ایک سوچ، جس سے چھٹکارہ پائے بغیر ہم کامیاب نہیں ہوسکتے

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

وقاراحمدنظامی………..
"لوگ کیا کہیں گے”،ہم دیہاتیوں کا عام مقولہ ہے
میرے ہمسائے میں فیصل آباد کا ایک خاندان رہتا تھا ان کے لڑکے کے ساتھ میری دوستی ہے. اس نے مجھے بتایا کہ وہ لاڈو صابن فیکٹری کے مالک تھے، فیکٹری کسی وجہ سے بک گئی یا بند ہو گئی تو ان لوگوں نے بازار میں دہی بڑے کی ریڑھیاں لگا لیں لیکن کسی کی غلامی قبول نہیں کی اور اللہ گواہ ہے اسی چھوٹے سے کام سے ان لوگوں نے دوبارہ فیکٹری بنا ڈالی.
اب یہ خاندان "لوگ کیا کہیں گے” والا مقولہ دہراتے رہتے تو شاید ساری زندگی کسی کی غلامی کرتے لیکن زمانے کی پرواہ کیئے بغیر انہوں نے دوبارہ کاروبار کیا اور فیکٹری کے دوبارہ مالک بن گئے.

ایک پٹھان موچی جو ہماری شاپ کے سامنے بیٹھتا ہے،سے مکالمے کے دوران پوچھا بھائی کتنی پڑھے ہو؟ کہنے لگا: ایم بی اے کیا ہے،میرے پیروں سے تو زمین ہی نکل گئی۔میں نے پوچھا: کتنے کماتے ہو دن میں ؟ کہنے لگا: دو سے تین ہزار کمالیتا ہو دن کے۔
ہمارے ہاسٹل میں ایک بیرا یعنی ویٹر تھا ، وہ بارہ ،چودہ سال کا لڑکا تھا ۔۔۔۔ نام کا بیرا تھا ، صفائی ستھرائی ، بیراگیری ، ڈانٹ ڈپٹ جھیلنے اور بازار سے اشیاء لانے جیسے کام بھی اُس کے ذمے تھے ۔۔۔۔ تنخواہ شرماتے ہوئے 6000 بتاتا ۔۔۔۔۔ میں نے ہاسٹل وارڈن سے اُس کی تنخواہ بڑھانے کو کہا تو کہنے لگا: میں کیا بڑھاؤں گا، میں خود ملازم ہوں 16 ہزار پہ ۔۔۔۔۔۔۔۔
خیر کچھ دنوں بعد وہ لڑکاچھوڑکر چلا گیا ۔۔۔۔۔

کل شب میں گلی سے آرہا تھا تو کندھے پر پیچھے سے کسی نے ہاتھ رکھا، میرا اتنا کوئی جگری یار وہاں نہیں تھا جو ایسے ہاتھ رکھے ، سوچا بیگم کاہاتھ ہوگا۔۔۔۔۔ پھر یاد آیا کنوارہ ہوں۔۔۔۔ خیر وہ ہاتھ رکھنے والا آگے بڑھا اور کہا: پہچانتے نہیں صاحب ؟ میں فلاں ویٹر ہوں، اب انڈے بیچتا ہوں۔۔۔۔۔۔۔
اُس نے بڑے احترام سے مجھے دو انڈے پیش کیے ، جو میں نے اُبلے ہوئے انڈوں کے ” ممکنہ ردِعمل ” سے بچنے کے لیے واپس کردئیے۔۔۔۔ گپ شپ ہوئی تو پوچھا کتنا کماتے ہو اب ؟ بولا: ” پانچ سو ، چھ سو کبھی آٹھ سو ۔۔۔۔۔۔ اب سردی بڑھے گی تو کام ڈبل ہوجائے گا”…….. میں نے خوشی کا اظہار کیا اور اُسے اس خودمختار کاروباری سیٹ اپ پر مبارکباد دی ۔۔۔۔۔۔

کہنے کا مقصد یہ ہے کہ جب ایک ان پڑھ دنیائے کاروبار کی الف ب سے نابلد وہ لڑکا کاروبار کی طرف جاسکتا ہے تو ہم پڑھے لکھے لوگ چند ہزار کی نوکریوں کے پیچھے بھاگنے کے بجائے اپنے چھوٹے کاروبار بنانے کا کیوں نہیں سوچتے؟ ایک لڑکا جو چھ ہزار ماہانہ کے لیے اتنا کچھ سہتا تھا محض اپنی بلند ہمتی کی وجہ سے اب تین گنا زیادہ کما رہا ہے ۔

ہم روایت پسندی کے بجائے نئی روایتیں ڈالنے والے کیوں نہیں؟ ۔۔۔۔ یہ بات سچ ہے کہ کاروبار کے لیے ابتدائی سرمائے کی ضرورت ہوتی ہے لیکن سرمائے سے زیادہ ارادہ ہمت اور جستجو اہم ہے۔۔۔۔۔۔۔ تعلیم یافتہ لوگوں کو اس طرف سوچنے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔ لیکن سب سے پہلے ” لوگ کیا کہیں گے؟” جیسی سوچ سے چھٹکارہ پانے کی ضرورت ہے۔۔۔۔۔
(آپ کو یہ تحریر پسند آئے تو ہر اس جاننے والے کو ضرور پڑھائیے گا جسے اس تحریر کی ضرورت ہے)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں