قدسیہ ملک ، شعبہ ابلاغ عامہ ، جامعہ کراچی
ایسا لگتاہے کہ جب سے ہم نے آنکھ کھولی تو اپنے آپ کو جہاد کشمیر میں مصروف عمل پایا ہے۔ بچپن میں ہمارے نزدیک زندگی کا واحد مقصد مجاہدانہ زندگی گزارنا تھا ۔ ہماری تربیت بھی ایسے ماحول میں ہوئی تھی کی ہم اپنی شہہ رگ کے بارے میں ایک منفی جملہ برداشت نا کر پاتے اور خوب روتے تھے ۔ ہم اپنی الماریوں پر ، کتابوں کاپیوں ، ڈائری پر ” کشمیر بنے گا پاکستان ” کے اسٹیکر لگا کر خوش ہونے والے بچے تھے۔
ہمارے گھر جو رسائل آتے ان میں میں1۔ جہاد کشمیر2 مجاہد3 ساتھی4نور5 ترجمان ا لقرآن وغیرہ تھے جن سے ہمارے جوان ہوتے جذبوں کومزیدمہمیز ملتی ۔ہم کشمیر میں مظالم اور بھارت کی ظالمانہ حاکمیت دیکھ کرخوب رو رو کر اللہ تعالیٰ سے دعائیں کرتے تھے ۔ پھر ہمارے محلے سے کچھ نوجوان لڑکے وادی کشمیر گئے ، کچھ وہاں شہید ہوگئے ، کچھ کو واپس آنا پڑا ۔
اس وقت ہم بہن بھائی فقط چند سالوں ہی کے تھے لیکن میرے بھائیوں اور ان جیسے کچھ اور چھوٹے بچوں کا جذبہ قابل دید ہواکرتا تھا۔جب شہداء کے لواحقین کے لئے بڑے پروگرامات رکھے جاتے تو اس میں بھائی خوب دل سوزی سے ترانے پڑھتے . کبھی ہم بھی اتنے درد سے ترانے پڑھتے کہ سامعین محفل پر رقت طاری ہوجایا کرتی تھی ۔
میراایک بھائی تو 3سال میں بمشکل پوری ایک روٹی اس لیے کھاتا کہ ایک مجاہد انکل نے اس سے کہا تھا کہ” جب تک ایک روٹی نہیں کھاؤ گے جہاد پر نہیں جاسکتے ” ۔اس وقت بھی آئے روز کشمیریوں کی شہادت کی خبریں آتیں ۔ کبھی کبھی تو مجاہدین ہمیں ملٹی میڈیا پر وہ سلائیڈز دکھایا کرتے کہ بھارتی افواج کس طرح دریاؤں میں کشمیریوں کی لاشیں بہادیتے ہیں ۔ کتنے بہادر مجاہدین تھے وہ اپنی جانوں کی پروا بھی نا کرتے اور صرف اللہ کے بھروسے پر ایل او سی عبور کر کے پاکستان آتے ۔ اس زمانے میں سلیم ناز بریلوی کے ترانے بہت مشہور تھے
"میرے بھیا تجھ کو دعائیں دیتی ہے تیری بہنا”، اے کاشمیر تیری جنت میں آئیں گے ایک دن ، لہو کے قطرے ، کشمیر جل رہا ہے ، وادی سروچمن کشمیر ، کشمیرکے شہیدو ، ارض کشمیر سے آتی ہے یہ دل سوز صدا ، کسی شب میں اچانک لوٹ آؤں گا ، تیری وادی وادی گھوموں اور ناجانے کتنے ایسے ترانے تھے جن کو سنتے گنگناتے ہم بڑے ہوئے ۔ لیکن افسوس ہمارے بڑوں کی اتنی کاوشوں کوششوں اور محنتوں کے باوجود کشمیر کو آزادی نامل سکی۔
اقوام متحدہ میں پاکستان کے سابق سفیر منیر اکرام ڈان نیوز میں کشمیر کی موجودہ صورتحال کے تناظر میں لکھتے ہیں کہ "مقبوضہ جموں و کشمیر میں جنگ لڑتے بھارت کو 70 برس بیت چکے ہیں۔ اس جنگ کو 7 لاکھ بھارتی فوجی لڑتے چلے آ رہے ہیں، جس کا مطلب یہ ہے کہ سویت یونین یا امریکی نیٹو فورسز نے افغانستان میں اگر اب تک سب سے بھاری فوج تعینات کی ہے تو وادی کشمیر میں اس سے 7 گنا زیادہ فوجی اہلکار تعینات ہیں۔
اسلام آباد میں اس خیال کو تقویت مل رہی ہے کہ بی جے پی کی جابرانہ حکمت عملی کا الٹا انہیں ہی نقصان اٹھانا ہوگا کیونکہ مقامی کشمیریوں کی بغاوت میں ایک بار پھر جان آچکی ہے کہ جسے زیر کرنا بہت ہی کٹھن ثابت ہوگا۔ اگر بھارت دھمکیوں تک محدود رہتا ہے یا پھر طاقت کا استعمال کرتا ہے تو پاکستان میں یہ تازہ دم اعتماد موجود ہے کہ یہ دہلی کو ، اگر ضرورت پڑی تو قابلِ اعتماد ایٹمی مزاحمت سے بھی ، بے اثر بنا سکتا ہے ۔
بھارت کا ایک عرصے سے جاری کشمیر پر قبضہ جلد افغان جنگ جیسی دلدل میں بدل جائے گا ، جو بھارت کی مسلح افواج کا اعتماد توڑ کر رکھ دے گا ، سیاسی تقسیم جنم دے گی اور معیشت کو ڈبو دے گی ۔ ماضی کی کلونیل طاقتوں کی ہی طرح بھارت پُرعزم عوامی بغاوت کے خلاف اپنی کمزور ہوتی جنگ بالآخر ہار جائے گا ۔ اس شکست میں 10 سے 20 برس لگ سکتے ہیں لیکن مشہور ہندو کش کے پہاڑوں جیسے سخت عوام بالآخر ہندو بھارت کے سامراجی سپنوں کو نیست و نابود کردیں گے”۔
کشمیر برصغیر پاک و ہند کا شمال مغربی علاقہ ہے۔ تاریخی طور پر کشمیر وہ وادی ہے جو ہمالیہ اور پیر پنجال کے پہاڑی سلسلوں کے درمیان میں واقع ہے ۔ آج کل کشمیر کافی بڑے علاقے کو سمجھا جاتا ہے جس میں وادی کشمیر ، جموں اور لداخ بھی شامل ہے۔ پاکستانی کشمیر کے علاقے پونچھ ، مظفرآباد ، جموں کے علاوہ گلگت اور بلتستان کے علاقے شامل ہیں ۔
گلگت اور بلتستان پر 1848ء میں کشمیر کے ڈوگرہ راجا نے فتح کیا تھا۔ اس سے پہلے یہ آزاد ریاستیں تھیں ۔ پاکستان بنتے وقت یہ علاقے کشمیر میں شامل تھے ۔ وادی کشمیر پہاڑوں کے دامن میں کئی دریاؤں سے زرخیز ہونے والی سرزمین ہے۔ یہ اپنے قدرتی حسن کے باعث زمین پر جنت تصور کی جاتی ہے ۔
اس وقت خطہ تنازعات کے باعث تین ممالک میں تقسیم ہے جس میں پاکستان شمال مغربی علاقے (شمالی علاقہ جات اور آزاد کشمیر)، بھارت وسطی اور مغربی علاقے (جموں و کشمیر اور لداخ ) اور چین شمال مشرقی علاقوں (اسکائی چن اور بالائے قراقرم علاقہ) کا انتظام سنبھالے ہوئے ہے۔ بھارت سیاچن گلیشیئر سمیت تمام بلند پہاڑوں پر جبکہ پاکستان نسبتا کم اونچے پہاڑوں پر قابض ہیں۔
کشمیر پاکستان اور بھارت کے درمیان میں تنازعے کی اہم ترین وجہ ہے کیونکہ بھارت سارے کشمیر کے وسائل لوٹنا چاہتا ہے اور پاکستان کشمیر کو آزادی دلوانا چاہتا ہے۔ پاکستان پورے خطہ کشمیر کو متنازع سمجھتا ہے ۔جبکہ برصغیر کی تقسیم سے پہلے کشمیر ایک الگ آزاد خود مختار ریاست تھی جس پر مہاراجا کی شخصی حکمرانی تھی . بھارت کا کہنا ہے کہ کشمیر اس کا اٹوٹ انگ ہے اور یہ متنازع علاقہ نہیں کیونکہ مہاراجا ہری سنگھ نے کشمیر بھارت سے الحاق کیا ہوا ہے جبکہ الحاق مشروط طور پر کیا گیا تھا .
