حامد میر :
دو ہفتے قبل مولانا فضل الرحمان کے ایک قریبی ساتھی نے لاہور میں شہباز شریف سے ملاقات کی اور تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے امکانات کا جائزہ لیا۔ مولانا صاحب کے اُس ساتھی کا خیال تھا کہ تحریک عدم اعتماد صرف ایک ہی صورت میں کامیاب ہو سکتی ہے اور وہ یہ ہے کہ فوجی قیادت نیوٹرل رہے۔ شہباز شریف نے بتایا کہ فوجی قیادت نیوٹرل ہے۔
یہ سن کہ مولانا صاحب کے ساتھی نے کہا کہ پھر تو اپوزیشن کو وزیراعظم کے لیے اپنے امیدوار کا جلدی فیصلہ کر لینا چاہیے۔ شہباز شریف نے جواب میں کہا کہ نواز شریف صاحب تحریک عدم اعتماد کو کامیاب کرانے کے لیے تو تیار ہیں لیکن نئی حکومت کا حصہ بننے کے لیے تیار نہیں۔
مولانا صاحب کے ساتھی نے کہا کہ تحریک عدم اعتماد کی کامیابی کے لیے ضروری ہے کہ وزیراعظم کے لیے یا تو آپ امیدوار بنیں یا آصف علی زرداری امیدوار بنیں۔ شہباز شریف نے مسکراتے ہوئے کہا کہ ان کے خیال میں آصف علی زرداری زیادہ مناسب رہیں گے لیکن فیصلہ نواز شریف کریں گے۔
مولانا صاحب کے ساتھی نے شہباز شریف کے ساتھ اپنی گفتگو سے مجھے آگاہ کیا تو میں خاموش ہو گیا۔ انہوں نے پوچھا آپ کا کیا خیال ہے؟ خاکسار نے محتاط لہجے میں کہا کہ میرے خیال کو چھوڑیے یہ بتائیے کہ مولانا فضل الرحمان کا کیا خیال ہے؟ جواب ملا کہ مولانا اور شہباز شریف آج کل ایک ہی پیج پر ہیں۔ مولانا صاحب کے یہ ساتھی اگلے ہی روز واشنگٹن روانہ ہو گئے۔
میں نے پوچھا کہ آپ واشنگٹن کیا کرنے جا رہے ہیں؟ بتایا کہ انہیں امریکی کانگریس کے اہم اراکان سے ملاقاتیں کرنی ہیں۔ میں نے زیادہ کریدنا مناسب نہیں سمجھا اور اپنی حیرانی کو چھپاتے ہوئے موصوف سے اجازت لے لی۔ اس ملاقات کے چند روز بعد آصف علی زرداری اور مولانا فضل الرحمان کے ایک اور دوست لندن میں مسلم لیگ ن کی اعلیٰ قیادت کے ساتھ سر جوڑے بیٹھے تھے۔
مجھے ان کی لندن میں موجودگی کی اطلاع ملی تو ان سے پوچھا کہ ملاقات کیسی رہی؟ انہوں نے جواب میں بتایا کہ وہ تو فیملی کے ساتھ وقت گزارنے لندن آئے ہیں۔ دوسری طرف مسلم لیگ ن کے ذرائع نے بتایا کہ ان کے ساتھ وزیراعظم کے نئے نام پر تبادلہ خیال ہوا ہے اور ہم آصف علی زرداری کے نام پر راضی ہیں۔
ان صاحب نے آصف علی زرداری کو مسلم لیگ ن کی خواہش سے آگاہ کیا تو زرداری صاحب نے کہا کہ فیصلہ پیپلز پارٹی کی قیادت نے صلاح و مشورے سے کرنا ہے میں نے نہیں۔ پھر انہوں نے کہا کہ مسلم لیگ ن بڑی اپوزیشن پارٹی ہے تو بڑا عہدہ بھی اسے لینا چاہیے۔
پیامبر نے ڈائیلاگ بولا کہ ”پاکستان ڈوب رہا ہے، اسے بچا لیں۔‘‘ زرداری صاحب نے کہا کہ اللہ پاکستان کی خیر کرے لیکن سب کو مل جل کر پاکستان کو بچانا ہے۔ اس گفتگو کے دو دن کے بعد آصف علی زرداری اور بلاول لاہور پہنچے، جہاں انہون نے شہباز شریف، مریم نواز اور حمزہ شہباز کے ساتھ ملاقات کی۔ مسلم لیگ ن کے ذرائع دعویٰ کرتے ہیں کہ یہ ملاقات نواز شریف اور مولانا فضل الرحمان کی تائید سے ہوئی۔
آصف علی زرداری نے صورتحال کو سمجھنے کے لیے لاہور میں چودھری برادران سے ملاقات کی۔ چودھری برادران بھی محتاط تھے۔ ادھر ایم کیو ایم اور بلوچستان عوامی پارٹی نے بھی وفاقی حکومت کا ساتھ چھوڑنے کے اشارے دیے لیکن چودھری برادران کے قریبی ساتھی سینیٹر کامل علی آغا نے ایک ٹی وی انٹرویو میں کہا کہ اسٹیبلشمنٹ ابھی نیوٹرل نظر نہیں آ رہی۔
دوسرے الفاظ میں انہوں نے اعلان کر دیا کہ اسٹیبلشمنٹ بدستور عمران خان کے پیچھے کھڑی نظر آ رہی ہے اور اگر کسی کو تحریک عدم اعتماد میں ہماری حمایت درکار ہے تو ہمیں سگنل دلوائے۔ کامل علی آغا کے اس بیان نے ان صاحب کو پریشان کر دیا، جو لندن سے آصف علی زرداری کے لیے پیغام لائے تھے۔
انہوں نے چودھری پرویز الٰہی سے شکوہ کیا تو چودھری صاحب نے کہا کہ پاکستان کی سیاست کے فیصلے اب ٹی وی سکرین پر نہیں بلکہ ٹی وی سکرین کے پیچھے ہوں گے۔ کامل علی آغا کے تھرتھلی آمیز بیان کے اگلے ہی دن الیکشن کمیشن آف پاکستان نے عمران خان کے قریبی ساتھی سینیٹر فیصل واوڈا کو نااہل قرار دے دیا۔ الیکشن کمیشن کا فیصلہ بہت سخت تھا کیونکہ واوڈا صاحب سے کہا گیا کہ وہ بطور رکن پارلیمنٹ اپنی تمام تنخواہیں دو ماہ کے اندر اندر واپس کریں۔
یہ کوئی راز نہیں کہ فیصل واوڈا 2018ء کے الیکشن میں رکن قومی اسمبلی کیسے منتخب ہوئے تھے؟ ان کے خلاف الیکشن کمیشن میں کیس طویل عرصے سے زیر التوا تھا لیکن عام تاثر یہ تھا کہ طاقتور حلقوں کے ساتھ ان کے تعلقات کی وجہ سے الیکشن کمیشن کوئی فیصلہ سنانے سے گریز کرتا رہا۔
نو فروری کی صبح الیکشن کمیشن نے فیصلہ سنا دیا۔ تحریک انصاف کی قیادت کا خیال ہے کہ جس طرح عمر امین گنڈاپور کی نا اہلی کا فیصلہ عدالت سے معطل کرا دیا گیا ہے اسی طرح فیصل واوڈا کے خلاف فیصلہ بھی معطل ہو جائے گا۔ بہرحال چند دن میں فیصلہ ہو جائے گاکہ کامل علی آغا کا بیان صحیح ہے یا غلط؟
یہ حقیقت بھی ناقابل تردید ہے کہ پاکستانی سیاست کے اصل فیصلے اب ٹی وی سکرینوں پر نہیں ہوتے۔ اگر سب ٹھیک ہوتا تو عمران خان سارے کام چھوڑ کر جلسے شروع نہ کرتے۔ اندر کی خبر رکھنے والوں کا دعویٰ ہے کہ تحریک انصاف کے بائیسں ارکان قومی اسمبلی کی مسلم لیگ (ن) اور دو ارکان کی جے یو آئی (ف) کے ساتھ بات پکی ہو چکی ہے۔
یہ چوبیس ارکان تحریک عدم اعتماد میں عمران خان کے خلاف ووٹ دیں گے۔ مسلم لیگ (ن) اور دیگر اپوزیشن جماعتوں کو مسلم لیگ (ق) اور ایم کیو ایم کے ووٹوں کی ضرورت نہیں ہے لیکن ان جماعتوں کے ساتھ بات چیت کا مقصد عمران خان کو مزید کمزور کرنا ہے۔
یہ بھی سننے میں آ رہا ہے کہ عمران خان بھی ایک بڑا سرپرائز دے سکتے ہیں۔ جو صاحبان پاکستان کو بچانے کے لیے عمران خان کو ہٹانے کے لیے متحرک ہیں، ان سے کچھ سوالات پوچھے جا رہے ہیں۔ اہم ترین سوال یہ ہے کہ اگر عمران خان کے خلاف تحریک عدم اعتماد کامیاب ہو گئی تو کیا نیا وزیراعظم آئی ایم ایف کے ساتھ کیے گئے حالیہ معاہدے کو منسوخ کرے گا؟
کیا مہنگائی کم ہو جائے گی؟ کیا پارلیمنٹ آزاد ہو جائے گی؟ کیا میڈیا پر غیر اعلانیہ سنسرشپ ختم ہو جائے گی؟ کیا اعلیٰ عدلیہ کے ججوں کی کردار کُشی کرنے والوں کو بے نقاب کر کے سزا دی جائے گی؟ اگر ان سوالات کا کسی کے پاس کوئی واضح جواب نہیں تو پھر بتایا جائے کہ عمران خان کو ہٹا کر آپ کیا مقصد حاصل کرنا چاہتے ہیں؟
کہیں آپ عمران خان کو سیاسی شہید تو نہیں بنانے جا رہے؟ کہیں آپ انہیں اپنے لیے پہلے سے زیادہ خطرناک بنانے تو نہیں جا رہے؟ عمران خان کو ہٹانے کا مقصد کسی فرد کو فائدہ پہنچانا ہے یا واقعی پاکستان کی محبت میں مسلم لیگ (ن) استعفوں کا راگ چھوڑ کر تحریک عدم اعتماد کا کڑوا گھونٹ پینے پر راضی ہو گئی؟
( بشکریہ ڈی ڈبلیو )