عصری تعلیمی ادارے اور سند یافتہ جاہل

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

ڈاکٹر خولہ علوی

"آج ہماری کلاس میں پیپر کے دوران سب نے اپنے اپنے موبائل سے نقل cheating کی تھی۔ بلکہ تقریباً سب پیپروں میں ہی یہی کچھ ہو رہا ہے۔” مریم نے رات کو اہل خانہ کے ساتھ کھانا کھاتے ہوئے بتایا۔ وہ یونی ورسٹی میں بی ایس کیمسٹری کی طالبہ تھی۔

"کیا تم نے بھی نقل ماری تھی؟” بڑے بھائی احمد نے ہنستے ہوئے اسے چڑانے کے لیے پوچھا۔
"نہیں۔ میں سچ کہہ رہی ہوں کہ میں نے پوری امانت داری سے پیپر حل کیا ہے اور کوئی نقل وغیرہ نہیں کی۔” مریم نے پورے زور و شور سے یقین دہانی کروائی۔
"ممتحن (examiner) کتنے تھے اور cheating کے وقت کہاں تھے؟” ابو جان نے تاسف سے پوچھا۔
"دو ٹیچر نگرانی پر مامور تھے لیکن ان کا کیا پوچھنا! وہ تو اپنے اپنے موبائلز میں مگن تھے۔” مریم نے ہنستے ہوئے بتایا

"آپی کیا آپ نے کسی کو نقل سے منع نہیں کیا تھا؟ کسی کو سمجھایا نہیں تھا؟” چھوٹی بہن زینب نے پوچھا
"پیپر کے دوران میں صرف اپنے پیپر پر توجہ مرکوز رکھتی ہوں۔ تب میں دوسروں کو کیسے منع کر سکتی تھی؟
اور پھر سب لوگ سمجھدار ہیں، خوب اچھی طرح جانتے اور سمجھتے ہیں کہ نقل کرنا گناہ اور دھوکہ دہی ہے۔ پیپر شروع ہونے سے پہلے ٹیچرز بھی بتاتے اور یاد دہانی کرواتے ہیں۔ مگر طلبہ اسے اہمیت ہی نہیں دیتے۔

اور پھر یہاں جسے منع کردیں، وہی دشمن بن جاتا ہے۔ اور میں نے ابھی اسی کلاس کے ساتھ ایک اور سمسٹر بھی پڑھنا ہے۔” مریم نے افسردگی سے کہا۔

"اسی لیے تو ان اداروں سے فراغت حاصل کرنے والے ڈگری یافتہ ہوکر بھی بس پڑھے لکھے جاہل ہوتے ہیں۔” ابو جان نے تفکر سے کہا۔
” جی بالکل۔”سب نے تائید کی۔

"مریم بیٹا! اللہ تعالیٰ تمہیں امتحان میں کامیاب کرے اور تم حسب معمول بہترین نمبر اور GPA حاصل کرسکو۔”ابو جان نے اسے دعا دیتے ہوئے کہا۔
"اللہ تعالیٰ تمہیں دنیا و آخرت کے تمام امتحانات میں کامیابیاں عطا فرمائے۔” امی جان نے بھی اسے دعائیں دیں۔
"آمین۔”مریم نے بے ساختہ کہا اور باقی حاضرین محفل بھی اس کے ساتھ ہم آہنگ ہوگئے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

قابل فکر بات یہ ہے کہ اخر وہ کونسے حقائق اور محرکات (Factors) ہیں جن کی وجہ سے ایک انسان کے لیے بیک وقت بالکل متضاد الفاظ استعمال ہوتے ہیں۔” پڑھے لکھے یا سند یافتہ” بھی اور "جاہل” بھی۔ اور ان الفاظ کا استعمال عام بھی ہے خصوصاً بزرگوں کی زبان سے یہ الفاظ زیادہ سننے کو ملتے ہیں۔

اس سلسلے میں وقتاً فوقتاً کسی نہ کسی صاحب فہم وفراست سے بات ہوتی رہتی ہے۔ گزشتہ روز بھی چند پڑھے لکھے سمجھدار سن رسیدہ بزرگوں اور ٹیچرز سے بات چیت ہوئی۔ ایک بزرگ ٹیچر نے مختصر طور پر اور ایک جامع جملے میں اس مسئلے کا حل بتا دیا۔ وہ کہہ رہے تھے کہ
“ہماری نوجوان نسل صرف تعلیم یافتہ ہوتی ہے، تربیت یافتہ نہیں۔ ان کی تربیت نہ تو گھروں میں ہوتی ہے اور نہ ہی تعلیمی اداروں میں۔ اس وجہ سے بڑے بڑے سند یافتہ اور بڑے عہدوں پر فائز لوگ انتہائی بد اخلاق، بدکردار اور بد عنوان ثابت ہو رہے ہیں۔”

اور ان کا یہ تجزیہ بالکل درست معلوم ہوتا ہے ۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

کسی بھی قسم کے نظامِ تعلیم کی تشکیل کے وقت یہ سوال اولین ہوتا ہے کہ اس نظامِ تعلیم و تعلّم کے تحت آپ کس قسم کے افراد تیار کرنا چاہتے ہیں؟
آدمیت کا وہ کیا نقشہ آپ کے سامنے ہے جس کے مطابق آپ لوگوں کو تعلیم و تربیت دے کر ڈھالنا چاہتے ہیں؟
اس نظام تعلیم کے مقاصد اور اہداف کون کون سے ہیں؟ اس کا لائحہ عمل کیا ہے؟

اس حوالے سے اگر ہم پاکستان کے نظامِ تعلیم کا جائزہ لیں تو یہ افسوسناک حقیقت سامنے آتی ہے کہ ہم ابھی تک اپنے نظامِ تعلیم کے واضح خدو خال، اہداف و مقاصد اور اس کا لائحہ عمل طے کرنے میں ہی ناکام رہے ہیں۔ ہماری درس گاہیں آزادی کے بعد بھی ویسی ہی نسل تیار کر رہی ہیں جو دورِ غلامی میں انگریزوں کو مطلوب تھی۔ موجودہ معاشرے میں ہمیں جدید تعلیم یافتہ جاہل جابجا نظر آتے ہیں جو ان درسگاہوں کی بے بسی کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔

ہمارا موجودہ نظامِ تعلیم نہ تو ہمیں پوری طرح مسلمان بناتا ہے اور نہ ہی ہمیں پاکستانی رہنے دیتا ہے۔ ساری تعلیم ہی جب خدا پرستی اور معبودِ حقیقی کے تصور سے خالی اور مادیت پر مبنی ہو تو اسلامی عقائد ہمارے ذہنوں میں کیسے جڑ پکڑ سکتے ہیں؟

ہم تاریخ، جغرافیہ اور سائنسی علوم پڑھیں تو سارا کارخانہ ہستی کسی صانع اور مدبر کی حکمت کے بغیر ہی فقط فطرت کی اندھا دھند طاقت سے چلتا نظر آتا ہے۔ ایسی تعلیم پانے کے بعد ہمارے ذہن خود بخود الحاد کی جانب مائل ہو جاتے ہیں اور ہم روز بروز اسلام سے اور اپنے دین سے بعید تر ہوتے چلے جاتے ہیں۔

حکیم الامت علامہ محمد اقبال کا فرمان ہے کہ
؎  خوش تو ہیں ہم بھی جوانوں کی ترقی سے مگر
لب  خنداں سے نکل جاتی ہے فریاد بھی ساتھ
ہم  سمجھتے  تھے کہ لائے  گی فراغت  تعلیم
کیا  خبر  تھی  کہ چلا  آئے گا الحاد بھی ساتھ

انگریزوں کا دیا ہوا جو نظامِ تعلیم یہاں رائج ہے، اس کے زیرِ اثر پرورش پا کر جو نسلیں اٹھ رہی ہیں، وہ مغربی قوموں کے عیوب سے تو ماشاءاللہ پوری طرح آراستہ ہیں۔ مگر علم و آگاہی ، فکر و تدبر ، نظم و ضبط ، فرض شناسی و وفاداری اور مستقل مزاجی جیسی صفات سے بالکل تہی دامن ہیں جو کسی قوم کی تشکیل (Nation building)

اور مادی و روحانی تعمیر و ترقی کے لیے نہایت اہمیت کی حامل ہیں۔

ان درسگاہوں میں پڑھنے والا اعلیٰ سے اعلیٰ تعلیم یافتہ شخص رشوت لینے اور دینے، اقربا پروری، بد دیانتی، سمگلنگ اور بلیک مارکیٹنگ کرنے میں کوئی عار نہیں سمجھتا بلکہ جو شخص جتنا زیادہ تعلیم یافتہ ہے، وہ اتنا ہی زیادہ عوام کے حقوق پر ڈاکہ ڈالنے کی کوشش کرتا ہے۔ 

انصاف اور قانون کا خون کرنے والے، رشوت لینے والے، لوگوں کے حق پر ڈاکہ ڈالنے والے اور اپنے فرائض سے جی چرانے والے، شارٹ کٹ طریقہ اختیار کرکے کامیاب ہونے کی کوشش کرنے والے، ایک دو نہیں ہزاروں کی تعداد میں ہر شعبہ زندگی میں نظر آتے ہیں اور انسان بے اختیار یہ سوچنے پر مجبور ہو جاتا ہے کہ کیا آجکل کی درس گاہیں جدید تعلیم یافتہ جاہل پیدا کر رہی ہیں؟
اسی کے بارےمیں علامہ اقبال نے کہا ہے:
؎   یہ اہلِ  کلیسا  کا نظامِ   تعلیم
اک سازش ہے فقط دین و مروّت کے خلاف

ایک چینی کہاوت ہے کہ:
"اگر تمہارا منصوبہ سال بھر کے لیے ہے تو فصل کاشت کرو۔ دس سال کے لیے ہے تو درخت اگاؤ اور اگر تمہارا منصوبہ ساری زندگی کے لیے ہے تو اپنے افراد کو تعلیم دو۔”

اور ہم بد قسمتی سے وہ قوم ہیں جو ابھی تک اپنے لیے اپنا علیحدہ قومی اور ملی تقاضوں سے ہم آہنگ نظامِ تعلیم تشکیل نہیں دے سکے۔ ان درس گاہوں میں پڑھنے والوں کو توپ وبندوق سے سرنگوں کرنے کی ضرورت محسوس نہیں ہوتی بلکہ وہ انگریزوں سے بڑھ کر انگریزوں کے وفادار اور ملک و قوم کے دشمن ہوتے ہیں۔

اکبر الٰہ آبادی نے کیا خوب کہا ہےکہ:
؎  یوں قتل سے بچوں کے وہ بدنام نہ ہوتا
  افسوس کہ فرعون کو کالج کی نہ سوجھی

تعلیمی اداروں میں عموماً اساتذہ بچوں کی تربیت کو والدین کی ذمہ داری سمجھتے ہیں اور تقاضا کرتے ہیں کہ "والدین کو بچوں کی تربیت پر توجہ کرنی چاہیے”۔
دوسری طرف والدین فکر معاش میں اتنے مصروف ہوتے ہیں کہ وہ تربیت کی ذمہ داری اساتذہ کے سر ڈال کر بری الذمہ ہو جاتے ہیں۔
اگر مائیں جاب کرنے والی ہوں تو باپوں کے علاوہ ماؤں کو بھی اپنے بچوں کے ساتھ وقت گزارنے کا صحیح موقع نہیں ملتا تو تربیت پھر ثانوی چیز رہ جاتی ہے۔

آج کا طالب علم اس لیے بھی پڑھا لکھا جاہل ہے کہ اس کے اساتذہ کے پیشِ نظر تعلیم کے ذریعے اس کی تربیت کرنا اور اس کی ظاہری و باطنی شخصیت کو سنوارنا (character building) نہیں ہوتا بلکہ اسے صرف ڈگری دلوانا ہے۔
اسی لیے اقبال نے کہا ہے:
؎  شکایت ہے مجھے یا رب خداوندان مکتب سے
 سبق شاہیں بچوں کو دے رہے ہیں خاکبازی کا

سرکاری تعلیمی اداروں کے بہت سے اساتذہ ایسے بھی ہیں جو مفت میں صرف تنخواہیں وصول کرتے ہیں۔ نہ وہ بچوں کو پڑھاتے ہیں اور نہ اسکول آنے کی تکلیف گوارہ کرتے ہیں۔ بس تنخواہیں مسلسل وصول کرتے ہیں۔

بہت سے تعلیم یافتہ انجنیئرز عمارتوں، پلوں  اور سڑکوں کو ناقص تعمیری مواد سے تعمیر کرتے ہیں جس کی وجہ سے کئی بے گناہ لوگوں کی جانیں ضائع ہو جاتی ہیں۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکوں کی وجہ سے ٹرانسپورٹ کے اور دیگر کثیر مسائل جنم لیتے ہیں۔

کئی تعلیم یافتہ ڈاکٹرز جعلی ادویات کا کاروبار کرنے والے گروہوں کی پشت پناہی کرتے ہیں، اپنے بنائے ہوئے پرائیویٹ کلینکس میں مریضوں کو صحیح طرح چیک کرتےاور انتہائی مہنگی فیسیں وصول کرتے ہیں، اور مریضوں کو اپنی لیبارٹریز سے ٹیسٹ کروانے کے لیے کہتے ہیں۔ مہنگی دوائیاں، انجیکشن اور ڈرپس خریدنے کے لئے لکھ کر دیتے ہیں۔
 
پھر ایوان بالا اور ایوان زیریں میں پہنچنے والے منتخب تعلیم یافتہ نمائندے بدعنوانی، بد دیانتی اور کرپشن کو اپنا حق سمجھتے ہیں۔ وہ اپنی ذمہ داریاں تو ادا نہیں کرتے لیکن تنخواہیں اور مراعات پوری وصول کرتے ہیں ۔ عوام کی فلاح و بہبود کے لیے مختص فنڈز کا ایک بڑا حصہ ہڑپ کر جاتے ہیں۔

اس کے علاوہ بڑے سرکاری اور غیر سرکاری عہدوں پر مقرر پڑھے لکھے افسران باقی سب کو حقیر سمجھتے ہیں اور عوام سے تعلق یا ان کا کام اپنی شان کے خلاف سمجھتے ہیں۔
یہ سب لوگ انہی تعلیمی اداروں کے فارغ التحصیل اور ڈگری یافتہ ہوتے ہیں۔

پھر حصول تعلیم کے دوران پڑھنے والے طلبہ کے رویے اور نظریات بڑے عجیب و غریب، جانبدارانہ، تعصب پر مبنی اور غلط ہوتے ہیں۔

تاریخ کے اوراق پلٹ کر دیکھئے۔ جامعہ علی گڑھ، جامعہ ملیہ، دارالعلوم دیوبند جیسے اداروں کے طالب علموں نے ان عظیم درس گاہ سے تعلیم حاصل کر کے قیامِ پاکستان کی جدو جہد میں ایک تاریخ ساز کردار ادا کیا تھا۔ اور آج پاکستان کے تمام تعلیمی اداروں کی جانب نگاہ دوڑائیے تو تقریباً سب میدان سیاست اور غنڈہ گردی کے اکھاڑے بنے ہوئے ہیں۔

انہیں درس گاہوں سے سنار بنگلہ، سندھو دیش اور پختونستان کے نعرے لگتے رہے ہیں۔ انہی درس گاہوں میں اردو اور انگریزی میڈیم کے علیحدہ علیحدہ ذریعہ تعلیم اپنائے جاتے ہیں۔ اور مختلف طرح کے نصاب تعلیم پڑھائے جاتے ہیں۔
لیکن۔۔۔ پھر بھی اشرافیہ کی اولاد اور ان کی نسلیں اعلیٰ تعلیم کے حصول کے لیے باہر کے ممالک سے فیض یاب ہوتی ہیں۔

اس کے علاوہ تعلیمی اداروں میں داخلوں میں میرٹ کا قتل، انٹری ٹیسٹ کے ذریعے مختلف مسائل، اساتذہ کی بے حرمتی، معصوم طالب علموں کے خون کی ہولی اور قتل و تشدد کا رجحان، نقل اور دھوکہ دہی کے ذریعے امتحانات میں کامیابی حاصل کرنا وغیرہ انہی درس گاہوں میں پڑھے لکھے لوگوں کا طرہ امتیاز بن چکا ہے۔ ان حالات میں انسان کے دل ودماغ میں یہ کشمکش جاری رہتی ہے کہ
"کیا واقعی آج کل کی درس گاہیں سند یافتہ جاہل پیدا کر رہی ہیں؟”
                      ******************


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

4 پر “عصری تعلیمی ادارے اور سند یافتہ جاہل” جوابات

  1. رافعہ علی Avatar
    رافعہ علی

    Great and effective Article Masha Allah

  2. رافعہ علی Avatar
    رافعہ علی

    Great and effective Article
    Masha Allah

  3. رافعہ علی Avatar
    رافعہ علی

    مؤثر اور بامقصد آرٹیکل ہے ماشاء اللہ۔

  4. طہورا Avatar
    طہورا

    بہت عمدہ ،معلوماتی اور مؤثر آرٹیکل ہے ماشاءاللہ۔
    یہ حقیقت ہے کہ عصری تعلیمی اداروں کے بے مقصد نظام تعلیم میں بہت زیادہ اصلاح اور بہتری کی ضرورت ہے۔ بلکہ اصل بات تو یہ ہے کہ ان کا مقصد، لائحہ عمل اور طریقہ کار سب کچھ ہی صحیح طرح سے طے ہونے والا ہے۔