فرح مصباح
1443 مطابق 2022 کے ماہ رمضان المبارک کی آمد تھی۔ ہمارے پاکستان میں تو کافی حد تک ایس او پیز پابندیاں اپنے اختتام کو پہنچ چکی تھیں، لیکن اسلامی برادر ملک سعودی عرب میں covid کی پابندیاں ابھی جاری تھیں۔ اہل پاکستان نہیں، سارے عالمِ اسلام پر ایک خاموشی چھائی ہوئی تھی۔ حرمین شریفین کے دروازوں کی تین سال سے بندش کسی بھی مسلمان کے لیے سوہانِ روح تھی۔ مگر جیسے ہی اس سال کا ماہ مبارک رمضان قریب ہوتا گیا، ایک نویدِ مسرت مسلمانوں کو یہ ملی کہ کورونا پابندیاں اٹھا لی گئی ہیں اور لوگ اس سال عمرہ کر سکتے ہیں۔
یہ بات سننے کو تو ہمارے کان ترس گئے تھے۔ کسی دردِ دل کی آہوں نے آخر یہ بند دروازے کھلوا ہی دیے ۔ ٹریول ایجنسی کے ٹھپ کاروبار کو گویا نئی زندگی مل گئی اور لوگوں کا تانتا بندھ گیا۔ عاشقانِ خدا و رسول اپنا رختِ سفر باندھنے لگے۔ میری اطلاع کے بعد لاکھوں عاشقان کی درخواستیں منتظر ہیں کہ ان کا نمبر لگ جائے۔ رب تعالیٰ کا شکر ادا کیا کہ اس نے اپنی بیش بہا نعمت ہمیں پھر سے عطا کر دی۔
ٹی وی کی اسکرین پر مطاف کو خالی دیکھ کر جو زخم دل میں چھپے تھے وہ مندمل ہونے لگے کہ اب پھر سے یہ گھر آباد ہونے جا رہا ہے۔ ویسے سمجھنے والوں کے لیے واقعی نشانیاں ہیں۔ مطاف کو خالی دیکھ کر قیامت کی نشانیاں آنکھوں کے گرد گھوم جاتیں اور یقین نہ آتا تھا کہ ایسا بھی ہو سکتا ہے۔
قیامت سے پہلے ایک ایسا وقت بھی آئے گا جب توبہ قبول نہ ہوگی۔ توبہ کہ کہیں وہ وقت ابھی تو نہیں آیا۔ رہ رہ کر خیال آتا کہ دوبارہ اسی طرح سے کعبے کی رونق بحال ہوگی اور ہم پھر کبھی اللہ کے حضور مطاف میں سجدہ ریز ہو سکیں گے؟ ریاض الجنہ میں نوافل ادا کر سکیں گے ؟
بس دل تڑپتا تھا اور خاموش آنکھوں میں آنسوؤں کی جھلملاہٹ غمگین دل کے ساتھ دعا بن جاتی ۔ بہت سنتے تھے افطاریوں کی رونق کے بارے میں، سحری اور شبینہ کے بارے میں بچپن سے کئی نعتوں میں سنا اور پڑھا تو دل چاہتا تھا کہ اللہ!
ایک بار تو دکھا دے رمضان میں مدینہ۔
امید اور آس تھی کہ کسی دن تو رسائی ممکن ہو جائے گی۔ کوئی آنسو ، کسی دن کی تڑپ ، کوئی طلب عطا بن کر، رحمت و بخشش کا ذریعہ بن کر میری روح کو سرشار کر دے گی۔ بس ایک دن نوید سنائی گئی کہ کوشش جاری ہے باقی اللہ کا حکم ۔ بے حد رش تھا ، ٹکٹس کا ملنا مشکل ہو گیا۔ اور پھر ایسا ہوا کہ کوئی مشکل مشکل نہ رہی اور بلاوے کے منتظر لاچار بندے رب کی رحمت سے مستفید ہو چلے ۔
شکر خدا کا کنفرمیشن لیٹر تو آگیا۔ یقین اور بے یقینی کی ملی جلی کیفیت دل پر طاری ہونے لگی۔ جذبات قرطاس پر بکھرنے لگے۔
عاصیوں کا اذن بلاوا آیا
اوج پہ مقدر کا ستارہ آیا
شہنشاہِ اقدس کی حضوری کا
غلام کو ایک اشارہ آیا
منتظر تھے شہا مدت سے ہم
آس و امید کا پروانہ آیا
روح سرشار ہوئی دل آباد ہوا
گناہوں سے معافی کا وقت آیا
گنبد کو نظر بھر کر دیکھا تھا
منظر وہ دید کا دوبارہ آیا
رب کی رحمت سے قبولِ دعا تک
سلسلہ طلب و عطا کا دوبارہ آیا
( جاری ہے )