اگر مہاراجا ایسا نہ کرتا تو بھارت اپنے قبائلیوں اور فوج کے ذریعے کشمیری ہندوں مذہب اور محب وطن کشمیریوں کے قتل اور عورتوں کی عزتیں لٹوا رہا تھا . پاکستان اور بھارت دونوں جوہری طاقتیں ہیں جو کشمیر کے آزادی اور خود مختاری کو بامسئلہ کشمیر دنیا کے خطرناک ترین علاقائی تنازعات میں سے ایک شمار کرتے ہیں۔
دونوں ممالک کشمیر پر تین جنگیں لڑچکے ہیں جن میں 1947ء کی جنگ ، 1965ء کی جنگ اور 1999ء کی کارگل جنگ شامل ہیں 1971 کی جنگ بنگال کی وجہ سے ہوئی تھی ۔ بھارت اس وقت خطہ کشمیر کے سب سے زیادہ حصے یعنی 101،387 مربع کلومیٹر پر جبکہ پاکستان 85،846 اور چین 37،555 مربع کلومیٹر پر قابض ہیں۔
آئیے اب ہم ذرا بھارت کے نام نہاد آرٹیکل 370 پر بھی نظر دوڑائیں کہ آخر یہ آرٹیکل 370 ہے کیا؟ بھارتی آئین کی دفعہ 370 ایک خصوصی دفعہ ہے جو ریاست ریاست جموں و کشمیر کو جداگانہ حیثیت دیتی ہے۔ یہ دفعہ ریاست جموں و کشمیر کو اپنا آئین بنانے اور اسے برقرار رکھنے کی آزادی دیتی ہے جبکہ زیادہ تر امور میں وفاقی آئین کے نفاذ کو جموں کشمیر میں ممنوع کرتی ہے۔
اس خصوصی دفعہ کے تحت دفاعی امور، مالیات، خارجہ امور وغیرہ کو چھوڑ کر کسی اور معاملے میں متحدہ مرکزی حکومت، مرکزی پارلیمان اور ریاستی حکومت کی توثیق و منظوری کے بغیر بھارتی قوانین کا نفاذ ریاست جموں و کشمیر میں نہیں کر سکتی۔ دفعہ 370 کے تحت ریاست جموں و کشمیر کو ایک خصوصی اور منفرد مقام حاصل ہے۔ بھارتی آئین کی جو دفعات و قوانین دیگر ریاستوں پر لاگو ہوتے ہیں وہ اس دفعہ کے تحت ریاست جموں کشمیر پر نافذ نہیں کیے جا سکتے ۔
اس دفعہ کے تحت ریاست جموں و کشمیر کے بہت سے بنیادی امور جن میں شہریوں کے لیے جائیداد ، شہریت اور بنیادی انسانی حقوق شامل ہیں ان کے قوانین عام بھارتی قوانین سے مختلف ہیں۔ مہاراجا ہری سنگھ کے 1927ء کے باشندگان ریاست قانون کو بھی محفوظ کرنے کی کوشش کی گئی ہے چنانچہ بھارت کا کوئی بھی عام شہری ریاست جموں و کشمیر کے اندر جائیداد نہیں خرید سکتا،
یہ امر صرف بھارت کے عام شہریوں کی حد تک ہی محدود نہیں ہے بلکہ بھارتی کارپوریشنز اور دیگر نجی اور سرکاری کمپنیاں بھی ریاست کے اندر بلا قانونی جواز جائیداد حاصل نہیں کر سکتی ہیں۔ اس قانون کے مطابق ریاست کے اندر رہائشی کالونیاں بنانے اور صنعتی کارخانے ، ڈیم اور دیگر کارخانے لگانے کے لیے ریاستی اراضی پر قبضہ نہیں کیا جا سکتا۔ کسی بھی قسم کے تغیرات کے لیے ریاست کے نمائندگان کی مرضی حاصل کرنا ضروری ہے جو منتخب اسمبلی کی شکل میں موجود ہوتے ہیں۔
آرٹیکل 35 اے ریاست جموں و کشمیر کے جداگانہ قومی و سیاسی تشخص کا مظہر اور ریاستی عوام کے معاشی، سماجی، ثقافتی اور سیاسی مفادات کا محافظ ہے ۔ بھارتی آئین میں موجود ہونے کے باوجودکشمیری اپنے ان حقوق سے بھی محروم ہیں ۔ صدارتی حکم نامے کے اس آرٹیکل 35A کے تحت ریاست جموں و کشمیر میں کوئی ایسا شخص جو ریاست کا مستقل باشندہ نہیں ہے وہ
(1) ریاست میں کوئی غیرمنقولہ جائیداد حاصل نہیں کر سکتا، (2) ریاست میں کوئی سرکاری ملازمت اختیار نہیں کر سکتا اور (3) کسی ایسے پیشہ وارانہ ادارے میں داخلہ نہیں لے سکتا جسے ریاستی حکومت چلاتی ہے اور نہ ہی ریاست کی طرف سے فراہم کردہ کوئی امداد یا وظیفہ حاصل کر سکتا ہے۔
یہ آرٹیکل نہ صرف ریاستی شہریوں کے لئے مخصوص حقوق و مراعات کا تعین کرتا ہے بلکہ اس اصول کا تعین بھی کرتا ہے کہ ریاست جموں و کشمیر کے اندر ریاستی شہریوں کو حاصل ان حقوق و مراعات اور غیر ریاستی شہریوں کے مقابلے میں حاصل امتیازی درجے کو بھارتی آئین کی کسی اور شق کو بنیاد بنا کر چیلنج نہیں کیا جا سکتا۔
ان تمام قوانین کے باوجود وادی کشمیر آج بھی لہورنگ ہے ۔ کرفیو کی وجہ سے وادی کے ہر فرد کا رابطہ بیرونی دنیا سے بالکل منقطع ہے۔ بھوک سے بلکتےمعصوم اور مظلوم لوگ نا جانے کس حال میں ہون گے ۔ ماؤں نے اپنے بھوک سے بلکتے سسکتے بچوں کو کیا کہہ کر چپ کرایا ہوگا۔ بہنوں کی لٹتی عزتیں بھائیوں کے کٹے پھٹے جسم ، مرحومین کے بے گور و کفن لاشے یہ فریاد کر رہے ہیں کہ
اے اللہ پاکستان سے کسی محمد بن قاسم کو بھیج ، یااللہ طارق بن زیاد جیسا نڈر جرنیل عطا فرما جو کشتیاں جلا کر اپنی فوج کو حکم دے کہ یا تو شہید ہو جاؤ یا غالب، یااللہ اس قوم کی مدد فرما جو 70 سالوں سے زائد اپنا مقدمہ لڑرہی ہے ۔ اسے شہہ رگ کہنے والے حکمران اس کے اوپر ظلم کرنے والوں سے جا ملے ہیں۔
مگر اے ظلم و ستم سہنے والے وادی کشمیر کے مظلوم لوگو! ہم یہ بات بتادیں کہ ہم پاکستانی قوم کے دل آج بھی آپ کے ساتھ دھڑکتے ہیں ۔ ہماری آنکھیں آپ کے لئے ترستی ہیں ۔ ہمارے دل آپ کی مظلومانہ شہادتوں پرچھلنی ہیں ۔ ہماری گھڑیاں ہی نہیں ہماری ہر خوشی آپ سے منسلک ہے ۔ وہ دن دور نہیں کہ میری وادی آزادی کی بہاریں دیکھےگی۔ ان شاء اللہ
اے وادی کشمیر کی روتی ہوئی ماؤں ، ماؤن کی جگر سوز جگر پاش صداؤں
اور دشت ستم گرمیں اے بہنوں کی رداؤں،بارود کی بوباس سےبوجھل سی فضاؤں
کچھ شک نہیں کہ جلد یہاں پھول کھلیں گےاس پار سے اس پار سے لوگ آن لیں گے
لاریب کہ اب سینہ صد چاک سلیں گے ، اس پار سےاس پار کے لوگ آن ملیں گے
3 پر “اے کاشمیر ! تیری جنت میں آئیں گے ایک دن” جوابات
Endia ka wohi haal hoga jo Soviet union ka hoa tha aur endia k mazalim ka hisaab liya jayega aur in sha Allah jihad e kashmir main shaheedon ka khoon zaroor rung layega.
بہت اچھی تحریر ماشاءاللہ
گزشتہ سال کشمیر جانے کا اتفاق ہوا دلنشین وادیاں اور سادہ لوگ ، آ پ کی تحریر پھر سے وہاں لے گئی ماشاءاللہ معلومات کے ساتھ ❤️ دل گرمانے والی تحریر ہے