کشمیری خواتین کا بھارت کے خلاف مظاہرہ پاکستانی پرچم کے ساتھ

کشمیری اب کیا سوچ رہے ہیں؟

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

مقبوضہ کشمیر سے تعلق رکھنے والی دو بہنوں سے گفتگو ، جو عکاس ہے کہ کشمیری قوم اب مسئلہ کشمیر، پاکستان اور پاکستانیوں کے بارے میں کیا جذبات رکھتی ہے؟

فرح مصباح

یہ ان دنوں کی بات ہے جب میری پوسٹنگ مختلف شہروں میں ہوا کرتی تھی۔ ایک دفعہ اتفاق سے آزاد کشمیر میں پوسٹنگ ہوئی، وہاں رہتے ہوئے نہ صرف مختلف لوگوں سے ملاقات کا موقع ملا بلکہ کشمیریوں کے مسائل کو نہایت قریب سے دیکھنے، جاننے اورجانچنے کا بھی موقع ملا۔ میری خواہش نے مجھے دو بہنوں سے ملوایا جن کا تعلق مقبوضہ کشمیر سے تھا۔

مجھے ان بہنوں سے ملاقات میں کافی کشش محسوس ہوئی۔ یہ دو بہنیں تھیں، آمنہ اور آسیہ۔ میں نے اْن سے اْن کے اپنے بارے میں اور وادی کے بارے میں پوچھا، انھوں نے جو کچھ بیان کیا، وہ کچھ اس طرح سے تھا:

”ہمارا تعلق دنیا کی جنت نظیر وادی کہلائے جانے والی وادی کشمیر سے ہے۔ جو یہاں آتا ہے، مسحور ہوجاتا ہے۔ یہاں سے ایک قطرہ پانی پینے والا امرت جل ہی بھول جاتا ہے۔ ہم اہلِ کشمیر کو پاکستان سے وہ نسبت ہے جو مچھلی کو پانی سے، اور جسم کو روح سے ہے۔ ہماری تحریکِ آزادی پاکستان سے جڑنے کے لیے ہے اور اسی سبب دشمن کو ہماری تحریک کھٹکتی ہے۔

وہ لوگ اس تحریک اور نظریہ آزادی ہند کو ختم کرنا چاہتے ہیں لیکن ہم اسی تحریک اور نظریے کے ساتھ ساتھ سانس لیتے ہیں۔ نہ جانے ہمارے کتنے عزیز رشتہ دار اسی جدوجہدآزادی میں دنیا سے رخصت ہو چکے ہیں اور کتنے ہی کٹے ہوئے ہاتھوں، پاؤں اور جسم پر زخموں کے ساتھ زندگی گزار رہے ہیں۔“

”پاکستانی عوام ہندوستانی فلموں سے بڑی متاثر ہے، انہیں لگتا ہے کہ ہندوستانی قیادت تو بڑی پر امن اور کشمیریوں کی خیر خواہ ہے۔ وہ ظالم نہیں ہے بلکہ خود مسئلہ کشمیر کے سبب مظلوم و محروم ہے۔ ان کی فلموں میں کشمیری نوجوانوں کو دہشت گرد دکھایا جاتا ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ جنوری1989سے لے کر دسمبر 2021 تک ہمارا جو جانی و مالی نقصان ہوا ہے، اس کے اعدادوشمار ہی ساری تصویر نہایت وضاحت کے ساتھ بیان کردیتے ہیں۔

کشمیر میڈیا سروس کے مطابق تین عشروں سے زائد اس عرصہ میں مجموعی طور پر شہید ہونے والے کشمیریوں کی تعداد پچانوے ہزار نو اڑتالیس ہے۔ اب تک جیلوں میں قید وبند کی صعوبتیں کاٹنے والے کشمیریوں کی تعداد ایک لاکھ چونسٹھ ہزار اٹھہتر ہے۔ بھارتی فوج کے ہاتھوں تباہ ہونے والے گھروں کی تعداد چار لاکھ اکاون ہزار110 ہے۔ اب تک چورانوے ہزار بائیس کشمیری خواتین کو بیوہ کردیاگیا، ایک لاکھ آٹھ سو ستاونبچے یتیم ہوئے، چوبیس ہزار چھ سو گیارہ کشمیری خواتین کے ساتھ اجتماعی زیادتی کی گئی۔“

”ایسا نہیں ہے کہ یہ کہانیاں صرف ہماری بیان کردہ ہیں بلکہ غیرجانبدار عالمی اداروں نے بھی تسلیم کیا ہے کہ کشمیری قوم کے ساتھ اسی طرح ظلم و ستم ہورہا ہے۔ بھارت کے سخت مظالم برداشت کرنا ہم لوگوں کے لیے معمول بن چکا ہے۔ تعلیم کے لیے بچوں کا بیگ اٹھا کر اسکول جانا، بیماروں کا بہ سلامت شفا خانے پہنچنا، شادی بیاہ میں خوش ہونا، یہ سب باتیں ہمارے لیے بھولی بسری داستان بن چکی ہیں۔“

”ہماری سانسیں اسی لئے آزادی کی تحریک کے ساتھ چلتی ہیں کہ ہم لوگ فطری طور پر پاکستان کے ساتھ رہنے کے لائق ہیں۔ کشمیری مائیں یہ سبق اپنے دودھ پیتے بچے کو ضرور پڑھاتی ہیں کہ ”بیٹا! تم مرد مجاہد ہو، اللہ کی راہ میں یا تو جان دینا یا سینہ سپر ہو کر دشمن کا سامنا کرنا لیکن گھبرانا نہیں، کیونکہ پاکستان ایک مسلمان ملک ہے اور ہمارا حق ہے کہ ہم پاکستانیوں کے ساتھ زندگی بسر کریں۔

کشمیری مائیں اپنے بچوں سے کہتی ہیں کہ تم اس جدوجہد میں ایک تاریخی انسان بن کر سامنے آؤ۔ تم خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کی تلوار کو ایک بار پھر اٹھاؤ۔ عمر فاروق رضی اللہ عنہ کی طرح قابض دشمن پر دبدبہ طاری کرو۔ حضرت علی رضی اللہ عنہ جیسی شجاعت کو ہمیشہ پیش نظر رکھو۔“

”ہمارے جوان لڑکے ہوں یا لڑکیاں، وہ فولاد سے زیادہ مضبوط ہوتے ہیں۔ ہمیں پھانسنے کی ہر چال دشمن کی ناکام ہوچکی ہے۔ ہمیں کسی چیز کی کمی نہیں ہے۔ ہمارے پاس اللہ تعالیٰ کا دیا ہوا سب کچھ ہے۔ ہاں اگر ضرورت ہے تو مسلمان ممالک کی حمایت کی ضرورت ہے۔ اپنے اپنوں کے ساتھ ہی اچھے لگتے ہیں۔“

میں نے کشمیری لڑکیوں سے پوچھا کہ آپ کے خیال میں آپ کی یہ تحریک کب تک نتیجہ خیر ہوگی؟ اِسے مزید کتنا عرصہ چاہیے ہوگا؟ آمنہ کو شاید میرا یہ سوال اچھا نہیں لگا۔ اس نے گھورتے ہوئے کہا: باجی! کیا یہ تحریک صرف ہماری ہے؟“

اس کے اس بے خطر جواب سے میں تو لب بستہ ہوگئی۔ اور معذرت چاہتے ہوئے کہا کہ اسی تحریکِ آزادی کی بات کر رہی ہوں۔ چوں کہ آپ بہنیں مجھ سے زیادہ جانتی ہیں، اس لیے زیادہ کہہ نہ پائی۔ دونوں بہنیں بڑی سلجھی ہوئی تھیں، جھٹ سے کہا کہ باجی! اللہ تعالیٰ درگزر کرنے والوں کو پسند کرتا ہے، آپ لوگوں کی تو ہر بڑی غلطی سے بھی ہم درگزر کر جاتے ہیں، لیکن کبھی دشمن کی طرف دوستی کا ہاتھ نہیں بڑھاتے۔

مجھے اس کا انداز اور جذبہ بہت پیارا لگااور دل دعا سے لبریز کہ اللہ! ہماری ان بہنوں اور بھائیوں کی کوششوں کو جلد بارآور فرما۔ میں نے اپنا سوال دوبارہ دہرایا تو آسیہ نے کہا کہ باجی! اس سوال کا جواب تو آپ زیادہ بہتر طریقے سے دے سکتی ہیں۔

یہ سن کر میں ششدر رہ گئی اور کہا:”میرے پاس اس کا کوئی جواب نہیں“۔ آمنہ نے کہا کہ باجی! بہت آسان سی بات ہے۔ آپ حضرات ہمیں دشمن سے چھڑانا چاہتے ہیں ناں! میں نے کہا کہ جی ہاں، بالکل۔ آمنہ نے کہا کہ بڑے دشمن کے چنگل سے چھڑانے کے لیے طاقت بھی ویسی ہونی چاہیے۔ اور آج کی دنیا میں سیاسی طاقت، معاشی طاقت، ملکوں کے درمیان باہمی تعلقات بہت بڑا سرمایہ ہیں۔ جب کہ آپ لوگ آپس کی سیاسی لڑائیوں سے ہی فارغ نہیں ہوتے۔ آپ لوگوں کے پاس اپنی بہتری کے لئے وقت نہیں، آپ ہمیں کیسے چھڑا سکو گے۔ اب تک آپ لوگ ہمارے لئے کچھ نہیں کرسکے، سبب بھی یہی ہے۔“

آمنہ کی یہ باتیں سن کر تو میرا دل تیزی سے دھک دھک کرنے لگا اور آنکھوں میں نمی آگئی۔ میں سوچتی رہی کہ واقعی ہمارے پاکستانی سیاست دان، یہاں کی حکومتیں مسئلہ کشمیر کے حل کے لئے، کشمیریوں کا مقدمہ دنیا بھر کے سامنے پیش کرنے کے لئے کچھ نہیں کر سکیں۔ سوائے زبانی جمع خرچ کے، یہ حکومتیں کوئی کارکردگی نہیں دکھا سکیں۔

کچھ دیر تک ماحول میں خاموشی چھائی رہی۔ اس خاموشی کو میں نے اپنے ان اشعار سے توڑنے کی ایک کوشش کی۔

کبھی تیری وادی سے جو گزر ہوگا
میری جنت! دل تیری نذر ہوگا
خونِ شمشیر اور بیڑیاں
ان سے پاک تیرا ہر اِک شہر ہوگا
دعائیں رنگ لائیں گی ایک دن
جموں وکشمیر پاک پرچم تلے ہوگا
شہ رگ سے جو خنجر کو ہٹائے گا
وہ مجاہد سر بکفن ہوگا
گر پوچھا کسی نے رشتہ کیا ہے تجھ سے
زبان پرجاری کلمہ اس وقت ہوگا
کسی ظالم کا تیر نہ چل پائے گا
تجھ پر رحمت کا سایہ سرفگن ہوگا۔


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں