نگہت حسین
کچھ ساتھ ہی ایسے ہوتے ہیں جس میں تشکر ، خلوص ، وفاداری ، تعاون و قبولیت کی ا یسی کیفیت آجاتی ہے کہ ۔۔۔۔ شکوے شکایت تو پاس پھٹکتے ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔ نرم گرم بھی قابل قبول بن جاتا ہے ۔۔۔۔۔ زندگی خواب جیسی بن جاتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہمارے ساتھ بھی ایسا ہی تھا۔۔۔۔۔۔ خواب جیسی زندگی ۔۔۔۔
اب پلٹ کر دیکھو تو لگتا ہے کہ پلک جھپکتے ہی سب کچھ ختم ہوگیا ۔ تمام ایسے لوگ جن کو بچپن سے نیکیوں اور سادگی کا ماحول ملا ہو ان کے لیے تو سیدھی راہ پکڑنا مشکل نہیں ہوتا ۔۔۔۔ لیکن ۔۔۔۔۔ ہمارے شہید شوہر کے یہاں تو سارا خاندان جدا ۔۔۔ اور خود ان کا ۔۔ ہر سوچ انداز عمل علیحدہ ۔۔۔۔ مجھے اکثر ان پر یہ مصرعہ بالکل ٹھیک لگتا کہ
سکھائے کس نے اسماعیل کو آداب فرزندی
کی عملی تفسیر تھے ۔۔۔۔ نو عمری ہی میں پروفیسر علوی صاحب سے ترجمہ قرآن سیکھا ۔۔۔۔۔ اسی بناء پر تلاوت قرآن کی لذت پائی ۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے تو اکثر ان کے ماحول کو دیکھ کر ان کے منتخب ہونے کا گمان ہوتا ۔ اتنی آلودگی کے ماحول میں کسی فرد کا اتنا اجلا و شفاف ہونا ۔۔۔۔۔۔۔۔ یقین ہی نہیں آتا تھا ۔۔۔۔ ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اب خود اکثر میری صاحبزادی یہی کہتی ہے کہ ماما ! بابا کیسے اتنے الگ تھے اپنے گھر والوں سے ؟
ایسے لوگوں کے بارے میں کہا گیا ہے کہ سلیم الفطرت . اکثر بہنیں بتاتی تھیں کہ اچانک ہی پتہ نہیں بھائی کو کیا ہوگیا . پہلے تو ہمارے ساتھ ہی ہر طرح کے ماحول میں رہا تھا لیکن ایک دم سے نمازیں شروع کردیں ۔ مسجد جانے کی جلدی ہوتی ۔۔۔ گھر کی ذمہ داریاں اٹھانا ، بہنوں کے معاملات کی خبرگیری رکھنا ۔۔۔۔۔ سب کچھ اتنا اچھا ہوگیا ۔۔۔۔۔
گھر کے جدا ماحول کے اور سب سے بڑے ہونے کے باوجود کبھی کسی کو کچھ نہں کہا ، کوئی روک ٹوک نہیں کی . بس ! اپنا آپ خموشی سے بدل ڈالا۔
امی بیٹے کو دیکھتی تو یہی سوچتی کہ چلو دکھ تو ہوتا ہے کہ گھر کی بہت سی مخلوط محافل میں نہ جانے کے بہت سے بہانے یا بالکل مختصر وقت کےلیے جانا ، کزنز کے ساتھ ساتھ اٹھنے بیٹھنے سے احتراز کرنے لگا ہے لیکن ماں باپ بہن بھائیوں کا خیال رکھنا بڑھتا ہی جارہا ہے ۔ ایک طرف ناراض ہوتیں تو ایک طرف خوش ہوجاتیں ۔
اسلامی جمعیت طلبہ کی مختلف ذمہ داریوں کے مراحل سے نکھر کر سعادت کی زندگی ، شہادت کی موت کا سبق پانا ایسا سیکھا کہ اس کو آخری سانس تک نبھانے کی کوشش کی ۔۔۔۔ علم و ادب سے دل چسپی کی بناء پر اسی نوعیت کی مختلف ذمہ داریاں ادا کی ۔۔۔۔۔۔۔ اور اگر شاید میں غلط نہ ہوں تو نواز خان شہید کے لیے مرتب کی جانے والی کتاب کے مرتبین میں بھی شامل رہے ہیں ۔۔۔۔۔
اور میرے لئے ۔۔۔۔ میرے لئے تو ہر ہر پل انوکھا ۔۔۔۔ اعلی ظرفی ۔۔ محبت ۔۔۔۔۔ خیال رکھنا ۔۔۔۔ قدر کرنا جیسے جذبوں سے معمور تھا ۔۔۔۔۔۔ مجھے یاد ہے کہ پہلی دفعہ میں نے کھانا بنایا تو بہت ہی رغبت سے کھا کر دونوں ہاتھ دعا کے لئے اٹھائے اور پھر کہا کہ اللہ تیرا شکر ہے اتنی اچھی ساتھی دی اور اتنے ہاتھ کے ذائقہ سے بھی نوازا ۔۔۔ میرے لئے اس طرح تعریفی کلمات جس میں ایک روزمرہ کے چھوٹے سے کام کی اتنی قدر کرنے کا احساس دلایا گیا ہو بڑا ہی خوب صورت تجربہ تھا ۔
شاید ان کی طرف سے میرے چھوٹے چھوٹے کاموں کی تعریف و توصیف نہ ہوتی تو آج میری بہت سی صلاحیتوں کو جو چار چاند لگے ہیں کبھی نہ لگتے ۔میرے اعتماد میں اتنا اضافہ ممکن ہی ایسے فرد کی وجہ سے ہوا۔ لکھنے پڑھنے اور ہر ہر کام میں کسی طور پابند کرنے کے بجائے ساتھ دینے والے تھے ۔۔۔ گھریلو کاموں کی زیادتی کی وجہ سے میرے لکھنے پڑھنے کے کام بالکل ختم ہو کر رہ گئے تھے جس پر بہت افسوس کرتے ۔۔۔۔ کوشش کرتے کہ خود کچھ نہ کچھ ڈھونڈ کر رکھیں کہ مجھے کم وقت میں بہترچیزیں پڑھنے کے لئے فوری دستیاب ہو جائیں ۔
اپنا لیپ ٹاپ میرے سامنے رکھ کر اکثر احمد کو سنبھال لیتے کہ چلیں کچھ سوشل میڈیا دیکھ لیں یا اپنی مرضی پسند یا ضرورت کی چیزوں کے لئے انٹرنیٹ سے استفادہ کرلیں ۔ حالانکہ تعلیمی سرگرمیوں کی وجہ سے میرا علیحدہ لیپ ٹاپ بھی تھا لیکن وہ الماری کے کسی خانے میں بند رکھا ہوتا تھا ۔ غرض قدر کرنے اور اہمیت بتانے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہ جانے دیتے ۔
ہم کراچی آتے بہت سی باتیں کی اونچ نیچ ہوجاتی جن کی بھنک اگر لاہور چلی جاتی تو وہ ایک سسرالی ایشو بن جاتا لیکن مجال ہے کہ میرے شہید شوہر نے کبھی کوئی بات ایسی بتائی ہو ۔ ہمیشہ ” بہت اچھا ” ، ” بہت ٹھیک ” کہہ کر خاندان کے سب لوگوں کو مطمئن کردیتے تھے ۔ نہ جانے کتنے ہی تحفے تحائف ہم اپنے خرچے سے لے کر یہ ظاہر کرتے کہ یہ میرے گھر والوں نے بھجوائے ہیں ۔
میرے دل میں اپنے شوہر کی صرف محبت ہی نہیں ان کی عظمت کا ایک ایسا مینار ہے کہ جس کی بلندی خود مجھے بھی اپنی کوتاہ قامت ہونے کا احساس دلاتی ہے ۔ وہ میرے شوہر ہی نہیں میرے سر پر ہاتھ رکھنے والے ۔۔۔ گھنے سایہ دار درخت کی مانند ایک پر شفیق سایہ بھی تھے ۔ میری والدہ کا اصرار تھا کہ ہم جہیز نہیں دیں گے اور میری والدہ ایک خاص سخت مزاج رکھتی تھیں ۔۔۔۔ ادھر میری ساس امی نے ڈھکے چھپے انداز میں جہیز کی بابت بہت مرتبہ معلوم کیا تھا لیکن مرد کی قوامیت کیا ہوتی ہے مجھے ان کے معاملات دیکھ کر سمجھ آتی تھی ۔
مسائل ایسے حل کرتے کہ میری ، میرے گھر والوں کی عزت میں فرق نہ آتا اور ان کے گھر والے بھی خوش ہوجاتے جب کہ حقیقتا میری طرف کے معاملات کے پیچیدہ اور انتہائی دکھ دینے والے تھے جن کو ایک شوہر کی حیثیت سے جس صبر ، اعلی ظرفی درگزر کا مظاہرہ کر کے میرا ایسا دل جیتا کہ ہمیشہ کے لئے خوب صورت یادوں کا حصہ بن گئے ۔
شاید یہی وجہ تھی کہ ہمارے درمیان ایسے معاملات تھے کہ ہماری کبھی معمولی سی تکرار بھی نہ ہوئی تھی ۔ میرے لئے تو خاص طور پر نرم دل محبت اور اپنائیت رکھتے تھے اکثر حفصہ کو چھوٹی موٹی ڈانٹ پڑ جاتی لیکن مجھے کبھی ہلکی پھلکی ناراضی کا بھی مظاہرہ کر کے نہیں دکھایا ۔ حفصہ ( ہماری بیٹی ) ہمیشہ ہمیں ایک بہترین دوست سمجھتی تھی ۔ابھی بھی اس کو اپنے بابا کا اور میرے دوست کھو جانے کا غم ہوتا ہے ۔
وہ ۔۔۔۔۔۔۔ جو رات کا زاہد ۔۔۔ مصلے کو اشکوں سے بھگوتا تھا ۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔ دن میں عمل و کردار سے اپنی صالحیت ثابت کرتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ مجھے صبح و شام کے مسنون اذکار کا غیر محسوس طریقے سے پابند بنانا ، اور دوسری بہت سی باتوں کی ایسی اصلاح کرنا کہ احساس بھی نہ ہوا عادت بن گئی . اب پتہ لگتا ہے ۔ اپنی حق تلفی کرنے والوں کے ساتھ بھی نرمی و انکساری سے پیش آنا ۔۔۔۔۔۔ کبھی اپنی علمیت و قابلیت کا اظہار رعب ڈال کر کرنے کی ضرورت نہ پڑتی تھی ، ساتھ اٹھنے بیٹھنے والے کو خود ہی اندازہ ہوجاتا تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ خالی مٹکے کی طرح بجنا نہیں پڑتا تھا۔۔۔۔۔۔
اخلاق حسنہ ہو یا خدمت خلق ۔۔۔۔۔۔۔ اعلی معیار کی طرف کوشاں ۔۔۔۔۔ قرب الٰہی کی منزلوں کو جلد از جلد طے کرنے کی فکر ۔۔۔۔۔ دائیں ہاتھ سے دیتے تو بائیں کو خبر نہ ہوتی ۔۔۔۔۔۔ ہر ایک کے دکھ درد میں شریک ہونا ۔۔۔ سفید بالوں کی لاج رکھنے والے بوڑھے کانپتے ہاتھوں کو تھامنے والے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ والدین کے فرماں بردار ۔۔۔۔ جب تک امی کی زندگی رہی روزانہ رات امی کے پاؤں دبانے کی ذمہ داری نبھائی ۔۔۔
امی کی وفات کے بعد روزانہ صبح سویرے اپنے والد کا ناشتہ اپنے ہاتھوں سے بناتے اور پیش کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ میں نے بہت کم ہی یہ ذمہ داری نبھائی کہ حفصہ کے دادا کو ناشتہ دیا ہو ، کیوں کہ اس کا موقع ہی کبھی نہیں دیا . الا یہ کہ کبھی کوئی مصروفیت یا طبعیت کی ناسازی ہوتی تو مجھے کہہ دیتے کہ ابو کو ناشتہ دے دیجیے گا ۔
کبھی میں نے کسی کی مدد کرتے وقت یہ جملہ نہیں سنا کہ "یہ تو ان کے رشتے داروں کا کام ہے” یا "اور بھی تو لوگ ہوں گے ان کے پاس” ۔۔۔۔۔” ہر کام ہم ہی کیوں کریں” ۔۔۔۔…” اس وقت ان کے گھر والوں کو ہونا چاہیے "بلکہ اپنے سے زیادہ دوسروں کے بارے میں حساس ۔ سنجیدہ اور پریشان ہونا ۔۔۔۔۔۔ بناء کسی طنز طعنے ٹوہ تجسس اور کرید کے ۔۔۔۔۔۔ خاموشی سے اپنا کام کیے جانا ۔۔۔۔۔۔ مشہوری اور تعریف کے ڈونگروں کے بغیر ۔۔۔۔۔
کبھی کسی سے یہ رسمی جملہ نہیں کہا کہ "کوئی ضرورت ہو تو بتائیں” ۔۔۔۔۔۔۔ بناء کہے تعلق رکھنے والوں کی ضرورتوں کو پورا کرنے کی کوشش کرنے والے تھے ۔ کسی کو کہنے کی ضرورت ہی نہ پڑتی تھی ۔ کبھی تو اپنی استطاعت سے بڑھ کر مدد کر جاتے تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔
خیال ایسا کہ ہر دعا میں اپنی مرحوم امی کی مغفرت کی دعا ہوتی تو میری امی میرے بھائی تک کو یاد رکھتے ۔۔۔۔۔۔ رمضان میں خصوص طور بہت دفعہ قرآن مکمل کرتے تو میرے کان گواہ ہیں کہ اپنی امی کے ساتھ ساتھ میری امی ، میرے مرحوم بھائی کی بھی خصوصی مغفرت کی دعا کرتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کراچی والوں کو لاہور میں ڈھونڈ ڈھونڈ کر مجھ سے ملواتے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ کبھی کبھی تو ایسا لگتا تھا کہ یہ کوئی حقیقی کردار ہی نہیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اتنی آلودگی کے ماحول میں اتنا اجلا و شفاف ہونا ۔۔۔۔۔۔۔۔ یقین ہی نہیں آتا تھا نا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ بلاشبہ ایسا فرد ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جس کے ساتھ نے قدم قدم پر ہمسفری کی عزت و تکریم دلائی ۔۔۔۔۔۔ جس کے ساتھ لمحہ لمحہ خلوص و سادگی کی آشنائی تھی ۔ جس کے ساتھ ہر تعلق میں سچائی تھی ۔۔۔۔۔۔۔ زندگی کی اک اک لمحے کی سچائی ۔۔۔۔۔۔۔۔ اور پھر اس سچائی کی قبولیت تھی دل و جان سے ۔۔۔۔۔۔۔۔
ہم دونوں ہمسفروں کو اپنی تمام تر کمزوریوں ، کوتاہیوں اور لغزشوں کا اعتراف تھا اور اس کو اپنا سمجھنے کا ادراک تھا ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ جن جوڑوں میں محبت مادیت کے دائرے سے نکل جاتی ہے وہیں اپنی معراج پالیتی ہے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور اس محبت کی معراج بھی ۔۔۔۔۔۔۔۔ مقاصد کی آشنائی سے وابستہ ہے ۔۔۔۔۔۔! جہاں سفر ہم سفر کے ساتھ اس وقت آسان ہوتا ہے جب رستے کی چھوٹی چھوٹی رنگینیاں منزل نہیں بنتیں ۔۔۔۔۔۔۔ ہم نے حقیقتا اس معراج کو پایا تھا ۔۔۔۔۔۔
