عورتوں کا فیشن کرنے والے پاکستانی مرد

فیشن کے مارے، ہائے بیچارے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

فرح مصباح

ہر گزرتے دور کے ساتھ نئے اور جدید فیشن متعارف ہوتے ہیں. اور جب کوئی نیا انداز خیال شریف میں نہیں آتا تو پھر پرانے فیشن ہی کو Recycle کر دیتے ہیں ۔ اس طرح وہی پرانا فیشن نیا لگنے لگتا ہے۔

آج کل پاکستانی فیشن شوز کا حال بھی بے حال ہو چکا ہے ۔ بعض تو بالکل ہی غیر مناسب ہوتے ہیں۔ ان میں مہمان اور میزبان کے غیر اخلاقی لباس تو اپنی جگہ برے ہوتے ہی ہیں ، میک اپ بھی ایسا دِکھتا ہے جیسے گھر کا رنگ چونا کیا ہو۔

بقول شاعر:

کچھ مہ جبیں لباس کے فیشن کی دوڑ میں

پابندیٔ لباس سے آگے نکل گئے

حالاں کہ سادہ غازہ ہی اندر کی خوبصورتی کو نکھار دیتا ہے۔

پہلے پہل جب اٹلی کے فیشن شو دیکھا کرتے تھے ، وہاں کے انداز و اطوار کچھ ایسے ہوتے تھے جو ہمیں تو سمجھ نہ آتے تھے مگر شاید ان کے معیار کے مطابق ہوتے ہوں، لیکن اب تو پاکستان میں بھی فیشن شوز میں کچھ ایسے فیشن دیکھنے میں آتے ہیں جنہیں دیکھ کر بے ساختہ وہ کہاوت یاد آتی ہے:

“کوا چلا ہنس کی چال، اپنی بھی بھول گیا۔”

کسی شو میں عورتیں مردوں کو کاپی کرتے دکھائی دیتی ہیں ، اور کہیں مرد عورتوں کی طرح ناک میں نتھنی سجائے بیٹھ جاتے ہیں ، اور کہیں تو دوپٹوں سے سروں کو ڈھکتے ہوئے بھی۔

آج کل تو مرد حضرات کے لیے بھی بڑے بڑے سلون کھل چکے ہیں مرد مرد حضرات بھی کہتے نظر آتے ہیں

سجنا ہے مجھے سجنی کے لیے

لڑکیوں کو شکوہ ہے، کیوں لڑکیاں ہیں ہم

لڑکوں کو یہ گِلہ ہے، وہ کیوں لڑکیاں نہیں

ممکن ہے کہ فیشن شوز کی حد تک تو یہ سب کچھ ٹھیک لگے ، لیکن درحقیقت ہمیشہ اس فیشن کو اختیار کریں جوآپ پر جچے بھی۔ ہم اپنے اندر کی چھپی

حقیقت سے بھاگ نہیں سکتے۔ بعض دفعہ اندھی تقلید انسان کی شخصیت کے بگاڑ کا باعث بن جاتی ہے۔

پہلے پہل تو خواتین فیشن پر بہت زیادہ دھیان دیتی تھیں ، لیکن گزرتے وقت کے ساتھ مرد اس دور میں زیادہ آگے نکل گئے۔

پہلے دلہن کےہاتھوں پر جب تک بھری ہوئی مہندی نہ ہوتی تھی، دلہن دلہن نہیں لگتی تھی ۔ اور گھونگھٹ تو ضروری ہوتا تھا لیکن وقت کے ساتھ نئی جدت اور نئی سوچ کے مطابق اکثر دلہنوں کو اب مختصر مہندی پسند آتی ہے ، اور گھونگھٹ تو بس پرانے زمانے کی بات رہ گئی ہے۔

خواتین کے لباس میں نمایاں تبدیلیاں نظر آتی ہیں ۔ ویسٹرن یعنی مغربی کلچر نے ہمارے ذہنوں پر مضبوط شکنجے جما لیے ہیں ۔ کلچر اور فیشن انسان ہی بناتے ہیں ۔ ہمیں چاہیے کہ ہم فیشن میں مشرقی ثقافت اور مشرقی رنگوں کو نمایاں رکھیں اور اخلاقی اقدار سے گرے ہوئے فیشن سے گریز کریں۔ اس کے ساتھ ساتھ فیشن کو اپناتے ہوئے اس چیز کا خاص خیال رکھیں کہ جو انداز ہم اپنا رہے ہیں وہ کہیں ہمارے بجٹ سے آؤٹ نہ ہو ۔ وہ فیشن اپنائیں جو آپ پر جچے منفرد تو ہو مگر مثبت بھی ۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

ایک تبصرہ برائے “فیشن کے مارے، ہائے بیچارے”

  1. عائشہ اعظم Avatar
    عائشہ اعظم

    مضمون اچھا ہے مگر تصاویر پرانی ہیں تقریبا دو سال مثال دینے کے لیے ا گر نئی تصاویر لی جاتیں تو زیادہ اچھا ہوتا