کراچی دھرنا ، جماعت اسلامی

قربانیاں قبول ہوگئیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

لائبہ عامر گریجویٹ

دو راتیں یوں سنسان اور ویران گزریں لگتا ہے ہمارے تو کام ہی ختم ہو گئے ، جب سے کراچی میں جماعت اسلامی کا دھرنا ختم ہوا ہے ۔ 28دن اور 29ویں شب تک یہ دھرنا کراچی کے شیر حافظ نعیم الرحمن کی زیرِ قیادت جس عزم و حوصلے ، جوش و ولولوں سے لبریز کارکنان کی ولولہ انگیز قربانیوں کی وجہ سے جاری رہا داد کے قابل ہے ۔

رات کو جو محفل سجتی تھی وہ تو آج بھی سماعتوں سے ٹکرا رہی ہے ۔ نعت کی دل کش آوازیں فضاؤں کو معطر کرتی ہماری سماعتوں سے ٹکراتیں تو وہاں سے رات دو بجے بھی اٹھنے کا جی نہ چاہتا تھا ۔ تین سے چار بار بڑی مشکل سے رات کو چھٹی والے دن جانے کا اتفاق ہوا تو واپس آنے کا کہو ہی مت والا حال تھا۔

نیند آنکھوں سے کوسوں دور چلی جاتی لگتا کہ گویا دن نکلا ہوا ہے ۔ گھر سے فون آتا کہ کب واپس آؤ گے تو انہیں کچھ دیر کا کہ کر ٹال دیا جاتا کہ تھوڑی دیر میں آتے ہیں لیکن پھر اسلامی جمعیت طلبہ کی نعرے بازی شروع ہوتی تو یکے بعد دیگرے جوش و خروش سے لبریز طلبہ رکنے کا نام ہی نہیں لیتے۔وہاں سے زبردستی سب کو واپس آنے کے لیے کہا جاتا اور آتے ہوئے دل کچھ اداس ہونے لگتا کہ گویا ہم اپنے گھر سے کہیں دور جا رہے ہوں۔

سلام ہو ان افراد پر جو روزانہ اس عظیم محفل کی زینت بنے ہوں گے جو اپنی مصروفیات میں سے وقت نکال کر وہاں پہنچتے تھے ، جو اپنے کاموں کو مینج کر کے اس بارونق محفل کی نشستوں پر بیٹھتے ہوں گے ۔ جماعت اسلامی کے بعض کارکنان کے ایسے حیران کن واقعے سنے کہ آنکھیں اشک بار ہوجاتیں اور مزید آگے بڑھنے کا شوق پیدا کرتے ۔

ایک صاحب کو صبح سب کو ناشتے کروانے کی ذمہ داری سونپی گئی . روزانہ صبح آٹھ بجے ناشتے کا سامان لے کر دھرنے میں موجود سب کو ناشتہ کروانے کے اس کام کو بہتر طریقے سے انجام دے رہے تھے کہ ایک روز والد محترم سب کو چھوڑ کر دربار اجل میں لبیک کہہ گئے اور دنیائے فانی سے کوچ کر گئے ۔ لیکن وہ سپوت اگلے روز صبح آٹھ بجے ( والد کی تجہیز و تدفین کے بعد ) اسی طرح اپنی ذمہ داری ادا کرتے ہوئے نظر آئے ۔ چاہتے تو اس موقع پر رخصت لے سکتے تھے لیکن کس طرح اپنی ذمہ داری پر ڈٹے رہے اور پیچھے نہ ہٹے ۔ کئی افراد نے اپنی نئی نوکریاں داؤ پر لگا دیں ۔ خود حافظ صاحب بخار میں تپتے وہاں پائے گئے . اس حالت میں گھر آرام کے لئے نہیں گئے۔

اے راہِ حق کے شہیدو ، وفا کی تصویرو
تمہیں وطن کی ہوائیں سلام کہتی ہیں

اس شعر کے عملی نمونے بہت سے کارکنان نے پیش کیے. کسی نے جان و مال سے ، کسی نے وقت اور صلاحیتوں سے اپنا بھرپور حصہ ڈالنے کی کوشش کی ۔ بچے اپنے پیسوں سے بھرے غلق دے رہے ہیں تو کہیں سے کھانے آرہے ہیں ۔ اللہ ان سب کاوشوں کو اپنی بارگاہ میں قبول فرمائے۔

پھر نہ رکنے والی آندھیوں ، طوفان اور بارشوں کے سلسلوں میں بھی بوڑھے ، بچےاور جوان ڈٹے رہے ۔ ایک نوجوان شامیانہ ٹھیک کرتے ہوئے ( جو تیز ہوا سے گر گیا تھا ) اوپر سے سیڑھی سمیت نیچے گرا لیکن اللہ تعالیٰ کی رحمت نے اسے بچا لیا اور اسے کچھ نہ ہوا ۔ یہ تو صرف کارکنان کی قربانیاں تھیں ۔عام افراد کی رائے میں بھی تبدیلی آئی . انہوں نے جماعت اسلامی کی جدوجہد کو سراہا . روزانہ ہزاروں افراد کے وفود آتے اور حمایت کا اعلان کرتے نظر آئے اور بعض افراد تو جماعت اسلامی کے تحت کام کرنے کو بھی تیار ہو گئے ۔

یہ سب تو رب تعالیٰ کا کرم اور عنایت ہے کہ اس نے یہ سارے کام ہم جیسے کمزور اور ناتواں لوگوں سے لیے ورنہ ہم اس قابل نہ تھے کہ یہ مشکل کام کرتے ۔ رب تعالیٰ نے تمام افراد کی قربانیاں اور سعی و جہد کو قبول فرمالیا ہوگا اور اس کا انعام اس طرح دیا کہ مخالف پارٹی نے گھٹنے ٹیک دیے اور مطالبات مان لیے اور بہت بڑی کامیابی اللہ رب العزت نے جماعت اسلامی کے حصے میں ڈالی . کراچی نے ایک بڑی کروٹ لی ۔ اس کامیابی کے بعد تو شہر کراچی کو حافظ صاحب کے ساتھ مل کر یوم تشکر منانا چاہیے تھا لیکن لوگوں کی تو الٹی سیدھی باتیں ہی ختم نہیں ہوتیں۔

"یوم تشکر” اس بڑی کامیابی کے بعد اللہ تعالٰی کے حضور جھکنے کا نام ۔۔۔۔ اللہ کی بڑائی اور کبریائی کا اعلان ۔۔۔۔ ہمارا فرض عین تھا کہ جس باری تعالیٰ نے یہ رحمت ہم پر کی ہے اس کا شکر ادا کریں نہ کرتے تو یہ کفرانِ نعمت ہوتا ۔ اس موقع پر امیر محترم حافظ نعیم الرحمن صاحب نے شرکاء کی جدوجہد ، کوششوں اور کاوشوں کو سراہتے ہوئے انہیں مبارک باد دی اور مخالف پارٹیوں کے سوالات کے جواب بھی دئے جو کارکنان سے لوگ کرسکتے ہیں ۔ اس موقع پر پھولوں کے ہار بھی حافظ صاحب کے گلے میں ڈالے گئے ۔ ایک دوسرے کو مٹھائیاں بھی کھلائی گئیں ۔ پر رونق محفلوں کا اختتام شکرانے کے نوافل ہر ہوا ۔

دھرنے ختم ہونے سے یوں محسوس ہو رہا ہے کہ کوئی خلا سا رہ گیا ہے ہماری روزمرہ زندگی میں ۔ اب تو رات بے کار محسوس ہونے لگی ہے کہ کوئی کام ہی نہیں ۔

ان مراحل اور جدوجہد کو رکنا اور تھمنا نہیں چاہئیے بلکہ” تیز ہو جدوجہد تیز ہو ” کا نعرہ عملاً بھی تیز تر ہوتے رہنا چاہیے تاکہ مزید کامیابیاں ہمارے قدم چومیں اور اسلامی انقلاب ہم ہی سے آئے ۔ اہل کراچی اور جماعت اسلامی کے کارکنان اللہ کے شیر ، نہ دبنے والے ، نہ ہٹنے والے ، نہ بکنے والے حافظ نعیم الرحمن کے تہ دل سے شکر گزار ہیں کہ انہوں نے ان کے مسائل کے لیے انتھک محنت کی ۔ اپنے کاموں کو چھوڑ کر ، اپنا گھر بار چھوڑ کر، رات دیر تک دھرنا گاہ میں موجود ہوتے اور عوام کے درمیان بیٹھ کر عوام کے حقوق کی جنگ لڑتے ہوئے نظر آئے ۔

اللہ تعالیٰ ہماری چھوٹی چھوٹی کوششوں کو اپنی بارگاہ میں بڑھا چڑھا کر قبول فرمائے اور حافظ صاحب کی دشمنوں سے حفاظت فرمائے اور اپنے حفظ و امان میں رکھے:

خدا کرے میرے ایک بھی ہم وطن کے لیے
حیات جرم نہ ہو زندگی وبال نہ ہو


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں