محبت

محبت !!

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر مریم خالد

تم نے کہا تھا، محبت میں لفظوں کی بہت ضرورت نہیں ہوتی۔ یہاں آنکھوں سے چھلکتے رنگ بولتے ہیں۔ یہاں ابرو کی ہلکی سی جنبش اک پوری داستان ہوا کرتی ہے۔ یہاں لبوں پہ اک موہوم سی مسکان بھی ابھرے تو اپنے دامنِ دل پہ مسرتوں کی اک پوری پھوار آن برستی ہے۔
سچ کہا تھا۔

یہ ایسی ہی نگری ہے۔ یہاں کہیں دور سے صبا کی اک ہلکی سی لہر بھی آئے تو دل کی کیاری میں لطافتوں کے پھول نرمی سے مسکرانے لگتے ہیں۔ کبھی یونہی تنہائی میں چاندنی راتوں کی کوئی مہکی سہانی یاد آئے تو پلکیں بھیگنے لگتی ہیں۔ محبت تو نام ہی اَن کہی باتوں کو خانۂ دل میں بسانے کا ہے۔ کسی کے جذبات کو آنکھوں سے نہیں، پلکوں سے ہی اچک لینے کا۔ کوئی خود بول کر ہی بتائے تو آپ سمجھیں، اسے محبت تھوڑا ہی کہتے ہیں؟
تم نے کہا تھا۔
میں نے مانا تھا۔
تم بھی تو مانو ناں!

رکو، میرے ساتھ چلو۔ ہاں وہیں، اسی کنویں کے پاس۔ جب وہاں وہ خوبصورت جوان آیا تھا۔ دیکھا تھا؟ کہتے ہیں کہ اسے چاند آہ بھر کر دیکھتا تھا۔ لوگ اپنے جانوروں کو پانی پلا رہے تھے۔ دور دو لڑکیاں کھڑی تھیں۔ وہ ان کے پاس گیا۔ پوچھنے پہ پتہ چلا وہ لوگوں کے جانے کا انتظار کر رہی ہیں، ان کے ابا بہت بوڑھے ہیں۔ اس نے ان کے جانوروں کو پانی پلا دیا اور وہ مشکور سی چل دیں۔ نوجوان چلتا ہوا سائے میں آن بیٹھا۔ ایک لڑکی پیچھے سے چلی آئی۔ آہستگی سے اٹھتے قدم، شرمائے ہوئے۔ کہنے لگی، "ابا جان آپ کو بلاتے ہیں تاکہ آپکو اس کام کی اجرت دے دیں۔”
یاد ہے؟

ہم نے تب دیکھا تھا جب ہم سورہ القصص کی مہکتی پگڈنڈیوں سے گزرے تھے۔ تم نے قرآن کے الفاظ سنے تھے کیا؟ ‌کہنے والے نے یہ نہیں کہا تھا، پھر ایک لڑکی آئی۔ اس نے کہا تھا، ان میں سے ایک لڑکی شرم و حیا کے ساتھ چلتی ہوئی آئی۔ سمجھ آئی؟

پھر ایک اور بار جب ہم دنیا کے جھمیلوں سے تنگ آ گئے تھے تب محبوب رب نے کہیں سے امید کی ٹھنڈی ہوا چلائی تھی۔ اس نے کہا تھا، جنت میں مقربین نگینوں سے مرصع تخت پہ بیٹھیں گے۔ تکیے لگا کر، آمنے سامنے۔ وہاں ابدی لڑکے چشمۂ جاری سے لبریز پیالے اور آبخورے اور ساغر لیے گھومتے ہوں گے۔ جسے پی کر نہ سر چکرائے گا، نہ عقل میں فتور آئے گا۔ ان کے آگے مرغوب پھل پیش کریں گے کہ جسے چاہیں چنیں۔ بھنے ہوئے پرندے، جسے چاہیں کھائیں۔ اور خوبصورت آنکھوں والی حوریں۔ حسیں ایسی گویا چھپا کے رکھے ہوئے موتی۔

ہم نے جونہی سنا تھا، غم ہوا ہوئے تھے۔ جنت کے کئی حسین خواب آنکھوں میں جگمگائے تھے۔
اور پھر سورۃ الصّٰفّٰت کی راہوں سے گزرتے ہوئے یہ الفاظ کانوں میں گونجے تھے کہ جنت میں ان کے پاس حوریں ہوں گی۔ جھکی ہوئی نظریں والی، خوبصورت آنکھوں والی۔ نازک ایسی جیسے انڈے کے چھلکے کے نیچے چھپی ہوئی جھلی۔

تم نے لحظہ بھر کو ٹھہر کر سوچا؟ یہ ”شرم و حیا سے چلتی ہوئی‌،” "چھپا کے رکھے ہوئے موتی،” "نازک ایسی جیسے انڈے کے نیچے چھپی ہوئی جھلی” جیسی باتوں کا کیا معنی؟ وہ کیا چیز ہے جس کو کہنے والا ڈھکے چھپے لفظوں میں بار بار دہراتا ہے۔ حیا، پارسائی، شرافت اور لطافت اسے صنفِ نازک کے لیے کس قدر محبوب ہے کہ جگہ جگہ رہ رہ کے ذکر کرتا ہے۔

تمہی نے تو کہا تھا کہ محبت اَن کہے الفاظ کو، چھپے ہوئے جذبات کو بھی سمجھتی ہے، محسوس کرتی ہے۔ محبوب کے جذبات کو پلکوں کی جنبش سے چن لینے والوں نے صاحبِ قرآن کے ایک ادا کیے ہوئے پورے لفظ پہ رک کر کچھ سوچا، کچھ سمجھا ہی نہیں؟ پھر مجھ سے یہ گلہ کیسا ہے کہ مجھے ‘دقیانوسیت اور فرسودہ‌ خیالات’ سے لگاؤ کیوں ہے؟ اگر واقعی اس ذاتِ حق سے دعوائے محبت ہے تو پھر اس بات کا شکوہ کیسا کہ قرآن میں کہاں لکھا ہے کہ لڑکیاں ‘بزدلی، بےڈھنگی، فرسودہ زمانے کی’ عادات اپنائے رکھیں۔ پھر جوانی کو ہوٹلوں، پارٹیوں اور تفریح گاہوں میں غیر رشتوں میں گھسیٹتے پھرنے کی ان عادتوں پہ اصرار کیونکر ہے؟ پھر حیا اور پارسائی کی دلربا ردا چھوڑ کر زمانے کی بےسمت ہواؤں کے ساتھ اڑنے کی مجھے یہ تلقین کیسی ہے؟ پھر مجھے موتی کی طرح سیپ کا تحفظ چھوڑ کر تتلی کی طرح انجان درختوں، راستوں اور فانی پھولوں سے لگ کر اپنا رنگ ختم کردینے کی نصیحتیں کیوں ہیں؟

تم نے تو کہا تھا، محبت ہونٹوں سے الفاظ نکلنے سے پہلے لبوں کے ہلکے سے خم سے ہی جذبات جان لینے کا نام ہے۔ پھر خود کو انہی کے مطابق ڈھال لینے کا نام ہے۔ تم نے کہا تھا محبت دل والوں کا کام ہے۔
تم نے کہا تھا۔
میں نے مانا تھا۔
تم بھی تو مانو ناں!!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں