ڈاکٹر خولہ علوی
"مرضیہ! تم یونی ورسٹی کے اتنے ماڈرن اور ایڈوانس ماحول اور ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ میں پڑھتے ہوئے پردہ کیوں کرتی ہو؟
کیا لوگ تمہیں اس حلیے میں عجیب و غریب اور دقیانوسی (Back word) نہیں سمجھتے؟” ماس کمیونیکیشن ڈیپارٹمنٹ کی اس ظاہری چمکتی دمکتی شخصیت والی الٹرا ماڈرن لڑکی عفاف نے اپنی باپردہ کلاس فیلو مرضیہ سے نہایت چبھتے ہوئے لہجے میں سوال کیا۔
"میں اللہ تعالی کا حکم مانتے ہوئے اپنی مرضی سے پردہ کرتی ہوں۔ الحمد للّٰہ۔
اور لوگ مجھے دقیانوسی سمجھتے ہیں تو یہ ان کا معاملہ ہے۔
میں اپنی پسند کا لباس اختیار کرنے اور حجاب و نقاب کرنے کے لیے آزاد ہوں۔”مرضیہ نے نہایت اعتماد اور دھیمی سی مسکراہٹ سے جواب دیا۔
"یقیناً تمہارے والدین نے اس معاملے میں تم پر زبردستی کی ہوگی؟” عفاف نے ناک بھوں چڑھاتے ہوئے قیاس آرائی کی۔
"میں ایک عاقلہ و بالغہ آزاد اور خود مختار لڑکی ہوں اور میں نے اپنی مرضی سے اپنی پسند کا لباس اختیار کیا ہے۔ میں اپنی اس چوائس کا احترام کرتی اور اسے دل و جان سے قبول کرتی ہوں۔ میرا حجاب میری خوشی ہے۔”مرضیہ نے اسی اعتماد سے جواب دیا۔
"کیا پردہ تم جیسی ذہین اور پوزیشن ہولڈر لڑکی پر ظلم نہیں ہے؟ پردہ تو ترقی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔” عفاف کا اگلا سوال تھا۔ اس کے لہجے میں طنز تھا۔
"اسلام نے حجاب کا حکم دے کر عورت پر ظلم نہیں کیا بلکہ اس کی عصمت و عفت کی حفاظت کا بہترین بندوبست کیا ہے۔ حیادار لباس پہننا برا یا دقیانوسی ہونا نہیں ہوتا بلکہ یہ تو خیر و بھلائی کا سبب بنتا ہے۔ حجاب کی وجہ سے میں کتنے مختلف قسم کے مسائل سے بچی ہوئی ہوں۔ الحمد للّٰہ۔ اور میں کبھی بھی پردے کی وجہ سے تعلیمی میدان میں کسی کام یا سرگرمی (Activity) میں پیچھے نہیں رہی۔” مرضیہ نے مسکراتے ہوئے اپنی بات پر زور دے کر نہایت وقار سے کہا تو عفاف چند ثانیے اسی دیکھتی رہ گئی۔
” تمہیں یہاں یونیورسٹی اور کلاس میں بھی مشکلات برداشت کرنی پڑتی ہیں۔ اور پھر کل کو تمہیں جاب کون دے گا؟ سب لوگ جاب کے لیے ماڈرن اور Shinning لڑکیوں کو Appoint کرتے ہیں۔ جس کی ظاہری شخصیت جتنی شاندار ہوگی، اس کو اتنی بہتر جاب ملے گی۔” عفاف نے سنبھل کر طنزیہ لہجے میں مزید حاشیہ چڑھایا۔
"میں اگر ملک کے ایک بڑے اور معروف تعلیمی ادارے کی طالبہ ہوں تو بھی حیا و حجاب کا دامن تھامے رکھنا میرا فرض ہے۔ مختلف مشکلات میں بھی اپنی ناموس کے تحفظ کی خاطر حجاب کا دامن تھامے رکھنا میرے لیے ضروری ہے۔
باقی رہا جاب کا معاملہ تو اول تو ممکن ہے کہ میں جاب نہ کروں بلکہ اپنا کوئی پرائویٹ کام کرلوں ۔ اور اگر کسی کمپنی وغیرہ میں جاب کروں بھی تو جتنا رزق میرے مقدر میں ہوگا، مجھے مل کر رہے گا۔ "مرضیہ نے بھرپور جواب دےکر اسے گویا لاجواب کر دیا۔
"اوہ! سر کلاس میں آچکے ہیں۔”عفاف نے سر کو کلاس میں داخل ہوتے دیکھ کر جلدی سے کہا اور اپنی سیٹ کی طرف بڑھ گئی۔
"اوکے۔”مرضیہ بھی پوری طرح سر کی طرف متوجہ ہو گئی جو اب لیکچر شروع کرنے لگے تھے۔
مرضیہ کے ساتھ یہ پہلی دفعہ نہیں ہوا تھا۔ اس سے قبل بھی اس کے ساتھ کئی دفعہ ایسے ہو چکا تھا جب مختلف مقامات پر مختلف ذہنوں کی لڑکیاں اس سے پردے اور اس کی بہترین تعلیمی پوزیشن کے حوالے سے سوال اور بحث کرتی تھیں اور کئی دفعہ اس کے پردے اور حجاب کو تنقید کا نشانہ بھی بناتی تھیں۔ عام طور پر لوگ پردہ و حجاب کی عزت کرتے ہیں لیکن کئی لوگ اس کے بارے میں غلط نظریات اور غلط رویے رکھتے ہیں۔
اس کے ڈیپارٹمنٹ میں کئی لڑکیاں ماڈل گرلز اور نئی ابھرتی ہوئی اداکارئیں بھی تھیں جن کی کلاس میں حاضری عموماً برائے نام ہوتی تھی۔ لیکن اسے باحجاب ہونے کی بنا پر کسی قسم کا احساس کمتری (complex) نہیں تھا۔ اور پھر اس کی نمایاں تعلیمی کارکردگی نے بھی اسے ایک پر اعتماد اور باوقار شخصیت (personality) بنا رکھا تھا۔
کئی دفعہ لڑکوں اور اساتذہ کی طرف سے بھی پردے کے حوالے سے اسے تنقید اور کافی مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا تھا۔ لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے اپنی بات کو حکم ربی اور فرض سمجھ کر اس پر کوئی سمجھوتہ (compromise) کرنے کے لیے تیار نہیں تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیا و حجاب اسلام کے نہایت اہم احکامات ہیں۔ لیکن پریشان کن اور تکلیف دہ بات یہ ہے کہ اس حوالے سے اسلام کے اصول و قوانین اور ہماری معاشرتی اقدار و روایات میں بہت نمایاں فرق ہے۔
اللہ تعالیٰ کے نزدیک عورت بھی انسان ہے اور اتنی ہی محترم ہے جتنا مرد۔ لیکن ہمارے معاشرے میں مردوں کے طرزِ عمل کی وجہ سے خواتین کو کئی مواقع پر پردے کے حوالے سے مشکلات کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ نہ صرف مرد بلکہ بعض خواتین بھی باپردہ خواتین کے لیے مسائل کھڑے کرتی ہیں۔
عموماً اپنے آپ کو ماڈرن اور لبرل سمجھنے والے، دین بیزار اور مغربی ذہنیت کی حامل مرد وزن مسلمان خواتین کے پردے پر اعتراضات کرتے ہیں اور انہیں پریشان کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ انہیں طنزو تشنیع کرتے اور مذاق کا نشانہ بناتے ہیں۔ بلکہ وہ اپنے خاندان کی باپردہ خواتین کا بھی پردہ ختم کروا دینا چاہتے ہیں۔
ﷲ تعالی کے نزدیک اپنے احکامات اور اپنے صالح باحیا افراد کا مذاق اڑانا انتہائی ناپسندیدہ فعل ہے۔
مغربی تہذیب کی یلغار کے پیشِ نظر سوشل میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا مثلاً ڈراموں، فلموں، اشتہارات اور مارننگ شوز وغیرہ کے نام پر معاشرے میں شرم و حیا کے تصورکو ختم کرنے کی ناپاک کوششیں کسی سے پوشیدہ نہیں ہیں۔
والدین کا فرض ہے کہ وہ اپنے بچوں کی تربیت شروع سے ہی کریں۔ لڑکوں کو بچپن سے ہی شرم و حیا، نظریں جھکا کر رکھنے اور عزت و عصمت کی حفاظت کی تربیت دیں۔ بیٹیوں کو باحیا لباس پہنائیں، شرم و حیا اور عفت و پاکدامنی کا تحفظ کا احساس پیدا کریں اور بلوغت کے بعد انہیں پردہ کروائیں۔
لیکن افسوس! کہ اکثر والدین بیٹوں اور بیٹیوں کی اس نہج پر تربیت سے غفلت اختیار کرتے ہیں۔ نہ انہیں خود اس بات کا احساس ہوتا ہے اور نہ وہ اپنے بچوں کو اس کا عادی بناتے ہیں۔ گویا ان کے نزدیک یہ تربیت کا حصّہ ہی نہیں۔
اگر انسان خود شرم و حیا کے تقاضوں پر عمل پیرا ہو گا، تبھی اس کی اولاد بھی ان صفات کی حامل ہوگی کیونکہ والدین اولاد کے لیے رول ماڈل ہوتے ہیں۔ اور اولاد والدین کے عمل اور کردار سے سب سے زیادہ سیکھتی ہے۔
اگر انسان خود شرم و حیا کا خیال نہ رکھے تو فطری طور پر اولاد میں بھی بے حیائی پیدا ہونے کا خطرہ ہوتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ والدین حیا پر اثر انداز ہونے والے تمام عوامل سے دور رہیں، حیا کو اپنانے والے ہوں اور اپنے اسلامی تشخص اور روحِ ایمانی کی حفاظت کرنے والے ہوں، تبھی اولاد پر اس کے اثرات مرتب ہوں گے۔
اسی طرح معاشرے میں بھی حیا و حجاب کے احکامات اور چلن کو عام کرنا ضروری ہے۔
یہ بات حقیقت پر مبنی ہے کہ اگر عورت اپنی حدود میں رہے یعنی پردے کی پابند رہے اور مرد اپنی حدود میں رہے یعنی نظر جھکا کر رکھنے کا عادی ہو تو اس معاشرے میں بہت سی بھلائیاں، برکتیں اور رحمتیں نظر آتی ہیں۔
پھر جب کوئی لڑکا یا مرد تربیت کی کمی کے باعث اپنی نظروں کی حفاظت نہ کرے اور صنف نازک کو تانکتا جھانکتا رہے یا ان کو تنگ اور پریشان کرے، اور الٹا اپنی بد نظری اور گناہوں کا قصوروار عورت کے لباس یا اس کے طور اطوار کو قرار دے تو یہ بات نامناسب ہے اور تنقید کا باعث بنتی ہے۔
صرف ایک صنف کو ذمہ داریوں کی تلقین کرنے سے معاشرے میں کبھی حالات اور معاملات درست نہیں ہوتے، نہ معاشرہ اصلاح اوردرستگی کی جانب گامزن ہوتا ہے۔ دونوں اپنی ذمہ داریاں احسن طریقے سے ادا کریں تو صورت حال میں بہتری آئے گی۔
اللہ تعالیٰ نے سورۃ النور کے چوتھے رکوع میں بھی دونوں فریقوں کو اپنا اپنا کردار نبھانے کی تلقین کی ہے۔
پھر جو لوگ اپنے آپ کو روشن خیال سمجھتے ہیں اور پردے کو ترقی کی راہ میں رکاوٹ تصور کرتے ہیں کہ "مسلمانوں کی تعلیمی اور معاشی پسماندگی کا سبب مسلم خواتین کا پردہ اور مردوں کا دین سے لگاؤ اور دینی شعائر کو اپنانا ہے۔” تو ان کو اپنی یہ غلط فہمی دور کرنی چاہیے اور ان کو حجاب پر تنقید سے بھی بچنا چاہیے۔ کیونکہ مسلمان ہو کر اسلامی احکامات کا انکار یا ان کا مذاق اڑانا ان کو زیب نہیں دیتا۔ یہ اللہ تعالیٰ کے نزدیک بہت ناپسندیدہ رویہ اور کبیرہ گناہ ہے۔
اللہ تعالیٰ مسلمان عورتوں کو خواتین جنت حضرت خدیجہ اور فاطمہؓ الزہراء رضی اللہ عنہما کے نقش قدم پر چلائے۔ اور انہیں حیا و حجاب کو اپنانے اور اس پر استقامت کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین ثم آمین