بادبان / عبید اللہ عابد
سچی بات تو یہ ہے کہ پاکستانیوں کی اکثریت کو خدشہ تھا کہ سپریم کورٹ ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم سوری کی رولنگ والے کیس پر کوئی درمیانہ راستہ ڈھونڈ رہی ہے۔ اگرچہ یہ معاملہ ٹیڑھا نہیں تھا ، بہت سیدھا سادہ تھا ۔
تحریک عدم اعتماد سپیکر اسد قیصر کی طرف سے جائز قرار دی جاچکی تھی ، اس پر ووٹنگ کا دن مقرر ہوچکا تھا ، پھر عین ووٹنگ سے کچھ دیر پہلے وقفہ سوالات ( جس کی کوئی روایت نہیں تھی ) کرنا ، وزیر قانون فواد چودھری کا اٹھ کر تحریک عدم اعتماد پر تحریری اعتراض پڑھنا ، جس کے فورا بعد ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی کا اپنی جیب سے رولنگ نکالنا ، اسے حیران کن طور پر پرجوش اور مجاہدانہ انداز میں پڑھ کر تحریک عدم اعتماد کو مسترد کرنا اور پھر قومی اسمبلی اجلاس کا غیر معینہ مدت کے لئے ملتوی کرنا ۔ یہ سب کچھ بدنیتی اور ایک طے شدہ منصوبہ بندی کا عکاس تھا۔ بدنیتی کیسے ؟ اگلی سطور میں جان لیجئے ۔
اس کے نتیجے میں ملک ایک بڑے آئینی اور پھر سیاسی اور پھر ریاستی بحران سے دوچار ہوا۔ سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لیا ۔ تمام سٹیک ہولڈرز کو اچھی طرح سنا ۔ حکومتی وکیل ( اٹارنی جنرل ) نے سپیکر کی رولنگ کا دفاع کرنے سے انکار کردیا ۔ دیگر نے رولنگ کو غیر آئینی قرار دیا ، صدر مملکت کے وکیل نے دفاع کرنے کی کوشش کی لیکن انھیں سمجھ ہی نہ آئی کہ کیسے دفاع کریں ۔ ظاہر ہے کہ کوئی بنیاد ملتی تو کوئی دفاع کرتا ۔ معاملہ بدنیتی کا تھا ، اس کا کیسے دفاع ہوسکتا تھا۔
حکومت کی بدنیتی بھلا کیسے ؟
حکومت کی طرف سے پہلے کوشش کی گئی کہ قومی اسمبلی کا اجلاس ہی نہ ہو ، اس کے لئے کبھی او آئی سی کی کانفرنس کا بہانہ بنایا گیا ، کبھی قومی اسمبلی کے ایوان میں رنگ روغن کے کام کا بہانہ بنایا گیا ۔ تاہم اس سب کچھ کے باوجود قومی اسمبلی کا اجلاس منعقد کرنا پڑا ۔
پھر اراکین قومی اسمبلی کو ایوان میں داخل ہونے سے روکنے کے منصوبے بنائے گئے ۔ منصوبہ بنایا گیا کہ قومی اسمبلی کے سامنے تحریک انصاف کے لوگوں کو اس قدر بڑی تعداد میں جمع کیا جائے کہ ارکان اسمبلی پارلیمنٹ ہائوس میں داخل نہ ہونے پائیں۔ جب یہ کوششیں بھی ناکام ہوئیں تو طے پایا کہ تحریک عدم اعتماد پیش نہ ہونے دی جائے ۔ لڑائی جھگڑا اور ہنگامہ کیا جائے تاکہ یہ مرحلہ طے نہ ہو۔ متحدہ اپوزیشن نے طے کیا کہ حکومتی ارکان کو ایسا کوئی بہانہ نہیں دیا جائے گا ، صرف اور صرف صبر و تحمل کا مظاہرہ کیا جائے گا۔
متحدہ اپوزیشن کی یہ حکمت عملی کامیاب رہی ۔ اپوزیشن رہنمائوں نے سپیکر قومی اسمبلی اسد قیصر کے چیمبر میں جاکر ان سے وعدہ لیا کہ وہ تحریک عدم اعتماد پیش ہونے دیں گے ۔ سپیکر کے پاس وعدہ کرنے کے سوا کوئی چارہ نہ تھا ۔ نتیجتا تحریک عدم اعتماد پیش کی گئی ۔ سپیکر نے اس کا بغور جائزہ لیا اور انھیں کوئی ایسا نکتہ سمجھ نہ آیا جس کی بنیاد پر تحریک کو غیر آئینی قرار دے کر مسترد کیا جاسکے ۔ چنانچہ یہ مرحلہ بھی طے ہوا ۔
یہ بھی پڑھیے
اسٹیبلشمنٹ اور عدالت عظمیٰ شدید مشکل میں
غیر ملکی سازش : عمران خان تحقیقات سے کیوں انکاری ہیں؟
تحریک عدم اعتماد پیش ہونے کے بعد اس پر بحث ہوتی ہے۔ حکومت نے اس مرحلے کو خود ہی ختم کردیا ۔ اور تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والوں کی راہ آسان کردی ، بصورت دیگر بحث ہوتی ، نہ جانے کتنی طوالت پکڑتی ۔ بہرحال سپیکر نے ووٹنگ کا دن تین اپریل بروز اتوار طے کردیا۔ اور اجلاس ملتوی کردیا۔
تین اپریل ، بروز اتوار کو جو کچھ ہوا ، وہ آپ اس تحریر کے ابتدائی حصے میں پڑھ چکے ہیں جس کے نتیجے میں اس قدر شدید بحران نے جنم لیا کہ سپریم کورٹ کو چھٹی والے دن یعنی اتوار ہی کو از خود نوٹس لینا پڑا۔ معزز عدالت ایسا نہ کرتی تو تحریک انصاف اور اپوزیشن کے درمیان سڑکوں پر لڑائی ہوتی ، خون خرابہ یقینی تھا ۔ بہرحال سپریم کورٹ نے ازخود نوٹس لے کر فریقین کو فیصلے تک باندھ کے بٹھا دیا ۔ سپریم کورٹ کے لئے یہ ایک بڑا چیلنج تھا ۔
اب آئیے ! دوبارہ بدنیتی والی بات کرتے ہیں۔ فواد چودھری نے وقفہ سوالات کے دوران جو تحریری اعتراض پڑھا ، اس کی بنیاد محض یہ تھی کہ اپوزیشن غیرملکی سازش کے تحت تحریک عدم اعتماد پیش کر رہی ہے۔ بعدازاں تحریک انصاف کے رہنمائوں نے اپوزیشن پر مسلسل الزامات عائد کئے کہ امریکہ نے عمران خان حکومت کو ہٹانے کے لئے اپوزیشن کو کئی ملین ڈالرز دیے ہیں۔ ڈپٹی سپیکر نے اپنی رولنگ میں اسی غیرملکی سازش کو بنیاد بنایا ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ وہ رولنگ فواد چودھری کے اعتراض پیش کرنے سے پہلے ہی اپنے گھر میں یہ رولنگ لکھ چکے تھے۔ اس کا واضح مطلب تھا کہ ڈپٹی سپیکر اور دیگر حکومتی زعما نے ایک جگہ پر بیٹھ کر مشاورت کی ، منصوبہ بنایا اور اس پر عمل کیا۔
بدنیتی حکومت کے گلے پڑ گئی
سپریم کورٹ نے سپیکر کی رولنگ کا جائزہ لیا تو غیرملکی سازش والا نکتہ ہی اس پورے کیس میں حکومت کی ناکامی کا سبب بنا۔ بھلا کیسے؟ حکومت نے کہا کہ اس غیرملکی سازش کا علم امریکا میں اس وقت متعین سفیر اسد مجید کے مراسلے سے ہوا۔ کہا گیا کہ یہ مراسلہ قومی سلامتی کمیٹی میں فوجی قیادت کو بھی دکھایا گیا تھا۔ حکومت نے دعویٰ کیا کہ فوجی قیادت نے بھی اس سازش کی تصدیق کی تھی۔ تاہم جب اپوزیشن رہنمائوں نے اپنے بیانات میں فوجی قیادت سے پوچھا کہ کیا وہ بھی سمجھتے ہیں کہ کوئی سازش ہوئی ہے؟ امریکا نے اپوزیشن کو تحریک عدم اعتماد کے لئے ڈالرز فراہم کیے ہیں تو فوج کی طرف سے خاموشی دیکھنے کو ملی۔
بعدازاں سپریم کورٹ نے قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس کے منٹس طلب کرلئے۔ منٹس دیکھ کر اندازہ ہوا کہ حکومت جھوٹ بول رہی ہے۔ پتہ چلا کہ وزیرخارجہ شاہ محمود قریشی اس اجلاس میں موجود ہی نہیں تھے ۔ منٹس پر فوجی قیادت میں سے کسی کے دستخط بھی نہیں تھے۔ تب سپریم کورٹ اس نتیجے پر پہنچی کہ غیرملکی سازش والی بات حکومت نے اپنی طرف سے گھڑی ہے۔ یہ بھی کہا جارہا تھا کہ جس مراسلے کی بات ہو رہی ہے ، وہ بذات خود ایک جعلی مراسلہ تھا ۔ سفیر مراسلہ ایک دوسری خاص قسم کے کاغذ پر بھیجتے ہیں۔ جو مراسلہ یہاں پیش کیا گیا ، وہ ایک عام کاغذ پر لکھا ہوا تھا۔ حکومت نے کہا کہ یہ فوٹو کاپی ہے ۔ سوال یہ ہے کہ معزز عدالت میں اصل مراسلہ پیش کرنے کے بجائے فوٹو کاپی پیش کرنے کی کیا تُک تھی۔ یوں حکومت کا جھوٹ پکڑا گیا۔
” امریکا کے جج جیت گئے "
اس تناظر میں جاننا کچھ مشکل نہیں کہ حکومت کیسے اپنی بدنیتی کے بھنور میں پھنس کر ڈوب گئی۔ اس وقت ، جب جمعہ کی صبح یہ سطور لکھی جارہی ہیں ، مائیکرو بلاگنگ ویب سائٹ ٹویٹر پر سپریم کورٹ آف پاکستان کے خلاف ایک ٹرینڈ چل رہا ہے کہ امریکا کے جج جیت گئے۔ اس سے اندازہ کیا جاسکتا ہے کہ تحریک انصاف کی حکومت کیسے سپریم کورٹ کے معزز جج حضرات کو بدنام کرنے کی مہم پر اتری ہوئی۔ وہی حرکتیں کی جارہی ہیں جن کے سبب حکومت کو اس گزشتہ روز رسوائی کا سامنا کرنا پڑا۔
یاد رہے کہ معزز جج حضرات کے خلاف یہ مہم وہی تحریک چلا رہی ہے جو چند ہفتے پہلے پیکا نامی ایک قانون کو مزید سخت کرکے نافذ کرنے کا ارادہ رکھتی تھی۔ جس کے تحت کسی بھی فرد پر ہتک عزت کا الزام عائد کرکے اسے جیل میں بند کیا جاسکتا تھا ، جی ہاں ! محض الزام عائد کرکے۔ مقدمہ بعد میں چلایا جاتا ، الزام بعد میں ثابت کیا جاتا۔ میں حیران ہوں کہ ہمارے بعض سمجھ دار ، عاقل و بالغ دانشور حضرات اس قانون کے حق میں دلائل گھڑنے پر دن رات ایک کئے ہوئے تھے۔
بھلا ! الزام ثابت کرنے سے پہلے کیسے کسی کو سزا دی جاسکتی ہے۔ دلچسپ امر یہ ہے کہ وزیراعطم جناب عمران خان جب یہ ترمیمی قانون لانا چاہ رہے تھے ، اسی وقت وہ اسلام آباد سے اڑ کر پہلے دیر اور پھر سوات پہنچے ، وہاں جلسوں ( جو بذات خود الیکشن کمیشن کے قوانین کے مطابق غیر قانونی تھے ) سے خطاب کیا اور اپوزیشن رہنما مولانا فضل الرحمن کو ڈیزل ، ڈیزل کے غلط نام سے مخاطب کرتے رہے ، انھوں نے ہر جلسے میں بار بار غلط نام سے پکارا ، پھر ذمہ داری شرکائے جلسہ پر دھر دی کہ وہ مولانا فضل الرحمن کو یہ غلط نام دیتے ہیں۔
اب واپس آتے ہیں اپنے اصل موضوع کی طرف ۔ حکومت کی بدنیتی کو دیکھتے ہوئے سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نے فیصلہ دیا کہ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن، جسٹس مظہر عالم میاں خیل، جسٹس منیب اختر اور جسٹس جمال خان مندو خیل پر مشتمل سپریم کورٹ کے پانچ رکنی لارجر بنچ نےڈپٹی اسپیکر رولنگ از خود نوٹس کیس کی سماعت کرتے ہوئے حکم دیا کہ وزیراعظم صدر کو اسمبلی توڑنے کی ایڈوائس نہیں دے سکتے تھے، تحریک عدم اعتماد کی کارروائی جاری رکھیں، کامیاب ہو تو نئے قائد ایوان کے انتخاب تک اجلاس ملتوی نہ کیا جائے، ووٹنگ والے دن کسی رکن اسمبلی کو نہیں روکا جائیگا، سپریم کورٹ نے صدر کے نگراں حکومت کے احکامات بھی کالعدم قرار دے دیئے۔
اس کے بعد سپریم کورٹ کے ججز کے خلاف ایک بھرپور مہم شروع ہوگئی ، جو تادم تحریر چل رہی ہے۔ تحریک انصاف کے رہنمائوں ، حکومتی عہدے داروں نے بھی فیصلے پر کڑی تنقید کرتے ہوئے کہا کہ سپریم کورٹ کو پارلیمان کے اندرونی معاملات کا جائزہ لینے کا کوئی حق نہ تھا۔ ان عہدے داروں کو شاید علم نہیں کہ سپریم کورٹ نے ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کا جائزہ نہیں لیا بلکہ اس بنیاد کا جائزہ لیا جس کا تعلق وزارت خارجہ سے ہے یعنی سفیر کا مراسلہ ۔ اگر حکومت وہ مراسلہ اصلی ثابت کرتی تو یقینی طور پر کیس کا فیصلہ حکومت کے حق میں ہوتا۔
سپریم کورٹ کے فیصلے کے بعد تحریک انصاف کی قیادت اور اس کے کارکنان کی طرف سے جیسا ردعمل آ رہا ہے، اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ عمران خان کچھ بھی سبق نہیں سیکھ رہے۔ سنجیدہ اور باوقار سیاست کرنے کے بجائے گالم گلوچ اور تشدد کی طرف مائل کرنے والی سیاسی کلچر ہی کو آگے بڑھانا چاہ رہے ہیں۔ جذباتی گروہوں کو بھی اقتدار ملتا ہے تو وہ ایک مختلف اور محتاط رویہ اختیار کرنے لگتے ہیں لیکن عمران خان جیسے دو ہزار گیارہ اور دو ہزار چودہ میں تھے ویسے ہی گزشتہ ساڑھے تین برس تک رہے اور شاید آگے بھی ایسے ہی چلنا چاہتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں وہ دو ہزار گیارہ سے پہلے کے دور میں پہنچ جائیں گے ، جب وہ تن تنہا قومی اسمبلی میں ہوا کرتے تھے۔