عبید اللہ عابد
جناب عقیل عباس جعفری نے ایک کتاب تدوین کی ہے ، عنوان رکھا ہے : ” اپنی یاد میں ” ۔ اس کتاب میں مختلف نامور اہل قلم کے منفرد خاکے ، کتبے اور منظومات ہیں جو انھوں نے اپنی موت کے پس منظرمیں تحریر کیے۔ کتاب حاصل کرنے کے لیے فضلی سنز، اردو بازار، کراچی
فون : 03362633887 سے رابطہ کیا جاسکتا ہے۔ اس کی قیمت محض قیمت: 900 روپے ہے۔
کتاب میں اشفاق احمد کی ایک تحریر بھی شامل ہے ، عنوان ہے : بعد مرنے کے مرے
اشفاق احمد لکھتے ہیں کہ ان کے مرنے کے بعد کیا ہوگا ؟ یہ تحریر محض ایک تخیل نہیں ہے بلکہ ہمارے معاشرے کی ایک سو ایک سچی کہانیوں کا مجموعہ ہے۔
حیرانی کی بات یہ ہے کہ اتنے بڑے ادیب اور ذہین فن کار اور شوبزنس کے ایک کامیاب آرٹسٹ کی موت کے باوجود لاہور کا سارا کاروبار نارمل طریق پر” چلتا رہے گا۔ شاہ عالمی چوک سے لے کر میو اسپتال کے چوک تک ٹریفک اسی طرح پھنسا رہے گا، کوچوان گھوڑوں کو اونچے اور قریبی کوچوان کو نیچے لہجے میں گالیاں دیتے رہیں گے۔ اسپتال کے اندر مریضوں کو کھانا جاتا رہے گا۔ ٹیلی فون بجتا رہے گا، بجلی کا بل آتا رہے گا،
فقیر سوتا رہے گا، چوڑھے ٹاکی مارتے رہیں گے، استاد پڑھاتے رہیں گے، ریکارڈنگ ہوتی رہے گی، قوال گاتے رہیں گے، رنڈی ناچتی رہے گی، ڈاکیا چلتا رہے گا، سوئی گیس نکلتی رہے گی، تقریریں ہوتی رہیں گی، غزلیں لکھی جاتی رہیں گی، سوئی میں دھاگہ پڑتا رہے گا، قتل ہوتا رہے گا، زچہ مسکراتی رہے گی، بچہ پیدا ہوتا رہے گا۔
برانڈ رتھ روڈ کی دکانوں پر نئے مکان بنانے والی بیگمات ولائتی ٹونٹیوں اور فلشوں کے نمونے دیکھ رہی ہوں گی، ان کے پرسوں میں سو سو کے نوٹ ہوں گے، ان کے جسم بڑے بڑے اور سینے موٹے موٹے ہوں گے اور ان کے خاوند اپنے اپنے مرکزوں پر روپے بنا رہے ہوں گے، کرشن نگر کی لڑکی نے ساری رات لگا کر باریک باریک لفظوں کی کشیدہ کاری سے ایک محبت نامہ لکھا ہو گا اور ہسٹری کی کتاب میں رکھ کر برقع اوڑھ کر اسے پوسٹ کرنے جا رہی ہو گی۔
شادمان کی لڑکی ٹیلی فون پر اپنے محبوب سے گفتگو کر رہی ہو گی اور آپریٹر درمیان میں سن رہا ہو گا، موچی کے باہر بڈھے گھوڑوں کے نعل لگ رہے ہوں گے اور گھوڑا اسپتال میں نو عمر بچھڑے آختہ کیے جا رہے ہوں گے۔ خاندانی منصوبہ بندی کی لڑکیاں تاریک محلوں میں جا کر چھلے اور ربڑ مفت تقسیم کر رہی ہوں گی اور رجسٹر میں اندراج کر رہی ہوں گی۔ ان میں سے کئی ایک کی پچھلے مہینے کی تنخواہ کا بل بابو نے نہیں بنایا ہو گا اور ان کے چھوٹے بھائی کو اسکول سے اٹھا کر خرادیے کے پاس بٹھا دیا ہو گا۔
بڈھے عرضی نویس کا پیشاب بند ہو گا اور اس کے پوتے اسے چارپائی پر ڈال کر اسپتال لائے ہوں گے، خزانچی نوٹوں کی گٹھیوں میں سوراخ کر کے دھاگے پرو رہے ہوں گے، شادی کی تاریخ مقرر کرنے کے لیے مائیں لڑکیوں سے پوچھ رہی ہوں گی کہ ان کے لیے کون سی تاریخ ٹھیک رہے گی۔ چلہ کاٹنے والے دعائے حزب البحر پر داہنے ہاتھ کی انگلیاں کھول کر اوپر کی طرف اٹھا رہے ہوں گے۔
لڈو بناتا ہوا حلوائی اٹھ کر سامنے والی نالی پر پیشاب کر رہا ہو گا۔ لبرٹی مارکیٹ میں دو نوجوان ایک لڑکی کے پیچھے گھوم رہے ہوں گے، دلہنوں کے جسموں سے آج ایک اجنبی مہک ابھی اٹھ رہی ہو گی۔ بچے گلی میں کیڑی کاڑا کھیل رہے ہوں گے اور قریبی مکان میں ایک ماں اپنے بیٹے کو پیٹ رہی ہو گی جس کا خاوند ایک اور عورت کے ساتھ جہانگیر کے مقبرے کی سیر کر رہا ہو گا۔
یونیورسٹی میں لڑکیاں کھلے پائنچوں کی شلواریں پہن کر لڑکوں سے یونین کی باتوں میں مصروف ہوں گی اور ہیلتھ سیکریٹری لاٹ صاحب کے دفتر میں اپنی ریٹائرمنٹ کے خوف سے یرقانی ہو رہا ہو گا۔ کچھ جسم ماربل کے باتھ روم میں واش کر رہے ہوں گے، کچھ چپس کے غسل خانوں میں نہا رہے ہوں گے، کچھ مسجدوں کے سقاووں میں پاک ہو رہے ہوں گے،
کتنے افسوس کا مقام ہے کہ ایک ادیب اور فنکار نے ساری عمر پھوئی پھوئی کر کے اپنی شہرت اور نیک نامی کا تالاب بھرا ہو گا اور دن رات ایک کر کے لوگوں کے دلوں میں گھر کیا ہو گا اور اس ایک چھوٹے سے حادثے سے وہ سارے دلوں سے نکل گیا ہو گا۔ ہریاد سے محو ہو گیا ہو گا۔ اس دل سے بھی جس نے اسے جنم دیا ہو گا۔ اس دل سے بھی جس نے اسے سچ مچ یاد کیا تھا اور اس دل سے بھی جس نے اس سے فائدہ اٹھانے کے لیے دلی محبت کی تھی۔
تیسرے چوتھے روز اتوار کے دن حلقہ ارباب ذوق ادبی میں میرے لیے ایک قرار داد تعزیت پاس کی جائے گی۔ عین اسی وقت حلقہ ارباب ذوق سیاسی میں بھی ایک قرار داد تعزیت پیش کی جائے گی۔ سب متفقہ طور پر اسے منظور کریں گے۔ لیکن اس کے آخری فقرے پر بحث کا آغاز ہو گا کہ حلقہ ارباب ذوق کا یہ اجلاس حکومت سے پرزور اپیل کرتا ہے کہ مرحوم کے لواحقین کے لیے کسی وظیفے کا بندوبست کیا جائے۔ اس پر حاضرین دو گروہوں میں بٹ جائیں گے۔
ایک اس کے حق میں ہو گا کہ یہ فقرہ رہنے دیا جائے کیونکہ مرحوم ایک صاحب حیثیت ادیب تھا اور اس کی اپنی ذاتی کوٹھی ماڈل ٹائون میں موجود ہے۔ پھر کوٹھی کی تفصیلات بیان کی جائیں گی، کچھ اسے دو کنال کی بتائیں گے، کچھ تین کنال کی، کچھ دبی زبان میں کہیں گے کہ اس کی بیوی پڑھی لکھی خاتون ہے وہ نوکری بھی کر سکتی ہے اور لکھنے لکھانے کے فن سے بھی آشنا ہے۔
ریڈیو آنے جانے والے ایک ادیب سامعین کو بتائیں گے کہ بانو کی ذاتی آمدنی ریڈیو ٹی وی سے دو ہزار سے کم نہیں۔ میرے ایک دور کے رشتہ دار ادیب اعلان کریں گے کہ وہ ایک مالدار گھرانے کا فرد تھا اور اس کا اپنے باپ کی جائیداد میں بڑا حصہ ہے جو اسے باقاعدگی سے مل رہا ہے۔ پھر کوئی صاحب بتائیں گے کہ ورثا کو بورڈ سے گریجویٹی بھی ملے گی۔
اسٹیٹ لائف انشورنس کے ایک ادب نواز کلرک، جو حلقے کی میٹنگوں میں باقاعدگی سے آتے ہیں بتلائیں گے، اس نے اپنے تینوں بچوں کی انشورنس بھی کرا رکھی تھی۔ گو ان کی رقم بیس بیس ہزار سے زائد نہیں۔ طویل بحث کے بعد اتفاق رائے سے یہ فیصلہ ہو گا کہ آخری فقرہ کاٹ دیا جائے، چنانچہ آخری فقرہ کٹ جائے گا، پھر مجھ پر آٹھ آٹھ منٹ کے تین مقالے پڑھے جائیں گے اور آخری مضمون میں یہ ثابت کیا جائے گا کہ میں دراصل پنجابی زبان کا ایک ادیب اورشاعر تھا اور مجھے پنجاب سے اور اس کی ثقافت سے بے انتہا پیار تھا۔
یہ سب کچھ ہو جانے کے بعد دن ہفتوں، مہینوں اور سالوں میں تبدیل ہونے لگیں گے اور میری پہلی برسی آ جائے گی۔ یہ کشور ناہید کے آزمائش کی گھڑی ہو گی، کیونکہ ہال کی ڈیٹس پہلے سے بک ہو چکی ہوں گی اور میری برسی کے روز آل پاکستان ٹیکنیکل اسکولز کے ہنر مند طلبا کا تقریری مقابلہ ہو گا، کشور کو پاکستان سینٹر میں میری برسی نہ منا سکنے کا دلی افسوس ہو گا اور وہ رات گئے تک یوسف کامران کی موجودگی میں کف افسوس ملتی رہے گی۔
لوگ اس کی مجبوریوں سے ناجائز فائدہ اٹھا کر اس کو ایک ایشو بنا لیں گے اورلوگ جو عمر بھر مجھے جائز طور پر ناپسند کرتے رہے تھے وہ بھی کشور ناہید کے ’برخلاف‘ دھڑے میں شامل ہو جائیں گے۔ مجھ سے محبت کی بنا پر نہیں کشور کو ذلیل کرنے کی غرض سے، پھر ذوالفقار تابش کی کوششوں سے گلڈ کے بڑے کمرے میں یہ تقریب منائی جائے گی اور عتیق اللہ، شکور بیدل، ریاض محمود، غلام قادر، سلیم افراط مجھ پر مضمون پڑھیں گے۔
کس قدر دکھ کی بات ہے کہ زمانہ ہم جیسے عظیم لوگوں سے مشورہ کیے بغیر ہم کو بھلا دے گا۔ میں ہوا، نپولین ہوا، شہنشاہ جہانگیر ہوا، الفرج رونی ہوا، ماورا النہر کے علما ہوئے، مصر کا ناصر ہوا، عبدالرحمن چغتائی ہوا، کسی کو بھی ہماری ضرورت نہ رہے گی اور اتنے بڑے خلا پانی میں پھینکے ہوئے پتھر کی طرح بھر جائیں گے۔ ہماری اتنی بڑی قربانیوں کا کہ ہم فوت ہوئے اورفوت ہونا کوئی آسان کام نہیں، لوگ یہ صلہ دیں گے۔ افسوس زمانہ کس قدر بے وفا ہے اور کس درجہ فراموش کار ہے۔”