قدسیہ ملک ، شعبہ ابلاغ عامہ ، جامعہ کراچی
کراچی پاکستان کا سب سے بڑا شہر اور صنعتی ، تجارتی ، تعلیمی ، مواصلاتی و اقتصادی مرکز ہے۔ کراچی دنیا کاچهٹا بڑا شہر اور پاکستان کے صوبہ سندھ کا دارالحکومت ہے۔ شہر دریائے سندھ کے مغرب میں بحیرہ عرب کی شمالی ساحل پر واقع ہے۔ پاکستان کی سب سے بڑی بندرگاہ اور ہوائی اڈا بھی کراچی میں ہے۔
کراچی 1947ء سے 1960ء تک پاکستان کا دار الحکومت تھا۔ موجودہ کراچی کی جگہ پر واقع قدیم ماہی گیروں کی بستی کا نام مائی کولاچی تھا۔ جو بعد میں بگڑ کر کراچی بن گیا. انگریزوں نے انیسویں صدی میں اس شہر کی تعمیر و ترقی کی بنیادیں ڈالیں۔ 1947ء میں پاکستان کی آزادی کے وقت کراچی کو نو آموز مملکت کا دار الحکومت منتخب کیا گیا۔ اس کی وجہ سے شہر میں لاکھوں مہاجرین کی آمد ہوئی۔
پاکستان کا دار الحکومت اور بین الاقوامی بندرگاہ ہونے کی وجہ سے شہر میں صنعتی سرگرمیاں دیگر شہروں سے قبل شروع ہو گئیں تھیں۔ 1959ء میں پاکستان کے دار الحکومت کی اسلام آباد منتقلی کے باوجود کراچی کی آبادی اور معیشت میں ترقی کی رفتار کم نہیں ہوئی تھی۔
کراچی جو روشنیوں کا شہر غریبوں کی ماں کا لقب پاتا تها …. یہاں کی گلیاں ، چوبارے اور چوراہے غریبوں کے لیے ہر وقت کهلے رہتے تهے … اس کی معیشت پر ملکی معیشت کا انحصار ہوا کرتا تها. مملکت خداداد کا میٹروپولیٹن شہر کا اعزاز ہونے کے ساتھ ساتھ ملک بھر سے مختلف قومیتوں ، قبیلوں ، ذات ، برادری سے تعلق رکھنے والے لوگ یہاں روزگار اور تعلیم حاصل کرنے آتے تهے لیکن رفته رفته یہاں کی رونقوں کو دشمن کی نظر لگ گئی … غیروں کی سازشوں اور اپنوں کی بے اعتنائی نے آہستہ آہستہ اس شہر کا امن ختم کردیا
وہی کراچی جو ملکی سیاست ، معیشت ، معاشرت ، صنعت و ثقافت میں اپنا ثانی نہیں رکهتا تها اپنوں کی رقابتوں ، انتقام اور سازشوں کی نذر ہوگیا. قتل و غارت گری ، چوری ، دن دهاڑے قتل ، بھته ، ٹارگٹ کلنگ ، عصمت فروشی ، ڈکیتی ، لوٹ مار ، فتنه و فساد اور لسانی جھگڑے روز کا معمول بن گئے ….
عصبیت کی بھڑکائی ہوئی آگ اس قدر بڑهی کہ کراچی سال کے بارہ ماہ میں اس آگ میں سلگتا جارہا ہے ۔ کبھی بھائی لوگوں کے بھتے پورے نہ ہونے پر مزدوروں سے بھری فیکٹری نذر آتش کردی جاتی ہے تو کبھی ٹیکسوں کی بہتات اور کے الیکٹرک کی غنڈہ گردی سے یہ شہر اندھیاروں میں گھرا نظر آتا ہے۔
اگست دو ہزار بیس تک مئیر کراچی رہنے والے وسیم اختر نے وفاقی اور سندھ کی صوبائی حکومتوں پر الزام لگایا تھا کہ انہوں نے مقامی حکومتوں کا بااختیار بنانے کا معاملہ حل نہیں کیا ہے . یہ تنازع بڑے عرصہ سے کراچی کا سب سے اہم مسئلہ بنا ہوا ہے۔ گزشتہ چند برسوں سے سپریم کورٹ نے کراچی کے مسائل کو بڑی سنجیدگی سے لیا ہے . سابق چیف جسٹس افتخار محمد چوہدری نے از خود نوٹس کارروائی کے تحت کراچی میں امن و امان کے معاملے کو اٹھایا لیکن کراچی کے مسائل ابھی تک حل نہیں ہو ئے۔ زیادہ تر حکومتوں کی توجہ عبوری اور عارضی اقدامات پر رہی.
کراچی کو تنظیمی اور سیاسی دونوں طرح کے مسائل کا سامنا ہے ۔ اس سے کہیں زیادہ یہ عروس البلاد مختلف مافیاز کے شکنجے میں رہا۔ امن و امان کے علاوہ بجلی ، پانی ، گیس ، اووربلنگ ، ڈکیتی ، چوری ، قتل و غارت گری ، منشیات و ڈرگ مافیا کا کنٹرول اور بنیادی انسانی سہولتوں کا بھی فقدان رہاہے۔ تمام بڑے شہری ادارے اپنی غفلت اور نا اہلی کے باعث مسائل کے حل میں ہمیشہ ناکام رہے۔
شہر کراچی کھنڈر اور کچرے کے ڈھیر میں تبدیل ہو گیا ۔ سیاسی طور پر کراچی والوں کو شہر کے ڈومیسائل پر ملازمتوں کے حصول میں شدید دشواریوں کا سامنا رہاہے ۔ مقامی لوگوں کو گریڈ ون سے گریڈ پندرہ تک ملازمتیں نہیں ملتیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ ہر مافیاز نے قیمتی زمینوں پر قبضے کرنے شروع کر دیے اور یہ قبضے چھڑانا اتنا آسان کام نہیں ہے ۔ان مافیاز کی وجہ ہی سے ابھی تک کراچی کا کوئی مسئلہ حل نہیں ہورہا ۔ چالیس سال پرانا ماس ٹرانزٹ کا مسئلہ ہو یا عظیم تر آب رسانی منصوبہ کے ۔ فور یا گرین لائن بس پروجیکٹ یا سرکلر ریلوے کی بحالی کا کام ہو ، یا پھر چنگچی رکشوں سے بڑھتے ٹریفک حادثات کوئی منصوبہ اپنے انجام کو نہیں پہنچا اور کوئی مسئلہ حل نہیں ہوا۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ کراچی میں فراہمی آب کا کوئی مسئلہ نہیں ، خرابی تقسیم آب کے نظام میں ہے اگر واٹر بورڈ ، کنٹونمنٹ بورڈ اور ڈی ایچ اے کے اپنے واٹر ٹینکرز ہیں تو انہیں تین ہزار سے چھ ہزار روپے فی ٹینکر پانی فروخت کر نے کے لیے کس نے دیا؟ کراچی میں 38 بڑے اور 500 چھوٹے نالے ہیں جنہیں حکومت سندھ ہمیشہ صاف کرنے میں بری طرح ناکام ثابت ہوئی . اس ابتری کی بلدیاتی حکومت بھی برابر کی ذمہ دار ہے۔
اب سندھ کے نئے بلدیاتی نظام کے تحت کراچی میٹروپولیٹن کارپوریشن کے زیر انتظام میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالج سمیت عباسی شہید اسپتال ، سوبھراج اسپتال ، لیپروسی سینٹر اور سرفراز رفیقی اسپتال کا انتظام سندھ حکومت سنبھالے گی ، تعلیم اور صحت کا شعبہ بلدیاتی اداروں سے واپس لے لیا گیا ہے ۔ لوکل گورنمنٹ ترمیمی بل2021 کے مطابق کراچی سمیت سندھ کے بڑے شہروں میں کارپوریشنز اور ٹاونز کا نظام ہو گا۔
یونین کمیٹیز کےوائس چیئرمینز ٹاؤن میونسپل کونسل کے رکن ہوں گے ۔ ٹاؤن میونسپل کونسل کےارکان میں سےمیئر ڈپٹی میئر کا انتخاب ہوگا، پیدائش و اموات اور انفیکشز ڈیزیز کا شعبہ بلدیاتی اداروں سے واپس لے لیا گیا ۔ کم از کم 50 لاکھ کی آبادی پر میٹرو پولیٹن کارپوریشن ہو گی اور بلدیاتی نمائندوں کی مدت چار سال ہو گی۔
حافظ نعیم الرحمان کا کہنا ہے کہ ہے یہ ایکٹ آئین پاکستان کے مطابق نہیں ۔ ہم سمجھتے ہیں کہ تمام اختیارات سندھ حکومت نے لے لئے ہیں ۔ اس سے پہلے بھی ہم نے آپ سے بات چیت کی تھی اور تجاویز دی تھیں ۔ اگر اب بھی آپ سنجیدگی سے بات آگے بڑھاتے ہیں تو ہم تیارہیں ۔ ورنہ ہمارا دھرنا جاری رہے گا ۔ حکمران یہ بات سن لیں کہ یہ دھرنا تو اب نہیں رکے گا ۔
اس میں خواتین بچوں کی بڑی تعداد میں شمولیت اور دن بدن اس میں اضافہ ہونا اس بات کا ثبوت ہے کہ پاکستان کے سب سے بڑا شہر کراچی جو ملک میں سب سے زیادہ ریوینیو جنریٹ کرتا ہے ، سے سارے اختیارات چھینے جانے پر تمام اہلیان کراچی مضطرب ہیں ۔ تمام پانی ، بجلی ، گیس ، سیوریج ، تعلیم ، لاء اینڈ آرڈر، قانون کے تمام ادارے ، بزنس ، ٹریڈ ، اسٹاک ایکسچینج کراچی کے تمام اداروں کو میئر کے ماتحت ہونا چاہیئے ۔ یہ مطالبہ ایسا تو نہیں ہے کہ اس پر عمل نہ کیا جا سکے ، یہ کوئی ناجائز مطالبہ بھی نہیں ۔ کراچی جیسا شہر جو پورے مرکز اور صوبے کا ریوینیو چلاتاہے ۔ اس شہر کو آپ اتنے اختیارات بھی نہیں دو گے تو کیسے معاملات آگے بڑھیں گے؟
حافظ نعیم الرحمان کی قیادت میں دھرنے میں موجود افراد کراچی کی تین کروڑ نفوس کا فرض کفایہ ادا کرنے آج اس سخت سردی اور شدید بارش کے موسم میں اپنے نرم گرم بستروں کو چھوڑ کر ، اپنے عزیز او اقرباء کو چھوڑکر ، اپنے معصوم بچوں کو چھوڑ کر اپنے گرم کمروں کو چھوڑ کر ، اپنے تمام خواب چھوڑ کر ایک پکار پر منظم ہوکر سندھ اسمبلی کے سامنے دھرنا دیئے بیٹھے ہیں ۔ ان کی آواز میں اپنی آواز شامل کیجئے اور کراچی کے باشندے ہونے کا ثبوت دیجئے۔
یہ میرے آپ کے ہم سب کے کراچی کی جائز حقوق کی آواز ہے ۔ آئیے ! اس آواز میں اپنی آواز شامل کیجئے ۔ سچوں کا ساتھ دیجئے ۔ ان سرفروش عاشقوں کا ساتھ دیجئے کہ جو آپ کو کبھی تنہا نہیں چھوڑتے ۔ یہ دیس کے سچے ، محب وطن ، مخلص اور ایماندار افراد کا قافلہ ہے ۔ یہ ان عاشقوں کا قافلہ ہے جو 90ہزار فوج کے ہتھیار ڈالنے کے باوجود نہتے سیسہ پلائی دیوار بن کر دشمن سےلڑتارہا ، اپنے لوگوں کی حفاظت کرتارہا اور آج تک اس عشق کی سزا کاٹ رہاہے ۔
یہ انہی سچے عاشقوں کا قافلہ ہے کہ جو کراچی اور اس کی سب سے بڑی تعلیمی درس گاہ جامعہ کراچی میں پچھلی کئی دہائیوں سے غنڈہ مافیا اور ہر مافیا کے خلاف سب سے پہلے اور بروقت آواز آٹھانے میں اپنا پاک نرم گرم لہو شامل کرتارہا ہے ۔ یہی سچے عاشقوں کا قافلہ بلوچستان کے لوگوں ، گوادر کے لوگوں کے ساتھ مولوی ہدایت الرحمان کی صورت میں کھڑاہے ، یہی سچے عاشق پاکستان کے ہر خطے کے مظلوموں کی آواز بن کر کھڑے ہو کر اپنا فرض کفایہ اداکرتے ہیں۔
میری حکمران طبقے سے بھی گزارش ہے کہ خدارا کراچی کے بگڑتے ہوئے حالات پر توجه دیں ۔ کراچی پر سے یہ ظالمانہ ایکٹ ختم کریں ۔ اس کے ہر باشندے کو انسانی بنیادی سہولتیں مہیا کریں ۔ یہاں کا ٹرانسپورٹ سسٹم بحال کریں ۔ اس کی جامعات کو فوجی چھاؤنیاں بننے سے روکیں ۔ قانون پر عمل درآمد ممکن بنائیں ۔ شہریوں کو ہوش ربا ٹیکسوں سے نجات دلائیں ۔
اس کے سمندری ، فضائی ، زمینی راستوں پر اعلیٰ سیکیورٹی فورسز اور مکمل ٹیکس کا نظام نافذ ہو ۔ تمام شہر کو یکساں تعلیم کے مواقع فراہم کریں ۔ اس کے بڑے بڑے پلازہ مالز فلیٹوں کے نظام کو ایک سسٹم کا پابند کریں ۔ یہاں ٹریفک حادثات سے بچائو کا مکمل نظام نافذ کریں ۔ انسانی ضیاع کو روکنے میں طبی اداروں کی مدد کریں ۔ کنڈا سسٹم ، ٹینکر مافیا کی جاگیرداری ختم کریں ۔ کراچی کے شہریوں کے لئے کراچی میں سرکاری و نیم سرکاری ملازمت کے مواقع دیں ۔ اس کے شہریوں کو صاف میٹھا اور جراثیم سے پاک پانی فراہم ہو
کراچی میں کچرے کے جابجا ڈھیر ختم کریں ۔ اس شہر میں سیوریج لائنوں کے نظام کو مضبوط اورنکاسی آب سے موجود ادھڑی سڑکوں کی مرمت کریں۔شہریوں کو مکمل درست اور فوری درستگی کے ساتھ شناختی کارڈ کے حصول کو آسان کریں ۔ کراچی کو بجلی دیں ، لوڈ شیڈنگ اووربلنگ ختم کریں،
بنیادی سہولیات کے فقدان سے بلبلاتی ہوئی تین ساڑھے تین کروڑ کی آبادی کو اس کے جائز بنیادی حقوق فراہم کریں ۔
اس کراچی پر پوری ملکی معیشت ، معاشرت ، سیاست اورتمدن کا دارومدار ہے لہذا کراچی کے حالات کو سدهارنے اور صحیح و درست سمت دینے کے لیئے حکام بالا اپنی ہر ممکن کوشش کریں تاکه ہماری آنے والی نسلیں ایک چمکتا دمکتا اور روشن کراچی دیکھ سکیں ۔