سپریم کورٹ آف پاکستان کی عمارت

اسٹیبلشمنٹ اور عدالت عظمیٰ شدید مشکل میں پھنس گئیں

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

جمال عبداللہ عثمان

ممکن ہے کہ آپ اس تازہ سیاسی صورتِ حال میں حکومت اور اپوزیشن کو ہی فریق سمجھ رہے ہوں ۔ جیت اور ہار کے لیے نظریں بھی ان دونوں پر ہی ہوں۔ لیکن ان دونوں سے آگے دو فریق اور بھی ہیں۔ اس جنگ میں جن کا بہت کچھ داؤ پر لگا ہوا ہے۔ اور جنہیں اس وقت سب سے زیادہ پریشانی کا سامنا ہے۔

ایک پاکستان کی اعلیٰ ترین عدالت یعنی سپریم کورٹ۔ جس کے سامنے اس وقت معاملہ یہ ہے کہ اگر وہ تحریک عدم اعتماد پر اسپیکر کی رولنگ کو ریورس کرتی ہے تو پی ٹی آئی کی طرف سے شدید ردِعمل کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اور اگر اسپیکر کی رولنگ کو درست قرار دیتی ہے اور کہتی ہے کہ عدالت اس معاملے میں کچھ نہیں کرسکتی تو اس کے نتیجے میں آدھی سے زیادہ اسمبلی ”غدار” اور ملک دشمن قرار پاتی ہے۔ جس کا بوجھ اُٹھانا بھی یقینا اس کے لیے آسان نہیں ہوگا۔

یہ بھی پڑھیے
تحریک عدم اعتماد : ڈپٹی سپیکر کی رولنگ ، ماہرین قانون کیا کہتے ہیں؟

عمران خان کو بڑی مصیبت کا سامنا

پرویز الٰہی کا مستقبل کیا ہوگا ؟

دوسری طرف، اسٹیبلشمنٹ ہے۔ وہ بھی اس وقت عجیب مشکل کا شکار ہے۔ حکومت نے نیشنل سیکورٹی کمیٹی کا اجلاس طلب کیا۔ بندوق اس کے کندھے پر رکھ کر چلادی۔ یعنی اس وقت حکومت مسلسل یہ بات کررہی ہے کہ ہم نے پاکستان کے خلاف ہونے والی ”سازش“ پر قومی سلامتی کمیٹی کا اجلاس بلایا۔ اس میں تینوں سروسز کے چیفس موجود تھے۔ ان کی موجودگی میں اس ”سازش” پر نہ صرف بات ہوئی، بلکہ اعلامیہ بھی جاری کیا گیا۔ یعنی پی ٹی آئی کے بقول ہم نے اس ”سازش“ پر عسکری سربراہان کی مہر تصدیق ثبت کروادی ہے۔

اسٹیبلشمنٹ اپنے ”ذرائع” سے اپوزیشن کو مطمئن کرنے کی پوری کوشش تو ضرور کررہی ہے ۔ معلوم اور نامعلوم نمبروں سے خبریں بھی فیڈ کروارہی ہے، لیکن اس کے باوجود جب تک وہ کھل کر سامنے نہیں آتی ، تب تک یہ غبار ویسا ہی رہے گا۔ اس کا فائدہ حکومت اب بھی اُٹھارہی ہے اور مستقبل میں بھی وہ اسے اپنے مفاد کے لیے استعمال کرے گی۔

اب اگر اسٹیبلشمنٹ کھل کر سامنے آتی ہے اور کہتی ہے کہ ایسی کسی سازش کا کوئی ذکر اس اجلاس میں نہیں کیا گیا۔ نہ ہی اجلاس کے منٹس میں اس کا کوئی تذکرہ موجود ہے تو پی ٹی آئی کے غیظ وغضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔ وضاحت نہیں آتی تو اپوزیشن اس تمام معاملے میں اسٹیبلشمنٹ کو ذمہ دار ٹھہرائے گی اور اس کی بندوقوں کا رُخ ایک بار پھر اسٹیبلشمنٹ کی جانب ہوگا۔ کل، آصف زرداری ، بلاول بھٹو اور مولانا فضل الرحمن نے اسی وجہ سے اسٹیبلشمنٹ کو اپنی پوزیشن واضح کرنے کا مطالبہ کیا ہے۔

سو اس وقت اپوزیشن اور حکومت، دونوں جن چیلنجز کا سامنا کررہی ہیں، اس سے بڑھ کر پریشانی ان دو اداروں کو ہے۔ لہٰذا دونوں سر جوڑکر بیٹھے ہیں کہ ایسا کون سا درمیانی راستہ نکالا جائے جس سے دونوں کے غصے سے بچا جائے ۔

کیا ہی بہتر ہوتا کہ ہر ادارہ آئین اور قانون کے مطابق چلتا۔ ایسا ہونے کی صورت میں ہی اس غیرضروری پریشانی سے بچنا ممکن ہوتا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “اسٹیبلشمنٹ اور عدالت عظمیٰ شدید مشکل میں پھنس گئیں”

  1. ظاہر اختر Avatar
    ظاہر اختر

    اس ملک اور قوم کے لیے بقا صرف اسی میں ھے کہ وہ آئین کی پاسداری کرتے ھوئے اسی پر عملدرآمد کو یقینی بنائیں عدلیہ کی زمہ داری ھے وہ آئین کے مطابق فیصلہ کرے اداروں کی زمہ داری ھے وہ آئینی دائرہ میں رھتے ھوئے اپنی خدمات ادا کریں عوام کی زمہ داری ھے حکومت اور عدلیہ اور اداروں کو اس بات پر مجبور کر دیں وہ آئین کے مطابق نظام کو چلنے دیں بصورتِ دیگر نقصان اس ملک اور قوم کا ھو گا پیرا شوٹر دوسرے ملک سدھار جائیں گے اس مرتبہ ھر باشعور پاکستانی کو اس پر آواز بلند کرنی چاھیے یہ نہ ھوا تو پھر آئندہ نسلوں کے لیے سوائے پچھتاوے کے کچھ نھیں بچے گا