باحجاب طالبات ، کرناٹک ، بھارت

بھارت میں حجاب کا درپیش معرکہ

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر رضی الاسلام ندوی

کرناٹک میں مسلم طالبات کے حجاب کا مسئلہ بہت گمبھیر صورت اختیار کرگیا ہے ۔ پوری ریاست میں جابجا حجاب کے حامیوں اور مخالفوں کے درمیان جھڑپیں ہوئی ہیں ، جن کے بعد تمام اسکول اور کالجز تین دن کے لیے بند کردیے گئے ہیں ۔

معاملہ ہائی کورٹ میں زیرِ سماعت ہے ۔ سالانہ امتحانات میں صرف دو ماہ رہ گئے ہیں ، اس لیے حجاب کے حامیوں نے حکومت سے درخواست کی تھی کہ اس مسئلے کو دو ماہ کے لیے ٹال دیا جائے اور مسلم لڑکیوں کو حجاب کے ساتھ اسکولوں میں جانے کی اجازت دی جائے ، لیکن حکومت نے ان کے مطالبے کو ٹھکرا دیا ۔

بالآخر کرناٹک ہائی کورٹ کو ترجیحی بنیاد پر اس کیس کی سماعت کرنی پڑی ۔ سماعت جاری ہے اور دیر سویر اس پر عدالت کا کوئی فیصلہ آجائے گا ، لیکن اِس موقع پر اس مسئلے کے بعض پہلوؤں پر سنجیدگی سے غور کرنا مناسب معلوم ہوتا ہے۔

(1) یہ مسئلہ بنیادی انسانی حقوق سے متعلق ہے ، جنھیں عالمی سطح پر تسلیم کیا گیا ہے ۔ دنیا کے تمام ممالک نے ‘بنیادی حقوق کے عالمی چارٹر’ پر دستخط کیے ہیں اور ان کی حفاظت کی ضمانت دی ہے ۔ کوئی کیا کھائے پیے؟ کیا پہنے؟ اس کی اسے آزادی حاصل ہے ۔ کسی دوسرے کو اس پر اپنی مرضی تھوپنے کا حق نہیں ہے لیکن یہ کیسے لوگ ہیں جو تہذیبی جارحیت کے عَلَم بردار ہیں ، جو دوسروں کو آزادی کے ساتھ جینے نہیں دینا چاہتے اور ان کو اپنی مرضی کا غلام بنانا چاہتے ہیں ۔ اس کے لیے انہیں ہر طرح کا جبر و تشدّد کرنے میں کوئی تامّل نہیں ہے۔

(2) ہندوستان مختلف مذاہب اور تہذیبوں کا گہوارہ ہے ۔ یہاں سب لوگ صدیوں سے پیار و محبت کے ساتھ مل جل کر رہتے آئے ہیں ۔ یہاں کی رواداری کی مثال بیان کی جاتی ہے ۔ اس کی تشبیہ ایک خوب صورت گل دستہ سے دی جاسکتی ہے ، جس میں رنگ برنگے پھول کِھلے ہوں لیکن کچھ عرصہ سے ایک طبقہ رواداری کا دشمن بنا ہوا ہے ۔ وہ تمام رنگوں کو ختم کرکے صرف ایک رنگ ( بھگوا رنگ) باقی رکھنا چاہتا ہے ۔ ان بے چاروں کو نہیں معلوم کہ یہ ملک کے مفاد میں نہیں ہے ۔ یہ خود کو ‘دیش بھگت’ کہتے ہیں ، لیکن حقیقت میں یہ ملک کے دشمن ہیں ۔ یہ وطن کی خوب صورتی کو ملیامیٹ کرنا چاہتے۔

(3) ملک میں تمام اقلیتوں کو اپنے اپنے مذہب پر عمل کی آزادی حاصل ہے ۔ یہ حق انہیں ملک کے دستور نے صراحت کے ساتھ دیا ہے ۔ یہ ان کا بنیادی دستوری حق ہے ۔ پھر مسلمانوں کو اس حق سے کیوں محروم کرنے کی کوشش کی جارہی ہے؟

حجاب اسلام کا ایک حکم ہے ، جو مسلم خواتین کو دیا گیا ہے ۔ انہیں تاکید کی گئی کہ وہ اپنے قابلِ ستر حصوں کو چھپائیں اور اپنے اوپر اپنی چادروں کے پلو لٹکالیا کریں۔ ( الأحزاب :59)
ان پر لازم کیا گیا ہے کہ اپنا بناؤ سنگھار نہ دکھائیں اور اپنے سینوں پر اپنی اوڑھنیوں کے آنچل ڈالے رکھا کریں۔ (النور :31)

جب ملک کے ہر شہری کو اس کے مذہب پر عمل کی آزادی حاصل ہے تو دیگر مذاہب کے ماننے والے اگر چاہیں تو اپنے مذہب پر عمل کریں ، انہیں کس نے روکا ہے؟ لیکن وہ مسلمانوں کو ان کے مذہب پر عمل کرنے سے کیوں روکنا چاہتے ہیں؟ ان کی آزادی میں کیوں روڑا بنتے ہیں؟

(4) کرناٹک کے اسکولوں اور کالجوں کی مسلم طالبات نے اس موقع پر جس عزیمت اور استقامت کا ثبوت دیا ہے وہ لائقِ صد ستائش ہے ۔ انھوں نے تعلیم حاصل کرنے پر اصرار کرتے ہوئے حجاب سے دست بردار نہ ہونے کا عزم ظاہر کیا ہے ۔ ان بہادر بیٹیوں کے حوصلوں کو ہزاروں سلام ! یقیناً ان کی جرأت رنگ لائے گی اور ان کی کوششیں سرخ رو ہوں گی ۔ انھیں اسی طرح اپنے موقف پر ڈٹے رہنا چاہیے ۔ خاص طور پر پی، ای، ایس کالج منڈیا (کرناٹک) کی طالبہ مُسکان خاں بنت محمد حسین خاں اس موقع پر ہیرو بن کر سامنے آئی ہے ۔ وہ اسے ہراساں کرنے والے شرپسندوں کے سامنے ذرا بھی نہیں گھبرائی اور پوری جرأت کے ساتھ ان کا مقابلہ کیا ۔ پیاری بیٹی ! تجھے سلام۔

(5) اللہ تعالیٰ کی سنّت ہے کہ وہ شر سے خیر کا پہلو نکالتا ہے ۔ ایک کالج کی مسلم طالبات کو حجاب سے روکنے کی کوشش کی گئی ، اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب یہ موضوع بین الاقوامی سطح پر زیرِ بحث ہے ۔ اس پر سنجیدہ مذاکرے ہورہے ہیں ، ٹی وی ڈبیٹ چل رہے ہیں ، گرما گرم بحثیں ہورہی ہے اور اس کی مخالفت اور حمایت میں دلائل دیے جارہے ہیں ۔

یہ بات خوش آئند ہے کہ ملک کے بہت سے دیانت دار غیر مسلم صحافی ، جن میں خاصی تعداد غیر مسلم خواتین صحافیوں کی ہے ، اس مسئلے پر اپنی آواز بلند کررہے ہیں ۔ وہ حجاب پہننے سے روکنے کو بنیادی انسانی حقوق کی پامالی قرار دے رہے ہیں اور بے جا طور پر ہنگامہ آرائی کرنے والوں کی کھلے الفاظ میں مذمّت کررہے ہیں۔

(6) مسلمانوں کو اس موقع سے فائدہ اٹھانے کی کوشش کرنی چاہیے اور اسے دعوتی مقصد کے لیے استعمال کرنا چاہیے ۔ وہ ایک طرف اپنا بنیادی دستوری حق حاصل کرنے کے لیے قانونی جدّوجہد کریں اور اس سلسلے میں دیگر مذاہب کے انصاف پسند لوگوں کا تعاون حاصل کریں ، دوسری طرف اسلامی تعلیمات کی معقولیت باشندگانِ ملک کے سامنے واضح کرنے کی کوشش کریں ۔ اس طریقہ سے وہ اپنا مذہبی فریضہ ادا کریں گے اور اپنے ‘خیرِ امّت’ ہونے کا ثبوت دیں گے۔

( جناب محمد رضی الاسلام ندوی ، بھارت کے معروف محقق اور مصنف ہیں۔)


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں