیوم نیازی کے جاتے ہی پی ٹی آئی کی جانب سے سردار تنویر الیاس ہی اس عہدے کے لیے مضبوط امید وار ہیں ،جب کہ اسمبلی میں پی ٹی آئی کی اکثریت ہے۔تحریک عدم اعتماد پیش ہونے اور سردار تنویرالیاس کے وزیر اعظم نامزد ہونے کے بعد ان کے علاقے میں باقاعدہ طور پر جشن منایا جارہا ہے ،اس کے ساتھ ساتھ اطلاعات یہ بھی ہیں کہ اس تحریک کو کامیاب بنانے کے لیے سردار تنویر الیاس کی سردار عتیق سے بھی ملاقات ہوئی ہے ۔اس ساری صورتحال میں پی ٹی آئی کے ورکر اس اندرونی اور شخصی اختلافات کے باعث شدید ذہنی اذیت سے دوچار نظر آتے ہیں۔
اس ساری صورتحال میں اپوزیشن کی خاموشی معنی خیز ہے ،سابق سپیکر قانون ساز اسمبلی اور چیف آرگنائز مسلم لیگ ن آزاد کشمیرشاہ غلام قادر نے بادبان سے بات چیت کرتے ہوئے کہاکہ ابھی وہ صورتحال کا جائزہ لے رہے ہیں اور وہ دیگر اتحادیوں کے ساتھ مل کر پی ٹی آئی کیخلاف منظم حکمت عملی تیار کریں گےتاہم موجودہ عدم اعتماد کی تحریک کے پس منظر میں ان کا کوئی کردار نہیں۔جبکہ بعض تجزیہ نگاروں کا خیال ہے کہ آزاد کشمیر حکومت اس تحریک عدم اعتماد کو اپوزیشن کی سازش سمجھتی ہے۔
تحریک عدم اعتماد ایک قانونی راستہ ہے منتخب وزیر اعظم کو ہٹانے کا لہٰذا یہ توقع کی جاتی ہے کہ کشمیر میں کوئی ایسا غیر آئینی کام نہیں کیا جا ئے گا جیسا کہ پاکستان میں کیا گیا۔