ہم نے زندگی کی خوشیوں کا مرکز شادی کی سالگرہ سلیبریٹ کرنے ، کیک کاٹنے مختلف جگہوں پر کھانا کھانے اور گھومنے پھرنے ، پہننے اوڑھنے سے کشید ہی نہیں کی تھی یہ تو ۔۔۔۔۔ ہوجاتی تو بھی ہم خوش ہوتے ، نہ ہوتیں تو بھی ہمارے درمیان شکوے شکایت کا سبب نہ بنتی تھی ۔۔۔۔۔ ہمارا ساتھ تو ان چیزوں سے ماروا تھا اتنا مضبوط اتنا خوب صورت کہ تعلق کا ایسا مقام تھا کہ جہاں یہ چیزیں بے معنی سی ہوگئی تھیں ۔۔۔۔۔ اور زندگی افسانہ نہیں تھی ۔۔۔۔۔ سخت تھی ، تلخ تھی ۔۔۔۔۔۔۔ اس کے کٹھن مراحل درپیش تھے ۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آس پاس دکھ درد بھی تھے ۔۔۔۔۔۔اردگرد طنز بھی تھے ۔۔ طعنے بھی تھے ۔۔۔تمسخر اور ٹھٹھا بھی تھا ۔۔۔ حسد و جلن کا بھی سامنا تھا ۔۔۔۔۔۔۔ خوف و دہشت بھی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ایک ایسا ساتھ تھا کہ سب کچھ آسان تھا ۔۔۔۔۔۔ مشکل ۔۔۔۔۔۔۔ مشکل نہ لگتی تھی ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ اور بات یہ نہیں کہ یہ ایک ایسی خاتون کا دکھڑا ہے جس کا ساتھی اس سے بچھڑ گیا یا یہ ان بچوں کا نوحہ ہے جو یتیم ہوگیے
واللہ یہ تو میرے آگے لوگوں کے سامنے غم منانے کے اور آنسو بہا بہا کر متوجہ کرنے والے مسئلے ہی نہیں ہیں ۔۔۔۔ یہ تو صرف ستارہ صفت لوگوں کے اس دنیا سے اس بے دردی سے گزر جانے کا غم ہے ۔۔۔۔۔۔۔ کہاں سے لائیں گے ہم ایسے اجلے نکھرے ۔۔۔۔۔ سچے ۔۔۔۔۔۔۔ بامقصد لوگ ۔۔۔۔۔۔ جو کسی فلم کے ہیرو ہوتے تو ان کی جدائی کے منظر ۔۔۔۔۔۔۔۔ حق و صداقت کا استعارہ بن جائے ۔۔۔۔۔۔۔۔ لیکن ایسے حقیقی ہیرو ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ آسمانوں پر فلمائی جانے والی فلموں کے ہیرو ہوتے ہیں وہیں ان کی پذیرائی ہے ، وہیں ان کی مہمان داری ہے ، وہیں ان کا ابدی ٹھکانہ ہے۔
میں اس ہم راہی کے چھوٹ جانے پر اللہ کی عدالت میں اپنا مقدمہ درج کروانے کے کوئی اختیار نہیں رکھتیں ۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ یہ تحریر دراصل میری طرف سے ایک ادنی سا خراج تحسین ۔۔۔۔ حق میں گواہی اپنے شہید شوہر کے لئے ۔۔۔۔ کہ ۔۔۔۔۔ اے اللہ ! تو اپنے بندے کے ہر عمل کا گواہ ہے . اس صالح بندے کے حسنات کو قبول کرلینا ۔۔۔۔۔۔ اعلی درجات سے نوازنا ۔۔۔۔۔۔ اور ۔۔۔۔۔۔ ہمیں جنتوں میں اکھٹا کر دینا ہمیشہ کے آرام و سکون کے لیے ۔ آمین ۔
ایک تبصرہ برائے “کُچھ یَادیں اَیسے ہَاتھوں کِی جوبِیچ بھَنور میں چھُوٹ گَئے۔۔۔۔۔”
آپ کی اس تحریر نے بہت متاثر کیا ، دل پر لگی ھے ۔ دل پر کیوں نہ لگتی دل سے جو لکھی گئی ھے۔ واقعتا ایسے لوگ آخرت میں celebrities ھوں گے۔ اللہ تعالی اس عارضی دنیا میں آپ کو مذید کسی آزمائش میں نہ ڈالے۔