شمس الدین امجد
2013ء کے الیکشن ہو چکے تھے، جماعت نے 1970ء کے بعد پہلی دفعہ اپنے نام اور نشان سے الیکشن لڑا تھا۔ رزلٹ ظاہر ہے حسب توقع نہیں تھا۔
سید منور حسن صاحبؒ کی امارت کے آخری زمانے میں جماعت کے اندرونی حلقوں میں ایک بار پھر یہ بحث زوروں پر تھی کہ سیاست کے لیے الگ پلیٹ فارم بنایا جانا چاہیے۔ جماعت جب ایک دفعہ پھر اپنے نام و نشان کی طرف پلٹ رہی تھی تو یہ ایک درست موقع بھی تھا، کچھ سرویز بھی اندرونی و بیرونی طور پر اس حوالے سے ہوئے۔
اس دوران ہی انتخابات آ پہنچے اور نتیجہ جیسا کہ گزارش کی کہ حسب توقع نہیں تھا، مگر نتیجہ جو بھی رہا، سید صاحب مجالس میں الیکشن سے پہلے ہی فرماتے تھے کہ یہ الیکشن نتیجے سے ماورا ہے۔ اس سے جماعت کو اس کی حقیقی انتخابی پوزیشن معلوم ہوگی، اس کو سامنے رکھتے ہوئے ہم ٹھیک حکمت عملی اختیار کر سکے تو یہ درست سمت میں پہلا قدم ہوگا۔
ان انتخابات کے فوری بعد سید منور حسنؒ صاحب نے ترجمان القرآن کےلیے اشارات خاکسار کو کئی دنوں میں املا کروائے تھے۔ اس دوران نکات پر ان سے تبادلہ خیال بھی جاری رہا۔ یہ اشارات جون 2013ء کے ترجمان القرآن میں شائع ہوئے تھے، اس میں ملک کے سیاسی نظام کی خامیوں کے جائزے کے ساتھ جماعت کی اندرونی کمزوریوں کی نشان دہی بھی ہے، اور آگے بڑھنے کا لائحہ عمل بھی۔ آپ پڑھیں گے تو جانیں گے کہ جماعت میں اپنی کمزوریوں کو قالین کے نیچے نہیں چھپایا جاتا بلکہ امیر میں بھی اس کے واضح طور پر اعتراف کی جرات موجود ہوتی ہے۔
سید صاحبؒ کے ذہن میں سیاسی طور پر آگے بڑھنے کے حوالے سے تین نکاتی ایک خاکہ تھا۔
1- جماعت اسلامی اسلامک فرنٹ کے تجربے کو دہرائے مگر ان کے خیال میں یہ تجربہ ہو کر ناکام ہو گیا تو اب دودھ کے جلے چھاچھ بھی پھونک کر پینا چاہتے ہیں۔ مگر ایک دلچسپ امر کی جانب توجہ دلائی کہ آج جب ہمیں طعنہ دیا جاتا ہے کہ جماعت، اسلامی تحریکات سے پیچھے رہ گئی، اور وجہ اس کی الگ سیاسی ونگ بتائی جاتی ہے۔ تو اس حقیقت کو بھلا دیا جاتا ہے کہ جماعت نے پاکستان میں ان اسلامی تحریکات سے تقریبا دو دہائی پہلے تجربہ کر لیا تھا، جب کسی دوسری تحریک کو اس کا خیال تک نہیں آیا تھا۔
2- الخدمت فاؤنڈیشن کی طرح کا ایک سیٹ اپ، جس کا انتظام و انصرام تنظیم سے الگ ہو۔ ایک مرکزی نائب امیر اس کی قیادت کرے۔
3- اگر پہلی دو صورتیں ممکن نہ ہوں تو ہر صوبے میں جماعت کے کم از کم تین نمایاں نام ہوں جو جماعت سے زیادہ اس صوبے کے عوام کی پہچان بن جائیں۔
یہ بات تو سامنے ہے کہ وجوہات جو بھی رہی ہوں، نظریاتی کامیابی کے باوجود جماعت سیاسی میدان میں نمایاں کامیابی حاصل نہیں کر سکی۔ اور طویل عرصے سے مختلف تجربات اسی لیے ہوتے رہے ہیں کہ آگے بڑھنے کی کوئی سبیل ہو۔ پھر قیادت چاہے جو بھی رہی ہو، اس سے زیادہ کس کی خواہش ہوگی کہ اس کا سہرا اسی کے سر بندھے۔
2018ء کے انتخابات جیسا کہ سب جانتے ہیں کہ ایم ایم اے کے پلیٹ فارم سے لڑے گئے، مگر نتیجہ وہی ڈھاک کے تین پات ہی رہا۔ اس کے بعد پھر مشاورت ، تجزیے ، سروے ، جائزے کا ایک طویل عمل ہوا ، اور پھر بالآخر ضلع سے مرکزی مجلس شوری تک مشاورت کے بعد سب اس نتیجے پر پہنچے کہ جماعت اپنے نام ، اپنے جھنڈے اور اپنے انتخابی نشان کے ساتھ جدوجہد کرے گی۔ اس پر اب جماعت کے حلقوں میں کارکنان سے ذمہ داران تک تقریبا سوفیصد یکسوئی ہے۔ اس یکسوئی کے نتیجے میں وہ سیاسی ، احتجاجی ، پارلیمانی تحرک ہے جو کراچی سے گوادر، قومی اسمبلی سے سینٹ اور سندھ اسمبلی سے پختونخوا اسمبلی تک نظر آ رہا ہے۔
یہ اگرچہ اجتماعی سوچ کا نتیجہ ہے لیکن اس سے انکار کیسے کیا جا سکتا ہے کہ امیر جماعت کی اشیرباد یا ویژن کے بغیر یہ ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔ اپنی تمام تر شورائیت کے ساتھ دستور جماعت کے مطابق امیر جماعت کی حیثیت اصل ہے، باقی تمام تر ذمہ داران کی حیثیت ان کے معاونین کی ہے، اور وہ سب مرکزی مجلس شوری اور مرکز جماعت کے منصوبے اور پالیسی کے مطابق چلنے کے پابند ہیں۔
اس موقع پر اگر کوئی یہ سمجھے کہ یہ سب خود رو ہے، امیر جماعت کی اشیرباد اور تعاون کے بغیر ہے، تو اسے ایسا سمجھنے سے کوئی روک تو نہیں سکتا ہے، مگر ایسا نہیں ہے۔ گوادر کے مچھیروں کے پاس خود سراج الحق کئی سالوں سے جا رہے ہیں، غالبا 2017ء میں تو تین دن ان کے ساتھ گزارے تھے۔ کراچی، لاہور، پشاور تمام کی شوراؤں کے ساتھ ان کی گفتگو کا محور یہی ہوتا ہے کہ آگے بڑھیں اور زمام کار سنبھال لیں۔
ایک مشہور جملہ ان کا یاد آ رہا ہے کہ آپ صرف لاہور یا کراچی میں جماعت والوں کے امیر نہیں ہیں بلکہ پورا شہر آپ کی ذمہ داری ہے۔ اور ایسا صرف یہاں نہیں ہوا، سراج الحق صاحب کے دور میں دستوری طور پر کئی اہم تبدیلیاں ہوئی ہیں جس میں وہ بطور امیر اپنے اختیار دستبردار ہوئے ہیں،
مثلا ایک اہم فیصلہ مرکزی مجلس عاملہ کا ہے، جو پہلے امیر جماعت اپنی صوابدید سے چنتے کرتے تھے۔ امیر جماعت نے دستوری ترمیم کے ذریعے اس میں آدھے ارکان کے انتخاب کا حق مرکزی مجلس شوریٰ کو دے دیا ہے۔ یا یہ کہ پہلی دفعہ مرکزی مجلس شوری میں 10 منتخب خواتین اراکین آئی ہیں جن کے پاس اب ووٹ کا حق ہے۔ ایسے کئی دیگر اقدامات گنوائے جا سکتے ہیں جس میں انھوں نے دائرے کی وسعت کےلیے اقدامات اٹھائے ہیں۔
جماعت کے متعلقین تو سب جانتے ہیں کہ جماعت میں سالانہ منصوبہ عمل بنتا ہے، اس میں مہمات طے کی جاتی ہیں، اہداف مقرر ہوتے ہیں، اسی کو سامنے رکھ کر صوبوں اور اضلاع میں منصوبہ عمل بنتا ہے۔ اس کے مطابق تنظیم چلتی ہے۔ سال کے آخر میں ضلع سے مرکز تک اس منصوبہ عمل کے مطابق کام کا جائزہ ہوتا ہے، رپورٹ بنتی ہے۔
اب یہ الگ معاملہ ہے کہ یہ سارا کام خالصتا تنظیمی سطح پر ہوتا ہے، بیرون میں اس کی تشہیر نہیں ہوتی تو باہر کے لوگوں کو سب اچانک اور بغیر سوچا سمجھا لگتا ہے۔ پانامہ لیکس پر بھی اشاروں کی چہ مگوئیاں ہوئی تھیں مگر جماعت کے منصوبہ عمل میں کرپشن کے خلاف تحریک طے شدہ تھی جبکہ پانامہ کا کہیں نام بھی نہیں تھا۔ یہی معاملہ مہنگائی و بےروزگاری کے خلاف مہم کا ہے۔ یہاں وہاں حق دو مہم کا ہے۔
101 دھرنے کا اعلان ممکن ہے بعض کے لیے اچنبھے کا باعث ہو، مگر اس سے کئی ماہ قبل تمام اضلاع کو یہ مرکز سے یہ ہدایت جا چکی ہے کہ حق دو کراچی کو اور حق دو گوادر کو تمام اضلاع اس طرح کی مہمات ڈیزائن کریں، اپنے ضلع کی آواز بنیں۔ مختلف مقامات پر اس کا آغاز بھی ہوا، جیسے اب ” جاگ میرے لاہور ” کے عنوان سے مہم چل رہی ہے۔ پشاور میں بھی اس طرح کی مہم ڈیزائن ہوئی مگر درمیان میں بلدیاتی انتخابات کا مرحلہ آ گیا۔ دیگر کئی اضلاع میں بھی اس کا آغاز ہوا ہے۔
اب معاملہ یہ ہے کہ مہنگائی و بےروزگاری تو ہر پاکستانی کا مسئلہ ہے، سب حکومت کے ساتھ اپوزیشن کو بھی کوس رہے ہیں بلکہ شہباز شریف کو تو وفاقی وزیر اپوزیشن امور کی پھبتی کسی جاتی ہے۔ حکومت ہو یا اپوزیشن، عوام کی آواز بننے اور مسائل پر جدوجہد کرنے کے بجائے ڈیل اور ڈھیل میں الجھے ہوئے ہیں۔ جماعت اسلامی اس کے مقابلے میں حکومت کا حصہ ہے نہ اپوزیشن، پوری یکسوئی کے ساتھ اپنے پلیٹ فارم سے جدوجہد کر رہی ہے، عوام کی آواز بن رہی ہے۔
101 دھرنوں کا اعلان اسی کا حصہ ہے، اور جماعت کے منصوبہ عمل اور حکمت عملی کے مطابق ہے۔ یہ حکمت عملی اگر کراچی سے پشاور تک کامیاب ہوتی ہے تو اس کے پیچھے ایک خاکہ ہے جس میں رنگ بھرا جا رہا ہے، اور اگر اس کی بنیاد پر سیاسی میدان میں کامیابی ملتی ہے تو امیر جماعت کی سربراہی میں یہ ایک درست حکمت عملی ہے جس پر عمل کیا جا رہا ہے۔
صوبوں میں اور اضلاع میں قیادت کا ابھرنا کسی امیر کی کمزوری ، بیانیے کی عدم موجودگی یا تقریر کے فن سے ناآشنائی کا نتیجہ نہیں بلکہ یہ سید منور حسن کا وہ خواب ہے جو ایک سوچی سمجھی حکمت عملی کے مطابق عملا تعبیر پا رہا ہے۔ صوبوں میں اور اضلاع میں قیادت ابھر رہی ہے جو جماعت کے ساتھ صوبے اور اپنے شہر و ضلع کی پہچان بن رہی ہے۔ پوری تنظیم نے اس وژن کے مطابق کما حقہ عمل کیا تو ان شاء اللہ اس کے بہت اچھے اثرات سیاسی طور پر بھی سامنے آئیں گے۔
البتہ ایک معاملہ جماعت کے ساتھ اپنی نوعیت میں الگ سا ہے، اور جس کا سامنا سید مودودیؒ سے سراج الحق تک ہر کسی کو رہا ہے۔ یہ کہ کھانا کھاتے ہو تو منہ کیوں ہلتا ہے؟ جماعت کچھ کر رہی ہو تو بھی ایک سمت کو اعتراض رہتا ہے اور نہ کر رہی ہو تو کسی دوسری سمت کو اعتراض لاحق ہو جاتا ہے۔ یہ جملے تو عموما سننے کو ملتے ہیں کہ دیکھیں جماعت بھی کچھ نہیں کر رہی، جماعت بھی خاموش ہے۔
کچھ عمل ہو اور خاموشی ٹوٹ جائے، اس پر گاہے کسی کا تعریف و توصیف کو بھی دل چاہے تو مینگنیاں ضرور ڈال دی جاتی ہیں تاکہ یکسوئی سے زیادہ انتشار والی کیفیت ہو جائے۔ یہ کھیل اگرچہ اتنا پرانا ہو گیا ہے کہ اسے بند ہی ہو جانا چاہیے تھا، مگر نہ وہ ستم آزمائی کی خو بدلنے کو تیار ہیں، نہ جماعت صبر پر مشتمل اپنی وضع چھوڑنے کو تیار ہے۔
۔
بات اگرچہ کچھ طویل ہو گئی ہے مگر کچھ باتیں جماعت کے وابستگان کےلیے کہے بغیر چارہ نہیں ہے، بالخصوص وہ جو جماعت سے، سید مودودی کی فکر سے وابستگی کا دم بھرتے ہیں، مگر یہاں وہاں اختلافی آرا کی تلاش میں رہتے ہیں، اور کہیں کوئی بات نظر آئے تو سرگوشیاں کرتے ہیں کہ دیکھا میں نہ کہتا تھا، اب وہ بھی کہہ رہا ہے۔ کچھ تو ”میں نے یہ جانا گویا یہ بھی میرے دل میں ہے” کا علم لہرا کر دوسروں کو دعوت فکر دیتے ہیں۔ بعض اسے ”میں اکیلا چلا تھا جانب منزل مگر لوگ آتے گئے کارواں بنتا گیا” کی تصویر بنا دیتے ہیں۔ ان کے لیے دو تین گزارشات
پہلی بات یہ کہ ایسی کیفیت والے آپ پہلے نہیں ہیں، ایسا ”کلمہ حق” خود سید مودودیؒ کو دارالسلام میں آمد کے فوری بعد سے سننے کو ملتا رہا ہے۔ اسی ”حق گوئی” کی بنیاد پر لوگ تحریک سے الگ بھی ہوتے رہے ہیں، 57 اس کا نکتہ عروج تھا، جب کئی لوگوں نے بالاخر سید مودودیؒ کے سامنے کھڑے ہو کر کہہ دیا تھا کہ آپ جماعت کی دعوت و نظریے سے ہٹ گئے ہیں۔ تو آج جب کوئی ”کہاں سید مودودیؒ کہاں سراج الحق” کی دھن پر رقصاں دکھائی دیتا ہے، تو یہ سراج الحق کا معاملہ نہیں ہے، اس کا سامنا خود بانی جماعت کو کرنا پڑا تھا۔
یہ بات اپنی جگہ درست ہے کہ سید مودودی کا جو مقام ہے، اس پر سراج الحق کیا، ان کے بعد کا کوئی امیر پورا نہیں اترتا ہے۔ اور یہ کوئی جماعت کا معاملہ نہیں ہے، کوئی تحریک کوئی نظریہ ایسا نہیں ہے جس میں بعد کا کوئی فرد، بالخصوص فکر اور نظریے کی سطح پر بانی جیسا نظر آئے، ہو بھی نہیں سکتا۔ مگر اس سے کسی دوسرے فرد کی نفی نہیں ہوتی ہے۔ ہر فرد کی اپنی صلاحیت ہے، اور اللہ تعالی اسی کے مطابق کام لیتا ہے۔
سراج الحق صاحب کا واسطہ بطور امیر سید مودودیؒ سے تین کڑیوں بعد کا ہے، میاں طفیل محمد علیہ الرحمہ جو فوری بعد امیر بنے تھے، اور جنھوں سالہا سال سید کے ساتھ بطور قیم (سیکرٹری جنرل) کام کیا تھا، وہ بھی فکر و نظر کے حوالے سے سید مودودیؒ جیسے مقام کے حامل نہیں تھے، اور مخالفین اور بعض نادان دوست ان کے بارے میں بھی کہتے تھے ”کہاں سید مودودیؒ کہاں میاں طفیلؒ”، مگر جہاں دنیا سید مودودیؒ کے فکر و نظر کی معترف ہے، وہیں یہ مانا جاتا ہے کہ جماعت اسلامی کی موجودہ تنظیم، جس نے نظریاتی میدان میں کئی معرکے سر کیے ہیں، اور جو سیاسی میدان میں شکستوں کے کئی تھپیڑے کھا کر بھی اپنا وجود برقرار رکھے ہوئے ہے ، میاں طفیل محمدؒ کی محنت شاقہ کا نتیجہ ہے۔ کہا جاتا ہے کہ سید مودودیؒ کو میاں طفیل محمد جیسے تنظیم ساز کا ساتھ نہ ملتا تو ضرب المثل کی حیثیت اختیار کر جانے والی تنظیم کا وجود ممکن نہ ہو پاتا۔ علی ہذاالقیاس باقی امراء کا معاملہ ہے۔ ہر کسی کی اپنی خوبیاں ہیں۔
دوسری بات یہ کہ آج سراج الحق صاحب امیر ہیں، ایک وقت آئے گا کوئی دوسرا رہنما اس منصب پر فائز ہوگا۔ ہر تنظیم، ادارے، قوم، وطن، ریاست میں کچھ نہ کچھ مقدس ہوتا ہے، جس کے تقدس پر اختلاف رائے کے باوجود بھی کوئی کمپرومائز نہیں کیا جاتا۔ ترک ڈرامے آج کل معروف ہیں، سردار سے غداری کرنے والے بھی روایات و اختیارات کے سامنے سر جھکاتے دکھائی دیتے ہیں۔ جماعت میں یہ تقدس دستوری طور پر امیر جماعت کے منصب کو حاصل ہے۔
اس کے تقدس کو پامال کریں نہ کسی کو اس کی اجازت دیں، کجا کہ آپ اس کی ہم نوائی کرتے دکھائی دیں۔ کل کو کوئی ایسا شخص امیر بن جائے جو آپ کے خیال میں سو فیصد اس منصب پر ہونا چاہیے، مگر چار چھ اس کی مخالفت کا ڈنکا بجانے والے ہوں گے۔ اور دس بارہ ان کے ساتھ بھی ”میرے دل کی بات” کی جگالی کرتے نظر آئیں گے۔ اس روش کا سید مودودیؒ، میاں طفیل محمدؒ، قاضی حسین احمدؒ اور سید منورحسنؒ کو سامنا رہا ہے۔ آئندہ بھی اس ایسا ہوگا۔
۔
آج اگر یہ بات قابل اعتراض ہے کہ تقریر میں گویا کسی کےلیے دلچسپی کا سامان نہیں مگر پلٹ کر ایک تو یہی پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا نوازشریف ، عمران خان اور آصف زرداری کے فن تقریر کے سامنے سید عطاء اللہ شاہ بخاری اور شورش کاشمیری دم بھرتے نظر آتے ہیں؟ اور کیا اسی خوبی پر ان کو ووٹ یا حکومت ملتی ہے۔ ویسے تو اگر یہ معیار ہے تو ان سے خیر کئی گنا بہتر انداز میں بات سراج الحق کرتے ہیں۔
مگر مجھے یاد آ رہا ہے ہمارے ایک کرم فرما نے سید منور حسن صاحبؒ کی خوبی تقریر کو ان کی کمزوری بتایا تھا اور اسے اس بات سے تعبیر کیا تھا کہ وہ زمانہ طالب علمی سے باہر نہیں نکلے۔ تقریر کا فن اگر اصل ہوتا تو قبلہ بخاری صاحبؒ سے یہ جملہ منسوب نہ ہوتا کہ تقریر کرتا ہوں تو واہ واہ کرتے ہیں، ووٹ مانگتا ہوں تو آہ آہ کرتے ہیں۔
پاکستان کے مروجہ نظام سیاست میں تقریر کوئی خوبی ہے نہ عار ہے، نہ اس کی بنیاد پر کوئی فیصلہ ہوتا ہے۔ مولانا ہدایت الرحمن بلوچ آج ہر بلوچ کے دل کی آواز ہے، مگر یہاں کا نظام ان کو برداشت کرپائے گا یا آسانی سے جیتنے دے گا، ابھی تک ایک سوالیہ نشان ہے۔ حافظ نعیم الرحمن سے زیادہ صراحت کے ساتھ شاید کوئی بات کرتا ہو مگر کراچی کی تین دہائیوں سے جن قوتوں نے یرغمال بنائے اور بنوائے رکھا، وار آن ٹیرر جتنی زندگیاں جس کی نذر ہو گئیں، اب حافظ نعیم ہر درد مند کے دل میں گھر کیے ہوئے ہے مگر کیا وہ طاقتیں آسانی سے راستہ دینے کو تیار ہوں گی، اس سوال کا جواب شاید کسی کے پاس نہیں ہے۔
سینیٹر مشتاق احمد خان بقول چیئرمین سینیٹ کا ایوان چلاتے ہیں، پلڈاٹ انھیں کارکردگی کے اعتبار سے پہلے نمبر پر قرار دیتا ہے، مگر کیا یہ کارکردگی اس نظام سیاست کو بھاتی ہے یا یہ اکیلی آواز بھی کسی کی آنکھ کا کانٹا ہے۔ جواب واضح ہے۔ اپنی معلومات اور مشاہدے کی بنیاد پر علی وجہ البصیرت یہ بات کہی جا سکتی ہے کہ جماعت ایسے کئی رہنماؤں سے بھری ہوئی ہے، جن کو موقع ملے تو لوگ ان کے حوالے سے بھی پکار اٹھیں گے کہ گویا یہ چنگاری بھی اپنے خاکستر میں تھی۔ مگر یہاں کا نظام سیاست اور جو قوت اس کو کنٹرول کرتی ہے، اس کو کردار کے حوالے سے شفاف اور کارکردگی کے حوالے سے پہلے نمبر پر رہنے والے لوگ گوارا نہیں ہیں۔
۔
آخری بات یہ کہ بعض لوگ اپنے طور پر یہ سمجھتے ہیں کہ وہ بڑا کام کر رہے ہیں، سید مودودیؒ کی فکر آگے بڑھا رہے ہیں، ووٹر بنا رہے ہیں۔ مگر اپنی قیادت پر آپ کا اعتماد نہیں ہے تو یہ حمایت کسی کام کی نہیں ہے۔ اس حمایت سے زیادہ جو انتشار پیدا ہو رہا ہے، وہ نقصان دہ ہے۔ 57ء میں جماعت سے الگ ہونے والے کل 12 افراد تھے۔ مگر اس کی بازگشت آج تک سنائی دیتی ہے، اور اس نے ”حق گوئی” کا وہ راستہ کھولا ہے جس سے آج تک پیچھا نہیں چھڑایا جا سکا ہے۔
تو اگر آپ جماعت کے خیرخواہ ہیں، اسے آگے بڑھتا دیکھنا چاہتے ہیں، بالخصوص سیاسی میدان میں کامیابی کا دروازہ کھولنا چاہتے ہیں تو قیادت پر اعتماد کیجیے، اس کے دست و بازو بنیے، خیرخواہی سے مشورہ دیجیے، عملا حصہ بنیے۔ تبھی آگے بڑھا جا سکتا ہے۔ ورنہ جس قیادت کے بارے میں آپ خود بدگمانی کا نہ صرف شکار ہوں بلکہ عملا پبلک پلیٹ فارم پر اس کا اظہار بھی کرتے ہوں تو یہ پرلے درجے کی بےوقوفی ہوگی کہ آپ کی محنت سے کوئی اس جماعت کا حامی بنے گا، اور اسے ووٹ بھی دے گا۔ اپنے منہ پر کالک مل کے اسے مقابلہ حسن میں پیش نہیں کیا جا سکتا۔ شاید اسی تناظر میں کہا جاتا ہے نادان دوست سے دانا دشمن بہتر ہوتا ہے، تو اپنی جماعت کے نادان دوست نہ بنیے۔