بنت عبدالقیوم
بلاشبہ عقد نکاح کے نتیجے میں وجود میں آنے والا جوڑا ” عہد الست” کے تقاضوں کو پورا کرنے کا پابند ہو جاتا ہے ۔ باہمی حقوق و فرائض کی ادائیگی کا پابند تو ہوتا ہی ہے ، لیکن اس کے ساتھ ساتھ ایک عظیم ذمہ داری جو دونوں کے کندھوں پر یہ عقد رکھتا ہے وہ ہے’ نسل انسانی کی تعمیر و تشکیل’. اگر وہ اپنی ذمہ داری باہمی تعاون و مشورے اور قلبی ہم آہنگی سے دائرہ ایمان میں رہتے ہوئے نبھاتے ہیں تو بلا شبہ وہ اسلامی معاشرے کے فروغ و استحکام میں حصہ دار ٹھہرتے ہیں اور یوں یہ مثالی جوڑا مثالی خاندان کے قیام کا سبب بھی بنتا ہے ۔۔۔ایک ایسا خاندان جس کے افراد معاشرے کے پر اعتماد ، باوقار شہری ثابت ہونے کے ساتھ ساتھ باہمی اخوت و محبت کا بھی بے مثال نمونہ ہوتے ہیں۔
اس کے بر عکس ایسا جوڑا جو اسلامی معاشرت کے تقاضوں ہی کو نہیں سمجھتا ،اور جسے ” مؤدت و رحمت” کی بجائے سماجی رویوں کا خوف اور بعض اوقات معاشی بد حالی کا اندیشہ نکاح کی ڈوری میں کسے رکھتا ہے ، کبھی مثبت رویوں سے نئی نسل کی اٹھان و تربیت سازی میں اپنا کردار ادا نہیں کر پاتا ، نتیجتاً ایسا جوڑا خواہش کے باوجود معاشرے کو ایسے افراد نہیں دے پاتا جو باہمی کشا کش سے خالی ہوں ،یوں زوجین کا یہ غیر دانشمندانہ رویہ معاشرتی بگاڑ کا سبب بنتا ہے
زوجین کا یہ اختلاف بعض اوقات طبائع اور مزاج کے اختلاف کی بنا پر ہوتا ہے اور کبھی یہ دوری اور فاصلے ‘ سماج’ کے پیدا کردہ ہوتے ہیں’ انا’ بھی مثبت رویوں کی تشکیل میں رکاوٹ بنتی ہے اور بعض اوقات اس اختلاف کے پیچھے شرعی عنصر بھی ہوتا ہے
بہرحال اس اختلاف کے اسباب کچھ بھی ہوں لیکن بد قسمتی سے
صاف کٹتے بھی نہیں جڑے نظر آتے بھی نہیں ( شاعر سے معذرت کے ساتھ )
کے ناقابل فہم رویے سب سے زیادہ نقصان اپنی اس اولاد کو پہنچاتے ہیں ، جسے فرداً فرداً دونوں ہی ہتھیلی کا چھالا بنا کر رکھنا چاہتے ہیں اور یوں نسل آدم کے ازلی دشمن شیطان کے جال میں آ کر وہ نسل انسانی کے بگاڑ کا موجب بنتے ہیں۔۔۔
جب آپس کی اس جنگ،رسہ کشی اور کشمکش میں وہ بعض اوقات جانتے بوجھتے اور بعض دفعہ انجانے میں اپنے بچوں کو بھی شریک کر لیتے ہیں۔ یوں محبت کی بجائے نفرت ، مثبت مسابقت کی بجائے مبازرت کی کیفیت پیدا ہو جاتی ہے ، نفسیاتی الجھنیں جو مسلم قوم کا خاصہ نہیں ہیں۔۔۔جنم لینے لگتی ہیں ، تحمل و برداشت سے معاملات طے ہونے کی بجائے خود غرضی اور طاقت کے زور پر طے کیے جاتے ہیں ،غرض خاندان کا شیرازہ بکھر جاتا ہے نتیجتاً ۔۔۔جب سکون و اطمینان کے حصول ، عدم توجہ کے خلا کو پر کرنے اور اپنی ذات کو منوانے کی کا شعوری تسکین کے لئے باہر کی دنیا کی طرف جب اس خاندان کے افراد رجوع کرتے ہیں تو ۔۔۔ ان بکھری ہوئی شخصیتوں کو اس کا خمیازہ بھی عموماً بری صحبت کی صورت میں بھگتنا پڑتا ہے،خوش قسمتی سے کسی کو درست رہنمائی بھی میسر آ سکتی ہے لیکن ایک ایسا معاشرتی جہاں قدم قدم پر گھرانے ۔۔۔ گھریلو انتشار کا شکار ہوں ۔۔۔۔ خود غرضی ، مفاد پرستی عروج پر ہو ۔۔۔ ایسی رہنمائی کا تناسب بھی بہت کم ہوتا ہے
لہذا وہ جوڑے جو مثالی خاندان کے قیام کے خواہشمند ہوں ۔۔۔ خود مثالی بن جائیں ۔ بچوں کے باہمی جھگڑے آپ کو الجھاتے ہیں تو یاد رکھیے…. آپ دونوں کے باہمی جھگڑے بھی بچوں کی شخصیت میں تو عمر بھر کا خلا چھوڑ جاتے ہیں ،جن کا مداوا بعض اوقات آپ چاہتے ہوئے بھی نہیں کر سکتے
اگر آپ بچوں کے مابین محبت و احترام کے رشتے کو پنپتا دیکھنا چاہتے ہیں تو آپس کے رشتے کو بھی” رحمت و مؤدت” کی بجائے بے رخی و نفرت سے پامال نہ ہونے دیں ، اولاد کے دلوں میں اپنے لئے شکر گزاری کا جذبہ دیکھنا چاہتے ہیں تو خود ایک دوسرے کے ساتھ یہی رویہ اپنائیں ، فرماں بردار اور پر اعتماد اولاد دیکھنے کے خواہشمند ہیں تو بھلائے نہیں کہ اطاعتِ نظم کا بہترین درس خود عائلی زندگی میں موجود ہے ۔۔۔ لہذا آپ اتفاقی امور میں” اطاعتِ نظم” اور اختلافی امور میں “مشاورت” کے کلیے کو اپناتے ہوئے ، بہترین مدرس کی طرح ۔۔۔ فرمانبردار اور پر اعتماد اولاد کی خواہش کی تکمیل میں سو فیصد کامیابی حاصل کر سکتے ہیں ۔۔۔۔ ان شاءاللہ
آپ کے پر اعتماد اور خوش گوار تعلقات بچوں کی شخصیت کو وہ مضبوطی ، اعتماد اور شعور بخش سکتے ہیں جس کے بل پر وہ مستقبل میں مرد مجاہد ثابت ہو سکتے ہیں . آہنی چٹانوں اور طاغوتی طاقتوں سے ٹکرا جاتے ہیں ، باطل کے سر پر حق کی چوٹ ثابت ہو سکتے ہیں ۔۔۔۔ تاعمر گھریلو الجھنوں میں گھرے رہنے کی بجائے عالمی مسائل کی گرہیں کھولنے والے بن سکتے ہیں۔
غرض مثالی زوجین ۔۔۔ مثالی خاندان ، مثالی خاندان ۔۔۔۔ مثالی معاشرہ اور مثالی معاشرے مثالی دنیا پیدا کر سکتا ہے ۔۔۔۔ بشرطیکہ اس مثالیت پسندی کی بنیاد “ایمان و اسلام” پر ہو.