ڈاکٹر امتیاز عبد القادر ، بارہمولہ
معراج دراصل مکہ کی گیارہ سالہ گھٹن، اضطراب، اضطرار، غلامی اور جہالت سے آزادی کی نوید تھا۔ خانہ کعبہ کودستِ غاصب سے’رہا‘کرانے کا پیغام تھا۔القدس کی پامال تقدیس کو بحال کرنے کی بشارت تھی۔ معراج ہجرت کا اعلان اور اسلام کے مستقبل کا عنوان تھا۔
یہ سفر قریش کو کعبہ سے معزول کرنے اور اہلِ کتاب کو مسجد الاقصیٰ کی تولیت سے برخاست کرنے کا عندیہ تھا۔ رات کی تاریکی کا یہ سفر صبح ِاسلام کی تمہید تھی۔ خالق ارض و سماء میزبان تھا؛ محبوب ِارض و سماء مدعو (مہمان)تھے۔ عالم ناسوت سے عالم لاہوت کا طویل سفر درپیش تھا۔ جہاں زمین وزماں کا گزر، نہ مکین و مکاں کا ۔۔۔ قلیل مدت میں جسے طے کرنا ناممکن تھا. میزبان کی میزبانی کا کیا کہنا کہ وقتی طور پر کائنات کی ”روح“ ہی قبض کی اور وقت ہی معطل کردیا ۔۔۔۔ بس ’ھُو‘ تھا اور ’عبدہ‘ (ﷺ) تھے۔
دن اپنا روایتی سفر طے کرکے تاریکی کے شکم میں مستور ہوچکا تھا۔ ہر سُواندھیرا تھا، ہر رنگ پر سیاہی کا غلبہ تھا۔ آنکھوں نے رات کی تاریکی کو اوڑھ لیا تھا۔ اندھیرے کے اس جماؤ میں نُور کی شعاعوں کاورودِ مسعود پاک روحﷺ کے لئے محبوب کادعوت نامہ لئے حاضرتھے ۔
مسجدِ حرام کاصحن شبِ ظلمات میں نُور نہلایا ہوا تھا۔ دنیا کا ایک حصہ گُھپ اندھیرے میں محو ِخواب تھا تو دوسری طرف روحیں منور تھیں ۔ ایک حیرت انگیز معجزانہ سفر تاریخ انسانی میں پہلی اور آخری بار شروع ہونے والا تھا۔ وہ ہستی جو ہر قسم کی کمزوریوں سے پاک ہے۔ جو محتاج ہے نہ کسی حدکا پابند ۔ جوخالقِ ارض وسماء ہے ، مدبرِکائنات ہے ۔ زماں ، مکاں اور رفتار جس کے غلام ؛ وہ لایموت ہستی جس پر نیند غالب آتی ہے نہ تھکاوٹ زیر کرتی ہے ۔ وہ اُس رات اپنے بندے کو زمین کی بادشاہی ، امامت و قیادت عطا کرکے اس کائنات سے ماوراء خلا، آسمانوں، دیدہ و نادیدہ موجوداتِ عالم کی سیرکر اکے اپنے حضور طلب کرگیا۔
انبیا علیہم السلام کو مخصوص ساعت میں یہ منصبِ رفیع حاصل ہوتا ہے اور اس وقت شرائط رُویت کے تمام مادی پردے ان کی آنکھوں کے سامنے سے ہٹادیے جاتے ہیں۔ اسباب سماعت کے دنیاوی قوانین ان کے لئے منسوخ کئے جاتے ہیں۔ قیودِ زمانی و مکانی کی تمام بیڑیاں ان کے پاؤں سے کاٹ ڈالی جاتی ہیں۔ آسمان و زمین کے مخفی مناظر بے حجابانہ ان کے سامنے بچھ جاتے ہیں
اورخود پیغمبر نور کا حلّا بہشتی پہن کر فرشتوں کے نورانی جلوس کے ساتھ بارگاہِ الٰہی میں پیش ہوتے ہیں۔ سیرِ ملکوت انبیاء کے سوانح کا جزورہی ہے۔ چونکہ رسول اللہ ﷺ سرورِ انبیاء تھے، اس لئے بارگاہِ لامکان میں آپ ﷺ کو وہاں تک رسائی حاصل ہوئی جہاں تک کسی فرزندِ آدم کا قدم اس سے پہلے نہیں پہنچا تھا اور وہ کچھ مشاہدہ کیا جواب تک دوسرے مقربان ِ بارگاہ کی حدِ نظر سے باہر رہا تھا۔
رضوانِ جنت کو حکم ہوا کہ آج مہمان سرائے غیب کو نئے ساز و برگ سے آراستہ کیا جائے کہ شاہدِ عالم آج یہاں مہمان بن کر آئے گا۔ روح الامین کو پیغام پہنچا کہ وہ سواری جو بجلی سے زیادہ تیز گام اور روشنی سے زیادہ سُبک خرام ہے اور جو خطۂ لاہوت کے مسافروں کیلئے مخصوص ہے ، حرم کعبہ میں لے کر حاضر ہو۔ کارکنان عناصر کو حکم ہوا کہ مملکتِ آب و خاک کے تمام مادی احکام و قوانین تھوڑی دیر کیلئے معطل کر دیے جائیں اور زمان و مکان، سفر و اقامت، رویت و سماعت، تخاطب و کلام کی تمام طبعی پابندیاں اٹھادی جائیں۔ (سیرۃ النبیﷺ، جلد سوم؛ص229، از علامہ سید سلیمان ندوی)
معراج جسمانی تھا یا روحانی؟
ہمارے متکلمین و شراح حدیث نے اس باب میں مباحث کا ایک انبار لگادیا ہے۔ سلف و خلف میں جو اس واقعہ کو روحانی سفر قرار دیتے ہیں وہ سورۃ بنی اسرائیل کی ایک آیت سے استدلال کرتے ہیں جس میں اللہ فرماتا ہے:
ترجمہ: ”ہم نے جو رویا تجھ کو دکھایا، اس کو ہم نے لوگوں کے لئے بس ایک فتنہ بناکررکھ دیا ہے۔“(بنی اسرائیل:60)
بخاری میں ابن عباس ؓ کی روایت ہے کہ یہ آیت معراج کے متعلق ہے اور اس روایت میں ان کی تصریح ہے کہ اس آیت میں رویاء کے معنی مشاہدہ چشم کے ہیں۔ (بخاری، باب الاسراء)
واقعہ معراج کو رویاء یا روحانی کہنا قرن ِ اول میں بعض بزرگوں کا قول تھا۔ حضرت حسن بصری ؒکے سامنے جب واقعہ معراج کو رویاء کہاجاتا تھا تو وہ اس کی تردید نہیں کرتے تھے۔ (سیرت ابن اسحٰق)
لیکن جمہور کا مذہب یہی ہے کہ معراج جسمانی تھی اور بیداری کی حالت میں تھی۔ امام نووی ؒ نے’شرح مسلم‘میں اور قاضی عیاض نے ’شفا‘ میں لکھا ہے کہ حق یہ ہے کہ جس پر اکثر لوگ اور سلف صالحین کا بڑا حصہ، فقہاء محدثین اور متکلمین سب متفق ہیں کہ رسول للہ ﷺ کو جسم کے ساتھ معراج ہوئی۔(سیرۃ النبی ﷺ از سید سلیمان ندوی)
مفسرین میں ابن جریر طبری ؒسے لے کرامام رازی ؒ تک نے جمہور کے اس مسلک پر چار عقلی دلائل بھی قائم کی ہیں:
1) قرآن میں ہے کہ ’سبحان الَّذِی اسریٰ بعبدہٖ‘ اس آیت سے ثابت ہوتا ہے کہ اللہ اپنے بندہ کو لے گیا ’عبد‘ کا اطلاق جسم پر یا جسم و روح دونوں کے مجموعہ پر ہوتا ہے۔ تنہا ’روح‘ کو عبد یا بندہ نہیں کہتے۔
2) احادیث میں واقعہ معراج کے ضمن میں ’براق‘ کا ذکر ہے۔ رسول اللہ ﷺ کو براق پر سوار کیا گیا، دودھ کا پیالہ نوش فرمایا۔ سوار ہونا، پینایہ سب جسم کے خواص ہیں، اس لئے معراج، جسمانی تھا۔
3) اگر واقعہ معراج خواب ہوتا تو کفاراس کی تکذیب کیوں کرتے؟
4) اللہ نے سورہ بنی اسرائیل میں کہا ہے کہ ’وما جعلنا‘ کہ اس مشاہدہ معراج کو ہم نے لوگوں کیلئے معیارِ آزمائش بنایا ہے، اگر یہ عام خواب ہوتا تو یہ آزمائشِ ایمان کیا چیز تھی اور اس پر ایمان لانا مشکل کیا تھا۔
مولانا سید سلیمان ندوی مذکورہ استدلال کے ضمن میں رقم طراز ہیں:
”میرے نزدیک معراج بحالت بیداری کے ثبوت کا صاف وصحیح طریقہ یہ ہے کہ کلام کا فطری قاعدہ یہ ہے کہ جب تک متکلم اپنے کلام میں یہ ظاہر نہ کردے کہ یہ خواب تھا تو طبعاً یہی سمجھا جائے گا کہ وہ واقعہ بحالت بیداری پیش آیا۔ قرآن پاک کے ان الفاظ میں ’سبحان الذی اسریٰ بعبدہٖ لیلا‘ (پاک ہے وہ جو اپنے بندہ کو ایک رات لے گیا۔۔۔) میں کسی خواب کی تصریح نہیں۔
اسی طرح حضرت ابو ذر ؓ کی صحیح ترین روایت میں بھی اس کی تصریح نہیں۔ اس لئے بے شبہ یہ بیداری ہی کا واقعہ سمجھا جائے گا اور یہی جمہور امت کا عقیدہ ہے اور وہ بھی بجسم۔“ (سیرۃ النبی ﷺ جلد سوم، ص 243)
مولاناحفظ الرحمٰن سیوہارویؒ نے جمہورعلماء کی رائے کودرست سمجھتے ہوئے دلائل سے ثابت کرنے کی کوشش کی ہے کہ اسراء ومعراج کاواقعہ بجسد ِعنصری اوربحالتِ بیداری پیش آیاہے؛وہ لکھتے ہیں:
”سورہ بنی اسرائیل کی آیت ’اسرٰی بعبدہ‘میں اسرٰی کے متبادرمعنی وہی ہے جوحضرت موسٰیؑ اورحضرت لوطؑ سے متعلق آیات میں ہیں یعنی بحالت بیداری اوربجسدِعنصری رات میں چلنا۔وہ دوآیتیں یہ ہیں:
’قالُوایالُوطُ اِنّارُسُل ربکَ لِن یّصلُوااِلیکَ فَاَسرِبِاَھلِکَ۔۔۔‘(ھود:81)
”فرشتوں نے کہا : لوط ! ہم توتیرے پروردگار کے بھیجے ہوئے ہیں۔یہ تجھ تک ہرگز نہیں پہنچ پائیں گے ۔ پس تو اپنے لوگوں کوکچھ رات گئے (یہاں سے) لے نکل۔“
دوسری آیت: ’وَلقَداَوحَینَاالٰی موسٰی اَن اَسرِبِعِبادِی‘(طٰہٰ:77)
”اوربلاشبہ ہم نے موسٰی پر وحی کی کہ میرے بندوں کو راتوں رات لے جا۔“
ان تمام آیات میں لفظ ’اسرا‘کا جس طرح اطلاق کیا گیا ہے ، اس سے دو حقیقتوں پر روشنی پڑتی ہے ۔ ایک یہ کہ ’اسرا‘ اس سیر اور اس چلنے کو کہتے ہیں جو رات میں پیش آئے ۔۔۔ دوسری بات یہ ہے کہ ’سری یاسرا‘کا ان تمام آیات میں روح مع جسد پر اطلاق ہوا ہے ۔ یہ نہ خواب کی شکل میں تھا اور نہ روحانی طورپر اور نہ رؤیا کشفی کے طریقے پر بلکہ روح مع جسد کے تھا۔“(قصص القرآن،ج2،ص469۔470)
قاری حنیف ڈار اپنا موقف واضح کرتے ہوئے لکھتے ہیں:۔
”میرے نزدیک معراج جسم اور روح سمیت تھی ، انبیاء کی ارواح سے ملاقات ہوئی ۔۔۔ جب جبرائیل ؑ نے پورے حقیقی جسم کے ساتھ استقبال کیا تو نبی کریم ﷺ بھی اپنے اصلی جسم کے ساتھ تھے ، نیز جنت کی بڑی بڑی نشانیوں کے دیکھنے کے دوران رسول اللہ ﷺ کا جو پُر وقار انداز تھا ، اللہ پاک نے اس کو خاص طور پر فوکس کیا کہ کسی چیز کو بھی ضرورت سے زیادہ نہیں دیکھا اور دیکھا تو خیرہ نظروں سے نہیں دیکھا بلکہ یوں دیکھا گویا مکے میں روز ہی دیکھا کرتے ہیں۔
ایک خواب کیلئے ’سبحان الذی اسرٰی بعبدہٖ لیلاً‘ جیسی تمہید کبھی نہ باندھی جاتی۔ یہ کوئی نہایت عجیب واقعہ ہوا ہے جس کے لئے ’ہر کمزوری سے پاک ہے وہ ہستی جو لے گئی اپنے بندے کو راتوں رات‘ فرمایا گیا“۔
علماء اسلام میں شاہ ولی اللہ دہلوی کو ایک خاص مقام حاصل ہے۔ وہ صوفی اور صاحب حال تھے اور محدث و متکلم بھی۔ شاہ صاحب دیگر اہل باطن کی طرح عالم برزخ اور عالمِ مثالِ زمام اور عالمِ جسد اور صالح روح کے درمیان ایک تیسرے عالم کے قائل ہیں، جہاں جسم پر روح کے خواص طاری ہوتے ہیں اور روح اپنی خصوصیت اور مناسبت کے مطابق جسمانی شکل وصورت میں نمایاں ہوتی ہے۔
موصوف اس بات کے قائل ہیں کہ معراج بیداری اورجسم کے ساتھ ہوئی۔ لیکن یہ عالم برزخ کی سیر تھی جہاں آپ ﷺ کے جسم پر روحانی خواص طاری کئے گئے اور معانی و واقعات مختلف اشکال میں مشاہدہ کرائے گئے۔ ’حجۃ اللہ البالغہ‘ میں معراج کی حقیقت ان الفاظ میں لکھتے ہیں:۔
”آپ کو معراج میں مسجد الاقصیٰ میں لے جایاگیا۔ پھر سدرۃ المنتہیٰ اور جہاں اللہ نے چاہا اور یہ تمام جسم مبارک کیلئے بیداری کی حالت میں ہوا لیکن اس مقام میں جو عالم ِ مثال اور عالمِ ظاہر کے بیچ میں ہے اور جو دونوں عالموں کے احکام کاجامع ہے ۔ اسی لئے جسم پر روح کے احکام ظاہر ہوئے اور روح پر معاملاتِ روحانی جسم کی صورت میں نمایاں ہوئے۔۔۔۔“(ص 627۔628)
شاہ صاحب نے معراج کے مشاہدات میں سے ایک ایک کی تعبیر کی ہے، خود معتبر روایات میں جہاں یہ واقعہ مذکور ہے کہ آپ ﷺ کے سامنے دودھ اور شراب کے دو پیالے پیش کئے گئے اور آپ ﷺ نے دودھ کا پیالہ اٹھا لیا۔ اس پر فرشتہ نے کہا کہ آپ ﷺ نے فطرت کو اختیار کیا، اگر شراب کا انتخاب کرتے تو آپ ﷺ کی اُمت گمراہ ہو جاتی۔ اس عالمِ تمثیل میں گویا فطرت کو دودھ اور ضلالت کو شراب کے رنگ میں مشاہدہ کرایا گیا۔
واقعہ معراج کے حوالے سے سلف وخلف میں مشاہدہ قلب یا معائنہ چشم کو لے کر اختلاف رہا ہے۔ جن کے نزدیک یہ واقعہ محالات و ناممکنات میں سے ہے ؛ انہیں مخاطب کرتے ہوئے ڈاکٹر اسرار احمد لکھتے ہیں:۔
”یہ آئن سٹائن کی فزکس کا دور ہے۔ ڈیڑھ دو سو سال پہلے کی فزکس کے مقدمات تبدیل ہو چکے ہیں۔ اب مادہ (Matter) حتمی، قطعی اور ناقابل تردید اور مستحکم نہیں رہا۔ اب سائنس یہاں تک پہنچ چکی ہے کہ فطری اعتبار سے تسلیم کیا جاتا ہے کہ اگر کوئی مادی جسم نور کی رفتار کے ساتھ حرکت کرے گا تو اس کیلئے وقت نہیں گزرے گا۔۔۔“ (معراج النبی ﷺ ص 16)
پروفیسرمحمدبشیر واقعہ معراج کی سائنٹفک توجیح یوں بیان کرتے ہیں:
”جبرائیل ؑ نے آپ ﷺ کو براق پر سوار کیا۔ براق، برق سے نکلا ہے جس کے معنی بجلی کے ہیں اور اس کی رفتار 186000 میل فی سیکنڈ ہے۔ اگر کوئی وقت کے گھوڑے پر سوار ہو جائے تو وقت اُس کے لئے ٹھہر جاتا ہے یعنیٰ اگر آپ ایک لاکھ چھیاسی ہزار میل فی سیکنڈ کی رفتار سے چلیں تو وقت بالکل رُک جاتا ہے کیونکہ وقت کی رفتار بھی یہی ہے۔ وقت گِرجائے گا کیونکہ وقت اور فاصلہ مادے کی چوتھی جہت ہے۔
اس لئے جو شخص اس چوتھی جہت پر قابو پالیتا ہے، کائنات اس کیلئے ایک نقطہ بن جاتی ہے اور وقت رک جاتا ہے۔۔۔حالانکہ وہ آدمی اپنے آپ کو چلتا ہوا محسوس کرے گا لیکن کائنات اس کے لئے وہیں تھم جاتی ہے، جب اُس نے وقت اور فاصلے کو قابو میں کرلیا ہو، اس کیلئے چاہے سینکڑوں برس اس حالت میں گزر جائیں لیکن وقت رکا رہے گا اور جوں ہی وہ وقت کے گھوڑے سے اترے گا، وقت کی گھڑی پھر سے ٹِک ٹِک شروع کردے گی۔ وہ آدمی چاہے پوری کائنات کی سیر کرکے آجائے ؛ بستر گرم ہوگا ، کنڈی ہل رہی ہوگی اور پانی چل رہا ہوگا ۔۔۔ اب معراج میں چاہے ہزار سال صرف ہوگئے ہوں یا ایک لاکھ برس ؛ وقت کا کوئی سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔۔۔۔“(معراج النبی ﷺ؛سائنس کی روشنی میں؛مشمولہ ’لازوال‘11 مارچ 2021ء)
اللہ قادر مطلق ہستی ہے۔ دن رات کی تمام گردشیں اسی کے دستِ قدرت میں ہے، وہ چاہے تو ان کی گردشیں روک کر وقت کو ٹھہرا سکتا ہے۔ اس کے امر سے یہ کائنات چلتے چلتے رک بھی سکتی ہے۔ وہ خود اس بات کا اعلان کررہا ہے:
”(اے پیغمبر! ان سے کہو) ذرایہ بتلاؤکہ اگر اللہ تم پر رات کو ہمیشہ کیلئے قیامت تک مسلط کردے؛ تو اللہ کے سواکون سا معبود ہے جو تمہارے پاس روشنی لے کر آئے؟ بھلا کیا تم سنتے نہیں ہو۔ کہو: ذرا یہ بتلاو کہ اگر اللہ تم پر دن کو ہمیشہ کیلئے قیامت تک مسلط کردے، تو اللہ کے سوا کون سا معبود ہے جو تمہیں وہ رات لاکر دے دے جس میں تم سکون حاصل کرو، بھلا کیا تمہیں سجھائی نہیں دیتا؟“ (القصص: 71۔72)
اس کار گاہ ہستی میں بھی شب و روز ہم اس چیز کا مشاہدہ کرتے ہیں کہ کچھ چیزیں کبھی ایسی ہوجاتی ہیں کہ جیسے ٹھہر گئی ہوں۔ انسان اپنی محدود قدرت کے دائرے میں بہت سی چیزوں کو روکنے پر قادر ہے۔ جیسے گھر میں بجلی آرہی ہے۔ تاروں میں کرنٹ دوڑ رہا ہے، اس سے بلب جل رہے ہیں۔ پنکھے حرکت میں ہیں، ٹیلی ویژن کی نشریات چل رہی ہیں، کپڑوں پر استری کی جارہی ہے وغیرہ۔
اچانک گھر کا کوئی فرد اُٹھ کر مین سوئچ بند کردیتا ہے، ہر چیز اسی جگہ ٹھہر جاتی ہے جہاں وہ تھی۔ اب کسی میں کوئی حرکت نہیں، کوئی ہلچل نہیں۔ اس کائنات کا ’مین سوئچ‘ اللہ کے ہاتھ میں ہے، وہ چاہے تو اسے ’آف‘ کرکے کائنات کی تمام سرگرمیاں جزوی یا کلی طور پر مختصر یا طویل وقت کے لئے معطل کرسکتاہے۔
سیرت طیبہ کے بغائر مطالعہ کے بعد یہی سمجھ آتا ہے کہ یہودو قریش دونوں کی معزولی کے بعد خانہ کعبہ اور بیت المقدس دونوں کی تولیت کا منصب عطا کرنے کیلئے شہنشاہ عالم نے اپنے بندہ خاص کو اپنے حضور میں طلب فرمایا اور اُسے روحانی حکومت کے شرائط و احکام کا ایک نسخہ عطا کرتا ہے جیسے کہ کچھ ایسے ہی موقعوں پر حضرت موسیٰ ؑ اور دوسرے انبیاء کو عطا ہوا تھا۔ (سورہ بنی اسرائیل 22۔39)
٭٭٭