نام کتاب ’تفہیم القرآن پر اعتراضات کی علمی کمزوریاں‘
مصنف : مولانا عامر عثمانی
مرتب سیدمطہرامروہی
صفحات: 233
قیمت: 270روپے
ناشر: الحرمین پبلی کیشنز، گاؤکدل ، سری نگر
تبصرہ نگار : ڈاکٹر امتیاز عبد القادر بارہمولہ ، کشمیر
’تفہیم القرآن‘ نے دنیاکے ایک خاصے حصے کو متاثر کیا ہے۔ نہ صرف جدید تعلیم یافتہ نوجوانوں کو بلکہ مدارس عربیہ کے فارغین کے ذہنوں کو بھی کھولا اور وسعت فکر و نظر سے روشناس کیا ہے۔ مغرب اور مغربی تہذیب سے مرعوب اور مستشرقین کی دسیسہ کاریوں کے شکار لوگوں کی مرعوبیت کو نہ صرف ختم کیا اور اعداء کے مکرو فریب کا پردہ چاک کیا ہے بلکہ انہیں اقدامی پوزیشن میں کھڑا کیا ہے۔
وہ کتابِ الٰہی جو صرف علماء کے ہاتھوں میں تھی اور جسے عوام محض تبرک اور ثواب کیلئے پڑھا کرتے تھے ، مولانا مودودی ؒ نے سادہ اور سہل ممتنع زبان میں ”تفہیم القرآن“ کی تالیف کرکے اسے عوام کے ہاتھوں میں پہنچا دیا اور انہیں اس قابل بنادیا کہ اس کتاب کے مدعا اور مفہوم کو کسی حد تک سمجھ سکے۔
کوئی بھی تفسیر اور انسانی کاوش خطا سے مبرا نہیں۔ مباحث میں اختلاف کیا جاسکتا ہے اور کیا جاتا ہے ۔ جدید و قدیم مفسرین کی طرح مولانا مودودی کے تفسیری مباحث سے اختلات و اتفاق ممکن ہے۔ اسلام نے انسان کو مناسب حدمیں اظہار رائے کا حق دیا ہے۔ لیکن تنقیدکی جگہ جب تنقیص ، خلش ، حسد و رقابت اور معاصرت لے لے تو یہ علماء کی شبیہ متاثر کرتی ہے اور مخالف کی خوبی بھی خامی نظر آجاتی ہے۔
زیر تبصرہ کتاب ”تفہیم القرآن پر اعتراضات کی علمی کمزوریاں“ دراصل ’ماہنامہ تجلی دیوبند‘ کے ان مضامین کا مجموعہ ہے جو اس رسالے کے مدیر مولانا عامر عثمانی مرحوم نے ’تفہیم القرآن‘ کے ناقدین کے بعض سوالوں کے جوابات اور تفسیری نکتوں کی وضاحت میں تحریر کئے تھے۔
مولاناسیدابوالاعلی مودودی خطاؤں اور لغزشوں سے مبرا نہیں۔ ان کے تسامحات اور غلطیوں کی نشاندہی کرنا بشرطیکہ وہ حق و انصاف کے تقاضوں کے عین مطابق ہو ، کوئی بری بات نہیں ۔ مگر حق یہ ہے کہ ان کے اکثر ناقدین نے عدل و انصاف کے تقاضوں کو ترک کرکے مخاصمت ، حسد و رقابت کی عینک لگا کر مولانا اور ان کی تحریروں پر ایسی یاوہ گوئی کی کہ شائستہ قاری کا سر شرم سے جھک جاتا ہے۔
علم نبوت کیا کوئی ایسی جائیداد ہے جس پر کسی خاندان یا گروہ یا قبیلے کے سوا دوسروں کا کوئی حق نہ ہو؟ زبان سے تو ظاہر ہے کہ کوئی بھی اس کی تائید نہیں کرے گا لیکن ذہینت ایسی بن چکی ہے کہ وارث علم نبی ﷺ اور ’عالم و علامہ‘ خواہ ہر زید، عمر، بکر کو مان لیا جائے مگر مودودی اور ان کے رفقاء اس صف میں نہیں آتے۔ حالانکہ اگر ایمان داری سے علم جانچنے کے اس پیمانے سے کام لیتے جو واقعی پیمانہ ہے تو آپ کو نظر آتا کہ جن حضرات کو وارثین علم نبوت، سمجھا جاتا ہے ان میں سے اکثر ایسے ہیں کہ ان کا یہ منصب ان کی خاندانی شہرت اور لوگوں کی خوش عقیدگی کے سوا کوئی شہادت نہیں رکھتا۔ انہوں نے عملاً اپنے کو’وارث علم نبوی ﷺ‘ ثابت کرنے کے عوض محض گدی نشین اور سجادہ نشین ثابت کیا ہے۔
اس کے بر خلاف مولانا مودودی نے اپنی مسلسل، مفصل اور مدلل تحریروں سے عملاً یہ ثابت کیا ہے کہ وہ محض رسمی اور روایتی مولوی نہیں بلکہ واقعتا علم دین ان کا اوڑھنا ، بچھونا ، ان کا سرمایہ زندگی ، ان کا محبوب دلدار، ان کا مرکز فکر و عمل ، ان کا سب کچھ ہے۔
انہوں نے اپنی تمام تر خداداد صلاحیتوں کو اور فکری قوتوں کو دین حنیف کے قدموں پر ڈال دیا۔ اجتہاد کرنے والا غلطی بھی کرتا ہے اور صحیح قدم بھی اُٹھاتا ہے۔ لاکھوں سطورپر مشتمل ان کی تصانیف میں کچھ خطائیں ہوں گی۔ وہ بشر تھے ، ان کے قلم نے ٹھوکر کھائی ہوگی لیکن اگر روز حساب اللہ جل شانہ کے فیصلے ہمارے ’حسن خیال‘ اور’حسن عقیدت‘کی بنیاد پر نہیں، بلکہ نامہ اعمال کی بنیاد پر ہونے ہیں، تو مجھے یقین ہے کہ مودودی کی تحریروں کا سارا انبار ان کی بعض اجتہادی غلطیوں اور فکر کی لغزشوں کی وجہ سے نذر آتش نہیں کر دیا جائے گا۔ بلکہ ان کے پورے حسن و قبح کو انصاف کی میزان پر تولا جائے گا اور باقی تمام ”وارثان علوم نبوت“ کے کارنامے بھی وہیں پر کھے جائینگے۔ خدا ہم سے مشورہ نہیں کرے گا کہ مودودی کو ملحد ٹھیراؤں یا مومن، دوزخ بھیجوں یا جنت۔ (ص137)
زیر تبصرہ کتاب چار طویل ابواب پر مشتمل ہے۔ جن میں ضمنی عناوین قائم کرکے علمی بحث کی گئی ہے۔ تفہیم القرآن کی سب سے بڑی خصوصیت یہ ہے کہ وہ ایک حرکی اور داعیانہ تفسیر ہے،جو قاری کو داعی ِحق بنانے کیلئے لکھی گئی ہے۔ اس کا یہی طرہ امتیاز مشرق ومغرب میں اسے مقبول کرگیا۔ مصنف رقمطراز ہیں:
’مبالغہ نہ ہوگا اگر ہم یہ دعویٰ کریں کہ دنیا کی کوئی تفسیرِ قرآن آج تک اتنے کم وقت میں اتنے کثیر ہاتھوں تک نہیں پہنچی ہے، جتنی قلیل مدت میں ’تفہیم القرآن‘ اتنے بے شمار ہاتھوں تک پہنچ گئی ہے ۔ اردو مطبوعات کی دنیا میں تیزتر کثرتِ اشاعت کا ریکارڑ قائم کرنے والی یہ تفسیر انشائے لطیف اور ادب عالیہ کا شاندار نمونہ ہونے کے باوجود بالکل عام فہم اور سلیس و شگفتہ بھی ہے۔“(ص 35)
’تفہم القرآن‘ کی اس مقبولیت کے پیش نظر مولانا عامر عثمانی ؒ نے عوامی مفاد کی خاطر ان اعتراضات کو پرکھا اور ان کی صحیح حیثیت متعین کی جواس تفسیرپر اُس زمانے میں کئے گئے تھے۔ مولانا عامر عثمانی بلند پایہ علمی شخصیت، زودنویس ادیب اور ناقد تھے ۔ دارالعلوم دیوبندسے فارغ تھے ۔ مولاناغیر جانبدار نہیں تھے بلکہ حق کے طرف دار تھے۔ جماعت اسلامی سے تنظیمی وابستگی تو نہ تھی البتہ حق کے تئیں ان کی غیرت نے انہیں خاموش نہیں رہنے دیا۔
مولانا نے علمی و استدلالی تجزیہ کیا ، صحیح و غلط کو مبرہن کرکے شکوک وشبہات کو رفع کیا۔ ان کا قلم بے لاگ تھا۔ ان کامطالعہ عمیق تھا۔ وہ جو کہتے تھے عقلی دلائل و براہین کے ساتھ کہتے تھے ۔ ایک ایک جزئیہ کی تائید یا تردید میں امہات الکتب کے حوالے پیش کرتے ۔ علمی مسائل میں ان کی گرفت اتنی سخت تھی کہ بقول ماہرالقادری، اہل قلم پسینہ پسینہ ہو جاتے۔
زیر تبصرہ کتاب میں مولانا احمد رضا بجنوری صاحب، مولانا ابوالقاسم دلاوری صاحب، مولوی عبدالروف رحمانی صاحب، مولانا انظر شاہ کشمیری صاحب کے اعتراضات کو رقم کرکے مولانا عامر عثمانی ؒ نے پورے شرح و بسط کے ساتھ مدلل جوابات دئے ہیں۔ مولانا انور شاہ کشمیری ؒ کے شاگرد مولانا سید احمد رضا نے مولانا مودودی ؒ کے حوالے سے لکھا تھا کہ وہ مساوات مرد و زن کے قائل ہیں اس کے جواب میں مولانا عامر عثمانی رقم طراز ہیں:
”محترم سید صاحب اگر واقعی زمین ہی پر رہتے ہیں تو کس قدر حیرت ناک ہے یہ بات کہ وہ مساوات مرد و زن کے معروف اصطلاحی مفہوم و مرادکو نہیں جانتے حالانکہ کوئی بھی عاقل ، بالغ مشکل ہی سے ہوگا جو نہ جانتا ہو کہ یہ نعرہ صرف سادہ سے لفظوں کا مجموعہ نہیں بلکہ ایک خاص ذہن اور طرز فکر اور تہذیب کا نمائندہ ہے اور پھر یہ بھی غالباً ہر پڑھا لکھا جانتا ہے کہ مولانا شبلی ؒ یا مولانا آزاد یا مولانا مودودی ؒ کوئی بھی اس ذہنیت کا حامی نہیں بلکہ مولانا مودودی کو تو اس ذہنیت کے صف اول کے دشمنوں میں شمار کیا جاتا ہے۔
ان کی شہرہ آفاق کتاب’پردہ‘ ہمارے دعوے پر شاہد عادل ہے اور ’تفہیم القرآن‘میں یا اور کسی تصنیف میں جہاں بھی انہیں موقع ملا ہے، انہوں نے کھل کر ڈٹ کر شد و مد کے ساتھ اس تہذیب و تمدن اور اس فکر و ذہن کے بخیے ادھیڑے ہیں، جس کی ترجمانی ”مردوزن“ کی مساوات کے نعرے سے ہوئی ہے۔“(ص 75)
مولانا نے’تفہیم القرآن‘ میں کئی مقامات پر اس پر بھی بحث کی ہے کہ آیا حضرت حواؑ کے کہنے پر حضر ت آدم ؑ سے لغزش ہوئی تھی یا حضرت آدم ؑ خود ہی شیطان کے بہکاوے میں آئے تھے یاشیطان نے ان دونوں کو بہکایا تھا۔ مولانا عامر عثمانیؔ نے’تفہیم القرآن‘ کی روشنی میں مرد کی قوامیت پر بھی بحث کی ہے۔(ص 104۔70)
کتاب کا دوسرا باب ”مسئلہ پیدائش آدم و حوا“ ہے۔ مولانا مودودی ؒ کی رائے پر تنقید کرتے ہوئے مولانا ابوالقاسم دلاوری کے مضمون جو کہ ماہنامہ ’دارالعلوم‘ دیوبند نومبر 1955ء میں شائع ہوا تھا، میں موصوف نے لکھا تھا کہ ’یہود و نصاریٰ اور اہل اسلام اس حقیقت پر متفق ہیں کہ ام البشر حضرت حوا ؑ، جناب آدم ؑ کی پسلی سے پیدا کی گئی تھیں ۔یہ امر تورات ، قرآن اور احادیث صحیح سے ثابت ہے۔۔۔۔‘
مولانا عامر عثمانیؒ نے ماہنامہ’تجلی‘مئی 1956ء میں مولانا دلاوری صاحب کی اس رائے پر سیرحاصل بحث کی ہے۔ انہوں نے بدلائل لکھا ہے کہ اگرچہ اکثر مفسرین اس کے قائل ہیں کہ حضرت حوا ؑ کی پیدائش حضرت آدم ؑ کی پسلی سے ہوئی ہے لیکن یہ چونکہ نصّ ِصریح سے ثابت نہیں ہے اس لئے جو شخص اس کے خلاف اپنی رائے رکھے ، اس پر ملحد اور زندیق کا فتویٰ صادر نہیں کیا جاسکتا۔
مولانا مودودی کے علاوہ اور مفسرین بھی اس کے قائل ہیں۔ مولانا عامرعثمانی مرحوم رقم طراز ہیں: ” ان عقل مندوں کو اتنا ہوش نہیں رہا کہ جس چار دیواری میں یہ رہتے ہیں ، اس کے باہر بھی دنیا بستی ہے۔ ان کا طریقہ یہ ہے کہ جن چند کتابوں کو انہوں نے پڑھ لیا بس سمجھے کہ اب کوئی کتاب دنیا میں باقی نہیں اور جو مفہوم انہوں نے سمجھ لیا، اس مفہوم کے سوا تمام مفہومات غلط اور باطل ہیں۔ذرا دیکھئے یہ دین و مذہب کے ٹھیکیدار کسے برملا ملحد و زندیق کہہ رہے ہیں،
علامہ شہیرمولانا ابولکلام آزاد کو، حضرت مولانا حفظ الرحمٰن صاحب،سیکریٹری جمعیتہ العلماء کو ، علام شیخ محمد عبدہ کو ، جناب محمد رشید رضا کو ، شارح بخاری امام قسطلانی کو ، شارح بخاری امام بدر الدین عینی کو اور نہ جانے کس کس کو، پورا پتہ آپ کو آگے چلے گا جب ہم ان کے دلائل کو کھنگا لیں گے اور اپنے دلائل پیش کریں گے۔۔۔‘(ص106)
مولوی عبدالروف رحمانی صاحب نے اس بات کو اپنے ایک مضمون میں زیر بحث لایا تھا جو کہ ماہنامہ’دارالعلوم‘ بابت ماہ اپریل 1956ء میں شائع ہوا تھا۔ اس میں مولوی صاحب نے دعویٰ کیا کہ مولانا مودودی ؒ کے نزدیک صحاح ستہ بلکہ جامع صحیح بخاری کی صحت بھی مستند و قابل اعتبار نہیں۔ اس بے بنیاد الزام کی تردید کیلئے مولانا عامر عثمانی کا بے لاگ قلم ’تجلی‘ ماہ مئی 56 ء کے صفحات پر استدلال کے ساتھ رواں دکھائی دیا تھا۔
اس علمی بحث کو بھی زیر تبصرہ کتاب میں جگہ ملی ہے۔ کتاب کے تیسرے باب کا عنوان ”تفہیم القرآن پر بعض متفرق اعتراضات“ ہے۔ تفہیم کے حوالے سے مولانا عامر عثمانی سے متفرق گیارہ سوالات پوچھے گئے تھے۔ مولانا نے ان استفسارات کو ’تجلی‘ کے مختلف شماروں میں جگہ دی تھی اور پھر تسلی بخش علمی جوابات تحریر کئے۔
کتاب کے چوتھے باب کاعنوان’مسئلہ ظہورِ مہدی‘ ہے۔ماہنامہ ’دارالعلوم‘دیوبند، (مارچ 1956ء)میں مولانا انظرشاہ کشمیری مرحوم کا مضمون ’مسئلہ ظہورمہدی حدیث کی روشنی میں‘ کے عنوان سے مولانامودودی کی ردمیں شائع ہوا تھا ۔ جس میں انہوں نے لکھا تھا کہ مولانامودودی خودمہدی بننے کاخواب دیکھ رہے تھے۔فضا سازگار نہیں پائی تو ظہور مہدی کے منکر ہوگئے ۔ مزیدبراں مولانا انظرشاہ صاحب نے جو’القاب وخطاب‘ اپنے مضمون میں مولانا مودودی کو دیے ، مولانا عامر عثمانی ؔ وہ سب نقل کرنے کے بعد لکھتے ہیں:۔
”میں سمجھتا ہوں جس مسلمان نے مولانامودودی کی سب نہیں تو بہت سی تحریریں پڑھی ہیں ، وہ خواہ ان کا کیسا ہی مخالف ہو لیکن اگر دیانت اور ضمیر کا حبہ بھی اس کے اندر باقی ہے ، تو انظرشاہ صاحب کے مذکورہ بالا ’ ارشاداتِ عالیہ ‘ پر وہ دانتوں میں انگلی دبا جائے گا۔۔۔“( ص186)
مولاناعامرعثمانی مرحوم نے ان احادیث کو جو ’ ظہور مہدی ‘ کے حوالے سے پیش کی جاتی ہیں اور مولانا انظر شاہ مرحوم نے بھی اپنے مضمون میں تحریر کی تھیں ، ان روایات کی اصل حقیقت کو واضح کرنے کی کوشش کی ہے اور مولانا مودودی پر لگائے گئے ، مولانا انظرشاہ مرحوم کے بے سر و پا الزامات کی تردید کرتے ہوئے شرح و بسط کے ساتھ مدلل گفتگو کی ہے ۔
مولانا سید ابوالاعلی مودودی کی تفسیر سے عالمانہ اختلاف ِرائے کا ہر شخص مجاز ہے لیکن ہر کہہ و مہہ کو اس وادی میں قدم رکھ کر علمی فضا کو مکدر نہیں کرنا چاہئے۔ کتاب میں جو مباحث موجود ہیں ، اس حوالے سے وادی کشمیر کے ہر دل عزیز محقق ڈاکٹر غلام قادر لون صاحب ( حدی پورہ ، بارہمولہ ) کتاب کے ’مقدمہ‘ میں رقم طراز ہیں کہ”زیر نظر کتاب کی اشاعت کا مقصد کسی قسم کی دل آزاری یا مسلمانوں میں افتراق و انتشار کو ہوا دینا نہیں ہے بلکہ اصل مقصد’ تفہیم القرآن ‘ کے بارے میں ان اشکالات کو دور کرنا ہے جو بعض حلقوں کی طرف سے اس گراں قدر تفسیر کے بارے میں عام قارئین میں عام کی جارہی ہے۔“(17)
کتاب کی کمپوزنگ میں کہیں خامیاں بھی راہ پا گئی ہیں ۔ حوالہ کوٹ کرتے ہوئے فانٹ(Font) میں کچھ فرق ہوناچاہئے تاکہ وہ سطور ممیز ہوتے لیکن ایک ہی فانٹ شروع سے آخر تک رکھا گیا ہے جو کہ تحریر کے حسن کو کم کر رہا ہے ۔ علاوہ ازیں کتاب کے آغاز میں مولف موصوف نے ’مولانامودودی اربابِ علم ودانش کی نظرمیں‘ کے عنوان کے تحت کچھ علماء کی آراء رقم کی ہے ، جن میں الشیخ محمد البشیر الابراہیمی ، علامہ یوسف القرضاوی ، مولاناعبدالماجد دریابادی ، مولانامناظر احسن گیلانی ، مولاناقاری محمدطیب ، حامدکمال الدین صاحب قابل ذکر ہیں لیکن حوالہ قلم انداز کیا ہے ۔ بہتر ہوتا کہ ہر ایک کی رائے کے ساتھ حوالہ بھی موجودہوتا۔
الحرمین پبلیکیشنز ، گاؤ کدل سرینگر کے مدیر قابل صد تبریک ہیں ۔ انہوں نے تاحال متعددعلمی کتابیں اپنے ادارے سے شائع کی ہیں۔زیرتبصرہ کتاب”تفیہم القرآن پر اعتراضات کی علمی کمزوریاں“کی اشاعت بھی اسی سلسلے کی ایک کڑی ہے۔ مصنف و ناشر کی گراں قدرخدمت ، خاص و عام کے مطالعہ کے قابل ہے۔ کتاب مستند حوالوں سے مؤثق ہے ۔ امیدہے علمی حلقوں میں اسے پزیرائی ملے گی او’ر تفہیم‘ و صاحب تفہیم سے بدظن ہوئے افرادبھی نیک نیتی کے ساتھ اس کتاب کاوسعت قلبی کے ساتھ مطالعہ کریں گے۔ [email protected]