عمران خان ، وزیراعظم پاکستان

غیر ملکی سازش : عمران خان تحقیقات سے کیوں انکاری ہیں ؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بادبان / عبید اللہ عابد

اس وقت ایک مطالبہ شدت پکڑ رہا ہے کہ جس غیرملکی سازش کو بنیاد بناتے ہوئے ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی قاسم خان سوری نے تحریک عدم اعتماد مسترد کی ، اس سازش کے بارے میں مکمل طور پر تحقیقات کی جائیں ۔ یہ مطالبہ سپریم کورٹ سے بھی کیا جارہا ہے کہ وہ قومی سلامتی کمیٹی کے عسکری ارکان سے ان کی رائے معلوم کرے کہ کیا واقعی ایسی کوئی سازش ہوئی ہے ؟ کیا واقعی تحریک عدم اعتماد کے لئے کسی قسم کی کوئی غیرملکی فنڈنگ ہوئی ؟ کیا واقعی تحریک عدم اعتماد پیش کرنے والے غدار وطن ہیں؟

ابھی تک سپریم کورٹ کے چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے قومی سلامتی کمیٹی کے عسکری ارکان کو طلب نہیں کیا اور نہ ہی اس سفیر کو طلب کیا جس کے مراسلے سے یہ سارا تنازعہ کھڑا ہوا ۔ یاد رہے کہ پانچ اپریل ، سن دو ہزار بائیس ، بروز منگل کو سپریم کورٹ میں سماعت شروع ہوئی تو ایک خاتون نے چیف جسٹس سے درخواست کی کہ اس وقت امریکا میں متعین پاکستانی سفیر اسد مجید کو بلایا جائے تو سب سامنے آ جائے گا۔ اسد مجید کے خط کی وجہ سے سارا مسئلہ شروع ہوا۔ چیف جسٹس نے خاتون کی درخواست یہ کہہ کر مسترد کردی کہ ہم انفرادی درخواستیں نہیں سن رہے ۔

تحریک انصاف کی کوشش ہے کہ اس معاملے کی تحقیقات نہ ہوں ۔ اس کے متعدد رہنمائوں کے بیانات میں اسی بات پر زور دیا جا رہا ہے . جیو نیوز کے ایک پروگرام میں گفتگو کے دوران شاہ محمود قریشی بار بار مبینہ خط کی تحقیقات کے سوال کا جواب دینے سے گریز کرتے رہے اور معاملہ عدالت پر ڈال دیا۔دوران پروگرام عسکری قیادت سے وضاحت سے متعلق بار بار سوال پر بھی واضح جواب نہیں دیا اور کہا کہ کسی نے کسی کو روک نہیں رکھا۔ اس سے زیادہ آگے جانا وہ مناسب نہیں سمجھتے۔

ایک سابق وزیر، جو نیشنل سیکورٹی کمیٹی کے رکن بھی تھے ، نے انگریزی اخبار دی نیوز کے انویسٹی گیشن سیل کے انچارج انصار عباسی کو بتایا ہے کہ ان کی حکومت سازش کا معاملہ آگے نہیں بڑھانا چاہتی تھی کیونکہ اس میں کئی پیچیدگیاں شامل ہیں۔

تاہم اپوزیشن رہنما اصرار کر رہے ہیں کہ پتہ چلایا جائے ، یہ الزام سچ ہے یا جھوٹ ۔ مسلم لیگ ن ، پاکستان پیپلزپارٹی اور جمعیت علمائے اسلام ، تینوں جماعتوں کے سربراہان قومی سلامتی کمیٹی کے عسکری ارکان بہ الفاظ دیگر اسٹیبلشمنٹ سے مطالبہ کر رہے ہیں کہ وہ اپنا موقف واضح کرے کہ کیا اپوزیشن غدار ہے ؟

مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف نے آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ اور ڈی جی آئی ایس آئی سے مطالبہ کیا ہے کہ ہم نے غداری کی ہے تو ثبوت لائے جائیں ۔ شہباز شریف نے کہا کہ کیا آرمی چیف نے قومی سلامتی کمیٹی اجلاس کے منٹس دیکھے اور دستخط کیے ، کیا کمیٹی نے منٹس کی منظوری دی کہ بیرونی سازش ہوئی اور ہم غدار ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ 192ارکان اسمبلی کو آرٹیکل 5 کے حوالے سے غدار قرار دیا گیا ، کیا اب غدار اور وفا دار کی بحث شروع ہوگی ؟

پاکستان مسلم لیگ ( ن) کی نائب صدر مریم نواز کا کہنا تھا کہ قومی سلامتی کے اعلامیے کا غلط استعمال کیا گیا، نیشنل سیکیورٹی کمیٹی عمران بچاؤ کمیٹی نہیں ہے ، مریم نواز نے بھی ملٹری اداروں سے معاملے کی وضاحت کرنے کا مطالبہ کیا۔

پاکستان پیپلز پارٹی (پی پی پی) کے شریک چیئرمین اور سابق صدر آصف علی زرداری نے کہا کہ خط سے متعلق نیشنل سکیورٹی کمیٹی ممبران یہ کہہ چکے ہیں بیرونی سازش کے کوئی شواہد نہیں ملے ۔ سابق صدر نے کہا کہ کمیٹی کے عسکری ممبران اس کی وضاحت کریں اور اپنی پوزیشن واضح کریں ، اب یہ معاملہ عمران خان یا متحدہ اپوزیشن کا نہیں ، پاکستان کا ہے ۔ آصف زرداری نے کہا کہ حساس نوعیت کے معاملات میں تاخیر بھی ملک کے لیے نقصان دہ ہوتی ہے، یہ معاملہ اب تحریک عدم اعتماد کا نہیں رہا، ملکی سلامتی کا معاملہ ہے۔

چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے کہا کہ یقیناً ایسے منصوبے کی تحقیقات انٹیلی جنس ایجنسیوں اور دیگر اداروں کو کرنا چاہیے تھیں ، کیا ڈی جی آئی ایس پی آر وضاحت دیں گے؟ انہوں نے سوال اٹھایا کہ کیا قومی سلامتی کمیٹی نے197 ارکان پارلیمنٹ کوغدار قرار دیا، کیا قومی سلامتی کمیٹی نے197 ارکان کو اس غیرملکی سازش کا حصہ قرار دیا؟

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم) کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن نے کہا کہ سیکورٹی اداروں کو پوزیشن واضح کرنےکی ضرورت ہے۔ یہ کافی نہیں ہے کہ وہ صرف بیان دیں کہ ہم غیر جانبدار ہیں ۔ انہوں نے کہا کہ ہمارے اداروں کو سوچنا ہوگا کہ پاکستان کی وفادار قیادت پر اس قسم کے الزامات اور انہیں غداری کی طرف دھکیلنے کے نتائج کیا ہوں گے اور یہ ملک کس طرف جائے گا۔مولانا فضل الرحمان کا کہنا ہے کہ کہ نیشنل سیکورٹی کمیٹی اجلاس کا بار بار حوالہ دیا جارہا ہے، اداروں کو آگے آکر وضاحت کرنی چاہیے ۔

تینوں بڑی اپوزیشن جماعتوں کے سربراہان کے مطالبے کے باوجود ابھی تک اسٹیبلشمنٹ کی طرف سے کوئی موقف سامنے نہیں آیا ۔ ممکن ہے کہ آج یا کل میں فوج کی طرف سے کوئی بیان جاری ہو۔ ان کی طرف سے ابھی تک بیان جاری نہ ہونا ظاہر کرتا ہے کہ وہ ایک مشکل صورت حال میں ہیں۔ شاید وہ اس معاملے پر اپنا موقف کھل کر نہیں دینا چاہتے ۔ انصار عباسی کا کہنا ہے کہ ملٹری اسٹیبلشمنٹ کی جانب سے کسی بھی طرح کی وضاحت کے نتیجے میں امکان ہے کہ سوشل میڈیا پر دفاعی حکام کیخلاف مہم چلائی جا سکتی ہے۔

اگرچہ اسٹیبلشمنٹ نے اپنے قریبی اخبارنویسوں کے ذریعے خبروں کی صورت میں اپنا موقف دیا ہے ۔ مثلا گزشتہ روز ” جنگ ” میں ایک خبر پاکستانی آفیشل کے حوالے سے شائع ہوئی جس میں کہا گیا کہ پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیوں کو وزیراعظم کےالزام کی تصدیق کےقابل اعتماد شواہد نہیں ملے ۔

وزیراعظم عمران خان کے حکومت گرانے میں امریکی سازش کے الزام کے معاملے پر پاکستان سیکیورٹی ایجنسی کی تفتیش کے معاملات سے آگاہ آفیشل نے خبر ایجنسی سے بات چیت کرتے ہوئے کہا کہ سیکیورٹی ایجنسیاں وزیراعظم کے بیان کردہ نتیجے پر نہیں پہنچیں۔

پاکستانی آفیشل نے کہا کہ سیکیورٹی ایجنسیوں نے عمران خان کو اپنا نقطہ نظر بتا دیا تھا ۔ آفیشل نے کہا کہ پاکستانی سیکیورٹی ایجنسیوں کو وزیراعظم کےالزام کی تصدیق کے قابل اعتماد شواہد نہیں ملے ، سیکیورٹی ایجنسیاں وزیراعظم کے بیان کردہ نتیجے پر نہیں پہنچیں ۔ یاد رہے کہ عمران خان اور ڈپٹی اسپیکر نے کہا تھا نیشنل سیکیورٹی کمیٹی نےحکومت گرانےکی سازش کی تصدیق کی ہے۔

اسی طرح انصار عباسی نے بھی خبر دی ہے کی کہ امریکی محکمہ خارجہ سے آنے والے دھمکی آمیز مراسلے سے جڑی سازش کے بارے میں قومی سلامتی کمیٹی کے اجلاس میں بحث ہوئی تھی لیکن چونکہ اس سنگین الزام کے حوالے سے ٹھوس ثبوت نہیں تھا اس لئے کمیٹی نے امریکا کو احتجاجی مراسلہ بھیجنے تک ہی اپنے فیصلے کو محدود کر دیا۔

انتہائی موقر ذریعے نے اخبار ” دی نیوز” کو بتایا کہ سیکورٹی کمیٹی میں اس بات پر اتفاق رائے پایا گیا کہ جو کچھ بھی پی ٹی آئی کی حکومت کے حوالے سے کہا گیا اس پر امریکا کو Demarche جاری کیا جائے ۔ سویلین سائیڈ نے سازش کا معاملہ بھی اٹھایا لیکن فوج کی جانب سے اصرار کیا گیا کہ ایسا کوئی ثبوت نہیں ہے اور محض قیاس کی بنیاد پر اسے سازش نہیں کہا جا سکتا۔

ذریعے کے مطابق، سفارتی امور میں ڈی مارچ کا جاری کیا جانا معمول کی بات ہے۔ اس نمائندے کو یہ بھی بتایا گیا کہ متعلقہ ایجنسیوں نے کوئی ثبوت پیش کیا نہ ہی سازش کے حوالے سے کوئی ٹھوس ثبوت موجود ہیں۔ ذریعے نے افسوس کا اظہار کیا کہ کوئی کس طرح سیاسی رہنمائوں کو محض قیاس کی بنیاد پر غدار قرار دے سکتا ہے۔ یہ ملک اور سیاست کیلئے خطرناک ہے۔ یہ بھی معلوم ہوا ہے کہ دفاعی اسٹیبلشمنٹ شاید اس معاملے پر کوئی بات کرے لیکن پہلے سپریم کورٹ کیس (اسپیکر کی روُلنگ) کا فیصلہ کرلے۔

اور یہ بھی ایک دلچسپ خبر بھی پڑھ لیجئے کہ مولوی اقبال حیدر ایڈووکیٹ نے عمران خان ، فواد چودھری ، قاسم خان سوری اور امریکہ میں پاکستان کے سابق سفیر اسد مجیدکو غدار قرار دینے کی درخواست سپریم کورٹ میں جمع کرا دی ہے. کہتے ہیں کہ ان سب نے ایک جعلی خط پر آئین کو پامال کیا ۔ اقبال حیدر اسٹیبلشمنٹ کے بھی قریبی جانے جاتے ہیں۔

دیگر ذرائع سے اپنا موقف پیش کرنے کے باوجود اسٹیبلشمنٹ براہ راست موقف دینے سے ہچکچا رہی ہے۔ تاہم اس پر دبائو بڑھ رہا ہے۔ اسے واضح موقف دینا ہوگا بصورت دیگر اپوزیشن رہنمائوں کی طرف سے دبائو مزید بڑھے گا اور اس کی نیوٹریلیٹی ( غیرجانبداریت ) پر شکوک و شبہات پیدا ہوں گے ۔ یقینا اسٹیبلشمنٹ اپنے آپ پر دوبارہ عمران خان کے ساتھ نتھی ہونے والی چھاپ نہیں لگوانا پسند کرے گی ۔ پہلے تو ایک صفحہ کی بات کی جاتی تھی کہ آرمی چیف کو حکومت کے ساتھ مل کر چلنا ہوتا ہے تاہم اب عمران خان کی ویسی حیثیت نہیں رہی ۔

اب اگر اسٹیبلشمنٹ کے کسی بھی عمل ( چاہے وہ عمل خاموشی ہی کا کیوں نہ ہو ) سے عمران خان کی طرف داری نظر آئی تو اپوزیشن جماعتیں اس پر کھل کر بات کریں گی جیسا کہ گزشتہ روز مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ اداروں کی نیوٹریلِٹی مشکوک ہے، اب بھی اداروں کے اندر ایسے لوگ موجود ہیں جو موجودہ سازش میں ملوث ہیں ۔ آج ٹی وی کی اینکر پرسن عاصمہ شیرازی کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا کہ مجبور نہ کیا جائے کہ وہ سازش میں ملوث ہونے والوں کا نام لیں۔ پھر کہا جائے کہ آپ نے اداروں کا نام کیوں لیا؟مولانا فضل الرحمان کا کہنا تھا کہ نوازشریف اور یوسف رضا گیلانی کو نکالا جاسکتا ہے تو عمران خان کو کیوں نہیں نکالا جاسکتا۔
مولانا فضل الرحمن نے کہا کہ انھوں نے عمران خان کو ایک اثاثے کے طور پر زندہ رکھنا ہے تاکہ کل کسی جمہوری حکومت کے خلاف پھر اسے مہرے کے طور پر استعمال کیا جاسکے ۔ فارن فنڈنگ کیس کیوں لٹکایا جا رہا ہے ؟ اس ( عمران خان ) کے خلاف کیسز کیوں لٹکائے جا رہے ہیں ؟ تین سال تک پاکستان پر جو گند مسلط کیا ، اس میں ان کا جو کردار ہے ، پہلے ادارے اپنے تین سال کے کردار کو دھوئیں۔

انھوں نے کہا کہ ” کہتے ہیں ہم غیر جانبدار ہیں، روز وضاحت دیتے ہیں مگر آج جب پوری دنیا پوچھ رہی ہے کہ قومی سلامتی کمیٹی میں کیا بات ہوئی تو کہاں ہیں جرنیل ؟ کیوں آئی ایس آئی چیف کو نہیں بلایا جارہا ؟ فوج فوری طور پر اپنی پوزیشن واضح کرے ورنہ ہم کھل کر بولیں گے۔ کوئی کہے کہ فوج اور عدالت کے خلاف بات نا کریں مگر میں ملک کے لیے کروں گا۔ ہم پاکستان، جمہوریت اور اسلام پر کمپرومائز نہیں کریں گے۔ جو ان کے پاس قومی شناختی کارڈ ہے ، وہی میرے پاس ہے۔ یہ جو سمجھتے ہیں کہ وہ کوئی کائنات سے ماورا مخلوق ہیں ، یہ تصور قبول نہیں کیا جاسکتا۔”


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں