محترمہ ڈاکٹر حافظہ خولہ علوی اپنے مرحوم و مغفور والد مولانا عبد الوکیل علوی کے بارے میں تاثرات بیان کرتی ہیں
ڈاکٹر خولہ علوی
پہلے یہ پڑھیے
گلِ آرزو کی جو باس تھے، وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے ( پہلی قسط )
گلِ آرزو کی جو باس تھے، وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے ( دوسری قسط )
“ہم بن بلائے مہمان بن کر آپ کی شادی میں یہ دیکھنے کے لیے شامل ہوئے ہیں کہ کیا واقعی آپ لوگوں کی شادیاں ویسی ہی ہوتی ہیں جس طرح آپ یا دوسرے لوگ بتاتے ہیں؟” لوگ ہمیں کہتے تھے۔
ہمارے گھروں کی شادیاں لوگوں کے لیے آئیڈیل ہوتی تھیں جو غیر ضروری رسوم و رواج سے پاک اور اسلامی تعلیمات کے مطابق ہوتی ہیں۔ تو بہت سے لوگ بن بلائے شادیوں میں شامل ہو جاتے تھے۔ اور تبصرے بھی کرتے تھے۔
اور پھر عملاً دیکھ کر متاثر ہوتے تھے اور دوسروں کو بھی بتایا کرتے تھے۔ خصوصاً وقت کی پابندی، وقت پر بارات کا آنا یا جانا، مختصر بارات، خواتین کا مکمل علیحدہ انتظام اور پردے کا مکمل اہتمام، کھانے کے وقت تک بھی کسی مرد کا کھانا سرو (Serve) کرنے کے لیے اندر نہ آنا بلکہ خواتین ویٹرز کا بندوست کرنا۔ اور خواتین ویٹرز نہ ہونے کی صورت میں خواتین اور لڑکیوں کا چھوٹے لڑکوں کے تعاون سے یہ ڈیوٹی بہترین طریقے سے ادا کرنا، کوئی غیر شرعی رسم و رواج نہ ہونے دینا، تصویریں اور ویڈیوز نہ بنانا اور نہ ہی بنوانے دینا وغیرہ۔
ابوجان خوشی و غمی، بیماری و صحت ہر حالت میں اللہ کو یاد رکھتے تھے اور شریعت کے احکام پر عمل پیرا رہتے تھے، کبھی کسی موقع پر گھر میں یا خاندان میں اپنی موجودگی میں کوئی غیر مسنون کام نہیں ہونے دیتے تھے۔
ابا جان زیادہ تر اپنے کمرےمیں اپنے بیڈ یا آرام کُرسی پر بیٹھے نظر آتے تھے۔ جب ہم بہن بھائی اکٹھے ہوتے تو بات چیت یا اجتماعی معاملات پر ڈسکشن کے لیے ان کے کمرے میں اکٹھے ہو جاتے اور ان کا کمرہ گھریلو میٹنگ روم کا منظر پیش کرنے لگتا۔ ان کے مہمان ان کے کمرے میں ہی ان کے پاس ملاقات کے لیے آتے تھے۔
آج ان کا قرآن مجید، ان کی جائے نماز، ان کی تسبیح گویا ان کی منتظر ہیں!!!
ان کا بستر اور ان کی کرسی خالی ہے!!!
ان کی لائبریری اور ان کا کمرہ سونا سونا اور اداس ہے!!!
ابا جان رب کے حضور جا چکے ہیں لیکن اپنی لا متناہی یادوں کا طویل سلسلہ چھوڑ گئے ہیں!!!
؎ ایک چراغ ، ایک کتاب اور ایک امید اثاثہ ہے
اس کے بعد تو جو کچھ ہے، وہ سب افسانہ ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“مجھے اپنا چھوٹا اڑھائی سالہ بیٹا عبد القدیر بہت پیارا تھا۔ وہ بھی مجھ سے غیر معمولی محبت کرتا اور اپنی عمر کے لحاظ سے میری خدمت کرتا تھا لیکن اللہ تعالی نے اسے اتنی جلدی اپنے پاس واپس بلا لیا۔”
چھوٹے بچے کی وفات پر رنجیدہ تھے تھے لیکن اللہ کی رضا پہ راضی تھے۔
اس سے پہلے بھی سوا ماہ کا ایک بیٹا اللہ کو پیارا ہو چکا تھا۔ لیکن وہ اللہ تعالیٰ کے حکم پر سدا راضی رہے تھے۔
ابا جان ماشاء اللہ کثیر العیال تھے۔ اللہ تعالیٰ نے پانچ بیٹے اور چھ بیٹیاں عطا کیے لیکن دو بیٹے ابتدائی عمر میں وفات پا گئے تھے۔
اب ان کے ماشاء اللہ تین بیٹے اور چھ بیٹیاں حیات ہیں۔ انہوں نے بیٹوں اور بیٹیوں سب کو اعلیٰ تعلیم دلوائی۔ اور دنیاوی تعلیم کے ساتھ ساتھ دینی تعلیم کا خصوصی اہتمام رکھا۔ تربیت پر امی جان اور ابو جان دونوں کی خصوصی توجہ ہوتی تھی۔ ابو جان کا اپنی اولاد پر بڑا رعب تھا اور وہ بچوں کے معاملے میں “کھلاؤ سونے کا نوالہ اور دیکھو شیر کی آنکھ سے” کے قائل تھے۔ ما شاءاللہ دو بیٹے اور پانچ بیٹیاں حافظ قرآن ہیں۔ پھر اگے ان کے پوتے پوتیوں اور نواسے نواسیوں میں بھی تقریباً 18, 20 حافظ قرآن ہیں اور تقریباً سب ہر سال رمضان میں نمازِ تراویح سنانے کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔
ایک بیٹی Ph.D ڈاکٹر ہے (ڈاکٹر خولہ علوی) اور دو داماد ڈاکٹر حبیب اللہ ضیائی اور ڈاکٹر عبید الرحمٰن محسن Ph.D ڈاکٹر ہیں۔
گھر میں قرآن مجید کی درس و تدریس کا کام شروع سے جاری وساری ہے۔ ہم نے جب سے ہوش سنبھالا ہے، گھر میں اپنی امی جان کو اسی طرح درس و تدریس کا کام کرتے دیکھا ہے۔
ماضی میں ابو جان بھی گھر میں اپنے بیٹوں اور محلّہ کے لڑکوں کو قرآنِ مجید کا ترجمہ و تفسیر پڑھاتے تھے۔
ہر منگل کو بعد نمازِ عصر ہفتہ وار درس ہوتا ہے جس میں امی جان کا قرآنِ مجید کا درس ہوتا ہے۔ اس درس میں وہ ماشاءاللہ کئی دفعہ قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر عام فہم انداز میں مکمل کر چکی ہیں۔
اس میں حالات حاضرہ کی روشنی میں اصول و مسائل خصوصی طور پر ڈسکس کیے جاتے ہیں۔ علاقہ کی خواتین میں یہ درس بے حد مقبول ہے۔
علاوہ ازیں حدیث کے اسباق بھی باقاعدگی سے جاری ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“میں نے گھر کرائے پر لیتے ہوئے یا ذاتی گھر بناتے وقت ہمیشہ اس بات کا خیال رکھا کہ گھر مسجد سے قریب ہو۔ تاکہ اللہ رب العزت اور مسجد سے تعلق ہمیشہ مضبوط رہے۔”ابو جان کہتے تھے۔
ابو جان کا تعلق باللہ بہت مضبوط تھا۔ وہ بچپن سے تہجد پڑھنے کے عادی تھے، پانچوں نمازیں باجماعت تکبیر اُولیٰ کے ساتھ صفِ اول میں ادا کیا کرتے تھے، تہجد کے وقت بیدار ہوتے اور اشراق تک معمولات میں مشغول رہتے۔ نمازِ اشراق کے علاؤہ دیگر نوافل بھی حسبِ توفیق ادا کرتے تھے۔ گھر مسجد سے قریب بنایا گجرانوالہ میں بھی اور لاہور میں بھی۔ نماز کے لیے وقت سے پہلے مسجد چلےجاتے تھے۔ بعض اوقات تو مسجد وہ جا کر کھلواتے تھے اور نوافل کی ادائیگی میں مصروف ہو جاتے تھے۔
قرآن مجید سے بہت لگاؤ تھا۔ اتنی کثرت سے تلاوت کرتے تھے کہ چند روز میں پورا قرآن پاک مکمل کر لیا کرتے تھے۔
وہ وقت کے انتہائی پابند تھے۔ اگر بیماری کی وجہ سے مسجد نہیں جا سکتے تھے تو گھر میں امی جان اور بیٹیوں کو شامل کر کے جماعت کروالیتے۔ انہیں لمبی جماعت کروانا پسند تھا لیکن ہمارا خیال کرکےوہ درمیانی قرأت کرتے تھے۔ وہ حافظ قرآن نہیں تھے مگر انہیں قرآن مجید کا کافی حصہ زبانی یاد تھا۔ بے حد خوبصورت لب و لہجے میں قرآن مجید پڑھتے تھے۔ تلاوت بھی بڑی خوش الحانی سے کرتے تھے۔
وہ بتاتے تھے کہ “سکول لائف میں، میں اسمبلی میں مستقل تلاوت کرتا تھا۔”
دل کی بیماری کی وجہ سے وہ بڑے رقیق القلب ہو گئے تھے۔ قرآن مجید کی تلاوت کرتے ہوئے رونے لگ جاتے تھے۔ میں نے کئی بار دیکھا کہ تہجد کی نماز میں سورۃ آلِ عمران کا آخری رکوع تلاوت کرتے ہوئے وہ ہچکیوں سے رو رہے ہوتے تھے۔ فجر کی نماز میں بھی انکا رونا مجھے یاد رہتاہے اور تصور میں انکا چہرہ دیکھتے ہوئے میری آنکھیں پُر نم ہو جاتی ہیں۔
نماز کی ہر رکعت میں قرآن مجید کی قرأت کے بعد سورۃ الاخلاص کی تلاوت ضرور کرتے تھے۔ جب ہم چھوٹے تھے تو ایک دفعہ پوچھنے پر انہوں نے بتایا کہ
“مجھے اللہ تعالیٰ سے محبت ہے، اس لیے میں “قل ھو اللہ احد۔۔۔”سورۃ الاخلاص ضرور پڑھتا ہوں اور چاہتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ بھی مجھ سے محبت کرے۔”
نبی اکرم ﷺ کے صحابی حضرت معاویہ بن معاویہ رضی اللہ عنہ جب نماز جماعت کرواتے تھے تو ہر رکعت میں سورۃ الفاتحہ اور قرآن مجید کی تلاوت کرنے کے بعد سورۃ الاخلاص ضرور پڑھتے تھے۔ صحابہ کرام نے نبی اکرم ﷺ کو بتایا تو آپ ﷺ نے حضرت معاویہ رضی اللہ عنہ سے دریافت کیا کہ
“معاویہ! تم ایسے کیوں کرتے ہو؟”
تو انہوں نے جواب دیا کہ “مجھے اللہ سے محبت ہے، اس لیے میں ہر رکعت میں یہ سورت ضرور پڑھتا ہوں۔”
تو نبی اکرم ﷺ نے انہیں جواب دیا کہ
“پھر اللہ بھی تم سے محبت کرتا ہے۔”
تو میرے ابو جان بھی اس صحابہ کی پیروی میں سورۃ اخلاص کی تلاوت ہر رکعت میں ضرور کرتے تھے۔ اور میں بھی اپنے باپ کا اس حدیث پر عمل دیکھ کر اس عمل کی ادائیگی کی کوشش کرتی ہوں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“یہ چھوٹا بچہ کیوں رو رہا ہے، اسے چپ کروائیں اور اسے زیادہ نہ رونے دیں۔” گھر میں روتا ہوا چھوٹا بچہ جب تک خاموش نہ ہو جاتا، وہ بے چین رہتے تھے۔
ابو جان گھر میں چھوٹے بچوں سے بہت پیار کرتے۔ بہوؤں سے بھی شفقت سے پیش آتے تھے۔ بہوئیں، بیٹیاں اپنے چھوٹے شیر خوار بچوں کو ان کے پاس لے کر آتیں، ان کے پاس بٹھاتیں، دم کرواتیں، ابا جان ان کو اپنی گود میں لیتے اور ان سے باتیں کرتے۔ بچے اپنے نانا جان اور دادا جان کی شکل سے مانوس ہوتے تھے اور ان کی باتوں اور پیار کا غوں غاں کر کے جواب دیتے تھے۔
اگر کوئی چھوٹا بچہ رو رہا ہوتا تو اس کی ماں سے اسے چپ کروانے کے لیے بار بار کہتے تھے۔ حالانکہ ماں بیچاری خود بھی پریشان ہوتی تھی، اور بچے کو خاموش کروانے کے لیے کوشاں ہوتی تھی۔
بڑے بچوں سے بھی وہ بہت پیار کرتے، ان سے خوش مزاجی کرتے، بچوں سے تلاوت، نعت، نظم، تقریر وغیرہ سنتے تو انہیں انعام دیتے۔ بچوں کو اچھے رزلٹ پر امی جان اور ابو جان دونوں سے انعام ملتا تھا۔
“جب آپ بہن بھائی چھوٹے تھے تو آپ کے ابو جان گھریلو معاملات میں میرا بہت ساتھ دیتے تھےاور چھوٹے بچوں کا کافی خیال رکھتے تھے۔ سب سے چھوٹا بچہ میرے ساتھ سوتا اور اس سے بڑے بچے کو آپ کے ابو جان اپنے پاس سلاتے، اور سلانے سے پہلے اس کی مالش ضرور کرتے تھے۔” امی جان ان کا تذکرہ خیر کرتے ہوئے بتاتی ہیں۔
گھریلو کاموں میں بھی وہ اسوۂ نبوی کے مطابق امی جان کے ساتھ کافی تعاون کرتے تھے۔
“آپ کے ابو جان کی اتنی زیادہ معاونت کی وجہ سے ہی میرے لیے ممکن ہوا تھا کہ میں بیک وقت اتنی زیادہ ذمہ داریوں کو نبھا سکیں۔ گھریلو ذمہ داریاں، بچوں کے معاملات، درس و تدریس، لکھنا لکھانا اور شائع کروانا وغیرہ سب کام آپ کے ابو جان کے تعاون کی وجہ سے ممکن ہو سکے تھے۔” امی جان کہتی ہیں۔
ابو جان اپنے بچوں کو بھرپور وقت دیتے تھے۔ ان کی پڑھائی، تربیت اور خوراک پر ان کی خصوصی توجہ رہتی تھی۔ مجھے بخوبی یاد ہے اور ذہن میں وہ مناظر تازہ رہتے ہیں جب وہ گھر میں رات کو مغرب کے بعد حافظ بچوں سے روزانہ قرآن مجید کی منزل سنتے تھے۔ رمضان المبارک میں نمازِ تراویح میں وہ بیٹوں کے ساتھ مسجد میں جاتے تھے، گھر میں انہیں ترجمہ وتفسیر پڑھاتے تھے۔ سکول، کالج کی پڑھائی کے لیے پوری نگرانی رکھتے تھے۔
“قرآن مجید کے پہلے نصف سیپارے کا ترجمہ مجھے انہوں نے پڑھایا تھا اور وہ ترجمہ مجھے ابھی تک انہیں کے پڑھائے ہوئے الفاظ میں یاد ہے۔” مجھے یہ بھی یاد رہتا ہے۔
باقی قرآن مجید کا ترجمہ وتفسیر میں نے امی جان سے پڑھا ہے، حدیث شریف ، سیرت النبی اور گرائمر کی کلاسز بھی ان سے پڑھی ہیں اور حقیقت یہ ہے کہ وہ میری بہترین ٹیچر بھی ہیں اور انہوں نے مجھے سب سے زیادہ متاثر کیا ہے۔ میری تعلیم و تربیت میں ماں ہونے کے ساتھ ساتھ بطور استاد بھی ان کا رنگ سب سے نمایاں ہے۔
اور ابو جان کی شفیق لیکن بارعب شخصیت ہماری تعلیم و تربیت میں والدہ کے ساتھ مکمل طور پر معاون و مددگار رہی ہے۔
ابو جان نے بیٹوں اور بیٹیوں کے رشتے ناتے خالصتاً دین داری کی بنیاد پر کیے۔ دینداری کو ہمیشہ ترجیح دی اور مال و دولت، حسب و نسب یا حسن و جمال کو کبھی رشتہ داری کے لیے اپنا معیار نہ بنایا۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اگر مزاح کرنے والا یا لطیفہ سنانے والا خود ہنسنے لگے تو پھر مزاح کا مزہ نہیں آتا۔”
ہمارے خوش مزاج ابو جان کہتے تھے۔
وہ کوئی مزاحیہ فقرہ کہنے کے بعد خود سنجیدہ رہتے تھے لیکن سننے والے ہنس رہے ہوتے تھے۔ بعض اوقات ساری محفل زعفران زار بنی ہوتی تھی۔
ابو جان ہنسنے مسکرانے والے خوش مزاج انسان تھے، خوش طبعی اور ظرافت ان کے مزاج میں بدرجہ اَتم موجود تھی۔ وہ بَر موقع مناسب فقرہ چست کرتے یا مزاح کیا کرتے تھے۔
بڑے اچھے دوست تھے اور دوستوں سے دوستی نبھاتے تھے اور اس بات کے قائل تھے کہ
؎ غم بانٹنے کی چیز نہیں پھربھی دوستو!
اک دوسرے کے حالات سے باخبر رہا کرو
ابا جان کے سارے قریبی دوست احباب اچھا دینی و علمی ذوق رکھتے تھے اور ان کی ان سے دوستی خالصتاً “اَلْحُبُّ لِلہِ و اَلْبُغْضُ لِلہِ” کی بنیاد پر تھی۔ ان کے دوستوں کا خوبصورت گلدستہ بکھر چکا ہے۔
چند ایک ان کی زندگی میں وفات پا چکے تھے۔ جن میں ڈاکٹر کفایت اللہ سلمانی مرحوم (کزن)، ڈاکٹر منصور علی مرحوم (سابق ڈائریکٹر سید مودودی اسلامک انسٹی ٹیوٹ)، معروف مصنف طالب ہاشمی مرحوم وغیرہ شامل تھے۔
طالب ہاشمی صاحب ان سے عموماً اپنی کتب کے بارے میں مشاورت کیا کرتے تھے خصوصاً تخریج اور حوالہ جات کے لیے ان سے رابطہ کیا کرتے تھے۔
اس کے علاوہ ڈاکٹر خالد علوی مرحوم (معروف مصنف اور پنجاب یونیورسٹی، شعبہ اسلامیات کے پروفیسر)، ڈاکٹر حبیب الرحمن کیلانی (رشتے میں ان کے بڑے سالے اور ہمارے بڑے ماموں)، حافظ محمد ادریس، ڈائریکٹر ادارہ معارف اسلامی، انور نیازی، منصورہ لاہور، سید منور حسن (سابق امیر جماعت اسلامی پاکستان) اور حاجی بشیر علی، منصورہ لاہور ان کے گہرے دوست تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پروفیسر ثریا بتول علوی صاحبہ (بنت عبدالرحمن کیلانی) عالمۂ دین اور انتہائی قابل خاتون ہیں۔ پنجاب یونیورسٹی لاہور سے ایم اے اسلامیات (گولڈ میڈلسٹ) اور ایم اے عربی (سلور میڈلسٹ) ہیں۔
گورنمنٹ کالج فار ویمن سمن آباد، لاہور میں صدرِ شعبہ اسلامیات رہیں۔ نہایت قابل، محنتی اور کامیاب مدرسہ ہیں۔ اب پچھلے چند سالوں سے وہ ریٹائر ہو چکی ہیں۔
انہوں نے گھر میں بھی شروع سے قرآن کی درس و تدریس کا سلسلہ جاری رکھا۔ اپنی بیٹیوں کو خود قرآن مجید کاترجمہ و تفسیر میٹرک تک پڑھا دیا کرتی تھیں، احادیث کی بنیادی کتب، عربی گرائمر وغیرہ بھی پڑھاتیں۔ ہر بیٹی کو میٹرک کے بعد تربیت دے کر قرآن مجید کا ترجمہ پڑھانے پر لگا دیا اور اس کی نگرانی اور پڑھانے کی تربیت اور اس کی اپنی مزید پڑھائی سب ساتھ ساتھ جاری رکھے۔ ہر منگل کوگھر میں بعد نمازِ عصر ہفتہ وار درس ہوتا تھا جوتاحال جاری وساری ہے۔
ابتداہ میں وہ اکیلی علاقہ کی بچیوں کو ترجمہ و تفسیر پڑھاتی رہیں، پھر بیٹیاں بڑی ہوئیں، قرآن مجید کا ترجمہ و تفسیر اور مزید دینی علوم حاصل کر لیے تو انہیں درس و تدریس میں اپنے ساتھ شامل کرلیا۔ “لوگ ملتے گئے اور کارواں بنتا گیا” کے مصداق طالبات کی تعداد میں بھی اضافہ ہوتا گیا۔
ان کی تمام اولاد اپنے اپنے گھروں میں اپنے دائرہ کار میں رہتے ہوئے دین کا کام کر رہی ہے۔ وہ مختلف کتب کی مصنفہ ہیں اور ان کی کتابوں نے بڑی پزیرائی حاصل کی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے انہیں دردِ جگر عطا کیا ہے اور ان کے قلم میں روانی و تاثیر رکھی ہے۔ دل کے مخلص خیالات جب نوکِ قلم پر آکر قرطاس ابیض کی زینت بنتے ہیں توتحریر میں اثر پذیری اور دل سوزی پیدا ہو جاتی ہے۔
ان کی تحریروں سے عوام الناس خصوصاً خواتین کو بے حد فائدہ پہنچتا ہے۔ ان کی ہر کتاب کے کئی کئی ایڈیشن نکل چکے ہیں۔ ان کی مختلف کتب اور کتابچوں کی تفصیل حسبِ ذیل میں بیان کی جا رہی ہے۔
1۔ اسلام میں عورت کا مقام و مرتبہ
2) جدید تحریک نسواں اور اسلام
(یہ اپنے موضوع پر پہلی اور جامع ترین کتاب ہے جس پر ان کو پی ایچ ڈی کی ڈگری حاصل ہوسکتی تھی مگر انہوں نے اس ڈگری کو قربان کردیا، جس کے حصول کے لیے کم از کم تین چار سال درکار تھے۔ اور اس کتاب کو 1995ء کی پہلی بیجنگ کانفرنس کے بعد عصر حاضر کی ضرورت کے مطابق لکھ کر جلد شائع کروا دیا۔
3) ہماری بدلتی قدریں
4) استاد: ملت کا محافظ
5) اربعین النساء من احادیث المصطفیٰ
(یہ بے حد مقبول عام کتاب ہے جس میں خواتین سے متعلقہ چالیس احادیث کی حالاتِ حاضری کی روشنی میں تشریح کی گئی ہے۔ طالبات کے کئی مدارس کے نصاب میں بھی یہ کتاب شامل ہے)
6)اسلام اور توہینِ رسالت
7)یومِ خواتین اور مسلمان عورت
8) حدود و قوانین
9) خواتین کمیشن رپورٹ کا جائزہ
10) طرزِ زندگی میں تبدیلی لائیے
11) قیامِ پاکستان کے حقیقی عوامل
12) تحفظ ناموس رسالت: امن عالم کی ضمانت
ان کی مزید کئی کتب زیر طبع ہیں۔
ان کی کچھ کتب محدث آن لائبریری کی بھی زینت ہیں اور انٹرنیٹ پر میسر ہیں۔ الحمدللہ۔
اپنی ملازمت اور دیگر بے شمار مصروفیات کے باوجود وہ ایک خدمت گزار بیوی تھیں۔ اور ابا جان ان سے راضی خوشی اس دنیا سے گئے ہیں۔ میں نے انہیں کئی دفعہ بڑھاپے میں امی جان کی قابلیت اور خدمات کا اعتراف کرتے سنا تھا۔ وہ علم و عمل میں باکمال ہونے کے باوجود سادگی پسند اور عاجز مزاج ہیں۔
وہ مشہور و معروف مفسرِ قرآن مولاان عبدالرحمن کیلانی کی بڑی دُختر نیک اَختر ہیں۔ ان کے والد قرآن مجید کے بہت قابل اور ماہر خطاط تھے۔ انہوں نے تقریباً پچاس قرآن اپنے ہاتھ سے تحریر کیے تھے جن میں سے زیادہ تر قرآن کریم، قرآن کی طباعت کے لیے مشہور زمانہ ادارہ تاج کمپنی نے لکھوائے تھے۔
نانا جان کا ایک خصوصی اعزاز یہ ہے کہ انہوں نے ایک قرٓان کریم کی کتابت حرمین شریفین میں بیٹھ کرکی۔ تمام مکی سورتیں خانہ کعبہ میں بیٹھ کر کتابت کیں اور تمام مدنی سورتیں مسجد نبوی میں بیٹھ کر کتابت کیں۔ اس قرآن کریم کو سعودی عرب نے چھپوایا اور وہ آج تک برصغیر پاک و ہند کے حاجیوں کو حج سے واپسی کے موقع پر بطور تحفہ و تبرک پیش کیا جاتا ہے۔
انہوں نے کئی بیش قیمت کتب تحریر کیں جو انہوں نے اپنی عمر کی آخری دہائیوں میں لکھی تھیں۔ آخری عمر میں ان کی چار جلدوں میں لکھی جانے والی تفسیر “تیسیر القرآن” بے حد مقبول ہوئی۔ یہ تفسیر اپنی سادگی، روانی اور مستند ہونے کی بناء پر مختلف جگہ پڑھائی جا رہی ہے اور عوام الناس اس سے استفادہ کر رہے ہیں۔ بہت سے دینی مدارس میں یہ تفسیر نصاب میں شامل ہے۔
ان کا سب سے “خصوصی اعزاز” جو ان کو اللہ رحمان ورحیم کی طرف سے عطا فرمایا گیا، وہ یہ ہے کہ وہ بالکل صحت و تندرستی کی حالت میں چلتے پھرتے، کسی سے خصوصی خدمت لیے بغیر خاموشی اور وقار سے 18 دسمبر 1995ء کو عشاء کی نماز میں صفِ اوّل کے سب سے پہلے نمازی بن کر پہلی رکعت کے پہلے سجدے میں خالقِ حقیقی سے جا ملے تھے۔ اَللہُ اَکْبَرْ
؎ یہ رتبہ جس کو مل گیا، سو مل گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
امسال بھی امی جان نے رمضان المبارک میں ہفتہ وار درس میں ترجمہ وتفسیر القرآن کی تکمیل کی ہے جس کا سلسلہ کم و بیش سات برس تک جاری رہا۔
امی جان کا درس دینے کا یہ پچاس پچپن سالہ پرانا سلسلہ ہے۔ اپنے تعلیمی دور میں تھرڈ ایئر میں انہوں نے اس کا آغاز کیا تھا جب وہ لاہور کالج کی سٹوڈنٹ تھیں۔ درس کا یہ سلسلہ سردی و گرمی، دھوپ و بارش، خوشی و غمی غرض ہر حال میں جاری رہا۔ شاذ و نادر ہی کبھی کسی چھٹی کا موقع آیا۔ حتیٰ کہ ابو جان کی وفات کے دوسرے دن منگل تھا، تب بھی انہوں نے اسی طرح اپنا فرض نبھایا، ہفتہ وار درس دیا اور آنے والی خواتین سے تعزیت وصول کرتی رہیں۔
درس میں امی جی قرآن کا ترجمہ و تفسیر پڑھایا کرتیں اور اس کا طریقہ کار یہ ہوتا ہے کہ کبھی تو فقط ایک وضاحت طلب آیت کی تفسیر میں سارا درس بیت گیا اور کبھی دو رکوع بھی مکمل کر لیے اور ان کا ترجمہ و تفسیر بیان کیا۔
یہی قرآن فہمی کا انداز ہے کہ ہم چند مہینوں میں چلتے پھرتے بھاگتے دوڑتے قرآن مجید سر سے نہ اتار دیں بلکہ اسے ایک اہم ترین ذمہ داری سمجھیں۔ اور تفکر و تدبر سے پڑھیں اور سمجھیں۔
درس کے علاوہ خواتین اور بچیوں کے حلقے قرآن و حدیث کی روز مرہ تعلیم حاصل کرتے ہیں جن میں پچیس تیس سے زائد مرتبہ ترجمہ وتفسیر القرآن مکمل ہو چکا ہے۔ اور حدیث کی مختلف کتب پڑھائی جاتی ہیں۔
اللہ تعالیٰ نے سات سال سے شروع کیے ہوئے ترجمہ وتفسیر القرآن کے عظیم سلسلے کو رمضان المبارک کے ان مبارک دنوں میں مکمل کرنے کی توفیق عطا فرمائی تو ہم سب کو بھی بہت خوشی و مسرت ہوئی۔ حالانکہ ہم سب بیٹیاں دور ہیں، لیکن پھر بھی جان کر ایک عجب سرشاری کی کیفیت محسوس ہو رہی ہے !
اللہ تعالیٰ اسے اور امی جان کی دیگر حسنات کو قبول فرمائے اور ذخیرہ آخرت بنائے ۔ آمین ثم آمین
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“ابو جان کی کتابِ زندگی کے صفحات بڑے حسین ہیں۔ میں مختلف اوراق پلٹ پلٹ کر دیکھتی ہوں تو ان کی حیات مستعار کے بے شمار پہلو دکھائی دیتے ہیں اور وہ ایک ایک پہلو پر پورا اترتے دکھائی دیتے ہیں۔” میں لکھتے ہوئے بار بار پلٹ پلٹ کر دیکھتی ہوں۔
ان کی یادوں کے ساتھ آنسوئوں کی لڑیاں ضبط کا بندھن توڑ کر بہہ نکلتی ہیں۔
وہ حقوق اللہ اور حقوق العبد دونوں کی ادائیگی کا بھر پور خیال رکھتے تھے۔ وقت کے نہایت پابند تھے۔ آپ انہیں چلتا پھرتا کلاک سمجھ سکتے ہیں۔ فی زمانہ وقت کی اتنی پابندی کرنے والےخال خال دکھائی دیتے ہیں۔
لیکن حقیقت یہی ہے کہ جو انسان وقت کا پابند ہو، لہو و لعب سے پاک ہو، اس کی زندگی انتہائی مرتب ہو اور اس کے ساتھ ساتھ وہ مستقل مزاج بھی ہو تو وہ بندہ ہی “تفہیم الاحادیث” جیساعالی شان اور دقیق ترین کام سر انجام دے سکتا ہے۔
؎ ہوتے ہوئے مصطفیٰﷺ کی گفتار
مت دیکھ کسی کا قول و کردار
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابا جان کثرت سے اذکار کرنے کے عادی تھے ۔ صبح و شام کے اذکار اور ہر نماز کے بعد کے اذکار کے علاوہ بھی وہ بہت زیادہ اذکار کرتے تھے۔ آخری ایّام میں وہ دن رات میں کم از کم پانچ سو اور بسا اوقات ہزار دفعہ درود شریف اور ہزار دفعہ استغفار کرنے کے عادی تھے۔ ان کی کوشش ہوتی تھی کہ وہ ہر وقت اپنی زبان کوذکر الٰہی سے تر رکھا کریں۔
اپنے کمرے میں اپنی مخصوص آرام کرسی پر بیٹھے ہاتھوں کی انگلیوں پریا تسبیح پکڑے اس کے دانوں پراذکار مسنونہ کرتے رہتے تھے۔ یا پھر بیڈ پر بیٹھ کر اذکار کرتے یا قرآن مجید کی تلاوت کرتے رہتے تھے۔ اللہ تعالیٰ کا بڑا فضل و کرم ہے کہ وہ آخری وقت میں بھی نمازِ ظہر کی ادائیگی کے بعد اذکار کرتے ہوئے اللہ تعالیٰ کی خدمت میں حاضر ہوئے تھے۔ ان کو موت بھی زندگی کی طرح سعادت مند نصیب ہوئی تھی۔ الحمد للّٰہ ثم الحمدللہ۔
ذٰلکَ فَضْلُ اللہِ یُؤْتِیْہِ مَنْ یَّشَآءُ۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“بیٹا! اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال رکھنا!” دادا جان نے اپنی وفات سے قبل ہمارے ابو جان سے بڑی آس سے کہا تھا۔
“میاں جی! آپ فکر نہ کریں۔ یہ میرے بہن بھائی ہیں اور میں ان کا خیال رکھوں گا ان شاء اللہ۔” ابو جان نے اپنے مرتے ہوئے والد کو بساط بھر تسلی دلائی تھی۔ اور وہ انہوں نے مطمئن ہو کر ہمیشہ کے لیے گہری نیند سو گئے تھے۔
ہماری پہلی دادی جان فاطمہ بی بی جب فوت ہوئیں تو اس وقت ابوجان کی عمرصرف چند برس تھی۔ وہ دو بھائی اور ایک بہن تھے۔ تایا عبدالغنی، پھپھو عائشہ اور ہمارے ابو جان عبدالوکیل علوی۔ دادا جان نے دوسری شادی کر لی اور دوسری بیوی سے بھی اللہ تعالیٰ نے ان کو اولاد دی۔ دوسری والدہ سے بھی ابو جان کے تین بہن بھائی تھے، پھپھو زینت، چچا عبدالرشید اور پھپھو کلثوم۔
دادا جان، جنہیں ابو جان وغیرہ میاں جی کہتے تھے، نے جب وفات پائی تو چھوٹے تینوں بچوں کو ابو جان کے سپرد کیا
اور پھر انہوں نے اس عہد کو مرتے دم تک نبھایا اور کثیر العیال ہونے کے باوجود اپنے چھوٹے بہن بھائیوں کا خیال کرتے رہے۔
ابوجان نے سب رشتہ داروں سے ہمیشہ صلہ رحمی کی اور آخر دم تک اپنی اولاد کو بھی صلہ رحمی کی تاکید کرتے رہے۔
اپنے بہن بھائیوں اور اولاد کے علاوہ اپنی سالیوں اور سالوں یعنی ہمارے خالاؤں اور ماموؤں کے حالات سے بھی باخبر رہتے تھے۔ ہمارے بڑے ماموں ڈاکٹر حبیب صاحب سے ان کی کالج لائف سے دوستی تھی جو وفات تک جاری رہی۔ ماموں سے اسی دوستی کی وجہ سے ان کا ہماری والدہ سے رشتہ ہوا تھا۔
بہوؤں اور دامادوں سے حسن سلوک سے پیش آتے تھے۔ ان کے والدین یعنی اپنے سمدھیوں سے بھی ان کے بہترین تعلقات رہتے تھے۔ وہ سب بھی ان کی نہایت عزت کرتے اور ان سے دلی لگاؤ رکھتے تھے۔
مہمانوں کی آمد پر وہ خوش ہوتے تھے۔
بیٹیوں کی آمد کے وہ منتظر رہتے تھے۔
سب کو وہ اپنی دعاؤں میں یاد رکھتے تھے۔ انہیں اپنے بچوں کے نام، ان کے بچوں یعنی پوتےپوتیوں اور نواسے نواسیوں کے نام تو یاد تھے ہی۔ ان کے علاوہ بھی اپنے بہن بھائیوں یعنی ہمارے تایا اور پھپھو ان کے بچوں اور آگے ان کے بچوں کے نام بھی یاد تھے۔
اسی طرح اپنے سالے اور سالیوں یعنی ہمارے ماموؤں اور خالاؤں کے نام اور ان کے بچوں کے نام بھی یاد تھے اور وہ سب کا نام لے لے کر ان کے لیے دعائیں کرتے تھے۔
“یہ میرا کسی پراحسان نہیں ہے۔ یہ ان کا مجھ پر حق ہے کہ میں ان سب کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھا کروں۔ اب دعاؤں اور عبادت کے علاوہ اور کرنا بھی کیا ہے؟” وہ کہتے تھے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“زندگی گزارنے کا بہترین اصول اور طریقہ یہ ہے کہ اپنے سے اوپر والوں کو نہ دیکھا کرو بلکہ اپنے سے چھوٹوں کو دیکھا کرو کہ ان کی آمدنی کتنی ہے؟ وہ کس طرح زندگی گزارتے ہیں اور کس طرح گزارہ کرتے ہیں؟ دنیا داروں کو نہ دیکھو اور دین داروں کو دیکھو۔ یہی زندگی کا سنہرا اصول ہے۔” ابو جان اپنی اولاد کو کہتے تھے
اور میں نے انہیں خود بھی تا حیات اس اصول پر عمل پیرا ہوتے دیکھا ہے۔
ابوجان مرحوم نے زندگی گزارنے کا مشکل کام بحسن خوبی نبھایا تھا۔ ان کا رہن سہن اپنے وسائل کے لحاظ سے درمیانہ تھا۔ کھانا پینا، پہننا اوڑھنا، مہمان داری اور لین دین سب کام اچھے طریقے سے کیے لیکن طرزِ زندگی ہمیشہ سادہ رکھا۔ وہ سادہ مزاج تھے لیکن اچھا کھانے پینے اور پہننے اوڑھنے کے شوقین تھے۔
ہمارےابا جان سیلف میڈ انسان ہونے کے ناتے خرچ میں محتاط تھے اور فضول خرچ تو بالکل نہیں تھے۔ وہ اپنے وسائل کے اندر گزارا کرنے والے خوش باش انسان تھے۔ ساری زندگی کمایا ہوا اپنے گھر پر خرچ کیا، اولاد کو اچھی تعلیم دلوائی۔ اچھی تربیت کی اور گھر اچھا بنایا۔ کتابیں پڑھنے اور خریدنے کے بہت شوقین تھے۔ لیکن گھر کے اندر فرنیچر اور کراکری، قالین وغیرہ کا معیار “اعلیٰ ترین” کرنے کے بجائے صحیح مصرف اور ضروریات زندگی پر پیسہ خرچ کرتے تھے۔ اولاد کی تعلیم و تربیت اور صلہ رحمی ان کے نزدیک روپے پیسے کا اصل مصرف تھی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کسی انسان کی عظمت یہ ہوتی ہے کہ اس کی موت کے بعد ہر شخص اسے اچھے الفاظ میں یاد کرے۔ ابا جان کی وفات کے بعد ہم نےتعزیت کے لیے آنے والے لا تعداد لوگوں کی زبان سے ان کی صرف اور صرف اچھائیاں اور بھلائیاں سنیں۔ ہر جگہ میری والدہ محترمہ کا تذکرۂ خیر بھی ساتھ ساتھ ہوتا تھا کیونکہ نیکی اور تقویٰ کی شاہراہ پر رفیقۂ حیات کے بغیر اکیلے چلنا بڑا دُشوار گزار کام ہوتا ہے۔
صلۂ رحمی، خوش اخلاقی، قریبی ضرورت مند رشتہ داروں سے تعاون اور سب رشتہ داروں سے حُسنِ سلوک سے پیش آنا، اپنے بیٹوں، بیٹیوں، دامادوں اور بہوؤں کا خیال رکھنا، چھوٹے بڑے بچوں سے پیار کرنا، تعلّق باللہ انتہائی مضبوط ہونا اور کثرتِ اذکار کی فطرتِ ثانیہ کو اپنانا، نماز باجماعت اوّل وقت مین تکبیرِ اولیٰ سے ادا کرنا، وقت کی پابندی، نظم و ضبط، صفائی و ستھرائی اور نظافت وطہارت وغیرہ۔ غرض ان کی نیکیوں اور حسنات کے بے شمار پہلو ہیں جو ان کے تذکرۂ میں جھلکتے رہتے ہیں۔
؎ زندگی فردوس گم گشتہ کو پاسکتی نہیں
موت ہی آتی ہے یہ منزل دکھانے کے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
میری چھوٹی پھپھو جوانی میں بیوہ ہو گئی تھیں۔ ان کے ما شاءاللہ چھ بچے ہیں۔ چار بیٹیاں اور دو بیٹے جو اس وقت بالکل چھوٹے چھوٹے تھے۔ چاروں بیٹیاں بڑی جبکہ دونوں بیٹے چھوٹے ہیں۔ ابا جان اور تایا جان نے بیوہ بہن کے سر پر ہاتھ رکھا اور ان کی کفالت کرتے رہے اور ان کے بچوں کو تعلیم دلاتے رہے۔ تایا جان کی وفات کے بعد ابا جان یہ ذمہ داری نبھاتے رہے اور انہوں نے چاروں یتیم بھانجیوں کی شادی میں پھپھو جان کے ساتھ بھرپور تعاون کیا۔ چوتھی بھانجی کی شادی ان کی وفات سے دو ماہ بیشتر ہوئی تھی۔
صالح باپ کے صالح بیٹوں نے یہی فیصلہ کیا ہے کہ وہ ابا جان کی پیروی و اطاعت میں پھپھو کی اسی طرح کفالت کرتے رہیں گے جس طرح ابا جان اپنی زندگی میں کرتے تھے۔
چھوٹے دونوں بیٹے بھی اَب جوان ہو چکے ہیں اور اب تا دمِ تحریر بڑی حد تک اپنے پاؤں پر کھڑے ہو چکے ہیں۔ الحمد للّٰہ
یتیم کے سرپر ہاتھ رکھنے اور اس کی کفالت کرنے والے کے لیے جنت کی بشارت ہے۔ اللہ رب العزت ابا جان کو صلہ رحمی اور یتیموں کی کفالت کا اجرِ عظیم عطا کریں گے۔ ان شاء اللہ
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جہانیاں اور ملتان سے جو مہمان لاہور آتے تھے، وہ ہمارے گھر میں قیام کرتے تھے۔ ساری زندگی ہم نے یہی روٹین دیکھی اور ابو جان اور امی جان خوش دلی سے ان کا استقبال کرتے تھے اور والدہ ان کی پُرتکلف مہمان نوازی کیا کرتی تھیں۔ خصوصاً اپنی بڑی بھابھی اور ہماری تائی جان کی بہت تعریف کرتے تھے کہ “وہ بہت اچھی خاتون تھیں۔ میرے بہن بھائیوں یعنی اپنے دیوروں اور نندوں کو انہوں نے بہت اچھے طریقے سے سنبھالا تھا۔ متقی اور مہمان نواز تھیں اور سب رشتہ داریوں کو جوڑنے والی تھیں۔”
ابو جان ان سے مل کر بڑاخوش ہوتے تھے اور سب رشتہ داروں، احباب اور محلّے دار کا تفصیلی حال احوال پوچھتے تھے۔ قریبی اور بے تکلف احباب سے بچپن اور جوانی کی یادیں بھی تازہ کرتے رہتے تھے۔
بیٹیوں سے بہت محبت کرتے اور شادی شدہ بیٹیوں کی آمد کے منتظر رہتے تھے۔
میرے لاہور جانے سے بہت خوش ہوتے تھے، ہمیشہ میرے ساس سسر کی خیریت دریافت کرتے اور انہیں سلام کہتے۔ خصوصاً میرے سسر سے انہیں بہت لگاؤ تھا اور وہ ان کے لیے بہت زیادہ دعائیں بھی کرتے تھے اور ان کے حال احوال سے باخبر بھی رہتے تھے۔ دل کی بیماری کی وجہ سے وہ سفر بہت کم کرتے تھے لیکن سب کے حالات سے آگاہ رہتے تھے۔
ایک سیلف میڈ انسان، بچوں کی ضروریات پوری کرنے کی فکر کرنے والے، ہر حال میں توکل علی اللہ اور پر امید رہنے وال، مشکل حالات میں بھی اللہ تعالیٰ سے اچھی آس و امید رکھنے اور توکل علی اللہ کرنے والے، ایک ہاتھ سے دینے اور دوسرے ہاتھ کو خبر نہ ہونے دینے والے، اس طرح سے لوگوں کی مدد کرنے والے، اپنے پرائے سب کا خیال رکھنے والے، صلہ رحمی کرنے میں سب سے آگے، رشتہ داروں کی خبر رکھنے والے اور ان سے حسن سلوک سے پیش آنے والے کیا خوب انسان تھے!!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابا جان مختلف اقسام کے صدقۂ جاریہ چھوڑ کر دنیا سے رخصت ہوئے ہیں۔ جن میں نیک اور صالح اولاد کے علاوہ متفرق علمی وتحقیقی خدمات شامل ہیں، ساری زندگی کا تحریری کام اور قرآن و سنت کی خدمت ان کی حسنات ہیں۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ابو جان بروز پیر بوقت 2:25 بجے فوت ہوئے۔ ان کا جنازہ دوسرے دن بروز منگل صبح نو بجے ادا کیا گیا۔ پیر کو سارا دن اور منگل کو آدھا دن تیز چکمیلی دھوپ ہر طرف پھیلی ہوئی تھی لیکن دفنانے کے چند گھنٹوں کے بعد موسم تبدیل ہو گیا اور موسمِ سرما کی پہلی شدید مُوسلا دھار بارش برسنا شروع ہو گئی۔ جو بُوندا باندی کی صورت میں اگلے روز صبح تک جاری رہی۔
پیر اور منگل کی درمیانی شب کو، جب ابھی ابا جان کو دفن نہیں کیا گیا تھا اور ان کی میت گھر میں موجود تھی، تو امی جان کی ایک نیک سیرت بزرگ شاگردہ باجی نعیمہ بتول نے ابو جان کو خواب میں نہایت اچھی حالت میں دیکھا۔ وہ امی جان سے حدیث کی کتاب “بلوغ المرام” پڑھتی رہی ہیں، اب صحیح بخاری پڑھ رہی ہیں اور اپنے گھرمیں خود بھی اپنی طالبات کو قرآن مجید کا ترجمہ پڑھاتی ہیں۔
خواب دیکھنے کے بعد اگلے روز منگل کو وہ صبح تقریباً گیارہ بارہ بجے ہمارے گھر امی جان کے پاس آئیں جو تعزیت کرنے والوں میں گِھری ہوئی تھیں۔
“آپاجان! میں آپ کو مبارک باد دینے آئی ہوں۔” وہ آتے ہی کہنے لگیں۔
“باجی نعیمہ کیا کہہ رہی ہیں؟ یہ مبارک باد دینے کا وقت تو نہیں، یہ تو تعزیت کا وقت ہے۔” امی جان سمیت اردگرد بیٹھی خواتین نے چونک کر دیکھا۔
“آپا جان! میں نے آج صبح تہجد کے وقوت چچا جان عبدالوکیل علوی کو خواب میں بہترین حالت میں نہایت خوش و خرم دیکھا ہے۔” وہ فوراً کہنے لگیں۔بب
یہ سن کر سب کو خوشی و مسرت کے احساسات نے گھیر لیا۔ پھر انہوں نے اپنا خواب تفصیلاً پوری جزئیات کے ساتھ بیان کیا۔
قارئین محترم! یہ خواب آپ بھی باجی نعیمہ کی زبانی سنیں۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ:
’’چچا جان عبد الوکیل علوی بہت بلندی پر، خلا سے بھی اوپر، گویا آسمان پر بڑی شان سے کھڑے مجھے پکار کر کہہ رہے ہیں کہ
“ادھر دیکھو! دیکھو! یہ کیا ہے؟ کتنا خوبصورت تحفہ ہے جو مجھے آتے ہی مل گیا ہے۔ لو پکڑو، دیکھو! یہ کتنی خوبصورت کتاب ہے!”
ان کے ہاتھ میں نگاہوں کوخِیرہ کرتی ایک بڑی خوبصورت کتاب ہے جو تقریباً ڈیڑھ فٹ لمبی اور تقریباً پانچ چھ انچ موٹی ہے۔ (باجی نعیمہ نے ہاتھوں سے اشارہ کر کے اس کی لمبائی چوڑائی اور ضخامت (موٹائی) بالکل واظح طور پر بیان کی)
میں حیران ہوتی ہوں کہ اس بلندی تک میرا ہاتھ کیسے پہنچے گا؟ اور میں اتنی ضخیم کتاب کیسے پکڑ سکونگی؟ لیکن میں نے جیسے ہی ہاتھ اوپر کیا، وہ کتاب میرے ہاتھ میں گویا خود بخود ہی آگئی۔ وہ کتاب کافی بڑی اور ضخیم (موٹی) تھی لیکن پکڑنے میں مجھے اس کا وزن ایسے محسوس ہوا تھا جیسے وہ گلاب کا پھول ہو۔ کتاب کی خوبصورتی کا مت پوچھئے۔ میرے لیے الفاظ میں بیان کرنا مشکل ہے۔
میں نے کتاب کا ٹائٹل پیج دیکھا۔ اس کی جلد گویا سونے کی بنی ہوئی تھی، جگ مگ جگ مگ کرتی ہوئی۔ اوپر کتاب کے نام والی جگہ (یعنی ٹائٹل) پر بے انتہا چمک دار اور ابھرے ہوئے نمایاں حروف میں “مدینۃ الرسول” کے الفاظ چمک دمک رہے ہیں۔
میں نے پلٹ کر کتاب کی دوسری سائیڈ دیکھی (یعنی بیک ٹائٹل) تو وہ گویا “قَوَارِیْرَ مِنْ فِضَّۃٍ” سے بنی تھی (یہ ایک قرٓانی اصطلاح ہے جو سورۃ الدہر میں جنت کے برتنوں کے لیے استعمال ہوئی ہے۔ اس کا مطلب ہے “ایسے آبگینے (شیشے) جو چاندی سے مل کر بنے ہوں”)
میں نے جلدی سے کتاب کو کھولا کہ پڑھ کر دیکھوں کہ اس میں کیا لکھا ہے؟ تو میں دیکھتی ہوں کہ اندر احادیث رسول لکھی ہیں اور ان کے الفاظ “جو” کی شکل کے عنابی مائل سرخ رنگ کے موتیوں سے لکھے گئے ہیں۔ ان موتیوں کو مِلا مِلا کر احادیثِ رسول لکھی گئی ہیں، الفاظ کے نقطےقیمتی نگینوں کی طرح چمک رہے تھے۔ ہر لفظ کا طرزِ نگارش بے حد دل رُبا تھا (یاد رہے کہ ابا جان نے بارہ تیرہ برس کی جہدِ مسلسل کے بعد تفہیم الاحادیث کی آٹھ جلدوں کا کم و بیش چار ہزار صفحات پر پھیلا ہوا حدیث کا عظیم مجموعہ تشکیل دیا تھا جو سید ابو الاعلیٰ مودودی کی کتب اور ادب (Literature) سے تالیف کیا گیا تھا)۔
میں اس قابل رشک تحفے کو بے حد حیرت و مسرت سے دیکھ رہی تھی کہ اس بزرگ محترم ہستی نے، جو ابھی تک بلندی پر جلوہ افروز تھے، اپنا تحفہ واپس لینے کے لیے ہاتھ نیچے کیا۔ میں نے وہ کتاب انہیں واپس کر دی۔
پھر وہ امی جان کومخاطب کرتے ہوئے کہنے لگیں۔
“آپا جان! اس کے بعد میں نے اسی خواب میں مزید یہ دیکھا کہ آپ کا یہی گھر ہے۔ یہی ڈرائنگ روم اور یہی جگہ ہے، اور آپ کے گھر سے ایک ہجوم اندر باہر آجارہا ہے اور میری حدیث کی ایک مرحومہ شاگردہ اسی کتاب کی ایک نقل (فوٹو کاپی) لے کر باہر مین گیٹ کے پاس کھڑی لوگوں کو وہ پڑھ پڑھ کر سنا رہی ہے اور لوگوں کو اس سے فائدہ پہنچ رہا ہے۔”
یہ صبح تین چار بجےکے درمیان تہجد کا وقت تھا۔ میں جب خواب سے بیدار ہوئی تو میری زبان پرقرآن مجید کی یہ آیات خود بخود جاری تھیں۔
بِاَيْدِيْ سَفَرَۃٍ۔ كِرَامٍؚ بَرَرَۃٍ۔
ترجمہ: “ایسے لکھنے والوں کے ہاتھوں میں ہیں جو معزز نیکوکار ہیں۔”
“ان آیات کو میری زبان پر جاری ہونے کا میں یہ مطلب سمجھتی ہوں کہ چچا جان عبدالوکیل علوی کی روح کا استقبال ان فرشتوں نے کیا ہوگا جن کے توسط سے قرآن کریم کا نزول ہوا۔”
اَللہُ اَکْبَرُ!
سُبْحَانَ اللہ!
ایسا واضح اور خوبصورت خواب ابا جان کی ساری زندگی کی عبادت و ریاضت کا بہترین انعام بیان کر رہا تھا!!!
باجی نعیمہ جب اپنا خواب بیان کر رہی تھیں تو وہاں موجود سب لوگوں پرگویا سحر طاری تھا۔
جب وہ خواب بیان کر کے خاموش ہوئیں تو وہ دلکش طلسم ٹوٹ گیا اور خواتین ان سے طرح طرح کے سوالات پوچھنے لگیں جن سے خواب مزید واضح ہو گیا اور لوگوں کے ذہنوں میں اُٹھنے والے سوالات کے نعیمہ باجی نے تسلی بخش جوابات دے کر سب کے دلوں کو مطمئن اور شاداں و فرحاں کر دیا۔
“اَللّٰھُمَّ اجْعَلْہٗ مِنَ المَھْدِیِّیْنَ الْمُقَرَّبِیْنَ”
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
“اللہ تعالیٰ نے میرا راستہ ہموار کر دیا ہے۔ میں اپنی منزل کو پہنچ گیا ہوں۔” انہوں نے خواب میں قاسم بھائی کو جواب دیا۔
قاسم بھائی نے ابو جان کو ان کی وفات کے بعد لگاتار تین چار دن تہجد کے وقت خواب میں نہایت اچھی حالت میں بے انتہا خوش و خرم دیکھا تھا۔ وہ کہتے ہیں کہ
“میں نے ابوجان کو خواب میں بہت خوش اور بڑی اچھی حالت میں دیکھا۔ ان کے چہرے پر بڑی نورانی کیفیت طاری تھی۔ “کیا میں فوت ہو گیا ہوں؟” ابو جان نے مجھ سے پوچھا۔
“جی ہاں! آپ فوت ہو چکے ہیں۔” میں نے جواب دیا کہ
“ابوجان! آپ کا معاملہ کیسا رہا؟” پھر میں نے ان سے سوال کیا تو انہوں نے نہایت خوشی سے اپنی آسانی کی خبر دی۔
بقول شاعر
؎ آب رواں کی لہر ہے اور ہم ہیں دوستو!
سُبْحَانَ اللہ! کتنا واضح خواب ہے!!!
اور تہجد کے وقت کا خواب ہے!!!
ان کے علاوہ بھی مجھ سمیت دیگر کئی لوگوں نے ابا جان کو خواب میں نہایت خوش و خرم اور اچھی حالت میں دیکھا ہے۔ اور عموماً تہجد کے وقت انہیں خواب میں دیکھا ہے۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سب سے بڑی بہن نے بھی ابا جان کو کئی دفعہ خواب میں بہترین کیفیت میں، روشن نورانی چہرے کے ساتھ خوش و خرم اور ہنستے مسکراتے دیکھاہے۔ اور اہم بات یہ ہے کہ باجی نے بھی انہیں تہجد کے وقت خواب میں دیکھا تھا۔
ابوبکر بھائی کی ساڑھے آٹھ سالہ بیٹی اسماء ابوبکر نے بھی دادا جان کو خواب میں دیکھا ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ میں نے دیکھا کہ “دادا جان بالکل صحیح اور تندرست تھے۔ وہ بیمار نہیں تھے اور بڑے خوش تھے اور ہنس رہے تھے۔” اپنی عمر کے حساب سے جتنی اس کو عقل سمجھ ہے، اسی لحاظ سے اس نے اپنا خواب بیان کیا۔
میں نےانہیں جب بھی خواب میں دیکھا ہے تو کبھی میرے دل میں یہ احساس پیدا نہیں ہوتا تھا کہ وہ فوت ہو چکے ہیں۔ بلکہ روٹین کے کاموں میں، بچوں کےساتھ بیٹھے اور ہنستے مسکراتے خوش و خرم نظر آتے ہیں۔
؎ موت اس کی ہے، کرے جس کا زمانہ افسوس
یوں تو دنیا میں سبھی آئے ہیں مرنے کے لیے
( جاری ہے )
9 پر “گل آرزو کی جو باس تھے، وہی لوگ ہم سے بچھڑ گئے (حصہ سوم)” جوابات
بہترین اور مؤثر تحریر ہے ماشاءاللہ
Excellent and effective Article
Masha Allah
اللہ تعالیٰ مولانا صاحب کی نیکیوں اور حسنات کو قبول فرمائے۔اور ہمیں ان کے نقش قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے
آمین ثم آمین
رب ارحمھما کما ربینی صغیرا
ماشاءاللہ بہت عمدہ اور مؤثر آرٹیکل ہے۔
پڑھ کر بہت اچھا لگا۔
اللہ تعالیٰ مرحوم کی مغفرت فرمائے اور ان کی قبر ٹھنڈی رکھے۔
آمین ثم آمین
Beautiful and efficient article
عمدہ اور مؤثر روداد ہے ماشاءاللہ
اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
آمین ثم آمین
عمدہ اور مؤثر روداد حیات ہے ماشاءاللہ۔
اللہ تعالیٰ مولانا مرحوم کی مغفرت فرمائے اور انہیں جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔
آمین ثم آمین
ماشاءاللہ بہت اعلیٰ اور بامقصد روداد ہے۔
پڑھ کر بہت اچھا لگا۔ دل میں خواہش پیدا ہوئی کہ مرحوم کے مزید حالات زندگی پڑھوں۔
اللہ تعالیٰ جنت الفردوس میں اعلیٰ مقام عطا فرمائے۔ آمین