قدسیہ ملک ، شعبہ ابلاغ عامہ ، جامعہ کراچی
بہت سی دعاؤں ، آرزوؤں اور امیدوں کے درمیان جب پل کر جوان ہوئی تو ماں کو رشتے کی فکر ستانے لگی. فکر کیوں نہ ہوتی ، آخر کو عورت ذات تهی . پرائے گهر کی ہونا تها . باپ کے آنکهوں کی ٹهنڈک ماں کے دل کا نور . بڑے چاؤ ، محبتوں میں پل کر جوان ہوئی تهی ۔
ماں کے سامنے اپنی جوانی کے سبهی واقعات ایک ایک کرکے ذہن میں آتے تهے. واقعی اس کا شوہر ایک نفیس ، باکردار ، خوش اخلاق اور ذمہ دار مرد تها . جس نے بیوی اور ماں کے حقوق کے ساتھ ساتھ بچوں کی بهی بہت احسن انداز میں تربیت کی تهی
". بیٹیاں تو پرائی ہوتی ہیں اس کے زیادہ لاڈ مت اٹهایا کیجئے”،ماں فکرمندی کے عالم میں باپ کو سمجهاتی .
ارے میری بیٹی بہت سمجهدار ہے تم دیکهنا جہاں بهی جائے گی گهر کا نام روشن کرے گی.” اور پهر ماں دن بهر کے داستان کے ساتھ کچھ” رشتے بهی بتاتی جاتی . جنہیں باپ کچھ ڈر کچھ خوف کچھ سوچتے ہوئے رد کر دیتا . بالآخر دونوں ایک رشتے پر راضی ہوگئے . لڑکا بهی کچھ پڑها لکها تها . اپنا کاروبار تها . تین مہینے میں چٹ منگنی پٹ بیاہ ہوگیا.
سب کچھ بالکل صحیح چل رہا تها. بس آنا جانا تهوڑامشکل تها سو ماں باپ بهی چپ رہے کہ لڑکیاں اپنے سسرال ہی میں اچهی لگتی ہیں . اچانک ایک دن بیٹی کے سسرال سے فون آیا : ” تیری بیٹی کسی کے ساتھ بهاگ گئی ہے” . ماں نے سینہ پیٹ لیا . باپ کو چپ لگ گئی . ” نہیں میری بیٹی ایسا نہیں کرسکتی۔”
وہ دونوں روتے دهوتے بیٹی کے سسرال گئے . سسرال والوں کا رویہ بہت ہتک آمیز تها . اور کیوں نہ ہوتا شوہر کے ہوتے ہوئے کسی کے ساتھ بهاگ جانا سراسر رسوائی ہے . ” میں تو پہلے سال ہی سمجھ گئی تهی لیکن کچھ نہ کہتی تهی اب دیکها کیا انجام ہوا تربیت کی تهی.ہائے میرے بیٹے کی تو زندگی برباد ہوگئی.اس نامراد کو بهی اپنے ساتھ لے جاؤ۔”
یہ کہتے ہوئے ساس نے چهوٹی چار سالہ نازش کو نانی کی طرف اچهالا . وہ سہم کر اپنے باپ کی طرف دیکهنے لگی جو منہ بسور کر گهر سے باہر نکل گیا.نانی ننهی نواسی کو آنکهوں میں آنسو اور دل میں کرب لیے خاموشی سے اپنے ساتھ لے آئی . باپ نے دوسرے دن تهانے میں بیٹی کی رپورٹ درج کروادی .
” بابا ! تیری بیٹی بهاگ گئی ہے . ہم نے اس کے سسرال جاکر پوچها تها.” دوسرے دن تهانے آنے پر دور سے ہی تهانے دار نے اسے صدا لگائی.” نہیں ساب جی ! میری بچی ایسی نہیں تهی . میں یہ نہیں مان سکتا . آپ اس کے شوہر سے پوچھیں وہ سب بتادےگا میں آپ سے سچ کہتا ہوں یہ سب ڈهکوسلے ہیں.” اس کے باپ نے روتے ہوئے تهانیدارسے التجا کی.
او بابا ! گهر جاؤ ایس پی ساب راؤنڈ پر آنے والے ہیں” . اور باپ کچھ سوچتے ہوئے خاموشی سے تهانے سے باہر آکهڑا ہوا . ایس پی کی گاڑی رکتے ہی غموں کا مارا باپ بیٹی کا غم سنانے لگا ۔ اس کی التجا میں اس قدر سوز تها کہ ایس پی نے فوری متعلقہ علاقے میں کاروائی کرتے ہوئے شوہر کو گرفتار کرلیا . تهانے پہنچ کر دو چار چهتر لگتے ہی اس نے سچ اگل دیا . وہ بیٹی سسرال والوں کے ظلم و ستم کا ایسا نشانہ بنی کہ لاش بهی ٹکڑے کرکے گهر کے قریب زیرتعمیر مکان میں دفنائی گئی تهی.
کم جہیز لانے پر روز طعنے سننے کے باوجود والدین سے کبهی کچھ نہ کہا تها . لیکن قدرت کو شاید اس ظالم خاندان کے ظلم کا پردہ فاش کرناتها . جبهی تو باپ کے دل میں رب نے یہ بات ڈالی .
یہ واقعہ ایک سال پہلے جنوبی پنجاب کے علاقے میں پیش آیا . پچهلےسال کراچی کے علاقے گلشن اقبال میں پولیس نے کاروائی کرتے ہوئے زیادتی کے بعدقتل کرنے والے ملزم کو گرفتار کرلیا . ایس پی گلشن غلام مرتضیٰ نے بتایا مسمات کنیز زوجہ نزیر حسین نےسی پی ایل سی کو اطلاع دی اس کے شوہر کا ذہنی توازن درست نہیں . جس کی وجہ سے وہ اسے چهوڑ کر چلاگیا ہے . اس کی چاربیٹیاں تهیں جن میں سےتین بیٹیاں یکے بعد دیگرے فوت ہو گئیں , صرف ایک آٹھ سالہ بیٹی بچی تهی .
اس عورت کے شوہر کا ایک چچازاد جو اس کے گهر آتا رہتا تها . اس دن بهی بچی کو ٹافی دلانے کا بہانہ کر کے لے گیا . دو دن بعد اس کافون آیا کہ ایک لاکھ روپے کابندوبست کر دو ورنہ بچی کو مار دوں گا..اس کے فون کے دو دن بعد کچرے کے ڈھیر سے بچی کی متعفن زدہ ملی جسے گلا گھونٹ کر قتل کیا گیا تها .
گزشتہ سال ڈیرہ اسماعیل خان کے علاقے چودہواں میں 16 سالہ پرانی ذاتی دشمنی کے باعث معصوم لڑکی سے عبرتناک ، شرمناک انتقام سے کون واقف نہیں. اخبارات کے مطابق ظلم کا یہ رقص مخالف خاندان کی لڑکی پر پورے ایک گهنٹے تک جاری رہا .
آج کے ہمارے معاشرے میں انسانیت کی یہ تحقیر بہت تیزی کے ساتھ اپنا اثر و رسوخ بڑها رہی ہے . کہیں عورت اس ظلم کی چکی میں مرد کے ہاتهوں پستی ہے تو کہیں مرد مرد کے ہاتهوں مظلوم اور ظالم کا کردار ادا کرتا ہے تو کہیں یہ مرد عورت کے ہاتهوں مظلوم ہے . میری اور آپ کی آنکهیں آئے روز کسی اخبار کسی چینل کسی خبر میں انسانیت کا جنازہ اٹهانے کا منظر دیکهتی رہتی ہیں . فائزہ الیاس ڈان اخبار میں لکهتی ہیں "پاکستان میں ہر سیکنڈ میں کوئی نہ کوئی خاتون گهریلو تشدد(domestic violence)کا شکار ہوجاتی ہے”۔
آغا خان ہسپتال کے زیراہتمام منعقدہ تین روزہ قومی صحت و سائنس سیپوزیم سے خطاب کرتےہیں ڈاکٹر تزئین سعید علی نے کہا ہےکہ گهریلو تشدد کے باعث عورت کی طبعی اور ذہنی کیفیت مکمل یا جزوی طور پر شدید متاثر ہونے کے قوی امکانات ہوتے ہیں .
مشہور ابلاغی محقق ڈاکٹر نثار احمد زبیری اپنی کتاب ابلاغ عامہ افکار و نظریات میں لکهتے ہیں : ذرائع ابلاغ عامہ اور خاص طور پر ٹیلی ویژن اور فلمیں تفریح طبع کا سامان فراہم کرنے کے ساتھ یہ کام بهی کرتی ہیں کہ ناظرین کو کوئی کام دکھاکر انہیں وہ کام کرنا سکهادیا جائے. اس ضمن میں ایک مشہور تحقیق سماجی محقق نیل ملر (Neal Miller) اور جان ڈولر(John Dollard )نے کی ہے.انہوں نے مشاہداتی آموزش کا نظریہ(Learning by Oberservation theory) پیش کیا جس میں اسی دیکهنے اور عمل کرنے کے نظریےکو واضح کیا گیا ہے.
