مظہر عباس
کل تک کوئی کہہ رہا تھا ’’مجھے کیوں نکالا؟‘‘ آج لگتا ہے کوئی اور کہہ رہا ہے اسے کیوں بلایا یا ’’مجھے کیوں ہرایا؟‘‘ پاکستان کی سیاست کچھ ایسے ہی رہی ہے۔ اب تو لگتا ہے ملک پھر الیکشن موڈ میں آگیا ہے۔ 2022میں عام انتخابات نہیں تو زور دار بلدیاتی الیکشن خاص طور پر پنجاب میں خاصا تماشہ کھڑا کرنے جا رہے ہیں۔
رہ گئی بات میاں نواز شریف کے واپس آنے کی تو میری اطلاع کے مطابق وہ جلدی نہیں آرہے نہ ہمارے وزیراعظم اور کپتان جلدی جا رہے ہیں۔ البتہ گھبرا ضروررہے ہیں شاید اسی وجہ سے حکومتی نا اہلی اور ناقص کارکردگی کا سارا بوجھ پوری پارٹی پر ڈال کر تمام تنظیموں کو توڑ دیا اور الیکشن کے بجائے نئی نامزدگیاں کر دی ہیں۔
نئی نامزدگیاں ایک ایسے وقت پر کی گئی ہیں جب ابھی پنجاب، سندھ اور بلوچستان میں بلدیاتی الیکشن ہونے ہیں‘ جب کہ خیبر پختونخوا کے مرحلے میں شکست کا دوسرا مرحلہ باقی ہے۔ بظاہر فیصلہ جلد بازی میں کیا گیا ہے اور یہ وہی غلطی نظر آرہی ہے جو 2013 میں عام انتخابات سے پہلے پارٹی الیکشن کرا کے کی گئی تھی۔
بات بہت سادہ سی ہے۔ کے پی میں اگرلوگ وزیر اعلیٰ محمود خان کی کارکردگی دیکھ کر ’’مولانا‘‘ کی جانب راغب ہو رہے ہیں اور پنجاب میں وسیم اکرم پلس کو دیکھ کر شہباز شریف کو یاد کرنےلگے ہیں تو قصور ’’لاڈلوں‘‘ کا ہے یا نامزد کرنے والے کا۔ چلیں اچھا ہوا کے پی میں پارٹی کی ذمہ داری واپس پرویز خٹک کو مل گئی۔
بہتر ہوتا کہ کپتان ان کو محمود خان کی جگہ ہی لے آتے مگر لگتا یہ ہے کہ دوسرے مرحلے میں اگر کامیابی دلوا دی خٹک نے تو عام انتخابات سے پہلے ہی وہ دوبارہ وزیر اعلیٰ بن جائیں۔ جہانگیر ترین کے جانے کے بعد سیاسی معاملات کو دیکھنے والا دماغ غالباً خان صاحب کے پاس خٹک ہی ہے۔
رہ گئی بات پنجاب کی تو اس کے لئے جناب شفقت محمود اور خسرو بختیار کا فیصلہ خود پارٹی کے لوگوں کے لئے حیران کن ہے۔ کچھ کا خیال ہے کہ شفقت صاحب پڑھے لکھے انسان ہیں مگر شاید تنظیم سازی کا تجربہ نہیں ہے۔ دوسرا اگر بزدار صاحب کا دفاع فردوس عاشق اعوان، فیاض الحسن چوہان اور شہباز گل تک کوئی نہ کر سکا تو شفقت محمود کیسے کریں گے۔ مگر کپتان ہیں کہ ان کو چلائے جا رہا ہے۔
اتنے چانس ملیں تو کوئی بھی کھلاڑی ایک سنچری تو بنا ہی لیتا ہے۔ شاید بہتر چوئس فواد چوہدری ہو سکتے تھے ویسے بھی وہ حکومت کی غلط پالیسیوں کا دفاع کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں جب کہ ایک سیاسی خاندان سے تعلق ہونے کے علاوہ متحرک بھی ہیں ۔ خسرو بختیار کا تعلق جنوبی پنجاب محاذ سے ہے ۔ اب وہ اپنے محاذ کومتحرک کریں گے یا تحریک انصاف کو، یہ فیصلہ کپتان اور نئے سیکرٹری جنرل اسد عمر پر چھوڑتے ہیں۔ اب مجھے نہیں پتا اس فیصلے سے شاہ محمود قریشی کتنے مطمئن یا خوش ہوں گے کیونکہ جنوبی پنجاب کو تو وہ دیکھ رہے تھے۔
اسی طرح لگتا ہے کہ سندھ کی ذمہ داری علی زیدی پر ڈال کر کپتان نے بڑا رسک لیا ہے کیونکہ یہاں دیہی اور شہری سندھ کی سیاست خاصی پیچیدہ ہے اور ماشا اللّٰہ گروپس بھی پی ٹی آئی میں تین یا چار توواضح ہیں ۔ان سارے فیصلوں کا حیران کن پہلو یہ ہے کہ یہ سب کے سب وفاقی وزیر بھی ہیں۔ ایسے میں تنظیمیں بھی ان کے حوالے کرنے کی منطق سمجھ سے بالا تر ہے ۔
پارٹی آخر کب تک حکومتوں کی نااہلی اور غلط پالیسیوں کا دفاع کرے لہٰذا اس پر ان حالیہ شکستوں کا بوجھ ڈال کر کپتان نے اپنے آپ کو اور وزیروں کو بچانے کی کوشش کی ہے اور اب پارٹی بھی انہی وزیروں کے حوالے کر دی ہے ۔ وفاقی وزیر اسد عمر اگر NCOC میں بہتر کام کر رہے ہیں تو انہیں کرنے دیں پارٹی کا سیکرٹری جنرل بنانے کی کیا ضرورت تھی ۔ بہتر ہوتا کہ ان نامزدگیوں کے بجائے پارٹی میں ختم ہو چکا انتخابی عمل دوبارہ شروع کیا جاتا اور حکومت اورپارٹی کو الگ رکھا جاتا۔
اس انتخابی شکست کا تعلق حکومتی پالیسیوں سے زیادہ ہے۔ ’’مہنگائی‘‘ کا دفاع کیسے کیا جا سکتا ہے؟ کرپشن جو کپتان کا سب سے مضبوط بیانیہ تھا وہ اگر خود حکومتی اداروں اور وزیروں میں موجود ہو اور کئی بڑے اسکینڈل سامنے آنے لگیں تو آپ کتنے عرصے محض شریفوں اور زرداریوں پر الزامات لگا کر گزارہ کر سکتے ہیں؟
آپ اب اپنا غصہ یا تو اپوزیشن پراتار رہے ہیں یا کچھ اداروں پر سوالات اٹھا رہے ہیں۔ آخر آپ اپنے حالیہ خطاب میں مخاطب کس سے تھے؟ آخر کون ہےجو سابق وزیر اعظم نواز شریف کو واپس لا رہا ہے (آپ کے بقول) کون ہے جو ’’مجرم’’ کو چوتھی بار وزیر اعظم بنا رہا ہے۔ اس بیان میں غصہ بھی تھا اور پریشانی بھی ۔
کپتان کی باتوں سے لگتا ہے کہ کہیں کچھ گڑبڑ ضرور ہے کہ دسمبر کی سخت سردی میں گرمی لگنے لگی ہے۔ حزب اختلاف کے ’’مردہ جسم‘‘ میں جیسے جان سی پڑ گئی ہے۔سچ تو یہ ہے، کپتان کے لوگوں نے آپ کے بلند بانگ دعوئوں پر آپ کو ووٹ دیا کیونکہ آپ کہتے تھے کہ ’’میں تیار ہوں‘‘ آپ ہی تھے نا جو کہتے تھے ہوم ورک مکمل ہے، ایک بہترین ٹیم ہے۔ چھ مہینے میں معاشی انقلاب ، سول اور پولیس ریفارمز، ایک کروڑ نوکریاں اور پچاس لاکھ گھر۔ ان ساڑھے تین برسوں میں ایسا لگتا ہے کہ یہ سب بھرم تھا اور ظاہر ہے بھرم آخر کب تک قائم رہ سکتا ہے؟
ذرا غور کریں کپتان کے اردگرد توصرف خوشامدی نظر آئیں گے۔پارٹی کے آئین کو معطل کرنےکی بجائے اور نیا آئین بنانے کے بجائے پرانے والے پر عمل کریں۔ ویسے آپ کو یاد ہو گا کئی سال پہلے میں نے آپ کا ٹی وی انٹرویو کیا تھا اور پوچھا تھا کہ آپ نے اپنی پارٹی کا آئین پڑھا ہے تو جواب نفی میں آیا تھالہٰذا اب کام دیگرجماعتوں کی طرح ’’نامزدگیوں‘‘ پر ہی چل رہا ہے۔
ایک آخری بات‘ آپ حکومت کے بھی کپتان ہیں اور پارٹی کے بھی، ساری، تقرریاں اور نامزدگیاں بھی آپ کرتے ہیں۔ اب اگر دونوں محاذوں پر ناکامی کا سامنا ہے تو بنیاد ی ذمہ داری کس کی ہے۔ آپ چوں کہ مغرب کو ہم سب سے اور خود مغرب والوں سے بہتر سمجھتے ہیں تو وہاں اگر پارٹی یا حکومت ناکام ہو تو کون مستعفی ہوتا ہے۔ خیر چلیں چھوڑیں ان باتوں کو۔
کپتان پہلے پارٹی میں ایک ڈسپلن تھا۔ آپ کو یاد ہونہ ہو صدر عارف علوی صاحب کو یاد ہو گا کہ ایک پورے پروسیس سے گزر کر دوسری پارٹیوں سے آنے والے ممبر بنتے تھے۔ اب تو ’’لوٹوں‘‘ کی بھر مار ہے وہ پارٹی بھی چلا رہے ہیں اور حکومت بھی، نئے میچ سے پہلے آپ نے غیر ضروری طور پر ایمپائر کو متنازع بنا دیا۔ ایمپائر نےاگر انگلی کھڑی کر دی تو انجامِ گلستان کیا ہوگا؟ ( بشکریہ روزنامہ جنگ )