قاسم سوری ، ڈپٹی سپیکر قومی اسمبلی

تحریک عدم اعتماد : ڈپٹی سپیکر کی رولنگ ، ماہرین قانون کیا کہتے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

بادبان / عبید اللہ عابد

خیال تھا کہ سپریم کورٹ آف پاکستان اتوار کے روز قومی اسمبلی میں پیدا ہونے والی صورت حال پر ازخود نوٹس لے کر ، اسی روز کوئی ایسا فیصلہ سنائے گی تاکہ ملک زیادہ دیر تک بحران میں نہ پھنستا ۔ تاہم یہ خیال غلط ثابت ہوا ۔ اتوار کے بعد پیر کا دن بھی گزرگیا اور اب بات منگل یعنی پانچ اپریل تک پہنچ گئی۔ ممکن ہے کہ آج یعنی بروز منگل فیصلہ آجائے ، ممکن ہے کہ بات آگے سے آگے بڑھتی چلی جائے۔

حال ہی میں سابق ہونے والے وزیرداخلہ شیخ رشید احمد سے منسوب ایک بیان نظر سے گزرا ، جس میں ان کا فرمانا تھا کہ سپریم کورٹ تاریخ پر تاریخ دیتی رہے گی ، اور الیکشن کا وقت جائے گا ۔ ان کا بیان سوشل میڈیا پر چلا ۔ ممکن ہے کہ انھوں نے یہ بیان دیا ہو اور یہ بھی ہوسکتا ہے کہ کسی سوشل میڈیا صارف نے اپنے ذہن میں موجود خدشات کو ان سے منسوب کردیا ہو۔ اس سے اندازہ ہوتا ہے کہ لوگوں کے ذہنوں میں ایسے خدشات ضرور موجود ہیں۔

دوسری طرف اسلام آباد میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے مولانا فضل الرحمٰن کا کہنا تھا کہ ہمارا آخری اور اٹل مطالبہ ہے کہ ڈپٹی اسپیکر کی رولنگ کالعدم قرار دی جائے۔ مولانا کا ایک دوسرا بیان بھی نظر سے گزرا جس میں انھوں نے فیصلہ جلد کرنے کا مطالبہ کیا ۔

اپوزیشن نے سپریم کورٹ میں درخواست دائر کی تھی کہ اس بڑے اور سنگین بحران کی بابت فیصلہ کرنے کے لئے سپریم کورٹ کا فل بنچ بنایا جائے لیکن چیف جسٹس عمر عطا بندیال نے یہ کہہ کر درخواست مسترد کردی کہ فل بنچ بنانے سے دیگر مقدمات پر اثر پڑتا ہے۔ پیپلز پارٹی کے وکیل فاروق ایچ نائیک نے فُل کورٹ بنانے کی سفارش کی تو چیف جسٹس نے اس پر برہمی کا اظہار کیا اور کہا کہ ’کیا اس بینچ میں موجود کسی جج کی قابلیت پر کوئی شک ہے تو ہم ابھی ہی اٹھ جاتے ہیں۔‘جس کے بعد فاروق ایچ نائیک نے اس پر زور نہیں دیا۔

اب ساری کی ساری نظریں سپریم کورٹ کے موجودہ لارجر پنچ پر مرکوز ہیں کہ وہ کتنی جلد فیصلہ دیتا ہے اور کیسا فیصلہ دیتا ہے۔ اگر ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو درست قرار دیا جاتا ہے تو یہ ایک مثال قائم ہوگی۔ مستقبل میں سپیکر کی رولنگ کو تحفظ حاصل ہوگا اور کسی بھی حکومت کی تبدیلی کے لئے تحریک عدم اعتماد کا آپشن ختم ہوجائے گا۔ یہ تو نہیں ہوسکتا کہ ایک حکمران کے خلاف تحریک عدم اعتماد پر سپیکر کی رولنگ کو تحفظ دیا جائے اور دوسرے حکمران کے دور میں رولنگ کو اٹھا کر باہر پھینک دیا جائے۔

کہا جارہا ہے کہ سپیکر اسد قیصر آرٹیکل 5 کے تحت رولنگ کے حق میں نہیں تھے۔ ان کے قریبی ذرائع کا کہنا ہے کہ اسد قیصر نے آرٹیکل 5سے متعلق رولنگ پر پارٹی قیادت سے تحفظات
ظاہر کیے تھے۔ وزیراعظم کی قانونی ٹیم نے انھیں قائل کرنے کی کوشش کی تھی لیکن ناکام رہی۔ بعدازاں ڈپٹی سپیکر قاسم سوری نے یہی رولنگ دیتے ہوئے تحریک عدم اعتماد کو مسترد کردیا اور ملک ایک بڑے بحران سے دوچار ہوگیا ۔

اسی روز سپریم کورٹ نے قومی اسمبلی میں ہونے والے اس واقعہ پر از خود نوٹس لیا۔ چیف جسٹس عمر عطا بندیال کی سربراہی میں جسٹس اعجاز الاحسن اور جسٹس محمد علی مظہر پر مشتمل تین رکنی بینچ نے اس معاملے کی سماعت کی اور حکم نامہ جاری کیا کہ ڈپٹی سپیکر نے آرٹیکل پانچ استعمال کرتے ہوئے بادی النظر میں نہ تحقیقات کے نتائج حاصل کیے اور نہ متاثرہ فریق کو سنا۔

عدالت نے سوال اٹھایا کہ ‘جب بیرونی سازش کے حوالے سے نہ کوئی سماعت ہوئی نہ کوئی نتیجہ سامنے آیا، تو سپیکر عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل پانچ کا سہارا کیسے لے سکتا ہے۔’

پاکستان میں قانونی ماہرین کی اکثریت ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو غلط قرار دے رہی ہے۔ قانونی ماہر شاہ خاور کا کہنا تھا کہ دیکھنا یہ ہے کہ کیا آرٹیکل 95 کے تحت پہلے سے پیش ایک تحریک پر ایک بنیادی ماخد کے آرٹیکل پانچ کے تحت رولنگ دی جا رہی ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ سپیکر نے ان کے خلاف رولنگ دی جنھوں نے یہ تحریک جمع کروائی ہے اور جو اس کی حمایت میں ہیں۔

انھوں نے سوال اٹھایا کہ آپ ان کے خلاف یہ رولنگ دے رہے ہیں کہ وہ ریاست کے وفادار نہیں ہے تو یہ اختیار سپیکر اور ڈپٹی سپیکر کو کس نے دے دیا کہ وہ اتنی بڑی تعداد میں موجود افراد کے متعلق بغیر تحقیق و انکوائری کے یہ کہہ دیں کہ ان کا اقدام ریاست کے خلاف ہے۔

شاہ خاور ۔ ممتاز ماہر قانون

شاہ خاور نے اس متعلق رائے دیتے ہوئے کہا کہ قومی اسمبلی کی کارروائی اور ڈپٹی سپیکر کی رولنگ کو اگر آرٹیکل پانچ کے تناظر میں دیکھا جائے تو اس دن قومی اسمبلی کا ایجنڈا آرٹیکل 95 کے تحت تحریک عدم اعتماد پر رائے شماری کا تھا۔ اس پر ایسی رولنگ دینا غلط اور غیر آئینی ہے۔

ماہرین کا کہنا ہے کہ جب تحریک عدم اعتماد ایوان میں پیش ہو جائے ، اس وقت تحریک پیش کرنے والی پارٹی اس تحریک کے حق میں اپنی اکثریت ثابت بھی کردے ، سپیکر تحریک کو منظور کرلے اور پھر اس پر رائے شماری کی تاریخ کا تعین بھی کردے ، اس کے بعد ڈپٹی سپیکر کی طرف سے تحریک کو مسترد کرنا خلاف آئین ہے۔ واضح رہے کہ جس روز قائد حزب اختلاف میاں شہباز شریف نے تحریک عدم اعتماد پیش کی تھی ، اس روز اس تحریک کی حمایت میں قومی اسمبلی میں ایک سو چھہتر ارکان موجود تھے ۔

سپیکر کی رولنگ کو تحفظ کا معاملہ

تحریک انصاف کی قانونی ٹیم کا کہنا ہے کہ آئین کے آرٹیکل 69 کے تحت سپریم کورٹ قومی اسمبلی کی کارروائی پر سوال نہیں اٹھا سکتی۔ تاہم شاہ خاور اس سے اتفاق نہیں کرتے ۔

ان کا کہنا ہے کہ اگر کل کو سپیکر کوئی ایسی رولنگ دے دیتا ہے جو آئین کی رو کے خلاف ہے یا آئین کے کسی آرٹیکل سے متصادم ہے مثلاً اگر سپیکر کسی بھی پوائنٹ آف آرڈر پر یہ رولنگ دے کہ کل سے پاکستان میں پارلیمانی جمہوری نظام نہیں بلکہ صدارتی نظام نافذ ہو گا تو کیا ایسی رولنگ جو آئین کی رو کے خلاف ہے وہ سپریم کورٹ میں چیلنج نہیں ہو سکتی؟

سپریم کورٹ کے سابق جج جسٹس شائق عثمانی کا کہنا ہے : ” ایک مفروضے( غیر ملکی سازش ) کی بنیاد پر ایسا اقدام غیر آئینی ہے۔” اس حوالے سے سپریم کورٹ کا سوال نہایت اہم ہے کہ ‘جب بیرونی سازش کے حوالے سے نہ کوئی سماعت ہوئی نہ کوئی نتیجہ سامنے آیا، تو سپیکر عدم اعتماد کی تحریک کو مسترد کرنے کے لیے آئین کے آرٹیکل پانچ کا سہارا کیسے لے سکتا ہے۔’

ڈپٹی سپیکر کا رویہ

قومی اسمبلی کے ڈپٹی سپیکر قاسم سوری کے اختیارات اور ان کا رویہ بھی زیر بحث ہے۔ کہا جارہا ہے کہ اس قسم کی رولنگ دینا ڈپٹی سپیکر کا اختیار ہی نہیں تھا۔ اس نے سپیکر کی غیر موجودگی میں محض ہائوس کی کارروائی کو چلانا ہوتا ہے۔ جب سپیکر نے تحریک عدم اعتماد کو منظور کرلیا تھا اور اس پر کوئی اعتراض نہیں لگایا تھا تو ڈپٹی سپیکر کیسے تحریک کو مسترد کرسکتا ہے ؟

پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ ( پی ڈی ایم ) کے سربراہ مولانا فضل الرحمن کا کہنا ہے کہ ڈپٹی سپیکر نے جو رولنگ دی اس میں سپیکر قومی اسمبلی کا حوالہ دیا گیا جبکہ خود اسد قیصر کے خلاف عدم اعتماد کی تحریک آچُکی تھی ۔ڈپٹی سپیکر اس رولنگ کے مجاز نہیں تھے ۔لہذا اب کوئی بھی رولنگ دینا یا اس حوالے سے کسی فیصلے کے مجاز نہیں رہے تھے۔ ان کا اختیار سلب ہوچکا تھا ۔ لہذا ان کا حوالہ دے کر رولنگ دینا بذات خود ایک غیر آئینی عمل ہے۔ اس لئے تحریک عدم اعتماد اپنی جگہ پر قائم ہے۔

مولانا فضل الرحمن ، سربراہ جمعیت علمائے اسلام ، پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ

اور ڈپٹی سپیکر کے پاس اتنا وقت ہی نہیں تھا کہ وہ اپنی رائے سے فیصلہ دیتے ۔ اس کی اتھارٹی کے بارے میں جب یہ شبہ ظاہر ہونے لگے کہ انھوں نے اپنے دماغ کو استعمال کئے بغیر کسی بیرونی دبائو سے فیصلہ دیا ہے تو وہ فیصلہ بھی بذات خود غیر قانونی ہوجاتا ہے اور اس کی کوئی حیثیت نہیں رہتی۔

” ڈپٹی سپیکر نے جس انداز اور جس لب و لہجہ اور جس جذباتیت کے ساتھ فیصلہ دیا ، اس سے یہی لگ رہا تھا کہ وہ ایک فریق ہیںجیسے کہ وہ ایک فریق ہوں ، پھر فیصلہ بتا رہا تھا کہ وہ باہر سے ، ڈکٹیٹ کیا ہوا تھا ، پہلے سے اس کا ڈرافٹ تیار کیا ہوا تھا ، لہذا ان کا فیصلہ بھی بدنیتی پر مبنی ہے۔”


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں