تذکرہ ایک مثالی خاتون کا

تذکرہ ایک مثالی خاتون کا

·

سوشل میڈیا پر شیئر کریں

میری پیاری نانی جان محترمہ حمیدہ  بیگم زوجہ عبد الرحمن کیلانی کے حالات و واقعات زندگی 

ڈاکٹر خولہ علوی

“عورت کی زندگی محض روایتی طریقے سے چند محدود کاموں میں بسر کر دینے کا نام نہیں ہے۔ وہ اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال کرکے اپنی اولاد اور دیگر اعمال صالحہ کو اپنے لیے صدقہ جاریہ بنا سکتی ہے۔” ہماری پیاری نانی جان محترمہ حمیدہ بیگم زوجہ عبد الرحمن کیلانی نے اپنے علم وعمل اور ان تھک محنت سے یہ شعور اور پیغام دل ودماغ میں اجاگر کردیا تھا۔ 

ان کا نام اگرچہ محترمہ حمیدہ بیگم تھا لیکن وہ “امی جی” کے نام سے معروف تھیں۔ وہ 1925ء میں رسول نگر ( ضلع گجرانوالہ ) کے ایک دینی گھرانے میں پیدا ہوئیں اور 7 اور 8 فروری 1988ء (بمطابق 18 جمادی الثانی 1408ء) کی شب بروز منگل اس دارِ فانی سے کوچ کر گئیں۔ 

وہ معروف عالم دین، بے مثال خوش نویس و خطاط اور مصنف کتب کثیرہ مولانا عبد الرحمن کیلانی کی شریک حیات تھیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

سردیوں کی خنک سی فضاؤں میں جہاں بہت سی اور یادیں اپنی خوشبو اڑائے چلی آتی ہیں، وہیں ایک یاد نانی جان کی بھی ہے۔ سرد موسم میں گرما گرم و خستہ پراٹھے دیکھ کے بھی ان کی محبت بھری اور شگفتہ سی جھلک نمایاں ہوتی ہے۔ وہی ماضی کی ایک دھندلی جھلک، جہاں ہمارے دلوں کے بہت قریب ایک شفیق ہستی بستی تھیں۔ جہاں انہوں نے اپنے بچوں کی بہترین تربیت کی تھی، وہیں وہ ہماری نانی جان ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری کیا خوب استاذہ بھی تھیں!!!

اپنی اولاد میں بیٹوں اور بیٹیوں دونوں کی تربیت کے معاملے میں بے حد محتاط اور حساس تھیں۔ درس و تدریس سے گہرا تعلق تھا۔ اپنے بچوں کو ابتدائی عمر میں ہی قرآن مجید ناظرہ اور ترجمہ قرآن پڑھا دیا تھا۔ بچپن کا رٹہ لگا ہوا ترجمہ قرآن ( نماز کے اذکار و دعاؤں کی طرح ) پھر ساری زندگی بھولتا نہیں ہے۔

تدریسی سلسلے میں بہت باقاعدگی اختیار کرتی تھیں۔ سفر و حضر کسی صورت میں اپنے بچوں کی پڑھائی کی چھٹی نہ ہونے دیتیں۔ ان کا پڑھانے کا وقت نمازِ فجر کے بعد سے شروع ہو کر ناشتے تک جاری رہتا تھا۔

جس بچے کو قرآن مجید کا سبق یاد نہیں ہوتا تھا، اسے ناشتہ نہیں ملتا تھا جب تک  وہ سبق یاد نہ کر لیتا۔ پھر جسے سبق زیادہ اچھا یاد ہوتا ، اسے گرما گرم خستہ مزے دار پراٹھا ملتا اور جو سبق زیادہ اچھا نہ سناتا، اسے خشک روٹی ملتی۔ چنانچہ اچھے کھانے کے شوق میں سب بڑی محنت اور ذوق وشوق سے سبق پڑھتے اور بہترین سبق سناتے

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے ساتھ بھی ان کا ایک انوکھا تعلق تھا۔ ہمیں جہاں نانی جان سے جہاں دلی لگاؤ بھی خوب تھا، وہیں  ان سے ڈر بھی لگتا تھا۔ کیوں کہ وہ کبھی کبھی ہمارا حفظ قرآن کا اچانک (surprise) زبانی ٹیسٹ  لے لیا کرتی تھیں۔ اگر ہم کبھی ان کے گھر یعنی اپنے ننھیال میں رہنے کے لیے جاتے تھے، تو ہمارے قرآن مجید کے حفظ  کے سبق کی چھٹی نہیں ہونے دیتی تھیں بلکہ منزل کا ایک سپارہ کم از کم سنا کرتی تھیں اور سبق  یاد کرنے کی بھی تلقین کرتی تھیں۔

ایک دفعہ جب وہ ہمارے گھر آئی ہوئی تھیں تو انہوں نے ہم بہن بھائیوں کا حفظ کا ٹیسٹ بھی لیا تھا۔ میرے بھی چند ابتدائی حفظ شدہ پاروں کا زبانی ٹیسٹ لیا تھا۔ غرضیکہ تعلیم و تربیت کے معاملے میں بہت حساس، ذمہ دار اور سنجیدہ مزاج تھیں۔ لیکن عمومی لحاظ سے شگفتہ مزاج خاتون تھیں۔ اور ارد گرد موجود بچوں اور بڑوں پر ان کی موجودگی کے خوشگوار اثرات مرتب ہوتے تھے۔

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نانی جان احکام شریعت کی پابند، خاندان کو بنانے اور جوڑنے والی، صلہ رحمی کرنے والی اور قطع رحمی سے اجتناب کرنے والی ایک عہد ساز شخصیت تھیں۔ سادگی، بہترین اخلاق و کردار، امانت داری، مہمان نوازی، وفا شعاری، وقت کی پابندی، معاملہ فہمی، اشاعت تعلیم، پڑھتے رہنے، پھر پڑھانے اور درس دینے کا ذوق وشوق، بچوں اور طالبات کی حوصلہ افزائی، شوہر کی اطاعت، ساس سسر کی بھرپور خدمت وغیرہ یہ صفات ان کی ذات میں بدرجہ اتم موجود تھیں۔

وہ وقت کی قدر کرتے ہوئے سادگی اور اخلاص کے ساتھ بچوں کی اعلیٰ تعلیم و تربیت، گھریلو امور، بچوں کے دیگر معاملات، درس وتدریس، اور مہمانوں کی خدمت وغیرہ تمام کام نہایت عمدہ طریقے سے سر انجام دیتی تھیں۔ غرض وہ اپنی ذات میں انجمن تھیں۔
انہوں نے اپنے گھریلو فرائض اور ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ اشاعت دین، تبلیغ اسلام اور امر بالمعروف ونہی عن المنکر کی ذمہ داریوں کو بحسن خوبی نبھایا تھا۔

سابقہ زمانے کے رواج کے مطابق ان کی بالکل چھوٹی عمر میں یعنی تقریباً نو سال کی عمر میں شادی ہوئی تھی۔ صحیح معنوں میں وہ سسرال میں آکر پلی بڑھی تھیں۔ ان کی ساس (امی جان کی دادی جان) نے ان کی بڑی محنت سے تربیت کی تھی۔ جن کے گھریلو ماحول میں  دیہاتی بچیوں اور عورتوں کی ناظرہ قرآن کی پڑھائی اور دینی تعلیم و تربیت کا سلسلہ جاری تھا۔ وہ پنجابی کی معروف منظوم کتاب “احوال الآخرۃ” بھی پڑھاتی تھیں۔ کمال درجہ کی ذہانت و فطانت رکھنے والی نانی جان نے بھی سن سن کر یہ کتاب زبانی یاد کرلی تھی۔

پھر قرآن مجید کا ترجمہ جیسے تیسے مکمل طور پر پڑھ لیا۔ کبھی کسی سے سبق لیا، کبھی خود مترجم قرآن مجید سے سبق یاد کر لیا۔ ہماری والدہ بتاتی ہیں کہ نانی جان کا اپنا کہنا تھا کہ “میں جوں جوں قرآن مجید کا ترجمہ پڑھتی جاتی تھی تو مجھے یوں محسوس ہوتا تھا جیسے میں پہلی نابینا تھی، لیکن اب مجھے دکھائی دینے لگا ہے۔ قرآن مجید کے ترجمہ نے میری آنکھیں کھول دی ہیں۔” سبحان اللہ! واقعی قرآن مجید فرقان حمید کی کیا شان و عظمت ہے!!!
1943ء میں 18 سال کی عمر میں اللہ تعالٰی  نے ہماری نانی جان کو پہلوٹھی کا بیٹا عطا فرمایا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نانی جان ماشاء اللّٰہ سحر خیز اور تہجد گزار تھیں۔ نمازِ تہجد میں قرآنِ مجید کی تلاوت کرتی تھیں۔ اور خشوع و خضوع سے دعائیں مانگتی تھیں۔ وہ تہجد میں تھوڑی اونچی آواز میں قرآنِ مجید کی تلاوت کرتی تھیں۔ دیگر نفل نمازوں کی ادائیگی بھی پابندی سے کرتی تھیں۔

نمازِ تہجد میری والدہ محترمہ ثریا بتول علوی صاحبہ کی بھی گھٹی میں پڑی ہے۔ وہ بیان کرتی ہیں کہ “مڈل کے امتحانات کے وقت جب میں نے پیپر کی تیاری کے لیے صبح سویرے دو تین بجے اٹھنا ہوتا تھا تو میں اپنی والدہ کی ہدایت کے مطابق تہجد بھی پڑھا کرتی تھی۔ امتحان کے بعد بھی میں نے اپنی یہ روٹین جاری رکھی اور اس میں تبدیل نہ کی اور پھر ساری زندگی اس پر عمل پیرا رہی۔” مَاشَاءاللّٰه! اَللّٰه‍ُمَّ زِدْ فَزِدْ۔

میری والدہ بھی تہجد میں تھوڑی اونچی آواز میں قرآنِ مجید پڑھتی ہیں۔ شادی سے پہلے اکثر میری آنکھ امی جان کی آواز سے کھلا کرتی تھی۔ میرے کان اس وقت سے قرآن کی آواز سے آشنا ہیں جبکہ مجھے قرآن کا شعور بھی نہ تھا۔ الحمدللّٰہ! ایسا پاکیزہ ماحول جس میں قرآن پڑھے جانے کی آواز اہل خانہ کے بیدار ہونے کا سبب بنتی ہو، نانی جان کی تربیت سے ممکن ہوا تھا۔

نوٹ: والدہ محترمہ نے نانی جان پر ایک مفصل اور مؤثر تحریر قلم بند کی ہے، جس کا نام ہے “والدہ مرحومہ حمیدہ بیگم کی یاد میں”۔ یہ “ماہنامہ بتول” میں اگست 1988ء میں (ص 65 تا78) نانی جان کے وفات کے چند ماہ بعد شائع ہوئی تھی

اس کے علاوہ، معروف مؤلف محترم طالب ہاشمی صاحب نے ان پر اپنی کتاب “تذکرۃ صالحات” میں “حافظہ حمیدہ بیگم رحمہا اللہ تعالیٰ” کے عنوان سے (ص 238 تا 242) مفصل مضمون تحریر کیا ہے جس میں ان کا تعارف، حالات زندگی اور کار ہائے نمایاں “بحیثیت ایک مثالی خاتون” بیان کیے ہیں۔نہ صرف ان کے بلکہ ان کی بیٹی اور میری والدہ محترمہ کے بارے میں بھی اسی کتاب میں تفصیلی مضمون قلم بند کیا ہے۔

نانی جان میں دینی غیرت و حمیت کا جذبہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا۔ ان سے کوئی خلافِ شریعت کام یا معاملہ برداشت نہیں ہوتا تھا۔ اللّٰہ کا حکم سمجھ کر فوراً صحیح بات بتا اور سمجھا دیتی تھیں خواہ اپنا گھر ہوتا یا کسی کے گھر میں وہ مہمان ہوتیں۔ بھری بس میں ہوتیں یا بازار گئی ہوتیں۔ واعظانہ انداز میں شریعت کا حکم کھول کر بیان کر دیتیں۔ اللّٰہ تعالیٰ ایسا داعیانہ کردار ہمیں بھی عطا فرمائے۔ آمین 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نانا جان اور نانی جان کثیر العیال تھے۔ جن میں چار بیٹے اور چار بیٹیاں شامل ہیں۔بیٹوں کے نام یہ ہیں۔(1) ڈاکٹر حبیب الرحمٰن کیلانی (2) حافظ ڈاکٹر شفیق الرحمٰن کیلانی(3) پروفیسر نجیب الرحمٰن کیلانی (4) انجنئیر حافظ عتیق الرحمٰن کیلانی 
اور بیٹیوں کے نام یہ ہیں۔(1) پروفیسر ثریا بتول علوی زوجہ مولانا عبدالوکیل علوی صاحبہ (کنیت ام حسن)(2) رضیہ مدنی زوجہ حافظ عبدالرحمٰن مدنی صاحبہ(3) عطیہ انعام الٰہی زوجہ ڈاکٹر انعام الہی رانا صاحبہ (4) فوزیہ سلفی (کنیت ام عبد الرب)زوجہ انجینئیر عبدالقدوس سلفی صاحبہ

ان کے سارے بچے ماشاء اللّٰہ ذہین و فطین ہیں۔ چنانچہ ماں کی محنت اور باپ کی شفقت اور دعائیں رنگ لائیں اور ساری اولاد بشمول بیٹیاں پڑھ لکھ کر بڑے ہو کر سچے مسلمان، کامیاب داعی دین اور معاشرے کے نہایت شعور مند شہری ثابت ہوئے۔ 

کسی کی ساری اولاد اتنی کامیاب ہو، کم ہی ایسا ہوتا ہے۔ اپنے بچوں کی شادی میں انہوں نے سدا دین داری کو مدنظر رکھا تھا۔گھریلو ماحول کو پاکیزہ رکھا تھا اوراس دور کی بیماری ٹی وی کو گھر میں نہیں آنے دیا تھا۔

نانی جان اور نانا جان کی اولاد و احفاد میں بے شمار حفاظ کرام، علمائے کرام اور کامیاب داعیانِ دین موجود ہیں جو ان کے لیے صدقہ جاریہ ہیں۔ 

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

ہمارے نانا جان، مولانا عبدالرحمٰن کیلانی ( مفسر قرآن ) مرحوم نانی جان کے ساتھ اولاد کی تربیت کے معاملے میں بہت معاون و مددگار تھے۔ وہ دونوں اپنے بچوں کی تعلیم و تربیت کے معاملات میں نہایت حساس، سنجیدہ، مخلص اور محنتی تھے۔

نانی جان ان کو پڑھاتیں اور سکول کے سبق اور ہوم ورک وغیرہ کی بھی پوری نگرانی رکھتی تھیں۔ بلکہ خود بھی بڑے بیٹے حبیب الرحمن کیلانی سے ابتدا میں ہی اردو لکھنا پڑھنا، بنیادی حساب کتاب  وغیرہ سیکھ لیا تھا۔

نانا اپنے بچوں کا ہفتہ بھر کے سبق کا ٹیسٹ لیتے اور اچھے نمبر حاصل کرنے والے بچوں کو انعام عطا کرتے۔ جو کبھی نقد پیسوں کی صورت میں ہوتا  اور کبھی وہ خود بازار سے کھانے پینے کی کوئی مزےدار بچوں کی من پسند چیز مٹھائی، کیک، سموسے وغیرہ لاتے اور انعام کے مستحق بچے کو دوگنا حصّہ دیتے یا پھر اپنی پسند کی چیز لینے کا اختیار دیتے۔اس طرح سارے بچے اچھے رزلٹ اور انعام کے حصول کے لیے ڈٹ کر محنت کرتے اور سبق یاد رکھتے تھے۔

اب کہاں وہ باتیں اور یادیں!!!ان کی محنتیں اور شفقتیں!!!زندگی کے امتحان نے یہ سکھا دیا ہے کہ اولاد کی پرورش و تربیت کس قدر کٹھن کام اور میدان خارزار ہے!!!

؎ بچھڑا کچھ اس ادا سے کہ رت ہی بدل گئی

   اک شخص سارے شہر کو ویراں کر گیا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

جب نانی جان فوت ہوئیں تو میں اس وقت  بالکل چھوٹی سی تھی۔ لیکن مجھے یہ یاد ہے کہ ایک دفعہ میں اپنی والدہ کے بغیر نانی جان کے پاس دوتین دن رہی تھی۔ ان کے ساتھ گزرا وقت مجھے آج بھی یاد ہے۔ گھر میں ان کے ساتھ اٹھنا بیٹھنا، کھانا پینا، ان کا میرا دھیان رکھنا، ان کے ساتھ کہیں جانا وغیرہ اپنی عمر کے حساب سے کافی حد تک یاد ہے۔

ایک مرتبہ جب وہ ہمارے گھر آئیں تو واپسی میں، میں ان کے ساتھ امی ابو جان کی اجازت سے وسن پورہ جانے کے لیے تیار ہو گئی۔ جب میں ان کے ساتھ بس میں وسن پورہ جا رہی تھی تو راستے میں  نماز کا وقت ہوگیا تو انہوں نے بس سے اتر کر کسی مسجد میں نماز ادا کی۔ پھر وسن پورہ جانے کے لیے دوبارہ روانہ ہوئیں۔ 

بڑا یاد آتا ہے بچپن کا وہ کچھ عرصہ، وہ سنہرا معصوم دور جو ہم نے ان کے سائے میں گزارا!!!اور وہ سنہرے پل جب انہوں نے اپنے شفقت اور پیار بھرے ، پر خلوص انداز میں ہماری جسمانی، روحانی، علمی و تربیتی نشو نما میں اپنا بھرپور کردار ادا کیا!!!وہ بیتے لمحے اور چھوٹے چھوٹے واقعات جو تربیت کے حوالے سے بڑی اہمیت کے حامل ہیں!!!اب ہمیں وہ سب یاد آتے ہیں۔ہم چھوٹے تھے، ان کی خدمت نہ کر سکے تھے۔ بلکہ تب تو ان کی قدر بھی نہ پہچان سکے تھے۔مگر ان کی دعاؤں نے ہمیں تنہا نہ چھوڑا تھا!!!مگر اب انہیں ہماری دعاؤں کی ضرورت ہیں!!!اللہ تعالیٰ ہمیں ان کے لیے صدقہ جاریہ بنادے!!! آمین ثم آمین یا ارحم الراحمین!!!
كل نفس ذائقة الموت۔

تہجد کے وقت ان کی وفات کی اچانک خبر ملنا، والدہ کا صبرِ جمیل کا رویہ اختیار کرنا، نانی جان کی میت اور ان کا نورانی چہرہ، ان کی تجہیز وتکفین، جنازے کے مناظر وغیرہ میرے ذہن میں نقش ہیں

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نانی جان نے اپنے پیچھے کئی طرح کے صدقہ جاریہ چھوڑے ہیں۔ جن میں مندرجہ ذیل باتیں شامل ہیں۔
1) اولاد کی دینی تعلیم و تربیت۔ ان کی اولاد گویا ان کی جیتی جاگتی تصانیف ہیں۔2) طالبات کا دینی مدرسہ (تدریس القرآن والحدیث للبنات، وسن پورہ، لاہور)3) خاندان میں بچیوں میں حفظ قرآن کے سلسلے کا آغاز وغیرہ

جس سے لوگوں کا یہ روایتی نقطہ نظر بدل گیا کہ بچیوں کو قرآن مجید حفظ نہیں کروانا چاہیے کیونکہ بچیاں ناپاک ہوتی ہیں اور قرآن کریم یاد نہیں رکھ سکتیں۔ خصوصاً شادی کے بعد گھر بار اور پھر اولاد کی مصروفیات میں وہ قرآن مجید بھلا دیتی ہیں۔انہوں نے خود ساری زندگی قرآن مجید بہترین طریقے سے یاد رکھا اور حیات کے آخری روز وشب میں بھی باقاعدگی سے ایک پارہ منزل سناتی رہیں۔  
انہوں نے اپنے دو بیٹوں کے ساتھ ساتھ اپنی دو بیٹیوں کو بھی قرآن کریم حفظ کروایا۔ دونوں بیٹیوں کو گھر میں خود بھرپور محنت اور توجہ سے قرآن مجید حفظ کروایا تھا

۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔

نانی جان کی بامقصد و بابرکت زندگی ہمارے لیے نمونہ (model) اور  یاد دہانی ہے کہ کس طرح دین ودنیا کی تعلیم سے بے بہرہ ایک شادی شدہ نوعمر لڑکی کوشش کرکے اپنے آپ کو دین و دنیا کی تعلیم سے بہرہ ور کرکے معاشرے میں بہتری لاسکتی ہے!!! 
ایک عام عورت کس طرح اپنی اولاد کو محنت و محبت اور ترغیب سے دین کی راہوں پر گامزن کرکے ان کی بہترین تعلیم و تربیت کرکے کامیاب ترین ماں بن سکتی ہے!!!

ایک گھریلو عورت اپنی ذمہ داریوں کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ دیگر لڑکیوں اور خواتین کو بھی پڑھا لکھا کر ان کی تربیت کرکے انہیں اپنے لیے صدقہ جاریہ بنا سکتی ہے!!!

؎ موت ہے ہنگامہ آرا قلزم خاموش میں

ڈوب جاتے ہیں سفینے موج کی آغوش میں

اللہ سبحانہ وتعالی نانى جان اور نانا جان کی مغفرت فرمائے اور ان کی مرقد پر اپنی لامحدود رحمتیں نازل فرمائے اور ان کی قبروں کو جنت کے باغ بنادے۔ ہمیں اپنی نانی جان، نانا جان اور والدین کے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ اور ہمارے بچوں کو بھی ہمارے لیے صدقہ جاریہ بنائے۔ آمین

رب ارحمہما کما ربینی صغیرا۔اللهم اغفر لہم وارحمہم وعافہم واعف عنہم۔ آمين ثم آمین يارب العالمين!


سوشل میڈیا پر شیئر کریں

زندگی پر گہرے اثرات مرتب کرنے والی تمام اہم ترین خبروں اور دلچسپ تجزیوں کی اپ ڈیٹس کے لیے واٹس ایپ پر آفیشل گروپ جوائن کریں

5 پر “تذکرہ ایک مثالی خاتون کا” جوابات

  1. Hafsa Avatar
    Hafsa

    Beautiful and inspirational article

  2. Ismail Avatar
    Ismail

    Great and excellent article

  3. Saba Avatar
    Saba

    Great and effective Article

  4. رافعہ علی Avatar
    رافعہ علی

    Great guide and ideal woman
    Masha Allah

  5. رافعہ علی Avatar
    رافعہ علی

    Effective and efficient Article
    Masha Allah