بادبان / عبید اللہ عابد
جماعت اسلامی پاکستان کے امیر جناب سراج الحق ناراض ہیں کہ لوگ رات گیارہ بجے کے بعد جماعت اسلامی کو مشورے دیتے ہیں۔ منصورہ میں اپنی جماعتی تربیت گاہ سے خطاب کرتے ہوئے ، ان کا ایک ویڈیو کلپ خوب وائرل ہوا ہے جس میں وہ کافی غصے میں نظر آ رہے تھے۔ بعض اوقات میں بھی فیس بک پر جماعت کے حوالے سے کچھ کمنٹ لکھ دیتا ہوں۔ ممکن ہے کہ میرا نام بھی اس فہرست میں شامل ہو۔ اس لئے میں فوری طور پر اس فہرست سے نکلنے کا فیصلہ کر رہا ہوں ۔ اس کام سے میری سچی اور پکی توبہ۔ جماعت اسلامی جانے اور اس کا کام جانے۔
آج صبح سراج الحق صاحب کا کلپ بار بار نظروں کے سامنے گھوما جب مجھے کل ہونے والے جماعت اسلامی کے ملک گیر چھوٹے چھوٹے مظاہروں کی خبریں دیکھنے کو ملیں ۔ قریبا ہر شہر میں یہ مظاہرے فیول پرائس ایڈجسٹمنٹ کے نام پر وزیراعظم عمران خان کے ظالمانہ اقدام کے خلاف ہوئے۔ اس ماہ لوگوں کو موصول ہونے والے بجلی کے بل اس قدر زیادہ ہیں کہ ہر کوئی دہائی دے رہا ہے ، عمران خان حکومت کے لئے جھولیاں اٹھا کر بددعائیں دے رہا ہے۔ جماعت اسلامی کے مظاہرے اس قدر چھوٹے تھے کہ اخبارات میں ان کی خبر سنگل کالمی ہی شائع ہوئی ۔ میں نے سوچا کہ اس موقع پر جماعت اسلامی کے ذمہ داران سے پوچھوں کہ دس ، بیس افراد پر مشتمل مظاہرہ کرنے سے آپ کو حاصل کیا ہوا؟ یہ تو ایک لایعنی سرگرمی ثابت ہوئے۔ حکومت نے نوٹس لیا نہ ہی عوام نے توجہ کی۔
مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جیسی بڑی اپوزیشن جماعتوں کے بارے میں عوام میں یہ تاثر مضبوط ہورہا ہے کہ وہ عمران خان حکومت کو سہولت فراہم کررہی ہیں۔ ان کے پاس عمران خان کا ہاتھ روکنے کی پوری طاقت ہے لیکن وہ عوام کو پڑے والی مار کا تماشہ دیکھ رہی ہیں۔ ایسے میں جماعت اسلامی ہی ایک واحد روشنی کی کرن تھی ، جو عوام مخالف حکومتی اقدامات کی راہ میں مزاحم ہوسکتی تھی لیکن وہ بھی دس ، بیس افراد پر مشتمل چھوٹے چھوٹے مظاہرے کر کے حکومت کے خلاف عوامی ردعمل کو ڈیفیوز کر رہی ہے۔
بہرحال اب میں جماعت اسلامی کو مشورہ دینے والے افراد میں شامل نہیں رہنا چاہتا ، اس لئے ایسی باتیں نہیں کہوں گا۔ جماعت اسلامی جانے اور اس کا کام جانے ۔ البتہ یہ بات لکھنے سے مجھے کوئی روک نہیں سکتا کہ عوام کو مار پڑ رہی ہے اور تمام اپوزیشن جماعتیں تماشہ دیکھ رہی ہیں۔ اور جماعت اسلامی چھوٹے چھوٹے مظاہرے کر رہی ہے۔ ہر کوئی عمران خان حکومت کے پانچ سال پورے کروا رہا ہے۔ کوئی بھی اس کے ظالمانہ اقدامات کی راہ میں رکاوٹ نہیں بن رہا ۔ افسوس ! صد افسوس !!
بڑی اپوزیشن جماعتیں سوائے بیان بازی بلکہ ڈرامہ بازی کے ، کچھ نہیں کرنا چاہتیں۔ یہ باقاعدہ ایک طے شدہ منصوبہ کے تحت ہو رہا ہے ۔ اس تناظر میں ، ان لوگوں کو سادہ لوح افراد کی فہرست میں رکھوں گا جو اس خیال میں خوش ہیں کہ اپوزیشن حکومت کو دبائو میں لا چکی ہے۔ اب سپیکر قومی اسمبلی ، چئیرمین سینیٹ اور پھر وزیراعظم کو فارغ کیا جائے گا ۔ مجھے ایسا کچھ نہیں نظر آ رہا ہے۔
ایسی کوئی سرگرمی ہونے کا امکان بھی نہیں ہے سوائے ڈرامہ بازی کے ۔ کل ایک باخبر دوست کہہ رہے تھے کہ میاں نواز شریف برطانیہ گئے نہیں تھے بلکہ انھیں منتیں کرکے بھیجا گیا تھا۔ منتیں کرنے والے ” وہ ” تھے جنھوں نے عمران خان کو اقتدار پر بٹھانے کی غلطی کی ۔ بدلے میں نواز شریف نے اپنی دو شرائط منوائیں ۔
اول : مریم نواز کو ملکی سیاست میں سرگرم ہونے سے روکا نہیں جائے گا، دوم : ان ( نواز شریف ) کے خلاف تمام مقدمات باقاعدہ طور پر ختم کیے جائیں گے۔
منتیں کرنے والوں نے دونوں شرائط کو فی الجملہ تسلیم کیا۔ نتیجتا مریم نواز پوری آزادی کےساتھ اپنی سیاسی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مریم نواز کے خلاف نیب نے مزید پیش قدمی کے بجائے پسپائی اختیار کرنے کا فیصلہ کیا۔ اب ان کےخلاف مقدمات لٹکائے جائیں گے اور پھر ختم کردیے جائیں گے۔اسی طرح نوازشریف کے خلاف مقدمات ختم کئے جا رہے ہیں ۔ ابھی کل ہی اخبارات میں ایک خبر شائع ہوئی کہ نیب نے نوازشریف کے خلاف اکیس برس پرانی انکوائری بند کرنے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ معاملہ ایل ڈی اے پلاٹوں کی الاٹمنٹ کا تھا۔ نیب لاہور میں کچھ ٹرانسفرز بھی ہوئی ہیں اور کچھ ہوں گی۔ ان کا تعلق بھی نواز شریف کی دوسری شرط سے ہے۔
میرے دوست کی بات اس لئے سچ ثابت ہو رہی ہے کہ عمران خان نے بھی چند روز پہلے ایسی ہی بات کہی تھی۔ ان کا کہنا تھا کہ نواز شریف کی نااہلی ختم کرنے کے لئے راستے نکالے جارہے ہیں ۔ وزیراعظم نے یہ بیان خواہ مخواہ نہیں دیا تھا۔ اطلاعات ہیں کہ اعلیٰ سطحی منصفوں سے ایسا فیصلہ لینے کی تیاری ہو رہی ہے جس کے مطابق کسی بھی سیاست دان کو تاحیات نااہل نہیں کیا جاسکے گا۔ جنھیں تاحیات نااہل کیا گیا ہے ، ان کی نا اہلی ختم ہوجائے گی۔ اس سارے کام کا تعلق نواز شریف کی دوسری شرط سے ہے۔
دوست نے بتایا کہ اس سب کچھ کے بدلے میں نواز شریف نے ضمانت دی تھی کہ وہ عمران خان حکومت کو پانچ سال پورے کرنے دیں گے ۔ ظاہر ہے کہ مسلم لیگ ن کے لئے یہ گھاٹے کا سودا نہیں ہے ۔ عمران خان حکومت کی ہر گزرتا دن مسلم لیگ ن کے ووٹ بنک میں اضافہ کر رہا ہے۔ جو لوگ تبدیلی کے چکر میں عمران خان کے رومانس میں مبتلا ہوئے تھے ، وہ بھی کہہ رہے ہیں کہ اس سے تو پچھلی حکومتیں ہی بہتر تھیںِ . جب مفت میں ہی ووٹ بنک بڑھ رہا ہو تو نواز لیگ عمران خان حکومت کا خاتمہ کیوں چاہے گی۔
جہاں تک نواز شریف کے آنے اور عمران خان کے جانے کی تاریخیں دیے جانے کا تعلق ہے، یہ سب باتیں ہی ہیں ، قوم کو دھیان لگائے رکھنے کی ایک کوشش ہے ۔ اگلے ڈیڑھ برس میں یہی ہوتا رہے گا ۔ اگر آپ کسی لیڈر کے چکر میں انقلابی بنے ہوئے ہیں تو آرام سے کمبل اوڑھ کر بیٹھ جائیں ۔ بڑا سچ یہی ہے کہ سیاسی طور پر پاکستان اگست دو ہزار اٹھارہ سے پہلے کی طرف تیزی سے جا رہا ہے جبکہ معاشی طور پر زمانہ قبل از تاریخ کی طرف۔
عمران خان حکومت کے خاتمے کے بعد اگلی حکومت پانچ سال تک ایک ہی بیان جاری کرتی رہے گی کہ عمران خان ملک کا بیڑا غرق کرگیا ۔ نتیجتا آئی ایم ایف کی بدترین غلامی آنے والے برسوں میں بھی جاری رہے گی ۔ عوام پر بدترین ظلم جاری رہے گا اور۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔ ہم جماعت اسلامی کو مشورہ دینے سے باز رہیں گے۔