محترمہ ڈاکٹر حافظہ خولہ علوی اپنے مرحوم و مغفور والد مولانا عبد الوکیل علوی کے بارے میں تاثرات بیان کرتی ہیں
ڈاکٹر خولہ علوی
پہلے یہ پڑھیے
گلِ آرزو کی جو باس تھے، وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے ( پہلی قسط )
گلِ آرزو کی جو باس تھے، وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے ( دوسری قسط )
گلِ آرزو کی جو باس تھے، وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے ( تیسری قسط )
بہنوں اور بیٹیوں سے حسن سلوک کرنے والی ایک عظیم ہستی
"میری بیٹی آگئی ہے ماشاءاللہ۔”میکے جاتے ہوئے گھر میں داخل ہونے کے بعد ابو جان مولانا عبد الوکیل علوی (مرحوم) کی آواز کانوں میں پڑتی تو میں جلدی سے ان کے کمرے میں جا کر ان سے ملاقات کرتی۔ میرے پیچھے پیچھے میرے بچے بھی شرماتے ہوئے موجود ہوتے۔
والدین کے گھر میں داخل ہونے کے بعد والدہ اور والد سے ملنے کی جلدی ہوتی۔ بعض اوقات ابو جان خود اٹھ کر استقبال کے لیے بیرونی گیٹ پر آجاتے، کبھی اپنے کمرے کے دروازے پر کھڑے ہوتے۔ اور بعض اوقات وہ اپنے بیڈ پر بیٹھے ہوتے اور ہم ان سے وہاں ملاقات کرتے۔ میرے میاں سے بھی وہ بڑی محبت اور شفقت سے پیش آتے۔ اور ان کا استقبال کرتے۔
"بچے کدھر ہیں؟ سعد بیٹا نظر نہیں آرہا؟ سعدان کدھر ہے؟ کہیں اسے گھر تو نہیں چھوڑ آئے؟”وہ بچوں سے ملتے اور پھر پیچھے رہ جانے والے کسی بچے کے بارے میں استفسار کرتے جو اپنے کزنوں سے ملاقات کر رہا ہوتا۔ اتنی دیر میں سعد یا سعدان بھی ان کے پاس پہنچ جاتا۔ وہ اس سے بھی ملتے، اسے پیار دیتے اور سارے بچوں سے ان کا حال احوال اور پڑھائی کی صورت حال دریافت کرتے۔
"عفراء بڑی پیاری بچی ہے۔ سب سے پہلے آکر اور خود آگے بڑھ کر ملتی، سلام کرتی اور حال پوچھتی ہے ماشاء اللہ۔”وہ میری چھوٹی بیٹی کو پیار کرتے اور اس کی حوصلہ افزائی کرتے۔
"عائشہ کمزور کیوں لگ رہی ہے؟ اسے دھیان سے کھلایا پلایا کرو۔ قرآن مجید حفظ کرنے والے بچوں کی خوراک کا زیادہ اور خصوصی اہتمام رکھا کرو۔”وہ بڑی بیٹی کے بارے میں مجھے تاکید کرتے تھے۔
میرے والد محترم اپنی تمام بیٹیوں اور ان کے بچوں سے بہت محبت کرتے اور شادی شدہ بیٹیوں کی آمد کے منتظر رہتے تھے۔ بہنوں سے بھی اسی طرح حسن سلوک کرتے تھے اور ان کی آمد پر خوش ہوتے اور رخصت ہوتے وقت تحائف دے کر رخصت کرتے تھے۔
میرے لاہور جانے سے وہ بہت خوش ہوتے تھے، میرے بچوں سے بڑا پیار کرتے، میرے شوہر کو بھی بیٹوں سے بڑھ کر عزت دیتے اور ان کی امد کے منتظر رہتے۔ ہمیشہ میرے ساس سسر کی خیریت دریافت کرتے اور انہیں سلام کہتے۔ خصوصاً میرے سسر سے انہیں بہت لگاؤ تھا اور وہ ان کے لیے بہت زیادہ دعائیں بھی کرتے تھے اور ان کے حال احوال سے باخبر بھی رہتے تھے۔
دل کی بیماری کی وجہ سے وہ سفر بہت کم کرتے تھے لیکن سب کے حالات سے آگاہ رہتے تھے۔ اور دعاؤں میں تو وہ سب کو یاد رکھتے تھے۔ بعض اوقات ہم انہیں کسی بارے میں دعا کرنے کا کہہ کر بھول جاتے تھے لیکن انہیں یاد رہتا تھا۔
؎ مجھ کو چھاؤں میں رکھا اور خود جلتا رہا دھوپ میں
میں نے دیکھا ہے اک فرشتہ باپ کے روپ میں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"ہم نے اپنی قابل قدر بیٹیوں کی یہی تربیت کی ہے کہ وہ غیر ضروری آرائش و زیبائش اور آئے روز کے بدلتے فیشنوں کے پیچھے نہ پڑیں اور سادگی اپنائیں۔ جو قدرت اور وسعت کے باوجود سادگی کو اپنا معیار بنائے، اللہ تعالیٰ اسے عزت عطا کرتا ہے۔” ابو جان ہمیں نصیحت کرتے تھے۔
وہ بیٹیوں کو زیادہ کپڑے بنانے اور فیشن وغیرہ کرنے سے منع کرتے تھے۔ اور سادگی کی تلقین کرتے تھے۔
"حضرت خدیجہ، حضرت عائشہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہن ہماری رول ماڈل خواتین ہیں اور ہمیں ان کے اسوہ حسنہ کے مطابق عمل پیرا ہونا چاہیے۔ اور ان کی زندگی کو اپنا آئیڈیل بنانا چاہیے۔”وہ ہمیں سمجھاتے تھے۔
اولاد کی تعلیم و تربیت اور صلہ رحمی ان کے نزدیک روپے پیسے کا اصل مصرف تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بیٹی کو برا اور منحوس سمجھنے والی یہ بدترین رسم کل بھی مسلمانوں میں موجود تھی اور افسوس کہ آج بھی موجود ہے۔
مسلمانوں کی اکثریت بیٹی کی پیدائش سے خوش نہیں ہوتی۔ اور اسے اچھا نہیں سمجھتی، اُس سے تنگ دل ہوتی ہے، اُس کو بوجھ سمجھتی ہے، اور اُسے حقارت اور نفرت کی نگاہ سے دیکھتی ہے، اور بیٹے اور بیٹیوں کی تربیت میں فرق کرتی ہے۔
حالانکہ عموماً مشاہدہ میں آتا ہے کہ بیٹوں کی نسبت بیٹیاں ماں باپ کی زیادہ خدمت کرتی ہیں، اُن کی اطاعت وفرماں برداری میں بیٹوں سے بڑھ کر ہوتی ہیں، اُن کی وفات کے بعد اُن کے لئے دعائیں کرتی ہیں اور حسب توفیق صدقہ و خیرات بھی کرتی ہیں۔
بیٹیاں بابل کے گھر کی وہ چڑیاں ہوتی ہیں جنہوں نے بالآخر اڑ جانا ہوتا ہے۔
ان کے ہنسنے مسکرانے سے گھر میں رونقوں کے ساتھ خوشیوں کے رنگ چمکتے دمکتے رہتے ہیں۔ اور گھر آباد اور بھرا پرا لگتا ہے۔
باپ وہ ہستی ہے جو اس دنیا کی دھوپ چھاؤں کا مقابلہ کرنے کے لیے اپنی اولاد کے لیے سب سے بڑا اور مضبوط سہارا بنتا ہے۔ اور اچھے باپ بیٹیوں کی خوشیوں کے لیے زندگی کی مشقتوں اور مصائب کا سامنا کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اگر بیٹیوں کی شادی کرنا اللہ تعالیٰ کا حکم اور سنت نبوی نہ ہوتی تو میں اپنی بیٹیوں کی کبھی شادی کرکے انہیں خود سے جدا نہ کرتا۔ مجھے اپنی بیٹیاں بہت پیاری ہیں۔” وہ کبھی کبھار کہتے تھے۔
ہمارے والدین نے بیٹوں کے ساتھ ساتھ ہم بیٹیوں کو بھی اعلیٰ تعلیم سے آراستہ کیا ہے اور بیٹے بیٹیوں میں کبھی فرق نہیں کیا۔ بلکہ ہم بہنیں سمجھتی ہیں کہ ابا جان بیٹوں سے زیادہ ہم بیٹیوں سے محبت کرتے تھے۔
نبی اکرم ﷺ کے ایک فرمان مبارک کا مفہوم ہے کہ "جس کو اللہ تعالیٰ نے دو بیٹیاں دیں، اس نے ان کی اچھی تعلیم و تربیت کی، وہ اور میں جنت میں یوں قریب ہوں گے جیسے یہ دو انگلیاں۔”
آپﷺ نے اپنی دو انگلیوں سے اشارہ کرکے دکھایا۔
تو ہمارے ابو جان نے بیٹیوں کی پیدائش پر ہمیشہ خوش دلی سے ان کا استقبال کیا، ان کی بہترین تربیت کی، اعلیٰ تعلیم دلوائی، احسن طریقے سے کفالت کی اور دیندار گھرانوں میں ان کے رشتے ناتے کیے اور اس معاملے میں ہمیشہ سنتِ نبوی کو مد نظر رکھا۔ دو بیٹیوں کی پرورش کرنے والے کے لیے جنت کی بشارت ہے، انہوں نے تو ماشاء اللہ تمام بیٹیوں کی احسن طریقے سے ذمہ داریاں نبھائی تھیں۔
انہیں شادی شدہ بیٹیوں کی آمد کا انتظار رہتا تھا!
وہ ہمارے میکے آنے پر بہت خوش ہوتے تھے۔ اور اس مسرت کا برملا اظہار کرتے رہتے تھے۔
لیکن وہ کبھی کسی بیٹی یا داماد کو اپنے ہاں آنے کے لیے مجبور یا پابند نہیں کرتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابوجان نے سب رشتہ داروں سے ہمیشہ صلہ رحمی کی اور آخر دم تک اپنی اولاد کو بھی صلہ رحمی کی تاکید کرتے رہے۔
اپنے بہن بھائیوں اور اولاد کے علاوہ اپنی بہوؤں اور دامادوں سے بھی بڑے حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔ ان کے والدین یعنی اپنے سمدھیوں سے بھی ان کے بہترین تعلقات رہتے تھے۔ وہ سب بھی ان کی نہایت عزت کرتے اور ان سے دلی لگاؤ رکھتے تھے۔
مہمانوں کی آمد پر وہ خوش ہوتے تھے۔ خصوصاً بیٹیوں کی آمد کے وہ منتظر رہتے تھے۔ سب کو وہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھتے تھے۔
میری چھوٹی پھپھو جوانی میں بیوہ ہو گئی تھیں۔ ساری زندگی ان کی مالی و اخلاقی مدد کرتے رہے۔
بیوہ و یتیم کے سرپر ہاتھ رکھنے اور اس کی کفالت کرنے والے کے لیے جنت کی بشارت ہے۔ اللہ رب العزت ابا جان کو صلہ رحمی، بیوہ بہن کی احوال پرسی اور یتیموں کی بے لوث کفالت کا اجرِ عظیم عطا کریں گے۔ ان شاء اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
"لڑکا بالغ ہونے کے بعد اپنا ولی ہوتا ہے۔اس لیے اسے شادی کے سلسلے میں طے ہونے والے تمام معاملات کا ضرور علم ہونا چاہیے۔” ابو جان اولاد کی شادی کے سلسلے میں یہ نکتہ نظر رکھتے تھے۔
بیٹیوں کے رشتے طے کرتے ہوئے اور منگنی کے بعد بھی وہ ہونے والے داماد کو اس کے بزرگوں باپ، بڑے بھائی وغیرہ کے ساتھ ضرور بلاتے تھے۔
"یہ ایک غیر معمولی بات ہے کیونکہ ہمارے معاشرے میں تو ہونے والا داماد شادی کے موقع پر ہی پہلی دفعہ اپنے سسرال جاتا ہے۔” لوگ کہتے تھے اور اس پر متعجب ہوتے تھے لیکن اس کے فوائد سن اور دیکھ کر قائل بھی ہو جاتے تھے۔
لیکن ابو جان ہونے والے داماد کو ہر موقع پر شامل کرتے تھے اور منگنی کو بھی زیادہ طول نہیں دیتے تھے۔ اگر کبھی لڑکا اپنے بزرگوں کے ہمراہ حاضر نہ ہوتا تو اسے کہہ کر بلاتے تھے اور تمام معاملات میں اس کی رائے اور مشورے کو اہمیت دیتے تھے۔
میرے رفیق حیات کو بھی جب شادی سے پہلے تمام موقعوں پر خصوصی طور پر خود کہہ کر بلوایا جاتا تھا تو وہ اسے اپنی عزت افزائی سمجھتے تھے۔ اور اسے پسند کرتے تھے۔ شادی کے بعد وہ کئی دفعہ اس بات کا بڑے اچھے انداز میں تذکرہ کرتے اور اصلاحی بیانات میں معاشرے کے لوگوں اور نوجوانوں کو یہ بات بتایا کرتے ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو جان کی یادوں سے دل کا آنگن آج بھی آباد ہے!!!
جدائی کا طویل عرصہ گزر جانے کے باوجود آج بھی دل کا یہ زخم ہرا بھرا ہے!!!
جب کبھی رنج و الم کے گہرے تاثرات زندگی کو اپنی لپیٹ میں لے لیتے ہیں!!!
جب زندگی میں مشکلات جابجا نظر آتی ہیں!!!
ایسے میں ابو جان کی یادیں، ان کی باتیں، ان کا طرزِ عمل، اور ان کی نصیحتیں روشن چراغ کا کام دیتی ہیں!!!
اللہ تعالیٰ انہیں برزخ کی زندگی میں بھی ہنستا مسکراتا اور خوش و خرم رکھے،
ان کے گناہوں کو معاف کرے،
ان کے درجات بلند فرمائے،
ان کی بہترین مہمان نوازی کرے اور اپنے پسندیدہ بندوں میں شامل فرمائے۔
اور ہمیں ان کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔
آج یہ تحریر لکھتے ہوئے ہم سب بہن بھائی پاکستان کے مختلف شہروں اور بیرون ملک سے لاہور میں آبائی گھر میں اکٹھے ہیں۔ امی جان کے پاس موجود ہیں اور بھیگی پلکوں اور نم آنکھوں کے ساتھ والد محترم کے لیے دعا گو ہیں۔
والدہ محترمہ کے لیے بھی بہت دعائیں ہیں کہ اللہ تعالیٰ امی جان کو صحت و تندرستی عطا فرمائے،
ان کا سایہ شفقت ہمارے سروں پر دراز رکھے۔ اور ہمیں احسن طریقے سے ان کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔
رب ارحمھما کما ربینی صغیرا۔
آمین ثم آمین یارب العالمین
؎ اب یاد رفتگاں کی بھی ہمت نہ رہی
یادوں نے اتنی دور بسائی ہیں بستیاں
10 پر “گل آرزو کی جو باس تھے، وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے ( چوتھا اور آخری حصہ )” جوابات
بہترین اور خوبصورت آرٹیکل ہے ماشاءاللہ۔
تفصیل پڑھ کر بہت اچھا لگا۔
اللہ تعالیٰ مولانا صاحب کو جنت الفردوس میں اعلی مقام عطا فرمائے۔
اللہم اغفر لہ وارحمہ۔۔۔۔
آمین ثم آمین
Effective and efficient article
Nice and effective article
عمدہ اور مؤثر روداد حیات ہے ماشاءاللہ
اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
آمین ثم آمین
Effective and Great Article and Great guide for life
May Allah bless him jannat ul firdous
Aameen
رب ارحمھما کما ربینی صغیرا (القرآن)
سادہ اور مثالی زندگی، دین کی خدمت میں بسر ہونے والی اور بہترین حسن خاتمہ۔
سبحان اللہ۔
ایسے نیک لوگ معاشرے میں خال خال اور مثال ہوتے ہیں۔
رب ارحمھما کما ربینی صغیرا (القرآن)
بہت عمدہ اور مؤثر روداد ہے ماشاءاللہ۔
مثالی زندگی اور بہترین حسن خاتمہ۔ جو ہر مومن کی آرزو ہوتی ہے۔
اللہ تعالیٰ مغفرت فرمائے۔ آمین