انہوں نے بتایا کہ جتنا گہرا مشاہدہ ہوگا، اتنا تیزی سے عمل ہوگا. اس ضمن میں انہوں نے چند نکات پیش کیئے. 1.جب پیغام میں دیکهنے کے لیئے کچھ واضح طور پر موجود ہو. 2.جب مشاہدہ کرنے والے اپنے طور پر سیکهی ہوئی بات بیان کریں یا اس پر عمل کر کے دکهائیں . 3.پیغام متاثر اسی وقت ہوگا جب سیکهی ہوئی بات پر عمل کر کے دکهایا جائے.
اب ہم پاکستانی معاشرے پر اس نظریے کی روشنی سے دیکهیں تو مقصد صاف واضح ہو جاتا ہے . پاکستانی ذرائع ابلاغ بالخصوص الیکٹرانک میڈیا اور بالعموم پرنٹ و سوشل میڈیا پر کی جانے والی ہر فعل و عمل کا تعلق اسی نظریے کی روشنی میں جانچنے کی چهوٹی سی کوشش کرتےہیں.
1.ان ڈراموں فلموں میں مجرم جرائم اور مجرمانہ ذہنیت کا پرچار جس تواتر سے ہوتا ہے ایک عام فرد کے نزدیک اس پر عمل کرنے کی قوت میں اسی قدر تیزی سے اضافہ ہورہا ہے . اس حوالے سے جرم کی داستان ، کرائم رپورٹنگ وغیرہ جیسے ڈرامے تواتر سے چینلوں پر نشر کیئے جاتے ہیں
2.ہمارے پاکستانی ٹی وی چینلوں میں عورت کے لباس کو مختصر کرتے کرتے نہایت مختصر کیا جا چکا ہے .ان ڈراموں کی بدولت پاکستانی معاشرے میں بڑهتی ہوئی فحاشی و عریانی معاشرے کے ہر طبقے ہر ہر گروہ میں واضح دیکهی جاسکتی ہے.
3.خاندانی نظام کو منتشر کرنا اور اس کا شیرازہ بکھرنا پاکستانی ڈرامے میں معمولی بات بن چکی ہے . پاکستانی ڈراموں میں ہر شوہر کسی اور عورت سے اور ہر بیوی کسی اور مرد کو اپنے شوہر سے زیادہ اپنے دکھ درد کا ساتهی سمجهتی ہے.
4.پاکستانی نیوز چینل پر ہونے والے قومی و بین الاقوامی مباحثوں میں بهی جو زبان سیاستدان اور بیوروکریٹ استعمال کرتے ہیں .وہی زبان عمومی طور پر عوام میں وقوع پذیری کے اثرات کے باعث اپنا اثردکهارہی ہے جس کی وجہ سے معاشرہ اخلاقی انحطاط پذیری و اخلاقی گراوٹ کا شکار ہورہاہے.
5.زندگی میں صرف عیش و آرام اور بقول بابر بابر باعیش کوش کہ عالم دوبارہ نیست کے مصداق "کها لے پی لے جی لے” کی باربار تکرار کے باعث خوف آخرت رفتہ رفتہ ختم ہوتا جا رہا ہے.
6.ڈراموں میں خاندانی رشتوں سے نفرت اور ددهیالی سسرالی رشتوں سے بے تحاشا نفرت دکهائی جاتی ہے جس کے سبب ون یونٹ فیملی کا تصور عام ہو گیا ہے.جس کی توجیہہ کے لیے اسلام کاسہارا کیا جاتا ہے .
7 .ان ڈراموں میں رشوت سفارش جهوٹ لالچ دهوکہ فریب مکاری کو مصلحت کے پردے میں لپیٹ کر اتنا خوش نما خوب صورت بناکر دکهایا جاتا ہے کہ عوام الناس کے نزدیک ان افعال میں گناہ کا تصور قدرے کم ہوگیا . اب لوگوں کے نزدیک مصلحت کے تحت ان سب کاموں کی ادائیگی با آسانی ہوجاتی ہے جس سے معاشرہ عدم استحکام کا شکار ہے.
8.شراب نوشی و جوا اور مختلف منشیات کا استعمال دکهاکر ان پاکستانی ڈراموں میں ان تمام جرائم و گناہ کی طرف ہونے والی جهجهک تقریباً ختم کردی گئی ہے.
9۔عورت کی آزادی اور حقوق نسواں کا نعرہ لگاکر عورت کو ایک سازش کے تحت اس کے قلعے ، مضبوط حصار یعنی گھر سے نکال کر شمع محفل بنانے پر زور دیا جارہا ہے ۔ ہر ڈرامے میں آفس لیڈی ، جاب کرنے والی لڑکی یا اپنے فرائض کو یکسر نظرانداز کرتی خواتین کا کردار اسی سازش کی چند کڑیاں ہیں۔
10۔عورت کو اس کے مقصد سے ہٹا کر اسے محض تفریح طبع کے طور پر پیش کیا جا رہا ہے ۔ جس سے عورت کی عزت نہیں بلکہ تضحیک مطلوب ہے ۔ تاکہ مغربی عورت کی طرح پاکستان کی باوقار اور با حیاعورت بھی محض ایک ٹشو پیپربن جائے۔
ان پاکستانی ڈراموں میں سے چند انکار ، باغی ، تیری رضا ، محبت تجھ سے نفرت ہے ، صلہ ڈر سی جاتی ہے ، کاش میں تیری بیٹی نہ ہوتی ، چیونگم ، اڈاری ، میں ماں نہیں بننا چاہتی ، میرے پاس تم ہو ، بیگانگی ، جھوٹی ، دیوانگی ، میں ماں نہیں بننا چاہتی ، آتش ، دوبول ، رسوائی اور پاکستان میں کروڑوں کابزنس کرنے والی انڈین فلمیں شامل ہیں۔
ان تمام حقائق آپ کے سامنے دہرانے یا آشکار کرنے کا مقصد کسی خاص گروہ یا پارٹی کو نشانہ بنانا ہرگز نہیں . بلکہ ہماری آنکهیں کهول دینے کے لیے کی جانی والی اس تجزیاتی رپورٹ کا واحد مقصد عوام کو کسی بهولے سبق کی یاددہانی ، کسی مقصد کی جانب توجہ دلانا مقصود ہوتا ہے . ہمیں لوگوں کواس بات کی آگہی دینی ہے کہ بحثیت مسلمان ہمارے پاس جینے کا ایک واضح مقصد موجود ہے ۔
یہ یہود نصاریٰ کے ترجمانی کرنے والے الیکٹرانک میڈیا مالکان سوائے چند ایک کے یہود و ہنود کی خوشنودی اور ڈالروں کی امداد کی لالچ میں معاشرے کو اخلاقی گراوٹ کا اس حد تک شکار کر دینا چاہتے ہیں کہ ہمارے اندر رشتوں کا تقدس محبت ، اخوت ، باہمی الفت اور باہمی احترام ، خونی رشتوں سے پیار کی تمام کیفیات یکسرختم ہو جائیں اور وہی مادر پدر آزاد یورپی معاشرہ بن جائے جس سے آج ایک مغربی عورت خود پریشان اور اضطراب کا شکار ہے ۔ آج مغربی معاشرے سے خاندان کا تصور کم سے کم ہوکر ختم ہوتا جا رہا ہے۔ جس کے لیے اقبال نے بہت پہلے کہا تها کہ
تمہاری تہذیب اپنے خنجر سے آپ ہی خودکشی کرے گی
جو شاخ نازک پہ آشیانہ بنے گا ناپائیدار ہوگا
ہمیں اس ناپیدار معاشرے کی زہریلی ہوا سے اپنے پاک معاشرے کو بچانے کے لیے اپنے لوگوں میں آگہی پیدا کرنی ہے . لوگوں کو بیدار کرنا ہے . اسلام کی روح اور اس کی اصل سے رائے عامہ میں شعور بیدار کرنا ہے ۔ خاندان کو انتشار سے بچانا ہے۔
ہر فرد کو اپنے حصے کا کام بھرپور انداز میں کرنا ہے ۔ اپنے فرائض کی آگہی کو اولین ترجیح دینی ہے ۔ اپنے حصے کی شمع اپنے ہاتھوں سے روشن کرنی ہے ۔ اپنی صفوں کو منظم کرنا ہے ۔ اپنے پاکستانی معاشرے کے مثبت پہلوؤں سے دنیا کو روشناس کروانا ہے ۔ اپنے خاندانوں کو باہمی اخوت کی ڈور سےمضبوط کرنا ہے ۔ ہم عورتیں ہی قوموں کا سرمایہ ہوتی ہیں۔
ہم ہی وہ عورتیں ہیں جنھوں نے ہر دور میں اقوام کو مایوسیوں کی دلدل سے نکالا ہے ۔ اقوام عالم میں ملک کا وقار بلند کیا ہے ۔ آج بھی اگر ہم عورتیں اپنے محاذ پر کھڑی ڈٹ کر کھڑی ہوجائیں تو کوئی ہماری صفوں میں گھس کر ہمارے خاندانوں ، ہماری نسلوں ، ہماری بیٹیوں اور بیٹوں کو خراب نہیں کرسکتا ۔ اب ہمیں اپنے محاذکا خود دفاع کرنا ہے ۔ ورنہ اس پاکستانی معاشرے کی شیرازہ بندی کے لیے تمام مورچے تیار اور تمام نیزےکسے جا چکے ہیں . بقول شاعر
اٹهو وگرنہ حشر بپا ہوگا پهر کبهی
دوڑو زمانہ چال قیامت کی چل گیا